مجلس تحفظ ختم نبوت ہندوستان کے نائب صدر مولانا محمد اسماعیل کٹکی سے ملاقات

   
۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء

۳۱ اگست ۱۹۸۸ء کو لندن میں منعقد ہونے والی چوتھی سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس میں بھارت سے ایک بزرگ عالم دین مولانا محمد اسماعیل کٹکی تشریف لائے اور اپنے خطاب میں یہ کہہ کر سب حاضرین و سامعین کو چونکا دیا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کی میں ختم نبوت کے عقیدہ پر اختلاف نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی طرح قادیانی حضرات بھی سلسلۂ نبوت کو منقطع اور ختم مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے نہ تو وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی سے پہلے کسی اور کی نبوت کے قائل ہیں اور نہ ہی مرزا غلام احمد کے بعد کسی اور شخص کو نبوت ملنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک بھی نبوت و رسالت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی تسلیم کرتے ہیں اور قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

اس لیے مسلمان علماء کو قادیانی مبلغین کے ساتھ بحث و مباحثہ میں نبوت کے ختم ہونے یا جاری رہنے کے عنوان پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی ذات اور خودساختہ نبوت کو زیر بحث لا کر اس کی اصلیت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔

مولانا کٹکی کی اس چونکا دینے والی تقریر سے اندازہ ہوا کہ انہیں قادیانیت کے موضوع کے ساتھ خصوصی دلچسپی ہے اور اسی مناسبت سے جب ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں گفتگو کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ مولانا موصوف کا شمار بھارت میں قادیانیت کے بارے میں صفِ اول کے مناظر کی حیثیت سے ہوتا ہے، اور نہ صرف یہ کہ وہ گزشتہ نصف صدی کے دوران ستر (۷۰) سے زیادہ کامیاب مناظرے کر چکے ہیں بلکہ ہزاروں قادیانی ان کے دستِ حق پرست پر تائب ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔

مولانا محمد اسماعیل صوبہ اڑیسہ کے امیرِ شریعت اور جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی سربراہ ہیں، جبکہ کچھ عرصہ قبل کل بھارت کی سطح پر مولانا مرغوب الرحمٰن مہتمم دارالعلوم دیوبند کی سربراہی میں قائم ہونے والی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کا انہیں نائب صدر چنا گیا ہے۔

ان کی ولادت ۱۹۱۴ء میں اڑیسہ ضلع کٹک کے ایک گاؤں سونگڑہ کے خاندانِ سادات میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ شاہی مراد آباد میں دینی علوم کی تحصیل کے لیے دو سال رہے۔ وہاں ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ تشریف لائے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ یہ حضرت امام اعظمؒ ہیں۔ صبح بیدار ہوئے تو ایک نئے بزرگ کو دیکھا کہ وہ نماز کی امامت کرا رہے ہیں اور وہی شکل و صورت ہے جو رات خواب میں دیکھی تھی۔ معلوم ہوا کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ہیں۔ مولانا مدنیؒ جو تھوڑی دیر کے لیے مراد آباد آئے تھے، واپس دیوبند چلے گئے، مگر اڑیسہ کے اس سید طالب علم کا دل بھی ساتھ لیتے گئے۔

دوسرے دن یہ مراد آباد کو چھوڑ کر دیوبند کی طرف روانہ ہو گئے اور دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے لیا۔ ۱۹۳۴ء میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے دورۂ حدیث پڑھ کر دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ وہ اڑیسہ میں پہلے فاضل دیوبند تھے۔ اڑیسہ جو پہلے صوبہ بہار کا حصہ ہوتا تھا، ۱۹۳۶ء میں اسے بہار سے الگ کر کے مستقل صوبہ کی حیثیت دے دی گئی۔

