فلسطین کی صورتحال اور ہماری ذمہ داری

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۵ جون ۲۰۲۴ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس وقت عالم اسلام کے بہت سے مسائل میں سب سے اہم فلسطین، بیت المقدس اور فلسطینیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث بھی ہے اور تمام لوگ اپنے اپنے دائرے میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ فکر مند بھی ہیں۔

فلسطین کی موجودہ لڑائی تقریباً ایک سو سال قبل شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین کو اپنی تحویل میں لیا تھا اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں بسانے کا عمل شروع کیا تھا، اس سے پہلے پورے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دو تین فیصد تھی۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور نے یہودیوں کی عالمی تنظیم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ ہم تمہاری یہاں ریاست بنوائیں گے، چنانچہ اس نے ساری دنیا سے یہودی سمیٹے ، فلسطین میں اکٹھے کیے اور ان کی ریاست بنوا دی۔

۱۹۱۶ء میں برطانیہ کا اور یہودیوں کا معاہدہ ہوا تھا جو ’’بالفور ڈیکلیریشن‘‘ کہلاتا ہے جس میں برطانوی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ہم یہودیوں کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ دنیا بھر سے واپس فلسطین میں آئیں، یہاں اپنی ریاست قائم کریں اور حکومت بنائیں۔ یہ حق تسلیم کرنے کے ساتھ وعدہ بھی کیا تھا کہ جب بھی ہمیں موقع ملا ہم اس کا راستہ ہموار کریں گے۔ چنانچہ اس معاہدے کے تحت جب پہلی جنگ عظیم کے بعد عرب ممالک کی تقسیم ہوئی ہے اور مختلف علاقوں میں کہیں اٹلی، کہیں برطانیہ، کہیں فرانس نے قبضہ جمایا ہے تو برطانیہ نے فلسطین کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور دنیا بھر سے یہودیوں کو یہاں لا کر بسانے کا عمل شروع کر دیا۔ اس زمانے میں یہودی فلسطین آتے تھے، وہاں زمین خریدتے تھے، مکان بناتے تھے اور ہدف یہ تھا کہ ہم اتنی آبادی حاصل کر لیں کہ ہم یہاں اپنی ریاست بنانے کا دعویٰ کر سکیں۔

اس وقت مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ یہودیوں کو فلسطین کی زمین بیچنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ یہاں ریاست قائم کر کے، قبضہ کر کے بیت المقدس کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ اس فتویٰ کی حمایت میں ہمارے برصغیر کے دو بڑے بزرگوں نے بھی فتوے دیے تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا مستقل کتابچہ ہے جس میں انہوں نے مفتی اعظم فلسطین کے فتویٰ کی حمایت کی تھی اور مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی بھی کفایت المفتی میں موجود ہے کہ ہم اس فتویٰ کی حمایت کرتے ہیں کہ یہودیوں کو فلسطین کی زمین بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہودی یہاں جگہ خرید کر برطانیہ کے سرپرستی میں یہاں بسنے لگ گئے ہیں اور ان کا ٹارگٹ یہ ہے کہ بیت المقدس پر قبضہ کرنا ہے، لیکن بات چلتی رہی اور یہودی فلسطین میں زمینیں خرید کر آباد ہوتے رہے اور اپنی آبادی بڑھاتے رہے اور ۱۹۴۸ء میں اسرائیلی ریاست قائم ہو گئی۔

فلسطین کی لڑائی پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہو گئی تھی، جسے تقریباً ایک سو سال ہو گیا ہے، دوسری بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آزادی کی جنگیں دس بیس سال کی نہیں ہوتیں، بلکہ لمبی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں برصغیر میں انگریز نے قبضہ کیا تو اس کے بعد ہماری جنگ آزادی کا آغاز ۱۷۵۷ء میں ہوا تھا، جب نواب سراج الدولہ نے جنگ لڑی تھی اور شہید ہو گیا تھا، پھر ٹیپو سلطان نے ۱۸۰۱ء میں جنگ لڑی تھی، اور شہید ہو گیا تھا۔ ہم نے ۱۷۵۷ء میں آزادی کی جنگ کا آغاز کیا تھا اور ہمیں ایک سو نوے سال کے بعد ۱۹۴۷ء میں آزادی حاصل ہوئی۔ اس لیے میں نے ذکر کیا کہ آزادی کی جنگیں دو چار سال کی نہیں ہوتیں، جبکہ ہم جلد بازی میں آ جاتے ہیں کہ کیوں نہیں ہو رہا ؟ خود ہماری جنگ آزادی سراج الدولہ سے قائد اعظم تک ایک سو نوے سال بنتی ہے جو ہم نے لڑی ہے اور اس کے بعد ہمیں کامیابی ملی۔ آزادی کی جنگیں لمبی ہوتی ہیں ، کبھی اس میں پسپائی ہوتی ہے، کبھی پیشرفت ہوتی ہے اور قومیں اگر آزادی سے دستبردار نہ ہوں اور ڈٹی رہیں تو بالآخر آزادی کا راستہ نکل آتا ہے۔

اس وقت فلسطینیوں کو اللہ رب العزت نے سب سے بڑا یہ اعزاز دیا ہے کہ وہ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ مار کھانا شکست نہیں ہوتی، ہتھیار ڈالنا شکست ہوتی ہے۔ آزادی کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں، مار کھانا پڑتی ہے، کہیں بالاکوٹ سجتا ہے، کہیں ۱۸۵۷ء سجتا ہے، کہیں شاملی سجتا ہے، کہیں سلطان احمد کھرل لڑتا ہے، کہیں ٹیپو سلطان لڑتا ہے۔ یہ لڑنا، مرنا اور شہید ہونا شکست نہیں ہوتی ہتھیار ڈالنا شکست ہوتی ہے۔ اللہ پاک فلسطینیوں کو استقامت دیں کہ وہ اس موجودہ راؤنڈ میں تیس ہزار سے زیادہ افراد کی قربانی دے کر بھی کھڑے ہیں کہ نہیں! ہم سرنڈر نہیں ہوں گے، دستبردار نہیں ہوں گے۔ بہت سے لوگ مشورے دیتے ہیں کہ مزاحمت چھوڑ دیں، سرنڈر ہو جائیں، کیوں مر رہے ہیں؟ لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ استقامت کے ساتھ ان کا ڈٹے رہنا ہی ان کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس استقامت کا صلہ انہیں ضرور عطا فرمائیں گے ، بیت المقدس بھی آزاد ہوگا اور فلسطینی بھی آزاد ہوں گے، ان شاء اللہ العزیز۔

اس حوالے سے تیسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آخر ہم بھی مسلمان ہیں، وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں، ہمارا بھی کوئی فرض بنتا ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ہمیں کہہ رہے ہیں ”ومالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا “ کہ ایک علاقے کے کمزور مظلوم مسلمان چیخ و پکار کر رہے ہیں، مار کھا رہے ہیں ،ذبح ہو رہے ہیں، قربانی دے رہے ہیں اور شہید ہو رہے ہیں، تمہیں کیا ہوگیا ہے، تم کیوں نہیں لڑائی میں شریک ہوتے؟ لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بحیثیت امت مسلمہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دیں۔ میں اللہ پاک سے دعا کیا کرتا ہوں کہ مولا کریم! فلسطینی ہمارے بھائی ہیں، یا اللہ! ہمیں بھی ان کا بھائی بنا دے، ہم ان کے بھائی نہیں بن رہے، ہم تماشائی بن کر کھڑے ہیں۔ یہ رویہ قطعاً غلط ہے، بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں۔ بلکہ ہماری ڈبل ذمہ داری ہے، بحیثیت پاکستانی کے بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھائیں۔ پاکستانی کی حیثیت سے اس لیے کہ ہم نے پہلے دن کہہ دیا تھا، پاکستان بھی انہی دنوں میں بنا ہے اور اسرائیل بھی انہی دنوں میں بنا ہے تو قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے دو ٹوک کہا تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔

ایک صاحب نے کہا کہ قائد اعظم کو مدت گزر گئی ہے، اب حالات بدل گئے ہیں، اب تسلیم کر لینا چاہیے۔ میں نے کہا جو ناجائز ولادت ہو، وہ حالات بدلنے سے جائز نہیں ہوا کرتی۔ جو ولادت ناجائز ہو وہ سو سال کے بعد بھی ناجائز ہی رہتی ہے۔ اسرائیل ناجائز بنا ہے، اور ہمیشہ ناجائز ہی رہے گا، جسے ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستانی طور پر یہ ہمارا قومی موقف چلا رہا ہے کہ ہم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں، قائد اعظم نے یہ اعلان کیا تھا ،ہم اس وقت سے تقریباً اسی اعلان پر قائم ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے قدم ڈانواں ڈول ہو گئے تھے، ہم تھوڑا سا لڑکھڑانے لگ گئے تھے، ہم نے ایسی باتیں کہنا شروع کر دی تھیں، اور اس وقت کے وزیراعظم صاحب نے کہا تھا کہ قائد اعظم کی بات کون سی وحی تھی جو بدل نہیں سکتی، لیکن فلسطینیوں نے تیس ہزار شہداء کی قربانی دے کر ہمارے قدم بھی روکے ہیں، کچھ اور ملکوں کے قدم بھی روکے ہیں۔ یہ بھی ان کی کامیابی ہے کہ انہوں نے دنیا کے بڑے مسلمان ملکوں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم کو ناکام بنایا ہے۔

میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ موجودہ حالات میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ پہلا کام تو حکومتوں کا ہے کہ حکمران مل بیٹھ کر سوچیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ پاکستان میں ہماری اس تحریک اور دینی مہم کی قیادت شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم فرما رہے ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں، ان کے کارکن ہیں۔ انہوں نے دو باتیں کہی ہیں، میں بھی وہی عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک بات یہ ہے، انہوں نے کل بھی کہا ہے کہ کم از کم مسلمان حکمران مل بیٹھ کر سوچیں تو سہی کہ ہمارے بھائی مر رہے ہیں ہم نے کیا کرنا ہے؟ ہم نے کچھ کرنا بھی ہے یا نہیں ، اگر کرنا ہے تو کیا کرنا ہے؟ اگر باہم مل بیٹھیں گے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم اکٹھے بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

دوسری گزارش ہے کہ پاکستان کی بطور خاص ذمہ داری بنتی ہے۔ کیونکہ ہم پہلے بھی بہت سے ایسے معاملات میں شریک رہے ہیں۔ ہم دنیا کے کون سے بڑے جھگڑے میں فریق نہیں بنے؟ ہماری فوجیں کہاں کہاں نہیں گئیں؟ صومالیہ ،عراق اور بوسنیا ہر جگہ ہم جاتے رہے ہیں اور ہماری شرکت رہی ہے تو یہاں کیوں نہیں جا رہے؟ اس لیے حکمرانوں سے یہ گزارش ہے کہ ہمارا تو مزاج ہے کہ ہم ہر جگہ لڑتے ہیں، مگر یہاں کیوں قدم رکے ہوئے ہیں؟

فلسطینی بھائیوں کے حوالے سے حکومتوں کی یہ دو ذمہ داریاں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا ساتھ دیں اور اس سے پہلے یہ ہے کہ کم از کم مل بیٹھ کر سوچیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ جو کر سکتے ہیں وہی کریں ،لیکن سوچیں تو سہی کہ کیا کر سکتے ہیں۔

