خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے وزارت قانون کی طرف سے بھجوائی جانے والی ایک سمری پر وفاقی سطح پر ’’انسانی حقوق سیکریٹریٹ‘‘ کے قیام کی منظوری دے دی ہے جس کا مقصد ملک میں بین الاقوامی معاہدات پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ انسانی حقوق سیکریٹریٹ کا دائرہ کار اور اس کے خدوخال تو اس کے باقاعدہ قیام کے بعد ہی سامنے آئیں گے اور اس کے اہداف و مقاصد واضح ہونے پر اس کی کارکردگی کے بارے میں ہم بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان شاء اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً گزارشات پیش کرتے رہیں گے۔ مگر سرِدست ان بین الاقوامی معاہدات کے ذریعہ پاکستانی قوم سے کیے جانے والے چند تقاضوں کا ذکر ہم مناسب سمجھتے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو سکے کہ ان معاہدات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے اس وقت عالمی اور علاقائی سطح پر جو دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے اور جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو الگ ’’انسانی حقوق سیکریٹریٹ‘‘ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے اس کا پس منظر کیا ہے اور ان کا ہمارے قومی نفع و نقصان کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
معاہدات کی پابندی کا خود قرآن کریم نے حکم دیا ہے اور مسلمانوں کو صریحاً ہدایت فرمائی ہے کہ جو عہد و پیمان کسی سے کرو اس پر پوری طرح عمل کرو، جبکہ عہد شکنی کو قرآن کریم نے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ لیکن عہد و پیمان میں نفع و نقصان اور خیر و شر کے پہلو کو سامنے رکھنے کی ہدایت بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمائی ہے۔ خود اپنے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اگر کسی بات پر قسم اٹھا لوں اور بعد میں پتہ چلے کہ خیر کا پہلو دوسری طرف ہے تو میں قسم کی وجہ سے خیر کو ترک نہیں کرتا، قسم توڑ دیتا ہوں اور اس کا کفارہ دیتا ہوں۔ اسی طرح ایسے معاہدہ کی پابندی کو بھی اسلامی شریعت ضروری قرار نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں کفر یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنا پڑتا ہو، یا کسی اسلامی فریضہ کا ترک کر دینا لازمی ہو جاتا ہو۔ کوئی شخص کسی سے یہ معاہدہ کر لے کہ (نعوذ باللہ) میں نماز نہیں پڑھوں گا یا کسی بے گناہ کو قتل کر دوں گا یا کسی گھر میں ڈاکہ ڈالوں گا یا کسی مظلوم کا جائز حق غصب کر لوں گا تو اس معاہدہ کی پابندی اور اس پر عملدرآمد نہ صرف یہ کہ ضروری نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا خود گناہ بن جائے گا۔
معاہدہ شخصی ہو، گروہی ہو یا بین الاقوامی ہو، اصول ہر جگہ ایک ہی ہے کہ ہمیں کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد سے پہلے اسلام کے اس واضح اور صریح حکم پر غور کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم اپنے مسلمان ہونے اور پاکستان کے اسلامی جمہوریہ ہونے کے تقاضوں سے وفا نہیں کر سکیں گے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے گرد بین الاقوامی معاہدات کا جال جس طرح بن دیا گیا ہے، ان معاہدات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات سے پہلے ہمیں اس جال اور اس کے پیچھے بیٹھے شکاریوں پر ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہیے۔ بین الاقوامیت کے سب سے بڑے داعی امریکہ کی اس بے لچک پالیسی کو بھی سامنے رکھنا چاہیے جو ایسے ہر موقع پر یہ کہہ کر تمام بین الاقوامی معاہدات اور اصولوں کو یکسر پس پشت ڈال دیتا ہے کہ امریکہ کے لیے ہر معاملہ میں صرف اس کا اپنا مفاد مقدم ہوتا ہے، اور اس کی ہر پالیسی کی بنیاد امریکی قوم کے مفاد پر مبنی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی معاہدات اور اصولوں کی خلاف ورزی میں امریکہ سب سے آگے ہے۔
ان بین الاقوامی معاہدات کی تعداد بیسیوں میں ہے اور ان میں سے ہر ایک کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مگر اس معاملہ کا اصل رخ واضح کرنے کے لیے ہم سردست صرف چند امور کا ذکر کریں گے۔ ایک یہ کہ ہم سے کہا جا رہا ہے کہ ’’معاہدہ لوزان‘‘ کے تحت ترکوں نے خلافت اور شریعت سے جو درست برداری اختیار کی تھی وہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے تھی اس لیے اس معاہدہ کی رو سے مسلمانوں کو دنیا کے کسی خطے میں خلافت کے قیام اور شریعت کے نفاذ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور بات صرف ’’نہیں دی جا سکتی‘‘ تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ عملی طور پر ’’نہیں دی جا رہی‘‘۔ پوری امت مسلمہ کو دنیا بھر میں خلافت اور شریعت کے حوالہ سے سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش ہے اور مغرب ہر مرحلہ میں اس کی مزاحمت کر رہا ہے۔
خاندانی نظام کے حوالہ سے بین الاقوامی معاہدات کے نام پر ہم سے تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن و سنت کے واضح اور صریح خاندانی احکام و قوانین کو تبدیل کر کے:
- مرد اور عورت کو طلاق کا مساوی حق دیا جائے۔
- وراثت میں مرد اور عورت کے حصے برابر کیے جائیں۔
- اور مرد و عورت میں واضح جسمانی اور نفسیاتی فرق کے باوجود ان کے بارے میں الگ الگ قرآنی احکام کو ختم کر دیا جائے۔
- اسی طرح آزادئ رائے اور آزادئ مذہب کے نام پر ہم سے توہین رسالتؐ کو جرائم کی فہرست سے نکال دینے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
- اسلام اور ریاست کے تعلق کو یکسر ختم کر دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
- اور قادیانیوں کو مسلمانوں کی صف میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وغیر ذلک۔
بین الاقوامی معاہدات کے اس قسم کے مطالبات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ اس لیے ملک کے دینی و محب وطن سیاسی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کا نوٹس لیں۔ ہمیں بین الاقوامی معاہدات کی پابندی پر اعتراض نہیں ہے، وہ ضرور ہونی چاہیے، لیکن کسی بین الاقوامی معاہدہ کی کوئی شق اگر ہمارے عقائد، شرعی احکام، ملکی مفاد اور تہذیبی روایات سے متصادم ہو تو ہمیں اس سلسلہ میں دو ٹوک موقف اختیار کر کے اس سے انکار کر دینا چاہیے۔ اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو منظم اور بیدار کر کے اپنے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہیے۔