آزاد کشمیر میں بالآخر وہ سب کچھ ہوگیا جس کی مدت سے توقع کی جا رہی تھی۔ سردار عبد القیوم کی برطرفی آزاد کشمیر کی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے کسی شخص کے لیے غیر متوقع نہیں تھی۔ سردار صاحب نے اگرچہ موجودہ حکومت کے ساتھ مفاہمت و معاونت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی جو کشمیر کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر ان کے لیے ناگزیر بھی تھی لیکن اس کے باوجود سردار صاحب کے ساتھ پی پی پی کا نباہ مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ اس لیے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا ’’انا ولا غیری‘‘ کا عملی منشور اور سردار صاحب کا دینی مزاج اور حریت پسندی ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے اور سیاسی حلقے اس خبر کے منتظر تھے کہ بلوچستان کے سردار عطاء اللہ مینگل کی طرح آزاد کشمیر کے سردار عبد القیوم خان کی جمہوری حکومت بھی کب نازنینان اقتدار کی اٹھکیلیوں کی نذر ہوتی ہے چنانچہ وہی ہوا جس کا انتظار تھا۔ البتہ اب کے طریقہ واردات پہلے سے مختلف تھا۔
سردار صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھٹو صاحب سے بارہا کہا کہ میں آپ سے لڑنا نہیں چاہتا، اگر آپ چاہیں تو صدارت سے الگ ہو کر گھر بیٹھ جانے کے لیے تیار ہوں لیکن ایک شرط پر کہ آزاد کشمیر کی سیاسی حیثیت اور مسئلہ کشمیر کی کیفیت میں تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ مگر بھٹو صاحب نے اس ’’شریفانہ‘‘ پیشکش کو قبول کرنے کی بجائے سیاسی کشتی کے نئے حربے کو سردار صاحب پر آزمانا ضروری سمجھا۔
صدارت سے علیحدگی کے بعد سردار عبد القیوم صاحب ملک کے مختلف شہروں کا دورہ کر کے آزاد کشمیر کی تازہ ترین سیاسی صورتحال اور اپنی برطرفی کے اسباب و نتائج پر عمومی و خصوصی مجالس میں روشنی ڈال رہے ہیں۔ اسی مہم کے سلسلے میں وہ گوجرانوالہ تشریف لائے اور فیصلز ہوٹل میں کارکنوں اور شہریوں سے خطاب کرنے کے بعد ایک خصوصی مجلس میں اخباری نمائندوں اور سیاسی کارکنوں کے سوالات کا جواب بھی دیا۔ انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے آئین کے تحت صدر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حق آئندہ منتخب ہونے والی اسمبلی کو حاصل ہے اور موجودہ اسمبلی اس کی مجاز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسپیکر منظر مسعود کی طرف سے عدمِ اعتماد کی تحریک کے سلسلہ میں اسمبلی کا اجلاس بلانے پر جب مسلم کانفرنس نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو ہائی کورٹ نے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اسمبلی کے اس اجلاس کے سلسلہ میں حکم متناعی جاری کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود اجلاس منعقد کیا گیا اور حیرت کی بات ہے کہ اسی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے غیر قانونی اجلاس کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اسپیکر منظر مسعود سے صدر کے عہدہ کا حلف بھی لے لیا جو صریحاً توہینِ عدالت ہے اور اس سلسلہ میں قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
سردار صاحب نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے سے چوبیس گھنٹے قبل ان کی سرکاری رہائش گاہ کو سکیورٹی فورس نے گھیرے میں لے لیا اور آزاد کشمیر میں ایک طرح سے ’’سول مارشل لاء‘‘ نافذ کر دیا گیا، ہر طرف سنگینیں ہی سنگینیں نظر آتی تھیں۔ اس کے باوجود اسمبلی کے اجلاس میں مسلم کانفرنس کے ارکان کو جانے نہیں دیا گیا اور اس طرح سردار عبد القیوم خان کو صدارت سے ہٹانے کا ’’جمہوری و آئینی عمل‘‘ پایۂ تکمیل تک پہنچا۔