مولانا محمد اسماعیل کا مزاج طالب علمی سے ہی مناظرانہ تھا اور اس دور میں بھی دو تین معرکے سر کر چکے تھے۔ اس وقت متحدہ ہندوستان میں مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ آریہ سماج، قادیانیت اور دیگر باطل مذاہب کے خلاف مسلمانوں کے صفِ اول کے مناظر تھے۔ وہ دارالعلوم دیوبند میں طلبہ کو مناظرہ کی تربیت دیا کرتے تھے۔ طلبہ کی ایک تربیتی کلاس میں مولانا محمد اسماعیل بھی شریک ہوئے۔ مزاج مناظرانہ تھا جس پر مولانا چاندپوریؒ کی تربیت نے ایسا رنگ چڑھایا کہ پھر ساری زندگی مناظروں میں ہی گزر گئی۔

طالب علمی کے دور میں ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ دیوبند کے قصبہ کے ساتھ ایک شوگر مل کی تعمیر شروع ہوئی۔ ایک انجینئر تعمیر کے کام کی نگرانی کر رہا تھا جو رافضی تھا۔ طلباء عصر کے بعد سیر و تفریح کے لیے باہر جاتے تو شوگر مل کے پاس سے گزر ہوتا۔ وہ انجینئر حضرات خلفائے ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے بارے میں کھلے عام بدزبانی کرتا اور طلبہ کو دیکھ کر اور زیادہ بھڑک جاتا۔ کئی روز اس سے بحث و مباحثہ ہوا۔ بالآخر مولانا محمد اسماعیل نے ایک روز اسے کہا کہ اگر (معاذ اللہ) حضرت عمرؓ اتنے ہی برے تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی بیٹی حضرت ام کلثومؓ کا رشتہ انہیں کیوں دیا اور پھر نکاح کیوں کر دیا تھا؟ اس انجینئر نے واقعہ کی صحت سے انکار کر اور کہا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ انہوں نے اہلِ تشیع کی معتبر کتاب کافی کلینی کا حوالہ دیا۔ اس نے کہا کہ اگر حوالہ کتاب میں دکھا دو تو میں اپنا مذہب چھوڑ دوں گا۔ یہ دارالعلوم آئے، کتب خانہ میں ’’کافی‘‘ تلاش کی، ساری رات حوالہ ڈھونڈنے کے لیے اس کا مطالعہ کرتے رہے، بالآخر حوالہ مل گیا۔ دوسرے دن اسے جا کر حوالہ دکھایا، اس نے توبہ کر کے سنی مذہب اختیار کر لیا اور پھر ساری زندگی دارالعلوم دیوبند کی معاونت کرتا رہا۔

اسی دور کا قصہ ہے کہ دیوبند میں دیوی کنڈ کے مقام پر آریہ سماج کا سالانہ جلسہ ہوا کرتا تھا۔ کالی چرن اور پنڈت رام چندر اس زمانہ میں آریہ سماج کے معروف مناظر تھے۔ کالی چرن آگرہ کا رہنے والا تھا، عربی زبان کا ماہر تھا اور اس نے قرآن کریم کے مقابلے میں ایک خودساختہ قرآن بنا رکھا تھا جسے وہ استہزاء کے طور پر عام اجتماعات میں پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ رام چندر کم و بیش نصف قرآن کا حافظ تھا۔ ایک سال دیوی کنڈ کے سالانہ اجتماع میں پنڈت کالی چرن تقریر کر رہا تھا کہ اسے سننے کے لیے دارالعلوم کے طلبہ کے ساتھ مولانا محمد اسماعیل بھی چلے گئے۔ طلبہ کو دیکھ کر کالی چرن نے اسلام پر اعتراضات شروع کر دیے۔ جب تقریر ختم ہوئی تو مولانا محمد اسماعیل صاحب کھڑے ہو گئے اور آریہ سماج کے ایک معروف عقیدہ کے حوالے سے سوال کیا۔

