گزشتہ شمسی سال کے آخری دن کا ایک حصہ میں نے چنیوٹ میں گزارا۔ جامعہ خیر المدارس ملتان کے فاضل مولانا قاری گلزار احمد نے چنیوٹ میں جامعہ ’’نور الأنوار‘‘ کے نام سے حفظ قرآن کریم کا ادارہ قائم کر رکھا ہے اور خلوص، سلیقہ اور مہارت کے ساتھ قرآن کریم کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ اس مدرسہ سے قرآن کریم حفظ کرنے والے بیس حفاظ کی دستار بندی کی تقریب تھی جس میں حفاظ کے سروں پر دستار سجانے کے علاوہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت و ضرورت پر گفتگو کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس موقع پر مدرسہ کے دفتر میں احباب کے ساتھ بات چیت کے دوران ایک چینل انٹرویو کے حوالہ سے فون پر مجھ سے دریافت کیا گیا کہ ۲۰۱۳ء کی کامیابیوں اور ناکامیوں اور ۲۰۱۴ء سے توقعات کے حوالہ سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ جمہوری عمل کے ذریعہ پر امن اقتدار انتقال میرے نزدیک ۲۰۱۳ء کی کامیابیوں میں نمایاں ہے جبکہ مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور دہشت گردی میں اضافے کو اس کی ناکامیوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں اس سال کی ناکامیوں میں حکومت اور طالبان کے درمیان متوقع مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے سانحہ کو سب سے بڑی ناکامی سمجھتا ہوں اور ۲۰۱۴ء سے یہ توقع اور امید رکھتا ہوں کہ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور مہنگائی کے بحرانوں پر کنٹرول کی خدا کرے کوئی صورت نکل آئے اور سب سے زیادہ دعا یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔
اگلے روز نئے سال کے پہلے دن کی اخبار میں یہ خبر پڑھ کر اس امید کے بر آنے کی کچھ آس لگ گئی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے امیر مولانا سمیع الحق سے تفصیلی ملاقات کر کے طالبان کے ساتھ مجوّزہ مذاکرات کے بارے میں ان سے گفتگو کی ہے اور انہیں یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور مذاکرات کی طرف پیش رفت میں کردار ادا کریں۔ مولانا سمیع الحق نے یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے اور ایک انٹرویو میں اس سلسلہ میں حکومت کی پیش کش کو سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
مولانا سمیع الحق قومی سیاست میں ایک عرصہ سے متحرک ہیں، پارلیمنٹ کے اہم ارکان میں ان کا شمار رہا ہے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے مرکزی امیر ہیں لیکن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے ان کا اصل تعارف یہ ہے کہ وہ شیخ الحدیث مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم ہیں۔ روسی استعمار کے خلاف جہادِ افغانستان میں دارالعلوم حقانیہ اور حضرت مولانا عبد الحقؒ کا کردار عالمی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور پاکستان کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا میں جہادی تحریکات اور استعمار کے خلاف مزاحمتی کلچر کے فروغ میں انہیں علمی و فکری مرکز اور پشتیبان کی حیثیت حاصل ہے۔ افغانستان اور اردگرد کے ممالک کے علماء کرام اور مجاہدین کی ایک بڑی تعداد حضرت مولانا عبد الحقؒ کی شاگرد ہے اور مولانا سمیع الحق کے اپنے شاگردوں کی تعداد بھی ان میں کم نہیں ہے۔ جہاد افغانستان کو دنیا بھر میں جہادی تحریکات کا منبع سمجھا جاتا ہے جبکہ جہاد افغانستان کا سب سے بڑا علمی و دینی سر چشمہ دارالعلوم حقانیہ ہے۔ ان جہادی تحریکات میں بہت سی تحریکات اصلاً جہادی ہیں جبکہ بہت سی تحریکات کو دہشت گردی کے الزام کا صحیح یا غلط طور پر سامنا ہے۔ ان کی درجہ بندی آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام میں جہادی کلچر کے آگے بڑھنے کا ذریعہ جہاد افغانستان بنا ہے اور جہاد افغانستان کی راہ ہموار کرنے میں جن اداروں اور شخصیات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ان میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ اور دارالعلوم حقانیہ کا نام سر فہرست ہے۔ حضرت مولانا عبد الحقؒ کو میں اس حوالہ سے شیخ الہند حضرت محمود حسن دیوبندیؒ کے فکر و عمل کا نمائندہ سمجھتا ہوں کہ ایک طرف انہوں نے استعمار کے تسلّط کے خلاف جہاد کی صرف سرپرستی نہیں بلکہ آبیاری کی اور دوسری طرف پاکستان کی دستور ساز اسمبلی اور پھر قومی اسمبلی کے منتخب رکن کی حیثیت سے اسلامی اصولوں کے مطابق ملک کے دستور کی تدوین و تشکیل اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی میں علمی اور فکری راہ نما کا کردار ادا کیا۔ قومی اسمبلی میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خطابات اور دیگر پارلیمانی سرگرمیوں کی کچھ تفصیلات کتابی شکل میں جمع ہو چکی ہیں جو نفاذ اسلام کی دستوری اور جمہوری جدوجہد کرنے والے علماء کرام اور کارکنوں کے لیے ’’گائیڈ بک‘‘ کا مقام رکھتی ہیں۔
