حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے
گکھڑ منڈی (محمد گلشاد سلیمی) حفظِ قرآن کی سعادت حاصل ہونا بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔ حافظ قرآن ہونا ایسا اعزاز ہے جو دنیا و آخرت میں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ قرآن کتابِ ہدایت بھی ہے، کتابِ شفا بھی، اور کتابِ انقلاب بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سب پر خوشی منانے کا کہا ہے۔ والدین کی سب سے بڑی خوشی یہی ہے کہ بچہ حافظ قرآن ہو جائے۔ سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل علامہ زاہد الراشدی کا خطاب۔
تفصیلات کے مطابق جامع مسجد شاہ جمال گکھڑ مدرسہ بستان الاسلام سے حفظ قرآن کی سعادت حاصل کرنے والے ۹ خوش نصیب حفاظ کرام کے اعزاز میں ۲۰واں سالانہ جلسہ دستار فضیلت زیرصدارت مہتمم مدرسہ قاری محمود اختر عابد، علامہ خالد محمود سرفرازی کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس میں مہمان خصوصی علامہ زاہد الراشدی تھے۔
دستارِ فضیلت حاصل کرنے والوں میں معروف سیاسی سماجی و کاروباری شخصیت حاجی ناصر محمود بٹ کے پوتے حافظ عبد اللہ فیصل سمیت ۹ طلباء شامل ہیں۔ تقریب میں شرکت کرنے والی شخصیات میں سابق چیئرمین وسیم یعقوب بٹ، حاجی ناصر محمود بٹ، زوہیب ناصر، فیصل ناصر، وقاص ناصر، ڈاکٹر احمد رضا، حافظ خالد محمود، عبد الرزاق خان، واجد محمد، گلشاد سلیمی، تجمل حسین فرید چشتی، جبران لطیف قریشی، مولانا اظہر عثمان، محمد رمضان خان، قاری ایاز اختر، قاری اویس احمد نقشبندی، عبد القادر عثمان، حافظ شاہد میر اور بچوں کے عزیز و اقارب کے ساتھ طلباء اور عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اس موقع پر بچوں کو اسناد، شیلڈز، کتب اور نقد انعام سے نوازا گیا۔ مہتمم مدرسہ نے شکریہ کے ساتھ رقت آمیز دعا خیر کروائی۔ تقریب کے اختتام پر شرکاء کی پر تکلف افطار ڈنر سے تواضع کی گئی۔
دارالعلوم کراچی کے فتویٰ پر اعتماد
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ایک دوست نے سوال کیا کہ ان کی یہ بات سوشل میڈیا میں چل رہی ہے کہ وہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ پر اعتماد کرتے ہیں، تو کیا باقی بڑے بڑے جو دارالافتاء ہیں ان پر انہیں اعتماد نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ہر دارالافتاء پر اعتماد ہے اور سب کے فتاویٰ کا دل سے احترام کرتا ہوں، صرف اتنی بات ہے کہ کسی مسئلہ میں جامعہ دارالعلوم کراچی کا فتویٰ سامنے آجائے تو کہیں اور سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اور کوئی مسئلہ بڑے مفتیان کرام میں مختلف فیہ ہو جائے تو عمل کے لیے جامعہ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ کو ترجیح دیتا ہوں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کو کسی مسئلہ میں تردّد ہوتا تھا یا کسی مسئلہ میں اختلاف سامنے آتا تھا تو وہ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس کو ترجیح دیتے تھے۔
فلسطینی بھائی!
