گزشتہ ماہ (جون) کی اٹھائیس تاریخ کی بات ہے کہ جامع مسجد فاروق اعظمؓ سیٹلائیٹ ٹاؤن، سرگودھا میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ”خلافت راشدہ کانفرنس“ سے خطاب کرنے کے لیے برادر عزیز مولانا عبد الحق خان بشیر امیر پاکستان شریعت کونسل پنجاب اور مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر سیکرٹری جنرل صوبائی شریعت کونسل کے ہمراہ پہنچا تو کانفرنس کے منتظم مولانا مفتی شاہد مسعود نے، جو شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری ہیں، بتایا کہ مقامی پولیس نے ”خلافت راشدہ کانفرنس“ کے انعقاد سے روک دیا ہے اور کہا ہے کہ چونکہ کانفرنس کی اجازت نہیں لی گئی، اس لیے اگر کانفرنس منعقد کی گئی تو منتظمین اور مقررین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ہمیں بہت تعجب ہوا کہ اس سے قبل پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے زیر اہتمام ہم گجرات، گوجرانوالہ، اوکاڑہ اور فیصل آباد میں ”خلافت راشدہ کانفرنس“ کے عنوانات سے اجتماعات کر چکے ہیں، وہاں ایسی کوئی صورت حال پیش نہیں آئی، جبکہ ہمارا معمول ہے کہ ہم مسجد کے اندر اجتماع کرتے ہیں، جلسہ کی آواز مسجد کی چار دیواری کے اندر محدود رہتی ہے اور بیرونی لاؤڈ سپیکر ہم سرے سے استعمال ہی نہیں کرتے۔ پھر ہمارے موضوعات میں پارٹی، اقتدار اور الیکشن کی سیاست زیرِ بحث نہیں آتی، ہم اسلامی نظام کے حوالے سے فکری اور نظریاتی حوالوں سے گفتگو کرتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ جماعتی اور اقتدار کی کشمکش سے بالاتر رہتے ہوئے نفاذ اسلام کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کی جائے، اسلامی نظام کے سلسلے میں کیے جانے والے اعتراضات و شبہات کا جواب دیا جائے اور اسلام کے خلاف فتنوں کی نشاندہی کی جائے۔
اس لیے ہمارے خیال میں قانونی طور پر ایسی صورت میں اجازت لینے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس اس قسم کے کسی اجتماع کو روکنے کا کوئی جواز ہے، مگر مفتی شاہد مسعود صاحب نے بتایا کہ وہ اس سلسلہ میں ڈی سی او اور ناظم ضلع سے بھی رابطہ کر چکے ہیں، لیکن کسی طرف سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا۔ کانفرنس عشاء کے بعد تھی اور ہم ابھی صلاح مشورہ میں مصروف تھے کہ علاقے کے ایس ایچ او پولیس گارڈ لے کر آ گئے اور انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ یہ جلسہ منعقد نہیں کر سکتے۔ چنانچہ ہم نے باہمی مشورہ کے ساتھ طے کر لیا کہ چونکہ قانون شکنی ہمارا مزاج نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے پروگرام میں شامل ہے، اس لیے یہ کانفرنس ملتوی کر دی جائے۔
مجھے گزشتہ چند برسوں کے دوران سرگودھا میں دو مرتبہ اس قسم کی صورت حال پیش آ چکی ہے۔ ایک بار میں جلسہ سے خطاب کرنے کے لیے جلسہ گاہ میں پہنچ چکا تھا کہ پولیس حکام کی طرف سے اطلاع ملی کہ آپ پر سرگودھا میں پابندی ہے، اس لیے آپ تقریر نہ کریں اور واپس چلے جائیں۔ دوسری بار ایک موقع پر میں جامعہ محمودیہ پہنچا، جلسہ کسی اور جگہ تھا، مگر مجھے جامعہ محمودیہ میں ہی پیغام مل گیا کہ آپ تقریر نہیں کر سکتے، اس لیے واپس تشریف لے جائیں۔ دونوں مرتبہ میں خطاب کیے بغیر واپس آ گیا۔ لیکن یہ پابندی صرف میرے لیے تھی، باقی مقررین نے خطاب کیا اور جلسے پروگرام کے مطابق منعقد ہوئے، مگر اس بار پورا جلسہ لپیٹ میں آ گیا اور ہم اپنے پروگرام کے مطابق ۲۸ جون کو سرگودھا میں ”خلافت راشدہ کانفرنس“ منعقد نہیں کر سکے۔
میں نے مختلف دوستوں سے اس امتیازی سلوک کی وجہ معلوم کرنا چاہی تو مجھے بتایا گیا کہ یہ سارا قصہ ”فور شیڈول“ کی وجہ سے ہے۔ یہ اصطلاح میرے لیے نئی تھی اور میں اس سے قبل فور شیڈول نام کے کسی ضابطے اور قانون سے واقف نہیں تھا، اس لیے اس کی تفصیلات طلب کیں تو معلوم ہوا کہ یہ پولیس کی کوئی اپنی اصطلاح ہے، جس کے تحت کسی عالمِ دین یا خطیب کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس بات کا پابند کر دیا جاتا ہے کہ وہ کسی جلسہ سے خطاب نہیں کرے گا، تھانہ کی حدود سے بلا اجازت باہر نہیں جائے گا، کسی دوسرے علاقے میں جائے گا تو وہاں کے تھانے کو اپنی آمد کی رپورٹ کرے گا اور اپنی سرگرمیوں سے تھانے کو باخبر رکھے گا۔ ان دوستوں نے بتایا کہ چونکہ ”خلافت راشدہ کانفرنس“ کے داعی اور منتظم مولانا مفتی شاہد مسعود پر مقامی پولیس نے فور شیڈول کا اطلاق کر رکھا ہے، اس لیے اس کانفرنس کے انعقاد میں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے۔
میں نے عرض کیا کہ اول تو ہم فور شیڈول نامی کسی قانون سے واقف نہیں ہیں اور اگر اس نوعیت کا کوئی قانون موجود ہے اور مفتی شاہد مسعود صاحب پر اس کا اطلاق بھی ہوتا ہے تو انہیں خطاب سے روکا جا سکتا ہے، جامع مسجد فاروق اعظمؓ یا خلافت راشدہ کانفرنس کے باقی مقررین کا کیا قصور ہے کہ سرے سے کانفرنس کے انعقاد ہی کو روک دیا گیا ہے؟ متعلقہ حضرات نے ہمیں بتایا کہ جس مسجد کے خطیب پر فور شیڈول کا اطلاق کیا جاتا ہے وہ مسجد بھی انہی پابندیوں کی زد میں آ جاتی ہے اور وہاں کوئی پروگرام مقامی تھانہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو پاتا۔
جہاں تک فور شیڈول کا تعلق ہے، ہمیں دوستوں نے بتایا کہ خود پولیس کے پاس بھی اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے کہ یہ کون سا قانون ہے؟ چنانچہ سرگودھا ہی کے مولانا محمد الیاس گھمن کو ایک جنازہ کے موقع پر تقریر کرنے کے الزام میں یہ کہہ کر گرفتار کیا گیا کہ چونکہ یہ فور شیڈول کے پابند ہیں، اس لیے یہ کسی جگہ بھی تقریر نہیں کر سکتے۔ لیکن جب عدالت میں پولیس سے فور شیڈول کی وضاحت طلب کی گئی تو وہ اس کی وضاحت نہ کر سکی، چنانچہ عدالت نے مولانا موصوف کو باعزت بری کر دیا۔ اسی طرح حافظ اسامہ نامی ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا، اس پر الزام تھا کہ وہ فور شیڈول کا پابند ہونے کے باوجود کسی دینی ادارے کے لیے چندہ جمع کر رہا تھا۔ اسے بھی متعلقہ عدالت نے پولیس کی طرف سے فور شیڈول کی تسلی بخش وضاحت نہ ہونے کے باعث رہا کر دیا۔
اس سلسلے میں معلومات حاصل کرتے ہوئے ایک اور انکشاف ہوا کہ بعض علمائے کرام اور دینی کارکنوں سے پولیس باقاعدہ حلفیہ بیان لیتی ہے اور علاقہ کی کسی ذمہ دار شخصیت کی طرف سے اس کی تصدیق اور ضمانت کے بعد اسے روزانہ چلنے پھرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ حافظ عبد الرؤف نامی ایک دینی کارکن کا حلف نامہ اس وقت میرے پاس موجود ہے، جسے انہوں نے لکھا ہے کہ:
”میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میرا کسی سیاسی و مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہ ہے اور میرا کسی سیاسی و مذہبی تنظیم سے ماضی میں بھی کوئی تعلق نہ تھا۔“
اس حلف نامے کی تصدیق یو سی ناظم اور تحصیل ناظم کے علاوہ صوبائی وزیر جناب عامر سلطان چیمہ صاحب نے بھی کی ہے اور ان کی تصدیق کے الفاظ یہ ہیں کہ:
”تصدیق کی جاتی ہے کہ مولانا محمد شاہد ولد محمد حنیف، حافظ عبد الرؤف ولد محمد یعقوب اور حافظ احسان الحق ولد محبوب الرسول ضلع سرگودھا کے رہائشی ہیں۔ میں ان علمائے کرام کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، یہ سب شریف لوگ ہیں، کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ تعلق نہ ہے اور نہ ہی کسی سیاسی و غیر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔“
کسی کالعدم تنظیم سے تعلق نہ ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن وزیر محترم سے پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ کسی سیاسی یا غیر سیاسی سرگرمی میں ملوث ہونا کون سا جرم ہے، جس کے لیے انہیں باقاعدہ تصدیق نامہ جاری کرنا پڑا ہے؟ اور اگر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا یا کسی مذہبی اور سیاسی تنظیم کا رکن ہونا واقعتاً جرم ہے تو ان کا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے جو ایک سیاسی جماعت کے رکن ہیں اور ایک سیاسی حکومت کا حصہ ہیں؟
گزشتہ سال کے اواخر میں گوجرانوالہ میں میرے ساتھ بھی کچھ اسی نوعیت کا معاملہ پیش آتے آتے رہ گیا۔ تھانہ کوتوالی مرکزی جامع مسجد کے پڑوس میں ہے۔ تھانے والوں نے مجھ سے تقاضہ کیا کہ میں تحریری طور پر اس امر کی یقین دہانی کراؤں کہ امریکہ کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، حکومت کے خلاف تنقید نہیں کروں گا اور لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں کروں گا۔ میں پہلے ٹال مٹول کرتا رہا، پھر اصرار بڑھا کہ اوپر سے آرڈر ہے، اس لیے آپ کو بہرحال یہ لکھ کر دینا ہو گا تو میں نے کافی ٹال مٹول کے بعد بالآخر مندرجہ ذیل تحریر لکھ کر دی:
”مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو قرآن و سنت کے احکام و تعلیمات سے آگاہ کروں اور بحمد اللہ تعالیٰ گزشتہ اڑتیس برس سے اپنی استطاعت کی حد تک یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہوں۔ مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی معاملات کے بارے میں اگر کوئی بات خلافِ شرع نظر آتی ہے تو خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران اس کی نشاندہی بھی میری ذمہ داری ہے اور بحیثیت خطیب میری ڈیوٹی کا حصہ ہے۔ البتہ اس بات کی پوری کوشش کرتا ہوں کہ بات دلیل سے ہو، الفاظ غیر مناسب نہ ہوں اور پاکستان کے دستور و قانون کی خلاف ورزی کا کوئی پہلو اس میں نہ پایا جاتا ہو۔ ملک کے دستور و قانون کی پابندی کو اپنی ذمہ داری تصور کرتا ہوں اور اس کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہوں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ بھی قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیتا رہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ نیز لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہماری مسجد میں اذان اور جنازہ وغیرہ کے اعلان کے سوا نہیں ہوتا اور گزشتہ پچیس برس سے ہمارا معمول ہے کہ اذان اور جنازہ وغیرہ کے ضروری اعلان کے سوا آواز مسجد سے باہر نہ جائے۔“
چند روز کے بعد تھانے والوں نے بتایا کہ اوپر سے آپ کی تحریر واپس آ گئی ہے، اس لیے نئی تحریر دیں تو میں نے انکار کر دیا کہ اس کے سوا کچھ اور لکھنے کے لیے میں تیار نہیں ہوں۔ اس پس منظر میں صوبائی وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی صاحب سے میرا یہ سوال ہے کہ یہ فور شیڈول کس بلا کا نام ہے اور علماء، خطباء کو اس قسم کے امور کا پابند آخر کس دستور و قانون کے تحت کیا جا رہا ہے؟