سردار صاحب نے کہا کہ آزاد کشمیر میں جہاں اس سے قبل کبھی دفعہ ۱۴۴ نافذ نہیں کی گئی، امن عامہ کے سلسلہ میں پولیس یا فوج کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، کسی سیاسی کارکن کے خلاف مقدمہ نہیں بنا، پوری ریاست میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا، تمام سیاسی و جمہوری آزادیاں بحال تھیں، آج وہاں پولیس اور سکیورٹی فورس کی حکومت ہے، پوری ریاست میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے اور صدر منظر مسعود کے بچے تک سنگینوں کے سائے کے بغیر صدارتی رہائش گاہ سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے، قانون او رآئین کی حکمرانی کی باتیں کرنے والے انگشت بد نداں ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ لوگ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔ یہ ہجرت اگر پاکستان کی طرف ہوئی تو کوئی بات نہیں دوسرے کشمیری مہاجرین کے ساتھ ان کی بھی گزر بسر ہو جائے گی۔ لیکن اگر خدانخواستہ ظلم و جبر اور نا انصافی کا ردِعمل انہیں حد متارکہ جنگ سے اس پار دھکیل کر لے گیا تو مشرقی پاکستان کی طرح آزاد کشمیر پر بھارت کی فوج کشی کا جواز مہیا کرنے کی ذمہ داری آخر کس پر ہوگی؟
سردار صاحب نے متحدہ جمہوری محاذ کی دعوت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ محاذ کے قائدین نے مجھے ۲۶ اپریل کے اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی ہے جو میں نے قبول کر لی ہے اور میں اجلاس میں شریک ہو کر محاذ کے رہنماؤں کو آزاد کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کروں گا۔ محاذ کے اجلاس میں میری شمولیت پر بعض حضرات کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ مجھے محاذ کے ساتھ نہیں جانا چاہیے، محاذ تو بہت بدنام ہو چکا ہے اس لیے مجھے ان کے ساتھ ملنے کی بجائے اپنے طور پر کام کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات سرکاری ذرائع سے جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے اور میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر متحدہ جمہوری محاذ بقول تمہارے واقعی بدنام ہے تو تمہیں مجھ سے یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے بھی پھر بدنام ہوجانے دیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ محاذ میں تو ولی خان ہے جو غدار ہے، میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی تو حکومت سے الگ کر کے غدار کہا جا رہا ہے، کیا ولی خان بھی ایسا ہی غدار ہے؟
سردار صاحب نے کہا ہمیں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہم ایسے کسی سرٹیفکیٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔
سردار عبد القیوم خان نے کہا کہ مسئلہ درحقیقت صدارت کا نہیں، یہ بات ہوتی تو میں اس سے قبل کئی بار صدارت سے الگ ہونے کی پیشکش کر چکا ہوں۔ لیکن اس پیشکش کو ٹھکرا کر اس طریقے سے صدارت سے مجھے برطرف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مقصد دراصل کچھ اور ہے۔ اس لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مسئلہ صدارت کا نہیں ملکی سالمیت کا ہے اور اسی لیے مسلم کانفرنس نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کے لیے پاکستان کی سیاست میں عملی طور پر حصہ لیں گے، اس سلسلہ میں طریق کار بھی جلد طے کر لیا جائے گا۔
سردار صاحب نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شملہ معاہدے کے بعض خفیہ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے خط متارکہ جنگ کے دونوں طرف اقدامات ہو رہے ہیں اور کشمیر کے دونوں حصوں میں ہونے والے سیاسی اقدامات ان ہی مقاصد کی تکمیل کی ابتدائی کڑیاں ہیں۔ لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ کشمیر اور پاکستان کے عوام اس معاہدہ میں فریق نہیں اور اگر شملہ معاہدہ کےتحت کشمیر کی حیثیت میں کوئی تبدیلی کی گئی تو اسے ریاست اور پاکستان کے عوام کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔
سردار عبد القیوم خان کے ان افکار و خیالات کی روشنی میں آزاد کشمیر کی سیاسی صورتحال اور مسئلہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ سردار صاحب کافی عرصہ تک حکمرانوں سے مفاہمت کا رویہ اختیار کیے رکھنے کے بعد اب پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کا مقدس جذبہ لے کر میدان میں اتر آئے ہیں۔