اس کے بعد دوسرے نمبر پر ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے رہیں۔ دیکھیں، دنیا بھر میں عوام ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، امریکہ اور برطانیہ کے عوام جلوس نکال رہے ہیں، یورپ کے ملکوں کے لوگ ان کی حمایت میں سڑکوں پر آئے ہیں، لیکن ہم کیوں نہیں سامنے آتے؟ آج کی دنیا میں رائے عامہ کی حمایت بڑی مضبوط حمایت ہوتی ہے، سٹریٹ پاور آج کی دنیا کا بڑا بہت بڑا سیاسی ہتھیار ہوتا ہے۔ آج مغرب اور مشرق میں، امریکہ اور یورپ میں بڑے بڑے شہروں میں جلوس نکل رہے ہیں۔ ہمیں بھی یہ آواز بلند کر کے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہیے اور دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ اگر امریکہ کی یونیورسٹیوں کے طلبہ یہ اعلان کر سکتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں تو ہمیں یہ اظہار کرنے میں کیا تکلیف ہوتی ہے؟ اس لیے رائے عامہ کی حمایت کی مہم اور میڈیا کی مہم کو جتنا زیادہ ہم تیز کر سکتے ہیں، ہمیں کرنا چاہیے اور اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کی تیسری ذمہ داری عرض کرنا چاہوں گا۔ لڑائیوں میں سیاسی لڑائی بھی ہوتی ہے، ہتھیاروں کی لڑائی بھی ہوتی ہے اور معاشی لڑائی بھی ہوتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی جنگیں ہوئی ہیں۔ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شعب ابی طالب میں تین سال محاصرہ اور بائیکاٹ رہا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی معاشی لڑائی لڑی ہے۔ بدر کی لڑائی یہیں سے شروع ہوئی تھی کہ قریش کا تجارتی قافلہ روکنے کے لیے نکلے تھے۔ قرآن مجید میں ہے ”واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم وتودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم ویرید اللہ ان یحق الحق بکلماتہ “ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جب تم مدینہ سے چلے تھے تو تمہارے ذہن میں دو قافلے تھے کہ ایک ابو جہل کا جنگی قافلہ اور ایک ابو سفیان کا تجارتی قافلہ۔ اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ ایک تمہارے قابو میں دوں گا، تو تم تجارتی قافلہ کی طرف جانا چاہ رہے تھے، میں نے دوسری طرف بھیج دیا۔ تم یہ چاہتے تھے کہ تجارتی قافلہ ہاتھ میں آئے، تمہارا ٹارگٹ وہ تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے رخ جنگی قافلہ کی طرف موڑ دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاشی جنگ کے حوالے سے نکلے تھے کہ ان کی تجارت کے راستے میں رکاوٹ بننا ہے۔

عہد نبویؐ میں تجارتی بائیکاٹ کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ مسلمانوں کا بائیکاٹ بھی ہوا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے بھی کئی مواقع پر کفار کا بائیکاٹ کیا ہے۔ میں ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کروں گا تاکہ سمجھ آئے کہ معاشی جنگ کیا ہوتی ہے؟

صلح حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ہم دس سال آپس میں جنگ نہیں کریں گے، دیگر شرطیں بھی تھیں۔ یمامہ میں بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو گئے اور ایک موقع پر عمرہ کے لیے چلے گئے۔ مکہ پر کفار کا کنٹرول تھا۔ وہاں طواف کرتے انہیں کسی نے طعنہ دیا کہ ثمامہ مسلمان ہو گئے ہو؟ محمد (ﷺ) کے ساتھی بن گئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا آرام سے بیٹھو ، تمہارے مکہ میں گندم یمامہ سے آتی ہے۔ یمامہ گندم کا علاقہ تھا، مکہ کی منڈیوں میں وہیں سے گندم آتی تھی۔ فرمایا اگر میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو گندم کا ایک دانہ بھی مکہ نہیں آئے گا۔ بلکہ ثمامہ بن اثالؓ نے واپس جا کر مکہ کی گندم بند کر دی۔ بنو حنیفہ کے سردار تھے، انہوں نے واپس جا کر اعلان کر دیا کہ آئندہ مکہ کی منڈی میں گندم نہیں جائے گی، چنانچہ مکہ میں گندم نہیں گئی تو مکہ والوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وفد بھیجا کہ جناب! ہمارا آپ کا صلح کا معاہدہ چل رہا ہے اور آپ کے ساتھی نے غصے میں آ کر ہماری گندم کی سپلائی بند کر دی ہے۔ چنانچہ حضور نبی کریمؐ نے ثماثہ کو خط لکھا جو ریکارڈ پر ہے، بخاری شریف میں موجود ہے اور بندہ بھیج کر یہ پیغام بھیجا کہ کچھ نرمی کریں، ہمارا معاہدہ چل رہا ہے۔

معاشی جنگ بھی جنگ ہوتی ہے اور تجارت میں رکاوٹ ڈالنا اور بائیکاٹ کرنا بھی جہاد کا حصہ ہوتا ہے۔ ہم کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں۔ دو محاذ تو ہمارے اپنے ہیں۔ میڈیا کا محاذ، سٹریٹ پاور کا محاذ اور معاشی جنگ، بائیکاٹ، معاشی طور پر ان کو نقصان پہنچانا یہ کام ہم سب کر سکتے ہیں۔ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں وہ تو کریں۔ علماء کرام اور سیاسی جماعتوں کو رائے عامہ کے محاذ پر اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ آواز بلند کرنی چاہیے، کم از کم اتنی تو کرنی چاہیے جتنی امریکہ کے سٹوڈنٹس اور برطانیہ کے عوام کر رہے ہیں جبکہ ہمارے تجارتی ماحول کو بائیکاٹ کے راستے سوچنے چاہئیں۔ اگر کفار مکہ کا بائیکاٹ ہو سکتا ہے، مکہ والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بائیکاٹ کر سکتے تو ہم بھی اسرائیل کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا کم از کم درجہ یہ ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں کہ ہم یہودی مال نہیں لیتے، کہ یہ ہمارے بھائیوں کے قاتل ہیں۔

میں نے گزارش کی ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فلسطینی مجاہدین کھڑے ہیں، ڈٹے ہوئے ہیں، ان کا ڈٹے رہنا ہی ان کی کامیابی ہے، اگر خدانخواستہ تیس ہزار اور بھی شہید ہو جائیں تو یہ کھڑا رہنا اور ڈٹے رہنا ہی ان کی کامیابی ہے اور ہماری بہت سی حرکتوں میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں انہیں سرنڈر ہونے کے مشورے دینے کی بجائے ان کی استقامت کے لیے دعا کرنی چاہیے، اور دوسری بات یہ عرض کی کہ جو حکومتوں کے بس میں ہے، انہیں کرنا چاہیے، یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر وہ نہیں کرتے تو جو کام ہم پبلک میں کر سکتے ہیں، علماء ، سیاستدان، تاجر کر سکتے ہیں اپنے اپنے دائرہ میں کریں اور اپنا حصہ تو ادا کریں۔

مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آگ میں ڈالا گیا تو ایک پرندہ چونچ میں پانی لے کر آگ پر ڈال رہا تھا۔ کسی نے کہا یہ تمہارے پانی کے دو قطرے کیا کریں گے؟ اس نے کہا جتنی میری چونچ ہے اتنا تو ڈالوں گا۔ جو میرے بس میں ہے، میں کر رہا ہوں۔ خدا کرے نہ کرے، جب کرے اس کی مرضی ، مگر ہم اپنی چونچ کے مطابق تو کام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں تاکہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی قیامت کے دن پیش ہونا ہے، وہاں بھی شرمساری نہ ہو۔ ہم یہ تو کہہ سکیں کہ ہم نے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں مارے تھے۔ اس کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے، اللہ رب العزت ہم سب کو توفیق ارزانی فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter