عوام کی حالت زار پر بھی توجہ دیں!

   
۱۶ نومبر ۲۰۰۳ء

گزشتہ دن کے ایک اخبار میں دو خبروں نے توجہ کو اپنی طرف ایسا مبذول کیا کہ انہیں کئی بار پڑھنا پڑا۔ ایک صفحہ اول پر ہے اور دوسری آخری صفحہ پر۔ پہلے صفحہ کی خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی نے ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کی منظوری دے دی ہے، جس کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن کیبنٹ ڈویژن جاری کرے گا۔ اس سے پہلے ارکان قومی اسمبلی کے الاؤنسز سمیت ماہانہ تنخواہ سترہ ہزار پانچ سو روپے تھی، جبکہ اضافے کے بعد اب ہر رکن کو مجموعی طور پر اڑتیس ہزار روپے ملیں گے۔ سالانہ کنوینس الاؤنس تیس ہزار روپے سے بڑھا کر ساٹھ ہزار روپے کر دیا گیا ہے، اس طرح پہلے ہر رکن اسمبلی کو سالانہ پچاس ہزار روپے کے ٹریولز واؤچر ملتے تھے یا وہ اس کے برابر نقد رقم لے سکتا تھا، اب انہیں سالانہ ایک لاکھ روپے کے ٹریول واؤچر یا نقد رقم ملے گی۔ وزیر خزانہ شوکت عزیز اور ارکان اسمبلی ذو الفقار ڈھلوں، شیر افگن، فصیح ظفر، اکرم بھنڈر، فوزیہ وہاب اور عمر ایوب خان پر مشتمل کمیٹی نے تنخواہ میں اس اضافے کی سفارش کی تھی۔

اب صفحہ آخر کی خبر بھی دل پر ہاتھ رکھ کر ملاحظہ فرما لیجئے کہ باغبانپورہ لاہور کے علاقہ یونس پورہ میں ریٹائرڈ سرکاری ملازم قلب عباس کی پینتالیس سالہ اہلیہ طاہرہ نے بچوں کے لیے عید کے کپڑے نہ ہونے سے دل برداشتہ ہو کر زہریلی گولیاں کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یونس پورہ کا رہائشی قلب عباس کچھ عرصہ قبل ہی ریٹائر ہوا اور وہ اس کے بعد سے بے روزگار تھا۔ گھر میں فاقوں کے باعث اکثر جھگڑا رہتا تھا، اس کی اہلیہ نے تین بچوں کے لیے عید کے نئے کپڑے بنوانے کی ضد کی۔ حالات کی خرابی کے باعث مسلسل کوشش کے باوجود بچوں کے نئے کپڑوں کا بندوبست نہ کر سکا، جس پر دونوں میاں بیوی میں جھگڑا ہوا اور طاہرہ نے دل برداشتہ ہو کر زہریلی گولیاں کھا لیں۔ پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کر دی ہے۔

قومی اسمبلی کے ارکان ہمارے ملک کے معزز شہری ہیں اور عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں ایک باوقار شہری کے طور پر زندگی بسر کرنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں اور آمد و رفت کے معقول ذرائع انہیں حاصل ہوں۔ مگر باغبانپورہ لاہور کا قلب عباس بھی اسی ملک کا شہری ہے اور ارکان قومی اسمبلی کو منتخب کرنے والے عوام میں سے ہے، اس کا بھی حق ہے کہ اسے اپنے گھر کو فاقوں اور جھگڑوں سے محفوظ رکھنے کے ضروری وسائل میسر ہوں اور وہ اپنے تین بچوں کو عید کے موقع پر نئے کپڑے مہیا کرنے کے لیے بیوی کی ضد پوری کر سکے۔

ان دونوں خبروں میں ستم ظریفی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خبر نگار نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافہ کی تجویز کو ایک باقاعدہ کمیٹی کی سفارش کے طور پر بیان کیا ہے۔ اور تین بچوں کے لیے عید کے موقع پر نئے کپڑوں کے تقاضے کو بیوی کی ضد قرار دے دیا ہے کہ جیسے مذکورہ کمیٹی کی سفارش تو کسی استحقاق پر مبنی ہے اور خودکشی کے سوا کوئی راہ نہ پانے والی خاتون کا تقاضا ایک بے جا ضد تھی جس پر وہ خواہ مخواہ اپنی جان کو قربان کر بیٹھی ہے۔

یہ ہمارے ملک کے معاشی ڈھانچے اور معاشرتی ڈھانچے کی ایک جھلک ہے، جسے ہم دنیا کے سامنے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے متعارف کراتے ہیں اور جس کے بارے میں دینی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس میں خلافت راشدہ کا نظام لانا چاہتے ہیں، جبکہ صدر جنرل پرویز مشرف کا ارشاد ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ترقی پسند فلاحی اسلامی ریاست کی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خلافت راشدہ اور فلاحی اسلامی ریاست میں کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ خلافت راشدہ نام ہی فلاحی ریاست کا ہے اور دنیا کی فلاحی ریاستوں میں خلافت راشدہ کو ایک مثالی اور آئیڈیل ریاست کے طور پر سب حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔

ہم ان کالموں میں ذکر کر چکے ہیں کہ گاندھی جیسے غیر مسلم لیڈر نے انگریزی دور میں بعض صوبوں میں کانگریس کی وزارتیں قائم ہونے پر اپنے وزراء کو تلقین کی تھی کہ اگر وہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہتے ہیں تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے دورِ حکومت کو سامنے رکھیں۔ اور یہ بات بھی ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ برطانیہ میں جو بے روزگار اور نادار افراد کی ریاستی کفالت کا فلاحی نظام نافذ ہے، اسے تشکیل دینے والے دانشوروں نے اس کا خاکہ حضرت عمرؓ کے طرزِ حکومت سے اخذ کیا ہے۔

خلافت راشدہ کے معاشی اصولوں میں دو باتیں بطور خاص اہمیت رکھتی ہیں:

  • ایک یہ کہ ملک کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت ریاست کے ذمہ ہے اور بیت المال اس بات کا ذمہ دار ہے کہ ریاست کے جو باشندے خوراک، رہائش، لباس، علاج اور تعلیم کی بنیادی ضروریات کے لیے خود اسباب و وسائل فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، انہیں بیت المال کی طرف سے ضرورت کے مطابق وظائف دیے جائیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے اس مقصد کے لیے شہریوں کی درجہ بندی کر کے ان کے وظائف مقرر کر رکھے تھے اور ان کا یہ قول تاریخ میں سنہری الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھوک سے مر گیا تو اس کے بارے میں قیامت کے روز عمرؓ سے سوال ہو گا‘‘۔ یہ احساس ذمہ داری تھا جس نے حضرت عمرؓ کو ہر دم بے چین کر رکھا تھا، حتیٰ کہ ان کی راتیں کسی راحت کدہ میں نیند کی حالت میں نہیں، بلکہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کرنے میں گزرتی تھیں۔
  • اس کے ساتھ ہی خلافت راشدہ کا دوسرا بڑا معاشی اصول یہ تھا کہ معاشرہ میں معیار زندگی کے حوالے سے طبقاتی تقسیم نہ پیدا ہو اور خاص طور پر حکمران طبقہ اور رعیت کے معیار زندگی میں کوئی ایسا فرق رونما نہ ہونے پائے جس سے وہ الگ الگ طبقات کے افراد شمار ہونے لگیں۔ چنانچہ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے منصبِ خلافت پر فائز ہوتے ہی ان کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا گیا تو اس کے لیے یہ اصول طے پایا کہ انہیں قومی خزانہ سے اتنی تنخواہ دی جائے جس سے وہ مدینہ منورہ کے ایک عام باشندے جیسی زندگی بسر کر سکیں اور یہی اصول ان کے بعد بھی خلفاء کے لیے قائم رہا۔

لیکن ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی اپنے لیے تو ہر رعایت، سہولت اور ذرائع و وسائل کے حصول کے خواہشمند رہتے ہیں، مگر جن غریب عوام کے ووٹوں سے وہ اس ایوان تک پہنچے ہیں، ان کی حالت زار کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں غربت کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے، عوام کی ایک بڑی تعداد روٹی کپڑے کی روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے سے عاجز ہو گئی ہے، اور ملکی معیشت کے بہتری کی طرف سفر کے تمام تر سرکاری دعووں کے باوجود عام آدمی کی زندگی پر اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ البتہ ہماری قومی اسمبلی کے ارکان نے اس شعبہ میں کوئی معرکہ سر کیا ہے تو وہ یہ کہ اپنی تنخواہوں اور مالی مراعات میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ کر لیا ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ جب ہم بات کرتے ہیں تو خلافت راشدہ سے نیچے کہیں ہماری زبان نہیں رکتی، لیکن عمل کا موقع آتا ہے تو آج کے دور کے معروف تقاضوں کی طرف توجہ دینے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے اسلاف کو چھوڑ کر مغرب کو اپنا رہنما بنا رکھا ہے، مگر مغرب نے عوام کو سہولتیں فراہم کرنے اور ان کی ضروریات کی کفالت کے حوالے سے جو نظام وضع کیے ہوئے ہیں ان کی پیروی ہمیں مشکل دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے مغرب کو صرف مذہب بیزاری اور بے راہ روی میں اپنا امام بنایا ہے اور اس کی کسی اچھی بات کو قبول کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔

قومی اسمبلی کے معزز ارکان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی کا ضرور اہتمام کریں کہ قلم ان کے ہاتھ میں ہے اور سارے اختیارات ان کی جیب میں ہیں، لیکن تین بچوں کے لیے عید کے نئے کپڑے نہ ملنے پر خودکشی کرنے والی طاہرہ کی حالت زار کی طرف بھی توجہ دیں۔ یہ ایک نہیں اس جیسی لاکھوں طاہرائیں معاشرے میں بھری پڑی ہیں، صرف آنکھوں سے پٹی اتار کر ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گنتی کی چند خوشحال سوسائٹیوں کو چھوڑ کر ملک کے ہر شہر، ہر محلے اور ہر گاؤں میں قلب عباس اور طاہرہ کے جھگڑے فضا کو چیر رہے ہیں۔ وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی سے درخواست ہے کہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے باغبانپورہ لاہور کے تھانہ سے طاہرہ کی خود کشی کی فائل بھی منگوا کر دیکھ لیں۔ ہو سکتا ہے ہماری اشرافیہ کے دل کے کسی کونے میں احساس کی کوئی چنگاری جاگ اٹھے۔

   
2016ء سے
Flag Counter