گزشتہ رات الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی مسجد میں تکمیلِ قرآن کی تقریب تھی۔ تراویح میں قرآن کریم مکمل ہوا۔ استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی کا بیان تھا۔ استاد گرامی گزشتہ سات آٹھ ماہ سے مسئلہ فلسطین کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ کوئی مجلس ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی حوالے سے فلسطینی بھائیوں، ان کی حالیہ صورتحال اور امتِ مسلمہ کی بے حسی کا ذکر نہ ہو۔ گاہے تو بے بسی سے ان کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ رات بھی اسی کیفیت سے گزرے اور ہم سب کو گزارا۔
فرمایا، ساری امت بے حسی و بے غیرتی کی چادر اوڑھے انجوائے کر رہی ہے۔ سارا دن موج میں رہتے ہیں۔ فلسطینی بھائیوں سے اتنی دل چسپی رہ گئی کہ رات کو یہ دیکھنے کے لیے میڈیا دیکھتے ہیں کہ آج کتنے اور شہید ہو گئے اور مجموعی تعداد کتنے ہزار تک پہنچ گئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے سرجن آپریشن سے پہلے سارا جسم سن کر کے مریض کی آنکھوں کے سامنے اس کے جسم کو کاٹتا ہے، ایسے ہی ساری امت سن ہوئی پڑی ہے، اور ہمارے جسم کو ہماری آنکھوں کے سامنے ہی کاٹا جا رہا ہے، ہمیں احساس تک نہیں ہو رہا، یہ کیفیت ایسی اذیتناک ہے کہ الفاظ نہیں ملتے جس میں اس کا اظہار ہو سکے۔
آخر میں بڑے دردِ دل سے فلسطینیوں کے لیے دعا کرتے ہوئے بار بار یہ جملہ کہا۱ ’’اے اللہ! فلسطینی ہمارے بھائی ہیں، ہمیں بھی ان کا بھائی بننے کی توفیق عطا فرما۔
بزرگوں کی اقتدا اور نسبت ہی ہمارا اصل اثاثہ ہے
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے ۷ اپریل ۲۰۲۴ء کو سیالکوٹ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکز کا دورہ کیا اور مرکز کی ’’جامع مسجد علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ‘‘ کے نئے ہال کی تعمیر کے آغاز پر دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، مولانا حماد انذر قاسمی، مولانا فقیر اللہ اختر اور دیگر بہت سے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ مسجد کے نمازی بھی اس میں شریک تھے۔
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ ہمارے لیے یہ بات انتہائی سعادت کی ہے کہ اللہ کے گھر کی توسیع کی دعائیہ تقریب میں شریک ہیں، بالخصوص وہ مسجد جو تحفظِ ختمِ نبوت کے مشن کا مورچہ ہے۔ تحریکِ ختمِ نبوت کے عظیم قائد محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے نام نامی سے موسوم ہے، اور اس کا سنگِ بنیاد امام اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور قائد تحریکِ ختمِ نبوت حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں رکھا گیا تھا۔ یہ سب عادتیں ہمارے لیے باعثِ برکت ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ہدایت کے اصولوں اور صراطِ مستقیم کی اپنے طور پر پیروی کرنے کی بجائے ’’صراط الذین انعمت علیہم‘‘ اور ’’فبہداہم اقتدہ‘‘ فرما کر ان بزرگوں کی اتباع کی تلقین فرمائی ہے جو صراطِ مستقیم پر چلتے چلتے دنیا سے رخصت ہوئے اور راہِ نجات پر چلنے کا نمونہ بن گئے۔ اس لیے اپنے اسلاف اور بزرگوں کی اتباع اور ان کے ساتھ نسبت میں پختگی ہی ہمارا اصل اثاثہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس پر استقامت نصیب فرمائیں، آمین۔
انہوں نے اس موقع پر عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت سیالکوٹ کے راہنما مولانا فقیر اللہ اختر اور دیگر علماء کرام کے ساتھ مختلف دینی امور پر تبادلۂ خیالات بھی کیا۔
عید الفطر کا پیغام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آ ئیے سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عالمِ اسلام کو حقیقی عید نصیب فرمائیں، قومی خودمختاری اور دین کی سربلندی کی منزل سے ہمکنار کریں، اور ہماری رمضان المبارک کی عبادات کو قبول فرماتے ہوئے آئندہ بھی خلوص اور ذوق کے ساتھ عبادت کی توفیق دیتے رہیں، آمین یا رب العالمین۔
وہی کھلاڑی، وہی ریفری
استادِ گرامی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ کے سامنے ایک مجلس میں تذکرہ ہوا کہ آئی ایم ایف اور ایشیائی بینک نے پاکستان کی معیشت کو پہلے سے بہتر کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے حوالے سے خود کھلاڑی ہی ریفری بنے ہوئے ہیں جنہوں نے ہماری معیشت کو بنانے بگاڑنے کا کام سنبھال رکھا ہے، وہی ریفری اور جج بھی ہیں، ہماری حیثیت تو خاموش تماشائی کی ہے کہ ہمیں کسی ایسے آزاد فورم کی سہولت بھی میسر نہیں ہے جو عالمی اداروں کے ایجنڈے سے باہر رہ کر کوئی آزادانہ رائے قائم کر سکے اس لیے ہم تو اس کہاوت کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں کہ ایک شخص سے کسی نے پوچھا کہ اگر تم خالی ہاتھ جنگل میں جا رہے ہو اور کوئی درندہ سامنے آجائے تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں نے کیا کرنا ہے؟ جو کرنا ہے اسی نے کرنا ہے۔
پاکستان شریعت کونسل چنیوٹ کی تشکیل
جامعہ محمدی شریف چنیوٹ کے سربراہ صاحبزادہ قمر الحق سیالوی نے پاکستان شریعت کونسل کے پروگرام اور جدوجہد سے اتفاق کرتے ہوئے اس سے مکمل تعاون کا اعلان کیا ہے اور پاکستان شریعت کونسل ضلع چنیوٹ کی سرپرستی قبول کر لی ہے۔ آج جامعہ محمدی شریف میں پاکستان شریعت کونسل کی ضلعی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ صوبائی راہنماؤں قاری محمد عثمان رمضان، پروفیسر حافظ منیر احمد، حافظ امجد محمود معاویہ، مولانا بدر عالم چنیوٹی، مولانا سیف اللہ خالد، حافظ شاہد میر، حافظ دانیال عمر اور ضلعی راہنماؤں نے شرکت کی۔
اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے پاکستان شریعت کونسل اور ملی مجلس شرعی پاکستان کے مقاصد اور طریق کار کی تفصیل بیان کی اور کہا کہ یہ دونوں فورم انتخابی سیاست سے الگ رہتے ہوئے علمی و فکری دائروں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور پیش آمدہ مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے بریفنگ مہیا کرنا اور لابنگ کرنا ان کا دائرہ کار ہے۔
صاحبزادہ قمر الحق سیالوی نے اس پروگرام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل اور ملی مجلس شرعی کے مکمل تعاون کا اعلان کیا اور کہا کہ اس جدوجہد کے لیے جامعہ محمدی شریف اور وہ خود مکمل طور پر تیار ہیں۔
اس موقع پر ضلعی سیکرٹری جنرل حافظ محمد عمیر نے درج ذیل ضلعی عہدہ داروں کا اعلان کیا جن میں : صاحبزادہ قمر الحق سیالوی صاحب (سرپرست)، پیر ڈاکٹر عابد علی نقشبندی صاحب (امیر)، مولانا فیض احمد سلیمی صاحب (نائب امیر اول)، مولانا ضیاء الحق صاحب (نائب امیر دوم)، محمد عمیر (جنرل سیکرٹری)، مولانا ابوبکر صدیق صاحب (ڈپٹی سیکرٹری اول)، مولانا طاہر حسین صاحب (ڈپٹی سیکرٹری دوم)، مفتی لعل جوہر صاحب (جوائنٹ سیکرٹری)، پروفیسر عرفان صاحب (ڈپٹی جوائنٹ سیکرٹری اول)، مفتی محمد آصف جٹ صاحب (ڈپٹی جوائنٹ سیکرٹری دوم)، مولانا احسان اللہ صاحب (سیکرٹری اطلاعات)، مولانا ضیف الرحمن صاحب (ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات اول)، حافظ فضل کریم صاحب (ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات دوم)، ڈاکٹر محمد عارف صاحب (سیکرٹری مالیات)، مولانا فیصل صادق صاحب (ڈپٹی سیکرٹری مالیات) شامل ہیں۔
قومی خودمختاری اور ملکی معیشت کی حالت
متحدہ علماء کونسل کے صدر مولانا زاہد الراشدی نے موجودہ قومی و دینی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا مشاورتی اجلاس اٹھارہ اپریل جمعرات کو دو بجے آسٹریلیا مسجد لاہور میں طلب کر لیا ہے۔ کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حافظ محمد سلیم کے مطابق فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے علاوہ قومی معیشت کی بحالی کے حوالہ سے نئی حکومت کے اقدامات اور قومی خودمختاری کو درپیش خطرات پر غور و خوض کے بعد دینی حلقوں کے مشتکرہ موقف کا اعلان کیا جائے گا۔ دریں اثنا مولانا زاہد الراشدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قومی خودمختاری اور ملکی معیشت کی حالت تسلی بخش نہیں ہے اور اسے بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ دینی حلقوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔
مغربی فکر و فلسفہ کے بڑے ناقد
مولانا زاہد الراشدی سے ایک مجلس میں سوال ہوا کہ مغربی تہذیب کو سمجھنے کے لئے کون سی کتابوں کو پڑھنا چاہئے؟ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے ماحول میں مغربی تہذیب و فلسفہ کے تین بڑے اور سنجیدہ ناقد ہیں (۱) علامہ محمد اقبالؒ (۲) مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور (۳) مولانا ابوالاعلی مودودیؒ۔ ان تینوں نے مغربی تہذیب و فلسفہ پر سنجیدہ علمی و فکری نقد کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ بھی بہت سے مسائل میں اہلِ علم کے اختلافات موجود ہیں جو فطری امر ہے مگر ان کو اسٹڈی کئے بغیر جنوبی ایشیا کے ماحول میں مغربی تہذیب و فلسفہ کی ماہیت، پس منظر اور نتائج کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ بالخصوص مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی تصانیف سے استفادہ ضروری ہے اور خود میں نے بھی مغربی تہذیب و فلسفہ سے جتنی کچھ آگاہی حاصل کی ہے اس کا اصل سرچشمہ استاذ محترم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ تعالی کی ذات گرامی ہے، اللہ پاک ان کے فیض کو جاری و ساری رکھیں اور جنت میں اعلیٰ مقامات سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔
فلسطین کی صورتحال اور تذبذب میں ڈالنے والے سوالات
ایک صاحب نے استاد جی مولانا زاہد الراشدی صاحب سے مختلف فلسطینی گروپوں کے آپس کے اختلافات کا سوال کیا جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’’وعلیکم السلام، میرے بھائی! اگر کوئی بھائی نہر میں گر گیا ہو اور ڈبکیاں کھا رہا ہو تو پہلے اسے ڈوبنے سے بچانے کی فکر کرنی چاہیئے، یہ سوالات اس موقع کے نہیں ہیں، بعد میں ہوتے رہیں گے۔ ویسے ایسے موقع پر اس قسم کے سوالات بچانے کی کوشش کرنے والوں کو تذبذب میں ڈالنے کے لیے ہوتے ہیں اور اسی لیے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
آزاد کشمیر کا دورہ
متحدہ علماء کونسل پاکستان کے صدر حضرت مولانا زاہد الراشدی نے قائد اعظم ریسٹ ہاؤس کوہالہ آزادکشمیر میں علماء کرام کی ایک نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کو علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کے افکار و تعلیمات سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کے قیام کے حقیقی مقصد کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کے مطابق کردار ادا کر سکے اس نشست کا اہتمام متحدہ علماء کونسل آزادکشمیر نے کیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام اور میڈیا پاکستان کی نظریاتی و تہذیبی بنیادوں سے قوم اور خاص طور پر نئی نسل کو متعارف کرانے کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا اس لئے یہ محنت اب دینی حلقوں اور علماء کرام کو سنبھال لینی چاہئے ورنہ تحریک پاکستان کا تہذیبی و فکری پس منظر نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا جو پاکستان کو لادینی ریاست بنانے کی خواہشمند سیکولر قوتوں کا ایجنڈا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن اور رابطہ عالمِ اسلامی: ’’دیر آ ید در ست آید‘‘
قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے رابطہ عالم اسلامی کا رُکن بننے کے بارے میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کو ۱۹۸۰ء میں رابطہ عالمِ اسلامی کی یہی ممبرشپ دی گئی تھی اور وہ رابطہ کے اجلاس میں اس حیثیت سے شرکت کے لیے مکہ مکرمہ جا رہے تھے کہ دورانِ سفر کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ میرے خیال میں رابطہ کی قیادت کو اب اس کا خیال آیا ہے اور حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی جگہ ان کے فرزند و جانشین مولانا فضل الرحمٰن کو رابطہ عالمِ اسلامی کی اعلیٰ کونسل کا ممبر بنایا گیا ہے جو ’’دیر آید درست آید‘‘ کا مصداق ہے، اور خاندانی و جماعتی دونوں حوالوں سے مولانا فضل الرحمٰن اپنے عظیم والد کی یہ سیٹ سنبھالنے پر ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں۔
گوجرانوالہ میں ’’حرمتِ اقصیٰ علماء کنونشن‘‘
مرکزِ اقصیٰ گوجرانوالہ اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیر اہتمام ۳۰ اپریل کو ’’حرمتِ اقصیٰ علماء کنونشن‘‘ میں غزہ فلسطین کے مفتی اعظم ڈاکٹر محمود یوسف الشوبکی مہمان خصوصی تھے، جبکہ مولانا زاہد الراشدی، مولانا امیر حمزہ، مولانا قاری محمد یعقوب شیخ نے کنونشن سے خطاب کیا اور گوجرانوالہ ڈویژن سے مختلف مکاتبِ فکر اور دینی جماعتوں کے علماء کرام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مقررین اور شرکاء کی طرف سے معزز مہمان کا گوجرانوالہ میں بھرپور خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا گیا کہ اہلِ پاکستان اس جہادِ آزادی اور بیت المقدس کی حرمت کے تحفظ کی جنگ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کا تعاون فلسطینیوں کی مکمل فتح تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