حضرت مولانا عبد الحقؒ کی فرزندی اور جانشینی کے اس اعزاز سے ہٹ کر قومی سیاست اور دینی جدوجہد میں مولانا سمیع الحق کا اپنا بھی ایک منفرد اور بھرپور تعارف موجود ہے اور افغان مجاہدین کے ساتھ ساتھ پاکستانی طالبان کے ساتھ ان کے روابط یا اس سلسلہ میں ان کا مفاہمانہ کردار سب کے سامنے ہے۔ اس پس منظر میں اس عظیم قومی اور دینی خدمت کے لیے مولانا سمیع الحق کا انتخاب نئے سال کی پہلی خوش خبری اور میاں محمد نواز شریف کا صحیح فیصلہ ہے جس پر دونوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس عمل کی جلد اور بھرپور کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر ایک گزارش مولانا سمیع الحق سے اور ایک گزارش پاکستانی طالبان سے کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا سمیع الحق سے تو یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ایک اعزاز کے ساتھ بہت بڑا امتحان بھی ہے جس کی نزاکتوں اور خطرات و خدشات کو وہ یقیناً مجھ سے بہتر جانتے ہیں، لیکن میں بھی اس میں ثواب کے لیے کچھ حصہ ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاد افغانستان میں جو ان سارے معاملات کا اصل منبع ہے، جن جن اداروں، حلقوں اور شخصیات کا کردار رہا ہے ان کے ساتھ مشاورت کی اہمیت کو لازماً سامنے رکھیں اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن، مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ، جنرل (ر) حمید گل، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا مفتی عبد الرحیم کے ساتھ مشاورت کا اہتمام کریں تاکہ کسی درجہ میں کوئی خلا باقی نہ رہ جائے۔
جبکہ پاکستانی طالبان سے میری گزارش ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے ان کے تمام تر خلوص اور بے پناہ قربانیوں کے باوجود پاکستان کے اندر نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کی کبھی حمایت نہیں کی اور اس موقف پر اب بھی پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قائم ہوں۔ لیکن جذبۂ جہاد سے بہرہ ور مخلصین کے ساتھ دلی ہمدردی کے باعث ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے جذبہ کے تحت یہ عرض کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کی دینی جدوجہد کے دستوری اور پارلیمانی پہلو کا بھی مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ انہوں نے پاکستان کے داخلی حالات اور علاقائی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں نفاذ اسلام کے لیے دستوری اور پارلیمانی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیا تھا، جس پر وہ آخر دم تک قائم رہے اور جس میں انہیں ملک کے جمہور علماء کرام بلکہ تمام دینی مکاتب فکر کی حمایت اور تعاون حاصل تھا، وہ بھی دینی راستہ ہے اور شریعت اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق راستہ ہے۔ میں آج کے عالمی حالات میں نفاذِ اسلام کی پر امن جدوجہد کا راستہ روکنے کے لیے مختلف ممالک میں استعماری قوتوں کی سازشوں اور ان کے گماشتہ حلقوں کی کارستانیوں کا بحمد اللہ تعالیٰ پوری طرح ادراک رکھتا ہوں اور اس پر لکھتا بھی رہتا ہوں مگر اس کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحقؒ کی دستوری اور پارلیمانی جدوجہد ہمارے لیے صحیح راہ نمائی اور اسوہ فراہم کرتی ہے۔ بلاشبہ یہ مشکلات کا راستہ ہے، صبر آزما ہے، حوصلہ شکن ہے اور مایوسیوں کے بریکر قدم قدم پر دکھائی دے رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں قابل عمل راستہ یہی ہے۔ ہمارے پاکستانی طالبان اگر اس پہلو پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور فرما لیں تو ہو سکتا ہے خیر کا کوئی بہتر راستہ نکل آئے!