آریہ سماج کا عقیدہ ہے کہ خدا، مادہ اور روح تینوں قدیم ہیں۔ یعنی ان میں سے کوئی بھی حادث اور مخلوق نہیں ہے۔ پھر خدا نے روح اور مادہ کا تعلق جوڑ کر یہ کائنات تخلیق کی ہے۔ مولانا محمد اسماعیل کا سوال یہ تھا کہ جب خدا، روح اور مادہ تینوں ایک ہی جیسے قدیم ہیں تو خدا کو روح اور مادہ میں تصرف کرنے اور ان پر حکومت کرنے کا حق کس نے دیا ہے، اور اسے کیا حق تھا کہ وہ ان دونوں پر بالادستی قائم کرے؟

پنڈت کالی چرن نے جواب دیا کہ ایسے ہی جیسے انگریز ہندوستان پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ مولانا محمد اسماعیل نے پوچھا کہ انگریز کی ہندوستان پر حکومت کو تو گاندھی جی ظلم کہتے ہیں اور انگریز ظالم ہے، تو کیا آریہ کا خدا بھی اسی طرح ظالم ہے؟ کالی چرن سے اس کا جواب نہ بن پڑا اور خاموشی کے ساتھ سٹیج چھوڑ کر چلا گیا۔ طلباء جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگاتے ہوئے دارالعلوم واپس آ گئے۔

دوسرے دن آریہ سماج کے جلسہ میں پنڈت رام چندر کا خطاب تھا۔ مولانا محمد اسماعیل طلبہ کے ہمراہ پنڈت کی قیام گاہ پر تقریر سے پہلے پہنچ گئے اور اپنے سوال کا جواب مانگا۔ اس نے جواب دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اپنے استاد کو لاؤ، میں تم طلباء سے بات نہیں کرتا۔ اسی کشمکش میں جلسہ نہ ہو سکا اور پنڈت رام چندر تقریر کے بغیر واپس چلا گیا۔

مولانا موصوف کے دورۂ حدیث کے سال کی بات ہے کہ مجلسِ احرار اسلام نے قادیان میں احرار کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا۔ مولانا محمد اسماعیل اپنے ایک ساتھی مولانا عرض محمدؒ بلوچستانی کے ہمراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے قادیان گئے۔ مولانا عرض محمدؒ کا شمار بعد میں بلوچستان کے سرکردہ علماء میں ہوا۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مجاز تھے۔ انہوں نے کوئٹہ میں بروری روڈ پر مدرسہ مطلع العلوم قائم کیا جو آج بلوچستان کے بڑے دینی مدارس میں سے ہے۔ کافی عرصہ قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے اور اب ان کے داماد مولانا عبد الواحد اور فرزند مولانا حافظ حسین احمد مدرسہ کا نظام چلا رہے ہیں۔

قادیان میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کر کے حکومت نے باہر سے لوگوں کا شہر کے اندر جانا بند کر رکھا تھا۔ فوج اور پولیس نے ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ احرار کانفرنس شہر سے باہر ایک احاطہ میں ہوئی۔ مولانا محمد اسماعیل اور مولانا عرض محمد شہر کے اندر جانا چاہتے تھے مگر ناکہ بندی کی وجہ سے راستہ نہیں مل رہا تھا۔ ایک سکھ سے راہنمائی حاصل کی اور پانی کے نالہ کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے قادیان کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نام نہاد مسجدِ اقصیٰ میں گئے۔ مینارۃ المسیح پر چڑھے، نیچے اترے تو نوجوانی کا جوش غالب آیا۔ چند نعرے لگائے اور تقریر شروع کر دی۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے محمدی بیگم کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی کے معاشقہ اور پھر نکاح میں ناکامی کا قصہ چھیڑ دیا اور مناظرہ کا چیلنج دیا۔ مشہور قادیانی راہنما مفتی محمد صادق مسجد میں آئے، دس پندرہ منٹ بات چیت ہوئی، سوالات ایسے تیکھے تھے کہ مفتی محمد صادق سے جواب نہ بن پڑا۔ پھر ایک اور صاحب سید محمد سرور صاحب آئے اور گفتگو کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اتنے میں پولیس آئی اور مولانا محمد اسماعیل اور مولانا عرض محمد کو زبردستی اٹھا کر قادیان سے باہر چھوڑ آئی۔

یہ معرکہ آرائی تو طالب علمی کے دور میں تھی۔ جب دارالعلوم سے فارغ ہو کر اپنے علاقہ میں واپس پہنچے تو اڑیسہ کے علاقہ میں قادیانی دعوت و تبلیغ کا جال بچھا ہوا دیکھا۔ مرزا بشیر الدین محمود کی پہلی شادی بہار میں ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں بہار اور اڑیسہ اکٹھے تھے۔ علاقہ کے پڑھے لکھے طبقہ میں قادیانیت کا رسوخ بہت زیادہ تھا۔ خود مولانا محمد اسماعیل کے بہت سے اعزہ و اقارب اس جال کا شکار ہو چکے تھے۔ کوشش کی کہ علاقہ میں دعوت و تبلیغ کا کام مستقل بنیادوں پر کر سکیں مگر وسائل اور افراد دونوں کا تعاون نہ مل سکا۔ بالآخر سرکاری ملازمت کر لی۔ سکول میں اردو اور فارسی کی تعلیم کا کام تھا۔ فارغ وقت میں تبلیغی کام اور جمعیۃ علماء ہند کے کاموں میں معاونت کرتے رہے۔

۱۹۳۸ء میں اپنے قصبہ سونگڑہ میں جمعیۃ علماء ہند کی ایک بڑی کانفرنس کرائی جس میں مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ بھی شریک ہوئے۔ یہ سلسلہ ۱۹۴۶ء تک چلتا رہا۔ حتیٰ کہ مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے سرکاری ملازمت چھوڑنے کا حکم دیا اور کہا کہ سارا علاقہ قادیانی ہو رہا ہے اور تم نوکری میں لگے ہوئے ہو، ہم نے تمہیں اس لیے نہیں پڑھایا تھا۔ یہ زمانہ مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاسی کشمکش کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس علاقہ میں مسلم لیگ کا زور تھا۔ مولانا محمد اسماعیل کٹر کانگریسی تھے۔ کٹک سٹی کانگریس کے ایک دور میں صدر بھی رہے۔ کھدر پوش تھے اور کھدر اس دور میں کانگریس کی علامت بن گیا تھا۔

مولانا محمد اسماعیل نے عذر پیش کیا کہ جمعیۃ علماء ہند کا عنوان اور کھدر عام لوگوں کی دلچسپی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، اور اس طرح قادیانیت کے خلاف کام کرنے سے زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔ اس پر مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے کہا کہ تم کھدر بھی چھوڑ دو اور جمعیۃ علماء ہند کا نام بھی چھوڑ دو، مگر قادیانیت کی روک تھام کے لیے کام کرو۔ چنانچہ ’’انجمن تبلیغ الاسلام‘‘ کے نام سے ایک مذہبی تنظیم بنا کر ۱۹۴۶ء میں کام شروع کیا اور قادیانیوں کے ساتھ بحث و مباحثہ اور مناظروں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ کم و بیش ستر سے زیادہ مناظرے کیے اور تقریباً آٹھ ہزار قادیانیوں کو توبہ کرا کے اسلام میں دوبارہ لانے میں کامیاب ہوئے۔

ایک دلچسپ مناظرہ کی روداد یوں ہے کہ قادیان میں مرزا بشیر الدین محمود کو خط لکھا کہ میں آپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہوں۔ مرزا محمود نے رجسٹری جواب دیا کہ میں مناظرہ نہیں کرتا البتہ میرا نمائندہ غلام احمد ہے اس سے مناظرہ کر لو۔ چنانچہ غلام احمد سے مناظرہ ہوا مگر مناظرہ کے دوران سوالات اور اعتراضات کی نوعیت ایسی تھی کہ غلام احمد مذکور گھبراہٹ کے ساتھ بے ہوش ہو گیا اور تقریباً بائیس دن کے بعد اسے ہوش آیا۔

مناظروں اور مباحثوں کے اس سلسلہ نے قادیانیت کی توسیع کا سلسلہ روک دیا اور بالآخر اس علاقہ کو قادیانیت کا مرکز بنانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا، جس کا اعلان خود مرزا بشیر الدین محمود نے ’’الفضل‘‘ میں ان الفاظ سے کیا تھا کہ ’’اب صوبہ اڑیسہ احمدی سٹیٹ ہو گا۔‘‘

مولانا محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ تقسیمِ ہند کے بعد قادیانیوں کا ہیڈکوارٹر پاکستان میں منتقل ہو گیا اور بھارت میں ان کی تبلیغ کا سلسلہ مدھم پڑ گیا، مگر ’’قادیان‘‘ کے بارے میں ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ اس پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے اور پوپ پال کے وٹیکن سٹی کی طرح قادیان کو وہ اپنی خالص ریاست بنا سکیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت کے مرحوم صدر فخر الدین علی احمد نے خود انہیں بتایا کہ آنجہانی سر ظفر اللہ خان ایک بار دہلی آئے اور وزیر اعظم اندراگاندھی کے ساتھ ملاقات کر کے یہ پیشکش کی اگر بھارتی حکومت ’’قادیان‘‘ کا مکمل کنٹرول ان کی جماعت کے سپرد کر دے تو وہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں بھارت کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اندراگاندھی نے اس سلسلہ میں فخر الدین علی احمد سے مشورہ کیا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کی مسلم ریاستوں میں بھی بھارتی حکومت کے بارے میں ناراضگی کے جذبات پیدا ہو جائیں گے اور بھارت کو نقصان ہو گا۔ چنانچہ فخر الدین علی احمد کے اس مشورہ کے بعد اندراگاندھی نے سر ظفر اللہ خان کی پیشکش کو رد کر دیا۔

مولانا محمد اسماعیل نے بتایا کہ چند سالوں سے قادیانیوں نے بھارت کے مختلف صوبوں میں تبلیغ کا کام پھر سے وسیع پیمانے پر شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے دہلی میں مرکز کے قیام کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے جگہ خریدی ہے، اور سادہ اور غریب مسلمانوں کو قادیانیت کے جال میں پھنسانے کے لیے مختلف روایتی حربوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے علماء اسلام نے بھی اپنی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گزشتہ سال دارالعلوم دیوبند میں ختمِ نبوت کانفرنس منعقد کی گئی اور اس موقع پر مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ہند کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا صدر دارالعلوم کے مہتمم مولانا مرغوب الرحمٰن اور نائب صدر مولانا محمد اسماعیل کو بنایا گیا جبکہ مولانا سعید احمد پالنپوری ناظمِ اعلیٰ چنے گئے۔ دیوبند میں مجلس کا مستقل مرکز قائم کیا گیا ہے اور دارالعلوم میں طلبہ کو قادیانیت سے آگاہ کرنے کے لیے تربیتی کلاسوں کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سال رمضان المبارک میں عمرہ کے موقع پر مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ہند کے صدر مولانا مرغوب الرحمٰن نے مکہ مکرمہ میں ملاقات کے دوران پاکستان کے ممتاز عالمِ دین مولانا منظور احمد چنیوٹی کو بھی بھارت کے دورہ اور دارالعلوم میں علماء اور طلبہ کی کلاس کو پڑھانے کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے اور اس سال کے اختتام سے قبل دو ماہ کے لیے بھارت جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بھارت میں قادیانی جماعت کی سرگرمیوں سے ہٹ کر دیگر امور پر بھی مولانا محمد اسماعیل کٹکی سے گفتگو ہوئی۔ مثلاً ان سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ صوبہ اڑیسہ کے امیرِ شریعت ہیں، اور بھارت کے بعض دیگر صوبوں میں بھی سرکردہ علماء کو امیرِ شریعت کہا جاتا ہے، کیا یہ ایک رسمی اور روایتی خطاب ہے یا امارتِ شرعیہ کا کوئی نظام بھی موجود ہے؟

انہوں نے بتایا کہ امارتِ شرعیہ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ہمیں بھارت میں اگرچہ پرسنل لاء میں اسلامی قوانین پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے، مگر ان مقدمات کا فیصلہ کرنے والے ججوں کی اکثریت غیر مسلم ہے، جس سے شرعی احکام و قوانین کے باوجود فیصلوں کے شرعی تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ چنانچہ پنچایت کی طرز پر پرائیویٹ شرعی عدالتوں کا قیام پورے ہندوستان میں کیا گیا ہے جس میں مسلمان نکاح، طلاق اور وراثت کے بارے میں اپنے تنازعات لاتے ہیں اور علماء شرعی احکام کے مطابق ان کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ شرعی پنچایتیں مقامی سطح پر ہیں جن کے قیام اور نگرانی کی ذمہ داری صوبائی امیرِ شریعت پر ہوتی ہے۔ وہ مقامی شرعی پنچایتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کے بھی مجاز ہوتے ہیں۔ ان صوبائی امارتوں کے درمیان رابطہ اور نگرانی کے لیے کُل ہند کی سطح پر امارتِ شرعیہ کا نظام بھی قائم کیا گیا ہے، جس میں امیرِ شریعت بھارت کے بزرگ عالمِ دین اور اس دور کے بہت بڑے محدث مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی ہیں، جبکہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید اسعد مدنی ان کے نائب ہیں۔

صوبہ بہار و اڑیسہ میں یہ نظام بہت پرانا ہے۔ فرنگی حکمرانوں کے دور میں ہی اس علاقہ میں امارتِ شرعیہ قائم ہو گئی تھی۔ پہلے امیرِ شریعت مولانا سجاد احمدؒ تھے جبکہ ان کے بعد سے مولانا منت اللہ رحمانی بہار کے امیرِ شریعت چلے آ رہے ہیں۔ اور اڑیسہ کی امارتِ شرعیہ گزشتہ تیرہ سال سے مولانا محمد اسماعیل کے پاس ہے۔ ان کے علاوہ بنگال میں کلکتہ کے مولانا محمد طاہر، گجرات میں مولانا مفتی عبد الرحیم لاج پوری، اور یوپی میں مولانا معین الدین مراد آبادی اس منصب پر فائز ہیں۔

مرکزی امارتِ شرعیہ کی کوشش ہے کہ پرائیویٹ شرعی عدالتوں کا یہ نظام پورے بھارت میں منظم طور پر پھیلا دیا جائے تاکہ کم از کم پرسنل لاء میں ہی مسلمان اپنے مقدمات کے فیصلے قرآن و سنت کے احکام کے مطابق صحیح طور پر حاصل کر سکیں۔

اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل پر مولانا موصوف سے بات چیت ہوئی مگر اس پچھتر (۷۵) سالہ بزرگ کی گفتگو پر یہی جذبہ حاوی رہا کہ بھارت میں قادیانیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے سدباب کے لیے جدوجہد کو منظم اور تیز تر کر دیا جائے، اور عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کے علماء اور دینی حلقے اس معاملہ میں بھارت کے علماء کے ساتھ تعاون کریں۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت مولانا موصوف کی بڑھاپے کی اس محنت کو بھی جوانی کی جدوجہد کی طرح کامیابی سے ہمکنار فرمائیں۔ آمین یا الٰہ العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter