پہلی نشست
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام علی سید المرسلين وعلى آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین، اما بعد۔
تصوف اور سلوک کیا ہے، اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کا دائرہ کیا ہے؟ یہ اس سلسلہ گفتگو کے عنوانات ہیں۔ آج اس حوالے سے کچھ تمہیدی گفتگو کروں گا کہ تصوف کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے با ضابطہ بات ان شاء اللہ اگلی نشست میں کریں گے۔
اس گفتگو کا پس منظر یہ ہے کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز کا روحانی تعلق نقشبندی سلسلے سے تھا۔ حضرت مولاناحسین علی رحمۃ اللہ علیہ واں بچھراں والےموسیٰ زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان میں نقشبندی سلسلے کی بڑی اور مشہور خانقاہ سے منسلک اور وہاں سے مجاز تھے۔ حضرت والد صاحبؒ نے حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی تھی اور حضرت والد صاحبؒ کو ان سے اجازت بھی تھی ۔ والد محترمؒ عام طور پر بیعت نہیں کیا کرتے تھے، لیکن زیادہ اصرار پر کر بھی لیا کرتے تھے۔ حضرت والد صاحبؒ کے سینکڑوں مرید ہیں ، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ اس طرح ان کا سلسلہ نقشبندی خانقاہ موسیٰ زئی شریف اور حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے قائم ہوا۔ میرا بیعت کا تعلق حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ سے تھا۔ میں نے ان کے ہاتھ پر سلسلہ قادریہ میں طالب علمی کے زمانے میں بیعت کی تھی، ان سے تعلق آخر وقت تک رہا۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں ان سے دریافت کیا کہ حضرت! میرے اسباق سلوک طے نہیں ہوئے ۔تو فرمایا کہ آپ طالب علم ہیں، میں طالب علموں کو دوسری طرف مصروف نہیں کیا کرتا۔وقت گزر گیا۔ پھر ایک زمانہ آیا جب میں جمعیت علمائے اسلام کی تحریکات میں پیش پیش تھا ، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ میرا بڑا تعلق تھا اور ان کے کارندوں میں ایک اہم کارندہ سمجھا جاتا تھا۔ ایک دن میں نے ذکر کیا کہ حضرت! میرے اسباق سلوک نہیں ہوئے۔ طالب علمی کے زمانے میں آپ نے ویسے نہیں دیے تھے، اب کیا حکم ہے؟ سچی بات ہے میں نے سرسری طور پر ہی پوچھا تھا۔ انہوں نے بھی سرسری سا جواب دیا کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں، یہی آپ کا سبق ہے۔ میرا کام ہو گیا، میں نے بھی عافیت محسوس کی۔ اس کے بعد نہ میں پوچھا نہ انہوں نے کچھ فرمایا۔ چنانچہ ان تمام کاموں کو ابھی تک سبق سمجھ کر ہی کر رہا ہوں۔
حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد میں نے سوچا کہ بیعت کا تعلق کہیں نہ کہیں ہونا چاہیے،باقی کام نہیں کم از کم نسبت تو قائم رہنی چاہیےکہ میں کس در سے وابستہ ہوں ۔ اس پر میں نے حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء پر نظر دوڑائی۔ حضرت کے جو خلفاء زندہ تھے اور جن کے ساتھ مناسبت بھی تھی ان میں مجھے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ طبعی مناسبت زیادہ محسوس ہوئی ۔ ان کے ساتھ فکری اور طبعی مناسبت تھی ، کئی مقامات پر ان کی زیارت ہوئی ، ان کی مجلس میں بھی شریک ہوا ہوں۔ذوق بھی تقریباً ایک جیسا تھا، تو میں نے سوچا کہ مجھے اپنے حلقے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اور حضرت مولا نا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اگر قبول فرمالیں تو مجھے ان سے وابستہ ہونا چاہیے۔ مولانا ندویؒ سے میری کئی دفعہ ملاقاتیں ہوئی ہیں، سال میں ایک آدھ دفعہ ملاقات ہو جاتی تھی، کبھی حرم شریف میں اور کبھی لندن میں ، لیکن جب یہ بات سنجیدگی کے ساتھ ذہن میں آئی تو میں نے انہیں لکھنؤ خط لکھ۔ جس میں دو درخواستیں کی تھیں۔
(۱) پہلی درخواست یہ کی کہ حضرت! میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھا، ان کا انتقال ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہے، اب میں چاہتا ہوں کہ اس دائرے میں ہی رہوں اور آپ کے بارے میں میری خواہش ہے، اگر آپ قبول فرما ئیں تو مجھے بذریعہ خط بیعت کر لیں اور اپنی نسبت میں شریک کر لیں۔
(۲) دوسری درخواست یہ کی تھی کہ اپنی سند کے ساتھ مجھے روایتِ حدیث کی اجازت دے دیں تاکہ میں آپ کی سند کے ساتھ حدیث روایت کر سکوں۔ ان کی حدیث کی بہت سی اسناد ہیں تو میں ان سے یہ درخواست کی۔ الحمد للہ مجھے بہت سے شیوخ سے روایتِ حدیث کی اجازت کا شرف حاصل ہے۔ مثلاً شیخ فادانی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو غدۃ رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ناخبی رحمۃ اللہ علیہ۔ جبکہ حضرت والد صاحب رحمہ اللہ اور عم مکرم حضرت صوفی عبدالحمید خان سواتی سے تو اجازت حدیث ہے ہی ، میں نے پڑھا ہی ان سے ہے۔
حضرت مولا نا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں لکھا کہ ملاقات تو ہوتی ہی رہتی ہے، کسی ملاقات میں موقع ملا تو دونوں باتیں کر لیں گے۔ کچھ عرصہ گزر گیا تو میں نے دوبارہ خط لکھاکہ حضرت ! ہماری ملاقات تو ابھی تک نہیں ہوئی اور زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے، لہٰذا آپ مہربانی فرما دیں اور میری درخواست قبول فرما لیں۔ انہوں نے جوابی خط لکھا کہ ٹھیک ہے، میری طرف سے آپ اپنے آپ کو بیعت میں شریک سمجھیں اور آپ کو حدیث کی روایت کی بھی اجازت ہے۔ ملاقات کا موقع ملا تو تجدید کر لیں گے۔مگر اس کے بعد ملاقات نہیں ہو سکی تاہم مجھے اجازت مل گئی الحمد للہ۔میں ان بیعت میں منسلک ہو گیا اور روایتِ حدیث کی اجازت بھی مل گئی۔ حضرت ندویؒ میرے دوسرے شیخ ہیں، اب ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ بیعت کے سلسلہ کے حوالے سے میری لائن یہ تھی۔
ایک دفعہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حج کے لیے گئے ہوئے تھے کہ مکہ مکرمہ میں دوستوں نے توجہ دلائی کہ حضرت! اپنے خلفا کی فہرست دے دیں۔ حضرت والد صاحبؒ نے تمام خلفاء کے نام لکھوائے ، وہ فہرست مفتی جمیل خان شہیدؒ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور والد صاحب کے اس پر دستخط فرما دیے۔ اس فہرست میں میرا نام بھی ہے، یعنی خلفائے مجازین میں حضرت والد صاحبؒ نے میرا نام بھی شامل کر دیا۔ میں نے فہرست دیکھی تو مجھے خوشی ہوئی لیکن خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ الجھن بھی ہوئی۔ میں حضرت والد صاحبؒ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ آپ نے مجھے اپنے خلفاء کی فہرست میں شامل کیا ہے؟ فرمایا ہاں!میں نے کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں تو اس شعبے کا آدمی نہیں ہوں ، یہ بات بالکل واضح ہے کہ میں اس شعبے کا آدمی نہیں ہوں، میری لائن ہی اور ہے۔ والد صاحبؒ نے فرمایا بس میں نے کر دیا ہے ، ٹھیک ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھ سے یہ کام شاید نہ ہو سکے، فرمایا میں نے کر دیا ہے بس ٹھیک ہے۔
اس موقع پر والد محترمؒ نے ایک بات کہی کہ دیکھو میری ایک بات یادرکھنا۔ میں نے بہت موضوعات پر لکھا ہے ،البتہ تصوف پر کچھ نہیں لکھ سکا، حالانکہ لکھنا چاہتا تھا۔ اب یہ کام تم نے کرنا ہے، تم نے تصوف پر ایک کتاب لکھنی ہے۔ مجھے اور زیادہ تعجب ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! میرا یہ ذوق نہیں ہے، میری یہ لائن نہیں ہے۔ فرمانے لگے میرے ساتھ وعدہ کرو کہ لکھو گے ۔ میں نے کہا آپ کا حکم ہے تو وعدہ کر لیتا ہوں۔ فرمایا ٹھیک ہے تم نے تصوف پر کتاب لکھنی ہے، یہ میرے ساتھ تمہارا وعدہ ہے۔
ساتھ ہی فرمایا کہ لکھنے سے پہلے دو کتابوں کا مطالعہ ضرور کر لینا، پھر جو لکھنا ہو لکھنا۔ ایک حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی ” تصوف کیا ہے؟“ اور دوسری حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ”التکشف فی مہمات التصوف“۔ ان دو کتابوں کے نام لے کر فرمایا کہ یہ ضرور پڑھ لینا۔ میں نے کہا اچھا۔ فرمایا اچھا نہیں وعدہ کرو۔ میں نے کہا جی وعدہ ۔ یہ حضرت والد محترمؒ کی وفات سے تقریباًمہینہ ڈیڑھ مہینہ پہلے کی بات ہے۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ تصوف پر کتاب لکھوں گا۔
اس بات کو اب چار پانچ سال گزر گئے ہیں۔ میری ایک کمزوری تو وہ ہے جو میں نے پہلے ذکر کی ہے کہ میں ذوق کے اعتبار سے اس ماحول کا آدمی نہیں ہوں۔ اور میری دوسری کمزوری یہ ہے کہ کتاب لکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میں مضامین لکھنے کا عادی ہوں۔ کوئی لمبے سے لمبا مضمون بھی لکھوں گا تو تین چار قسطوں کا ہوگا۔ میں اس سے زیادہ لمبی چیز لکھنے کا عادی نہیں ہوں، مجھے لکھتے ہوئے پچاس سال ہو گئے ہیں، میرا پہلا مضمون ۱۹۶۳ء میں ماہنامہ ترجمان اسلام میں چھپا تھا۔ تب سے اب تک مضامین ہی لکھتا آرہا ہوں۔ بہت لمبی بات کرنی ہوتی ہے تو بھی چند قسطوں میں لکھ دیتا ہوں ، اس سے زیادہ لکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کتاب کیسے لکھوں، میرا کتاب لکھنے کا ذوق ہی نہیں ہے، مضمون اور کالم لکھنے کا ذوق ہے۔ اس بنا پر میں شش و پنج میں ہوں ۔
کراچی میں نقشبندی سلسلے کے ایک بڑے بزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمتہ اللہ کے رفقاء میں سے تھے ، ان کی کراچی میں خانقاہ ہے۔ ان کی بہت سی کتابیں ہیں، فقہ پر ان کی کتاب ”عمدۃ الفقہ“ معروف ہے۔آپؒ عالم بھی تھے اور روحانی بزرگ بھی تھے۔ ان کے بیٹے مولانا سید فضل الرحمٰن تھے اور ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن ان کے پوتے ہیں۔ ان کا کراچی میں روحانی حلقہ ہے، نوجوان اور فاضل آدمی ہیں، ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں ۔وہ میرے تعاقب میں لگ گئے کہ آپ تصوف پر کتاب لکھیں۔ میں نے حضرت والد صاحبؒ کی وفات پر جو کالم وغیرہ لکھے تھے ان میں کہیں یہ بھی لکھ دیا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ تم نے تصوف پر کتاب لکھنی ہے۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن مجھے کہنے لگے کہ وعدہ پورا کر یں۔ میں نے ٹالنے کے لیے کہا کہ وعدہ تو والد صاحب سے کیا تھا ۔ لیکن وہ ابھی تک میرے ساتھ بضد ہیں کہ آپ کو یہ وعدہ پورا کرنا ہو گا۔
میں نے ان سے اپنا عذر پیش کیا کہ معلومات تو مطالعہ سے آدمی کومل جاتی ہیں، لیکن ان سے کتاب تیار کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مجھ سے کتاب نہیں لکھی جائے گی۔ وہ چونکہ کتابی دنیا کے آدمی ہیں تو کہنے لگے کہ ایسا کرتے ہیں کہ اس موضوع پر کچھ محاضرات کا اہتمام کرتے ہیں، آٹھ دس محاضرات ہو جائیں، ان محاضرات کو قلم بند کر لیا جائے ، اس پر آپ نظر ثانی کر لیں ، اس کو کتابی صورت دے دیں، مجموعہ شائع ہو جائے گا، اس طرح کتاب تیار ہو جائے گی۔ انہوں نے یہ ایک راستہ نکالا ، اور میری سمجھ میں بھی یہ بات آ رہی ہے کہ ٹھیک ہے، اس طرح وعدہ کی تکمیل میرے لیے ممکن ہے۔
ان سے بھی میرا یہ وعدہ ہو گیا۔ وہ مجھے یاد دلاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ آپ کراچی میں ہیں اور میں گوجرانوالہ میں ہوں، محاضرات کہاں ہوں گے؟ اس پر غور وفکر کے بعد اس سال ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایسا کرتے ہیں کہ اس موضوع پر آٹھ دس محاضرات یہیں گوجرانوالہ میں کر لیتے ہیں، وہ ریکارڈ ہو جائیں گے، قلم بند ہو جائیں گے ، اس پر نظر ثانی ہو جائے گی ، تو اس کو کتابی شکل میں شائع کیا جاسکے گا۔
یہ ہے ان محاضرات کا پس منظر، ورنہ میں کہاں ، تصوف و سلوک کہاں ، اور اس پر کتاب کہاں ۔ لیکن بہر حال بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گھیر گھار کر کسی جانب رخ کر دیتے ہیں۔ بدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ تم نہیں لڑنا چاہتے تھے، مگر میں نے لڑ وادیا ۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ نہ تم لڑ نا چاہتے تھے اور نہ کفار لڑنا چاہتے تھے ، انہیں اور تمہیں گھیر گھار کر لے آیا اور دونوں کو لڑوا دیا۔ تو بسا اوقات اللہ تعالیٰ ایسا رخ بنا دیتے ہیں کہ کام کرنا پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ ”کام کرنا پڑ جاتا ہے“ کے درجے میں آج گفتگو کا آغاز کر رہا ہوں ۔ دعا کریں کہ اللہ رب العزت ”کام کرنا پڑ جاتا ہے“ کو کام کرنا“میں تبدیل فرمائیں اور ذوق نصیب فرمائیں ۔
ویسے میرا ارادہ ہے، جی بھی چاہتا ہے۔ تصوف کا عملی ذوق کا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے بحمد اللہ کبھی پیچھے نہیں رہا ۔ الحمد للہ میں تصوف کو دین کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا اور دین کے شعبوں میں سے ایک شعبہ سمجھتا ہوں ، صوفیائے کرام سے میری عقیدت و محبت ہے اور صوفیائے کرام کے ساتھ محبت وعقیدت کے معاملے میں اور خانقاہوں کے ساتھ تعلق میں بڑا خوش فہم واقع ہوا ہوں ۔ یہ خاص اصطلاح ہے ” خوش فہم“ بہر حال اس نسبت سے میں آج گفتگو کا آغاز کر رہا ہوں۔اس کا پس منظر میں نے عرض کر دیا ہے۔
آج تمہیداً ایک بات کہنا چاہوں گا۔ صوفیاء کرام کا ایک مستقل طبقہ ہے۔حضرات تابعین کے دور سے تصوف ، سلوک اور احسان کا آغاز ہوتا ہے۔ رئیس التابعین حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر امام الصوفیاء کے طور پر کیا جاتا ہے کہ آپ تصوف میں امام تھے۔اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ سلسلہ منظم ہوتا گیا۔ تصوف کی بیسیوں شاخیں اور سلوک کے مختلف دائرے ہیں۔ ان میں کچھ قریب قریب ہیں اور کچھ دور دور ہیں۔ تفصیلی بات تو اپنے مرحلے پر آئے گی، لیکن میں آج یہ چاہوں گا کہ ایک سوال کا جائزہ لے لیں۔
عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ تصوف درآمد شدہ چیز ہے، اسلام کی داخلی چیز نہیں ہے بلکہ باہر سے آنے والی چیز ہے ۔ عام طور پر یہ تاثر آج کے جدید تعلیم یافتہ حلقوں میں پایا جاتا ہے کہ تصوف اسلام کے دائرے میں باہر سے آیا ہے، یہ اسلام کے اندر سے پیدا ہونے والی چیز نہیں ہے۔ اس میں ہند و تصوف کا ذکر ہوتا ہے، بدھوں کا ذکر ہوتا ہے، اور جو باہر سے اثرات آئے ہیں ان کا ذکر ہوتا ہے۔ میں اس حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ بات درست نہیں ہے ۔ تصوف کی بنیادیں اسلام کی داخلی چیزیں ہیں۔ تصوف کیا ہے؟ ذکر اذکار ہیں، ایک دوسرے کو خیر کی تلقین ہے ، اعمال کی بیعت ہے، یا کسی خاص کام پر بیعت ہے، یہ سب امور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں شامل ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان اور جہاد سے ہٹ کر اعمال پر بھی بیعت لی ہے۔ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے بیعت فرمائی ہے۔ تصوف کا آغاز تو بیعت سے ہوتا ہے، اور یہ بیعت اعمال پر ہے۔ بیعت علی الاعمال جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حوالوں سے مختلف مواقع پر مختلف کیفیات سے کی ہے۔ مثلاً کسی سے نماز کی پابندی کی بیعت لے رہے ہیں، کسی سے کسی اور حوالے سے کہ یہ کام کرو گے، فلاں کام کرو گے۔ یہ بیعت علی الاعمال یعنی اعمال کی پابندی کی بیعت تھی۔ ایسی بیعت کا ذکر بیسیوں روایات میں موجود ہے۔
اسی طرح ذکر اذکار کی تلقین اور بعض مقامات پر ذکر اذکار کی تعداد کا تعین کہ سو دفعہ پڑھنا ہےیا تین سو دفعہ پڑھنا ہے، یہ بھی حضور صلى الله علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہے۔ آپؐ نے ذکر کی تلقین فرمائی ہے، بعض مقامات پر ذکر کے جملوں کی فضیلت اور برکات بیان فرمائی ہیں، بعض مقامات پر تعداد بھی بتائی ہے کہ یہ اتنی مرتبہ پڑھنا ہے ، یہ اتنی مرتبہ پڑھنا ہے۔ بس یہ باتیں احادیث میں موجود ہیں ۔
اسی طرح جو حلقے مستقل ذکر کے حوالے سے اکٹھے بیٹھتے ہیں، یہ بھی روایات میں آتا ہے۔ اور یہ بات بھی حدیث سے ثابت ہےکہ مجلس اور صحبت کے اثرات ہوتے ہیں۔ مشہور روایت ہے، ایک صحابی حضور صلى الله علیہ وسلم کی مجلس سے نکلے، حضرت صدیق اکبرؓ سے ملاقات ہوئی ۔ وہ صحابی پریشانی کی کیفیت میں تھے ، حضرت صدیق اکبر ؓنے پوچھا کہ کیوں پریشان ہیں؟ انہوں نےعرض کیا حضرت !جب ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہوتے ہیں تو دل کی کیفیت اور ہوتی ہے، جب باہر جاتے ہیں تو وہ کیفیت بدل جاتی ہے۔ کہیں ہم میں منافقت تو نہیں آ گئی؟ وہ صحابی خود اپنے بارے میں کہتے ہیں”نافق حنظلۃ“ کہ حنظلہ منافق ہو گیا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے کہا کہ یہ کیفیت تو میری بھی ہوتی ہے، حضور صلى الله علیہ وسلم کی مجلس میں کیفیت بالکل مختلف ہوتی ہے، گھر جاتے ہیں تو کیفیت بدل جاتی ہے۔ کیفیت بدلنا اگر منافقت ہے تو میرے ساتھ بھی یہی کیفیت ہو جاتی ہے۔ حضرت صدیق اکبر نے فرمایا چلو جا کر حضور صلى الله علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں۔ انہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں ! مجلس کی کیفیت باہر نہیں رہ سکتی، یہ تو ممکن نہیں ہے۔ اگر تمہاری یہی کیفیت باقی رہے تو پھر تو فرشتے تمہیں راستے میں آکر سلام کرنے لگیں ۔ چنانچہ مجلس کی صحبت و رفاقت، ذکر اذکار کی تلقین ، بعض مواقع پر ذکر کا تعین اور بیعت علی الاعمال، یہ ساری باتیں جو تصوف کی بنیاد ہیں یہ روایات میں ، صحابہ کرامؓ کے تعامل اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں موجود ہیں۔
ہاں طریق کار میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ ایک ہے بنیاد اور ایک ہے طریق کار۔ نظم کے طے کرنے میں ، معاملے کو آگے بڑھانے میں اور اس کی تشکیل میں خارجی عوامل آجاتے ہیں، اس سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن یہ عوامل کیسے آئے میں اس کی مثال دینا چاہوں گا۔ علمائے کرام تشریف فرما ہیں۔ ہمارے ہاں جو علم کلام ہے ، عقائد کا بحث مباحثہ ، جسے علم کلام سے تعبیر کرتے ہیں اور آج ہم علم کلام کے حوالے سے ہی پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ یہ اصطلاح اور یہ مباحث بھی خارج سے آئے ہیں مگر ہمارے دینی نظام کا حصہ ہیں ۔
غور کرنے کی بات ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں عقائد پر اس طرح بحث نہیں ہوتی تھی ۔ حضور صلى الله علیہ وسلم نے فرما دیا تو بس ٹھیک ہے، صحابہ کرامؓ نے کوئی بات کہی ، تو ٹھیک ہے۔ عقیدہ یوں ہو تو کیا ہے؟ ایسا ہو تو کیا ہے؟ اس طرح سے ہو تو کیسا ہے؟ صحابہ کرامؓ کے پورے دور میں یہ بحثیں عقائد کے باب میں نہیں ملیں گی ۔ یہ بحث تابعین کے آخری دور میں آئی ہے، جب یونانی فلسفہ مسلمانوں میں متعارف ہوا۔ عقائداور کلامیات کی بحث ہمارے ہاں تابعین کے آخری دور میں آئی جب یونانی فلسفے کے تراجم ہو کر آئے ، ایران سے زرتشتی فلسفہ آیا، اور مسلمانوں کے ماحول میں مختلف فلسفوں کا ہجوم ہوا۔ جب عقائد میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے تو پھر اس وقت کے اہل علم کی اس جانب آہستہ آہستہ دو حوالوں سے توجہ مبذول ہوئی۔ ایک یہ کہ ہمیں اپنے عقائد کا نظام منظم کرنا چاہیے اور دوسرا باہر سے آنے والے شکوک و شبہات کا ہمیں جائزہ لینا چاہیے اور جن شکوک وشبہات کے جواب ضروری ہیں ان کا جواب دینا چاہیے۔ جب ضرورت پیدا ہوئی تو اس سے علم کلام وجود میں آیا۔
حتیٰ کہ ابتدا میں عقائد پر عقلی بحث کو بدعت سمجھا جاتا تھا۔ عقائد پر کلام کو جسے ہم علم کلام کہتے ہیں کہ صفات کی بحث کیا ہے؟ ذات کی بحث کیا ہے؟ وحدۃ الوجود کیا ہوتا ہے؟ ان بحثوں کو بدعت کہا جاتا تھا اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ تھا کہ متکلم کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ، یعنی کلامی ابحاث میں مشغول رہنے کو برا سمجھا جاتا تھا کہ یہ لوگ عقائد پہ بحث ، عقائد پر کلام کیوں کرتے ہیں، آپس میں مناظرے کیوں کرتے ہیں اور عقائد کی تعبیرات پر جھگڑے کیوں کرتے ہیں؟
میں مثال دے رہا ہوں کہ کلامیات یونانی فلسفے سے آئی ہیں، عقائد میں جو کلام کا دخل ہوا ہے، یہ یونانی اور زرتشی فلسفے کے آنے پر ہوا۔ اس سے پہلے ہمارے ہاں کلام کو جدت اور بدعت سمجھا جاتا تھا، اسے نفرت سے دیکھا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ عقائد کی بحث میں کلام کیوں کیا جائے ؟ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے تو بس ٹھیک ہے، اب آگے تم کیا کہتے ہو؟ جب قرآن نے کہہ دیا ہے تو بس کافی ہے۔ اب آگے بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اسے اس نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
لیکن جب یونانی فلسفہ آیا، ایرانی فلسفہ اور مصر کا قبطی فلسفہ آیا اور ہندی فلسفے کا ہمارے ہاں میل جول ہوا تو کلام کی مشکلات پیدا ہوئیں، نئے سوالات ابھرے،شکوک وشبہات پیدا ہوئے ۔ اس عمل میں معتزلہ سب سے آگے تھے۔ ”اعتزال“ ایک پورا مکتب فکر بن گیا تھا۔ ان کے اس زور کو توڑنے کے لیے ہمارے ائمہ ابوالحسن اشعریؒ ، ابو منصور ما تریدیؒ ، ان کے بعد امام غزالیؒ ، ابن رشد اور ابن سینا نے عقائد کی بحث کو اختیار کیا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے پہلے علم کلام کو حاصل کیا، یونانی فلسفے پر عبور حاصل کیا ، اسے سیکھا، اسلامی فکر کی جہاں جہاں ان فلسفوں سے موافقت کی گنجائش تھی ، انہوں نے وہاں وہاں موافقت کی ، جہاں مخالفت کی ضرورت تھی ، وہاں انہوں نے مخالفت کی ۔ اس طرح علم کلام با قاعدہ مرتب ہوا اور آج ہم ساری بحثیں علم کلام کے عنوان سے کرتے ہیں ۔
میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ بالکل یہی معاملہ تصوف کے حوالے سے بھی ہے۔ جس طرح عقائد کی بحثوں میں ہمارا سا منا یونانی فلسفے ، ہندی فلسفے ، ایرانی فلسفے اور قبطی فلسفے سے ہوا، اور ہم نے اس تقابل کی فضا میں اپنے عقائد کا ڈھانچہ مرتب کرنے کے لیے اور باہر سے چیزوں کے دخل کو روکنے کے لیے ایک نظام بنایا ہے۔ تصوف میں بھی بالکل یہی صورت حال پیدا ہوئی۔ تصوف کے حوالے سے ہمارا اپنا نظام قائم تھا، لیکن جب ہند و تصوف نے اور بدھ مت کے تصوف نے یلغار کی تو پھر صوفیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسی طرز پر جس طرز پر علم کلام میں ایک دائرہ قائم کیا گیا تھا، ایک ڈھانچہ کھڑا کیا گیا تھا، اسی طرز کا ڈھانچہ یہاں کھڑا کیا، دائرے قائم کیے اور بحث و مباحثہ کر کے جو باتیں قابلِ قبول تھیں انہیں ساتھ شامل کیا اور جو قابل قبول نہیں تھیں ان کا رد کیا۔ اس میں افراط و تفریط بھی ہوا ہو گا، لیکن اس طرح کا افراط و تفریط عقائد کے معاملے میں بھی ہوا تھا۔ جبکہ جمہور امت ہمیشہ اعتدال اور توازن پر قائم رہی۔
میں نے تمہید کے طور پر اس سوال کا جائزہ لینا چاہا ہے کہ تصوف اور سلوک کے بارے میں یہ تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح مسلمان اہل علم نے علم کلام کی تدوین و ترتیب ، اس کے ڈھانچے کی تشکیل اور سوال و جواب اور شکوک و شبہات رفع کرنے کے لیے ایک ڈھانچہ ترتیب دیا اور علم کلام ہمارے اندر آیا، اسی طرح یہ بات درست ہے کہ بہت سی باتیں تصوف کے ڈھانچے کی تشکیل میں ہندو ازم اور بدھ مت وغیرہ سے آئی ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ تصوف کی بنیاد کسی اور فلسفے پر ہے۔ ہمارے سلوک، تصوف اور احسان کی بنیادیں قرآن کریم کے احکام پر، سنت رسول صلى الله علیہ وسلم پر اور تعامل صحابہ پر ہیں۔ تصوف کی بنیادیں ہماری داخلی ہیں، لیکن ڈھانچے کی تشکیل میں جیسے باقی معاملات میں خارجی اثرات آئے ہیں، یہاں بھی آئے ہیں۔
آج میں نے تمہیداً دو باتیں عرض کی ہیں۔ ایک اس گفتگو کا تھوڑا سا پس منظر عرض کیا اور دوسرا تصوف کے متعلق یہ عرض کیا کہ تصوف خارج سے آنے والی چیز نہیں ہے، یہ مکمل طور پر ہماری داخلی چیز ہے۔ اس کی بنیادیں قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود ہیں ۔ان ہی بنیادوں پر تصوف آگے بڑھا ہے۔ تصوف کیسےآگے بڑھا، اس کے بعد کیا ہوا، یہ باتیں ان شاء اللہ العزیز اگلی نشست میں ذکر ہوں گی ۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
دوسری نشست
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تصوف کے حوالے سے کچھ ابتدائی تمہیدی باتیں اس سے پہلے ہوئی تھیں۔ آج اس پر باضابطہ گفتگو کا آغاز کریں گے، ان شاء اللہ العزیز۔تصوف میں عام طور پر یہ اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں : تصوف ،سلوک اور احسان ۔
علماء لفظ ” تصوف“ کے مختلف مشتقات بیان کرتے ہیں۔ ایک مشتق ”صوف“ بیان کیا جاتا ہے کہ عام طور پر صوفیائے کرام کا ابتدائی زمانے میں لباس اونی ہوتا تھا۔ اس حوالے سے تصوف گڈری پوش اور سادہ لباس پہننے والے کو کہتے ہیں۔
بعض تصوف کا اشتقاق صفا سے یعنی صاف ہونا، دل کو صاف کرنا، نیت کو صاف کرنا ، اعمال کو صاف کرنا وغیرہ قرار دیتے ہیں۔ بعض اہل علم نے اسے ”صفہ“ سے بھی مشق کہا ہے کہ صفہ پر صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت رہتی تھی۔ لیکن عام طور پر صوفی ”صوف“ سے لیا جاتا ہے یعنی کمبل پوش ، سادہ لباس میں رہنے والے۔ یوں تصوف ایک اصطلاح بن گئی ہے، یعنی صوفی بننے والے لوگ۔
”سلوک“ لغت میں چلنے کو کہتے ہیں۔ سلوک کی اصطلاح ہے کہ اس راستے پر چلنا جو آدمی کو صوفی بنادےاور آدمی کو اللہ کے قریب کر دے۔ اور ”احسان“ کا معنی ہے کہ یہ سب کام بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرنا ۔
تصوف ، سلوک اور احسان کا لفظی مفہوم ہے ”سادگی اختیار کرنا، تقرب کے راستے پر چلنا اور اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا۔“
صحابہ کرامؓ اور تابعین کے زمانے میں تصوف ، سلوک، احسان کی باقاعدہ اصطلاحات نہیں تھیں ، البتہ ذکر اذکار، وظیفہ اور تبتل یہ چیزیں موجود تھیں ۔
اس زمانے میں جو اصطلاح عام تھی وہ تبتل کی تھی ۔ قرآن کریم نے رہبانیت کی نفی کی ہے اور اس کے مقابلے میں تبتل کا حکم دیا ہے۔ رہبانیت عیسائی مذہب میں رائج ہو گئی تھی، اس کا ذکر قرآن کریم نے اس لہجے میں فرمایا: ورهبانيۃن ابتدعوها ما كتبنها عليهم إلا ابتغاء رضوان الله فما رعوها حق رعايتها (الحدید: ۲۷)
رہبانیت ہم نے مقرر نہیں کی تھی ، انہوں نے اپنے طور پر ایک طریقہ بنا لیا تھا اللہ کی رضا کے حصول کا، لیکن اس کی رعایت نہیں کر سکے، اس کے
آداب ملحوظ نہیں رکھ سکے ۔
رہبانیت کا تعارف قرآن کریم نے اس دائرے میں کروایا ہے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رہبانیت کی نفی کی ہے :
”لا رہبانیۃ فی الاسلام“ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔
رہبانیت کا ذکر تو قران کریم میں اس انداز میں ہے کہ اس کو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن تبتل کا قرآن کریم حکم دیتا ہے: وتبتل الیہ تبتيلا (المزمل: ۸)
تبتل بھی کنارہ کشی کو کہتے ہیں اور رہبانیت بھی کنارہ کشی کو کہتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم میں ایک کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ اس کا حکم دیا جارہا ہے، جب کہ دوسرے کی نفی کی جارہی ہے۔ رہبانیت اسے کہتے ہیں کہ انسان زندگی کے اسباب اور وسائل کی نفی کر کے، ان سے لاتعلقی اختیار کر کے کنارہ کش ہو جائے ۔ شادی بیاہ، خاندان، کاروبار ، لین دین ہر چیز ختم کر کے انسان جنگل میں جا کر بیٹھ جائے یا جیسے عیسائی گرجے میں بیٹھ جاتے تھے کہ کاروبار نہیں کرنا ، شادی نہیں کرنی اور زندگی کے معمولات سے کنارہ کش ہو جاتے تھے، یہ رہبانیت ہے۔ جب کہ زندگی کے تمام معاملات میں شریک رہ کر کچھ اوقات کو اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے الگ کرنا تبتل ہے۔ آج بھی پرانے مذہبی عیسائیوں میں رہبانیت ہے، بہت سی لڑکیاں شادی نہیں کرتیں۔ شادی کا ترک کر دینا، خاندان کا ترک کر دینا، کاروبار نہ کرنا وغیرہ اس کا نام رہبانیت ہے۔ اسلام نے اسے قبول نہیں کیا۔ تبتل نام ہے زندگی کے تمام ذرائع اختیار کرتے ہوئے کچھ اوقات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ، ذکر اذکار کے لیےاور اپنی اصلاح کے لیے فارغ کر دینے کا۔
خود جناب میں کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت سے پہلے غار حرا میں جایا کرتے تھے۔ بخاری کی روایت کے مطابق جناب نبی کریمؐ اپنے غارحرا کے معمولات کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں کئی کئی دن وہاں گزارتا تھا، کئی راتیں وہاں گزارتا تھا، اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ کھجوریں اور پانی ساتھ لے جاتے تھے، گنتی کے چند ایام وہاں گزارتے ، پھر واپس آتے اور پھر چند دن کے لیے حرا پر چلے جاتے ،لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی بھی تھی ،آپ کے بچے بھی تھے ، آپ کا روبار بھی کرتے تھے، ضرورت کے کام کاج کرتے تھے اور زندگی کی مصروفیات میں سے کچھ وقت اپنے آپ کو الگ کر لیتے تھے، تا کہ کچھ دن یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔
اعتکاف بھی یہی چیز ہے۔ اعتکاف بھی تبتل کی ایک قسم ہے کہ آدمی سب اسباب زندگی رکھتے ہوتے ہوئے دس دن سب چیزوں سے اپنے آپ کو علیحدہ کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اپنے اطمینان وسکون کے لیے دنیا بھر سے علیحدگی اختیار کرتا ہے اور نفلی اعتکاف کی تو کوئی حد نہیں ہے۔ آدمی جب چاہے جتنا چاہے کر سکتا ہے۔
نفسیات والے بھی کہتے ہیں کہ انسان کو زندگی کے جن مسائل کی وجہ سے ٹینشن ہوتی ہے، اگر وہ کچھ دن اپنے ان مسائل کے ماحول سے نکل کر خالی الذہن ہو کر وقت گزارے تو اس سے ٹینشن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ تبتل نفسیاتی مسائل کا بھی حل ہے۔ آدمی الجھنوں ، مسائل اور ٹینشن کے ماحول سے کچھ وقت الگ رہےتو اس سے سکون حاصل ہوتا ہے۔ ماحول تبدیل کرنا، مسائل کی الجھنوں سے نکلنا اور کچھ دن باہر کی آب و ہوا میں گزارنا، نفسیات والے اسے تفریح کا نام دیتے ہیں، ہمارے ہاں ان مسائل کا حل تبتل ہے۔
انسان کا نفسیاتی مسئلہ آج کی دنیا کے بڑے مسائل میں سے ہے،اس لیے تبتل، اپنے اوقات کو فارغ کرنے اور مصروفیات میں سے کچھ وقت نکالنے کے حوالے سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے، بلکہ مغربی دنیا میں میڈیکل کی طرح سائیکالوجی ، سائیکالوجسٹ اور ماہرین نفسیات کا مستقل شعبہ اور نیٹ ورک ہے۔ جسمانی علاج کی طرح نفسیاتی مسائل کے علاج کے باقاعدہ مراکز ہیں۔ ماہرین نفسیات کے پاس لوگ جاتے ہیں اور اپنے نفسیاتی مسائل کے متعلق ان سے رہنمائی لیتے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹروں کا نظام ہے اسی طرح ماہرین نفسیات کا نظام ہے۔ البتہ مسلم معاشروں میں ماہرین نفسیات کم ہیں۔ مسلم معاشروں میں میڈیکل کی طرح سائیکالوجسٹوں کا منظم نیٹ ورک نہیں بن سکا۔ ہمارے ہاں اکا دکا لوگ جاتے ہیں لیکن عام معاشرے میں ماہرین نفسیات کے پاس جانے کا عمومی رجحان نہیں ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے مختلف یو نیورسٹیوں میں کام ہوا ہے ۔ ایک تحقیقی مقالہ میری نظر سے بھی گزرا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلم معاشروں کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے پاس ماحول سے الگ ہو کر کچھ دیر فراغت میں گزارنے کے مقامات موجود ہیں۔ مثلاً مسجد ہے، آدمی کچھ وقت فارغ کر کے اپنے ماحول سے نکل کر وہاں جا کر بیٹھ جائے ،قرآن کریم پڑھے، اپنے خالق کو یاد کرے ، بلکہ مسجد میں وقت گزارنے کی مستقل فضیلت بیان ہوئی ہے۔
ماہر نفسیات یہی کرتا ہے کہ جس ماحول نے انسان کو پریشان کر رکھا ہوتا ہے، اسے اس ماحول سے ذہنی طور پر نکالتا ہے۔ مختلف ایکسر سائز، مختلف مشقوں اور مختلف طریقوں سے اسے ٹینشن کے ماحول سے نکالتا ہے۔ بالکل ایسے ہی ہمارے ہاں اگر آدمی مسجد میں جا کر اعتکاف بیٹھ جائے تو ماحول سے نکل آتا ہےیا تبلیغ کے رستے میں نکل جائے تو بھی اپنے ماحول سے نکل آتا ہے۔ اس سے کم از کم اتنا فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ آدمی اپنے ماحول سے نکل کر تازہ دم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں خانقاہوں کا نظام ہے جہاں آدمی معاشرتی ماحول سے کٹ کر یکسوئی کے ماحول میں وقت گزارتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمانوں کے پاس مسجد کا ماحول موجود ہے ، قرآن کریم کی تلاوت ، ذکر اذکار اور خانقاہ کا ماحول موجود ہے، اس لیے مسلمان اپنا گزارا کر لیتے ہیں، انہیں ماہر نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی، لہٰذا مسلمانوں میں سائیکالوجی کے نیٹ ورک کی ضرورت نہیں ہے، ان کے پاس متبادل سسٹم موجود ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے سائیکالوجی کے سسٹم کو روحانیات کے متبادل کے طور پر لایا گیا تھا، لیکن بن نہیں سکا۔ روحانیات سائیکالوجی کا متبادل نہیں ہے، بلکہ روحانیت اصل ہے کہ روح کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو اور آدمی ذکر اذکار کرے۔ جب کہ سائیکالوجی کا مغربی نظام اس کے متبادل کے طور پر لایا گیا جو مذہب کا نام لیے بغیر انسان کو نفسیاتی سکون مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب مغرب نے روحانیت اور وجدانیات سے لاتعلقی اختیار کی اور الٰہی اخلاقیات سے پیچھا چھڑالیا تو اس کو ضرورت محسوس ہوئی کہ اس خلا کو کیسے پر کریں، اس کی جگہ نفسیاتی علاج کا سہارا لیا گیا اور ماہرین نفسیات کے ذریعے پورا نظام قائم کیا گیا۔ مسلمانوں کے پاس سائیکالوجی کا متبادل نہیں ، بلکہ مسلمانوں کے پاس اصل موجود ہے، اس لیے انہیں متبادل کی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ، اللہ کے ذکر ، روحانیات اور وجدانیات کے ساتھ انسان کا تعلق قائم رہے ، یہ اصل چیز ہے۔ ظاہر اور سیدھی سی بات ہے کہ انسان جسم اور روح دو چیزوں سے مرکب ہے۔ انسان صرف جسم کا نام نہیں ہے ، روح ساتھ ہے تو انسان ہے، ورنہ وہ ایک مردہ جسم ہے۔ مردہ جسم کو کوئی بھی اپنے گھر میں نہیں رکھتا۔ جسم اور روح دونوں کا تعلق ہوگا تو انسان چلتا پھرتا انسان ہے۔ جسم کی اپنی ضروریات ہیں، جب کہ روح کی اپنی ضروریات ہیں۔ میں عام طور پر اس کی مثال دیا کرتا ہوں۔ موبائل آپ کی جیب میں ہے، میری جیب میں بھی ہے۔ سیٹ کی اپنی ضروریات ہیں، سم کی اپنی ضروریات ہیں ۔ سم اور سیٹ مل کر ایک موبائل بنتا ہے۔ اگر سیٹ ہو لیکن کنکشن نہ ہو تو سیٹ کس کام کا ہے؟اگر سم ہو لیکن سیٹ نہ ہو تو سم کس کام کی ہے؟ دونوں ملتے ہیں، دونوں کا جوڑ مو بائل تشکیل دیتا ہے۔ جبکہ سیٹ کی اپنی ضروریات ہیں کہ چار جنگ ہوتی رہے، سم کی اپنی ضروریات ہیں کہ اسے بیلنس ملتا رہے۔ ہم انسان جب کھاتے پیتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں ، سوتے جاگتے ہیں، یہ در اصل سیٹ کی چار جنگ ہے۔ اسی طرح روح کے اپنے تقاضے ہیں، اسے ایکٹیو ہونا چاہیے اور بیلنس ملنا چاہیے۔ اس کے لیے روحانیت کا نظام ہے جو روح کی غذا اور اس کی تازگی کا ذریعہ ہے۔ دونوں کی صورتحال بالکل ایک جیسی ہے۔
مغرب کو مصیبت یہ پیش آئی کہ مغرب نے روحانیات سے انکار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا، وہ اب پر نہیں ہو رہا۔ اس کے لیے انہوں نے نفسیاتی نظام اور سائیکالوجی کا سہارا لیا۔ انسان نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے، یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے، لیکن مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی یاد میں، احکام کی فرماں برداری میں اور ذکر اذکار میں ہے۔
تصوف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانے میں اصطلاحاً نہیں تھا لیکن یہ سارے کام ہوتے تھے ۔ حضرات صحابہ کرامؓ جہاد پر چلے جاتے تھے، کچھ عرصہ ادھر رہے پھر تازہ ہو کر آئے ۔ اسی طرح قرآن کریم اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بے شمار اذکار اور دعائیں ہیں۔ احادیث میں سینکڑوں سے متجاوز دعائیں منقول ہیں۔ مختلف اوقات کے لیے دعاؤں کے مختلف جملےاحادیث میں ملتے ہیں، جن کی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی۔ صبح شام کی دعائیں ، سونے جاگنے کی دعائیں ، کھانے پینے کی دعائیں ، الغرض ہر طرح کی دعائیں احادیث میں مذکور ہیں ، اسی طرح قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کا ذکر، اس کے مختلف جملے اور ان کی باقاعدہ ترتیب اور اوقات کا تعین ۔ یہ سب تصوف ہی ہے ، اگرچہ اصطلاحاً نہ سہی لیکن عمل کے حوالے سے یہ سب تصوف ہی ہے۔ خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ رات کو سوتے وقت دعائیں پڑھتے تھے ، جاگ کر چند دعائیں پڑھتے تھے ، اگر رات کو اٹھتے تھے تو دعائیں پڑھتے تھے ۔ سینکڑوں احادیث ملیں گی جو حضور صلى الله علیہ وسلم کے روز مرہ کے اوراد و وظائف اور معمولات کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ آپؐ سے اتنے اوراد منقول ہیں کہ سب کی پابندی ہمارے لیے عام طور پر مشکل ہوتی ہے، ان میں سے چند کی ہی توفیق مل تو ہمارا کام بن جائے گا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اوراد و وظائف کے اوقات بتلائے ، اسی طرح بہت سے اوراد و وظائف کی تعداد بھی بیان فرمائی ہے ۔ مثلاً یہ ورد تینتیس دفعہ پڑھنا ہے، یہ چونتیس دفعہ پڑھنا ہے، یہ دس مرتبہ پڑھنا ہے، یہ سومرتبہ پڑھنا ہے وغیرہ۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوراد بتائے، تبتل یعنی ان کے لیے کچھ وقت فارغ کرنا بتایا ہے، اور ان کی گنتی بھی بتائی ہے۔ انہی تینوں چیزیں یکجا کریں تو تصوف بن جاتا ہے۔ اس لیے تصوف کوئی نئی اختراع نہیں ہے۔بعض دوستوں کو اشکال ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں تصوف کی اصطلاح نہیں تھی ، اب کدھر سے آ گئی ہے ۔ میں عرض کرتا ہوں کہ دیکھیں، ہم عقائد کے علم کو ”علم الکلام“ کہتے ہیں ۔ اعتقادات کا علم صحابہ کے زمانے میں کتابی شکل میں مدون و مرتب نہیں تھا۔ اس وقت اعتقادات کے علم کی کوئی اصطلاح موجود نہیں تھی۔ علم الکلام کی اصطلاح صحابہ اور تابعین کے دور میں نہیں تھی۔ اتباع تابعین کے دور میں کلام کا لفظ آیا ہے اور شروع میں اس لفظ کو مستر د کیا گیا۔ متقدمین تابعین متکلمین سے کراہت کرتے تھےکہ کیا عقیدے کی بحث چھیڑ دی ہے، عقیدہ بھی کوئی بحث کی چیز ہے؟ صحابہ کرام اور کبار تابعین کے دور میں عقیدے کی بحث کو بدعت کہا جاتا تھا۔ عقائد میں بحث کی ضرورت تب پیش آئی جب یونانی ، ایرانی اور ہندی فلسفہ آیا۔ ان فلسفوں نے مسائل کھڑے کر دیے، مسلمانوں کے عقائد میں شکوک و شبہات کی دراڑیں ڈال دیں۔ چنانچہ ان پر بحث مباحثے کی ضرورت پیش آئی۔ امام ابو یوسفؒ سے ایک فتویٰ منقول ہے کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے کیونکہ وہ بدعتی ہے، خواہ مخواہ عقیدے کی بحث کرتا ہے۔ ان کے دور تک تو یہ صورت حال تھی لیکن اب ہم سب سے زیادہ بحث عقیدہ کی کرتے ہیں۔ قرآن کریم یا حدیث پڑھاتے ہوئے سب سے پہلے بحث عقائد اور ان کی تعبیرات پر ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ وقت کی ضرورت بن چکی ہیں ۔
ہم اس بات سے صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح عقائد کے باب میں کلام کی اصطلاح ضرورت کے تحت بعد میں آئی ہے، محض تعارف کے لیے ، بالکل اسی طرح تصوف کی اصطلاح بھی ضرورتاً بعد میں آئی ہے۔ جب ہندی تصوف آیا تو اس میں یوگا وغیرہ کی اصطلاحات تھیں ۔ ان کے سامنے آنے پر جب معاملہ گڈمڈ اور گڑ بڑ ہوا تو تصوف کو الگ کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہماری اصطلاح اور ہمارا دائرہ یہ ہے۔ ورنہ ریاضتیں ہندوؤں میں ہم سے زیادہ ہیں، بدھوں میں ان سے زیادہ ہیں۔ خلوت میں چلے جانا ، ذکر اذکار کرنا، ایک پاؤں پر کھڑے رہنا ، وظیفہ اور مراقبہ کرنا ، ان میں یہ چیزیں ہم سے کہیں زیادہ ہیں ۔ ہندوؤں اور بدھوؤں کی ریاضتیں آپ دیکھیں تو دنگ رہ جائیں گے ۔ لیکن جب معاملات گڈمڈ ہوئے تو بحث مباحثہ بھی ہوااور اس کو الگ کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے۔
اس معاملے میں افراط و تفریط بھی ہو جاتا ہے، اس سے میں انکار نہیں کرتا۔ جس طرح عقائد میں افراط تفریط ہوا، یونانی فلسفے، ایرانی، مصری اور ہندی فلسفے کے ساتھ عقائد میں افراط و تفریط کی وجہ سے کئی گروہ بن گئے ، اسی طرح جب ریاضت ، سلوک اور مجاہدے کے مختلف فلسفے گڈ مڈ ہوئے تو یہاں بھی اس طرح بہت افراط و تفریط ہوئی ہے۔ لیکن ان میں سے اہل علم ، اہل فضل اور اہل خلوص نے چھانٹی کر کے دائرے متعین کیے کہ یہ ٹھیک ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ زیادتی ہے ، اور اس میں کمی رہ گئی ہے وغیرہ ۔ جس طرح باقی معاملات میں چھانٹی ہوئی ہے اس میں بھی چھانٹی ہوئی ہے۔
لیکن میں نے بنیادی بات یہ عرض کی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو روح کی تازگی کے لیے، اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے، الا بذكر الله تطمئن القلوب (الرعد : ۲۸) کی منزل حاصل کرنے کے لیے، اطمینان قلب حاصل کرنے کے لیے، روحانیات کا جو علم اس وقت غیر مرتب اور غیر مدون شکل میں تھا، اس کو جب مدون کیا گیا تو وہ تصوف بن گیا۔ اسی طرح جس طرح اعتقادات سے علم کلام بن گیا۔ یہ تصوف کی اصطلاح کا تھوڑا سا پس منظر میں نے عرض کیا ہے۔
میں نے ابتدائی گفتگو میں عرض کیا تھا کہ تصوف کا ماخذ بیرونی نہیں ہے، بلکہ اندرونی ہے۔ اسی طرح جس طرح علم کلام کا ماخذ باہر سے نہیں ہے، اندر سے ہے۔ باہر سے جو فلسفے آئے ، ہم نے ان سے بحث مباحثہ کیا، شاید کچھ چیزیں قبول بھی کی ہوں ، لیکن ہم نے اس کی چھانٹی بھی کی ہے۔
بالکل اسی طرح تصوف میں باہر سے جو فلسفے آئے ، وہ ہمارے علوم وفنون کے ساتھ گڈ مڈ ہوئے، ہم ان میں افراط و تفریط کا شکار بھی ہوئے، لیکن پھر ان کی چھان پھٹک کی گئی اور جب یہ معاملہ اہل علم صوفیاء کے ہاں آیا تو وہ مستقل فن اور علم کی شکل اختیار کر گیا۔
میں نے ایک بات یہ عرض کی ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو رد کیا ہے اور تبتل کو نہ صرف قبول کیا ہے، بلکہ اس کا حکم دیا ہےاور یہ حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کی سنت ہے۔اور میں نے تبتل اور رہبانیت میں یہ فرق عرض کیا کہ رہبانیت زندگی کے اسباب و وسائل سے کنارہ کش ہو کر بالکل الگ ہو جانے کا نام ہے۔ جبکہ تبتل زندگی کے سارے وسائل کو اختیار کرتے ہوئے اور زندگی کے معاملات نمٹاتے ہوئے اپنے کچھ اوقات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اپنی ذہنی صفائی کے لیے الگ کر دینے کا نام ہے۔
یہ اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ قرآن کریم نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرائض منصبی بیان کیے ہیں۔
يثلوا عليهم أيتہ ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحکمۃ (الجمعۃ: ۲)
حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا سب سے پہلا کام قرآن کریم کی تلاوت کرنا ہے۔ یعنی قرآن کریم کے الفاظ ، لہجہ اور قرآن کریم کی قرأت لوگوں تک پہنچانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا فریضہ ہےاور ”یتلوا علیھم اٰیاتہ“ آپؐ کا مستقل منصب تھا۔ تلاوت اور قرأت میں ناظرہ بھی آتا ہے، تجوید بھی آتی ہے اور حفظ بھی آتا ہے۔
اسی طرح ”یعلمھم الکتاب“ بھی حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا مستقل منصب ہے۔ قرأت اور تعلیم دو الگ الگ مستقل مناصب نبوی ہیں۔ تعلیم میں حدیث بھی ہے ، فقہ بھی ہے، سارے علوم دینیہ اس میں شامل ہیں۔
” والحکمۃ“ سے مراد تفقہ ہے، یعنی دانش اور زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانا۔
اور ”یز کیھم“ یعنی تزکیہ ۔ جس کا معنی تربیت ہے، یہ مستقل منصب نبوت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں مناصب تلاوت، تعلیم، تزکیہ اور حکمت و دانش الگ الگ مستقل کام ہیں۔
پھر تربیت کے تین الگ الگ دائرے ہیں۔ دینی تربیت ، اخلاقی تربیت اور روحانی تربیت۔ دینی تربیت کا دائرہ یہ ہے کہ قرآن کریم ، حدیث نبوی اور مسائل پڑھا دیں۔ اخلاقی تربیت کا دائرہ یہ ہے کہ ذاتی اخلاق سکھائیں ، جھوٹ، غیبت ، لالچ وغیرہ خصائل رذیلہ سے بچانا، سچ ، امانت داری، خلوص، قناعت پسندی وغیرہ جیسے اخلاق حسنہ اپنا نا اور ایک صحیح مسلمان کے طور پر زندہ رہنے کا سلیقہ دینا۔ اسی طرح روحانی تربیت کا مستقل دائرہ ہے۔ روحانی تربیت یہ ہے کہ انسان کی روح تازہ دم اور پر سکون رہے، جو کہ ذکر اذکاراور اللہ تعالیٰ کی یاد کے ذریعے ہوتی ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض زبانی اذکار کا حکم نہیں دیا، بلکہ تفکر کی دعوت بھی دی ہے کہ آدمی کچھ دیر الگ ہو کر بیٹھے ، سوچے اور غور وفکر کرے۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ معمولات مستقل طور پر تھے۔ حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرامؓ کے کیا معمولات تھے ، اس حوالے سے بہت سے واقعات منقول ہیں ، جن میں سے دو حوالے دینا چاہوں گا۔ ۔
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مسجد نبوی میں بیان فرمایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا کہ حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم نے چار عمرے کیے ہیں اور چاروں رجب میں کیے ہیں۔ اس بات کی کسی ساتھی نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تصدیق چاہی تو ام المؤمنینؓ کو آواز دی۔ آپؓ اپنے صبح کے وظائف اور تسبیحات میں مصروف تھیں،اس لیے جواب نہیں دیا۔ جب وظائف سے فارغ ہوئیں تو آواز دی، کس نے سوال کیا تھا؟ اور ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بندےعبد اللہ بن عمر ؓ کو مغالطہ ہو گیا ہے۔ یہ حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کے چاروں عمروں میں شریک تھے ، حضور صلى الله علیہ وسلم نے ایک عمرہ بھی رجب میں نہیں کیا ۔
لیکن جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ جملہ ہے کہ حضرت عائشہؓ سے سوال کیا گیا، وہ اپنے وظائف میں مصروف تھیں تو جواب نہیں دیا۔ مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کے ایسے معمولات تھے کہ وہ ذکر اذکار کے لیے کچھ وقت فارغ کر لیا کرتے تھے اور اس میں اور کوئی کام نہیں کرتے تھے ، آدھ پون گھنٹہ یا جتنا کسی کا معمول ہوتا تھا، اس کی پابندی کرتے تھے۔
امام بخاریؒ کی ”الادب المفرد“ میں روایت ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بنت الحارث کہتی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح میرے پاس سے گھر سے نکلے تو میں نماز پڑھ کر اپنی تسبیح میں مصروف تھی ۔ حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم مسجد گئے ،نماز پڑھائی ۔ جب اشراق سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں ادھر ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اللہ اللہ کر رہی تھی اور وظائف میں مصروف تھی۔ حضور نبی کریمؐ نے دریافت فرمایا ابھی تک بیٹھی ہوئی ہو، ابھی تک اسی مجلس میں ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس مجلس میں ہوں، اللہ اللہ کر رہی ہوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خدا کی بندی! اتنا لمبا بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی ، فرمایا کہ میں نے چار جملے پڑھے ہیں، وہ تمہاری ساری تسبیح سے بھاری ہیں ۔ پھر وہ جملے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کو سکھائے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کا حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کے زمانے میں یہ معمول تھا کہ اپنے اوقات میں سے کچھ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد ، وظیفے اور ذکر اذکار کے لیے فارغ کر لیتے تھے۔ اس نے آگے چل کر ترقی کی اور ایک مستقل شعبہ بن گیا۔ دین کے جتنے بھی شعبے ہیں، صحابہ کرامؓ سے ان کے واقعات اور ان کی بنیادیں ملتی ہیں۔
حدیث جبریل مشہور روایت ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا۔ ما الاسلام؟ اسلام کیا ہے؟ ما الایمان؟ ایمان کیا ہے؟ ما الاحسان؟ احسان کیا ہے؟ احسان کا لفظی معنی ہے اچھا کر دینا۔ اور احسان کا مفہوم ہے کسی عمل میں حسن پیدا کرنا اور اسے بہتر سے بہتر بنانا۔ فرمایا نماز تو اسلام کا حصہ ہے، لیکن نماز کا احسان یہ ہے کہ اسے اتنے اچھے طریقے سے پڑھیں گویا خدا کے رو بروکھڑے ہیں۔ قلبی کیفیات کو ترقی دینا احسان ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی جو تعریف کی ”ان تعبد الله کانک تراه ان لم تكن تراه فانہ یراک“اس کا ہم دوسرے لفظوں میں معنی یہ کریں گے کہ اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا اور اعمال کے پیچھے جو کیفیات ہیں انہیں بہتر سے بہتر بنانا احسان ہے۔ نماز میں کھڑے ہو کر تمہارے دل کی کیفیت یہ ہو کہ جیسے میں خدا کو دیکھ رہا ہوں ۔ اور اگر تم نہیں دیکھ رہے تو خدا تو دیکھ ہی رہا ہے۔
ان دونوں میں سے کوئی کیفیت ہمیں نصیب ہو جائے تو ہماری نمازوں میں حسن آ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کریں کہ پہلی کیفیت نصیب ہو جائے ، وہ نہیں ہوتی تو دوسری تو ہے ہی، ہم نے دوسری کیفیت خود پیدا نہیں کرنی، وہ تو دیکھ ہی رہا ہے، بس اس کا یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہماری محنت پہلی کیفیت پر ہونی چاہیے کہ ہم اپنی یہ کیفیت پیدا کر دیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ بہر حال ان دونوں میں سے کوئی کیفیت بھی ہماری نماز میں آ جائے تو ہماری نماز صحیح معنی میں نماز بن جائے۔
میں نے احسان کا معنی کیا ہے کہ اپنے عمل کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا ، اور اپنے دل کی کیفیات کو اتنا عمدہ بنانا کہ جس کا انتہائی درجہ حضور صلى الله علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے”ان تعبد اللہ کانک تراہ“
تصوف کی اگلی منزل سلوک ہے ۔ میں نے تین اصطلاحات کی بات کی ہے کہ ان کا ماخذ سنت رسول صلى الله علیہ وسلم اور تعامل صحابہ ہے۔ اوراد و وظائف کا اہتمام، اوراد و وظائف کے لیے اپنے اوقات کو فارغ کرنا اور اپنی روح اور دل پر محنت کرنا ان تینوں کا ماخذ یہی ہے۔
عجیب اتفاق کی بات ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے جسم کا مرکز دل کو قرار دیا ہے۔
”ان فی الجسد مضغۃاذا صلحت صلح الجسد كلہ واذا فسدت فسد الجسد كلہ“
جسم میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے ، جب یہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح ہوتا ہے ، اگر اس میں خرابی آ جائے تو سارے جسم میں خرابی آ جاتی ہے ۔ میڈیکل کے مطابق بھی انسانی جسم میں دل ایک انتہائی حساس عضو ہے۔ اس کا وزن ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو ڈاکٹر خصوصی وارڈ میں بھجوا دیتے ہیں کہ اس کا دل بڑھ گیا ہے۔اور یہی بات ڈاکٹر صاحبان اور میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ سارے جسم کا مدار دل کی حرکت پر ہے۔ وہ نارمل ہے تو سارا جسم نارمل ہے، دل نارمل نہیں ہے تو سارا جسم اب نارمل ہے۔ انسان بیمار ہو، آپریشن کرنا ہو تو ڈاکٹر سب پہلے دل چیک کرتے ہیں کہ دل متحمل ہے یا نہیں، ساری بیماریوں میں زیادہ ترجیح دل کو دیتے ہیں۔ دل کی کیفیت اگر آپریشن کی متحمل ہو تو آپریشن کرتے ہیں ورنہ نہیں کرتے۔
سارے جسم کو خون پہنچانے کے لیے دل کا صحیح کام کرنا ضروری ہے۔ جسمانی طور پر بھی انسان کی بہتری کا مدار دل پر ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انسان کی روحانی بہتری کا مدار بھی دل پر ہے۔دل کی کیفیات ٹھیک ہیں تو سارا معاملہ ٹھیک ہے، دل کی کیفیات ٹھیک نہیں تو سارا معاملہ گڑبڑ ہے۔ ڈاکٹر صاحبان ہارڈ ویئر اور سیٹ کی بات کر رہے ہیں، جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سافٹ ویئر اور سم کی بات کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان کہتے ہیں سیٹ اگر صحیح کام کرتا ہے تو باقی جسم بھی ٹھیک ہے، جبکہ شریعت یہ دیکھتی ہے کہ دل کے اندر جو پروگرام فیڈ ہوا ہے، وہ کیسا ہے؟ کیونکہ فیڈنگ تو دونوں طرف سے ہوتی ہے۔جوکہ پیدا ہوتے ہی نہیں، بلکہ پیدا ہونے سے پہلے ہی طے کر دی جاتی ہے۔
بخاری شریف کی روایت ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں نطفہ ٹھہر جانے کے بعد تین مرحلے، تین چلے گزار لیتا ہے، چار مہینے پورے کر لیتا ہے تو اس کی روح کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور ماں کے پیٹ میں روح کا کنکشن دینے سے پہلے فرشتہ پوچھتا ہے، یا اللہ! نیا کنکشن دینا ہے”کم عمرہ؟ یہ کتنی مدت کے لیے جارہا ہے؟ ” ما رزقہ“ اس کے لیے رزق کا کتنا کو ٹا منظور کیا جائے؟ ”شقی ام سعید“ اس کی کیٹا گری کیا ہے خوش قسمت ہے یا بدقسمت؟ پہلے ہر بچے کی فائل بنتی ہے پھر روح کا کنکشن ملتا ہے۔ یہ ساری باتیں یعنی عمر ، رزق وغیرہ فائل میں لکھ کر پھر کنکشن جاری کیا جاتا ہے۔ آج کے سائنس دان اس کنکشن کو جین کا نام دیتے ہیں۔ ہر آدمی کے جینیاتی سسٹم میں اس کے متعلق مکمل معلومات موجود ہیں۔ یعنی انسان میں جو پروگرام فیڈ کیا گیا ہے، انسان اس کے مطابق چلتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ہم جین تک پہنچ گئے ہیں لیکن اس کا کوڈ ہم سے نہیں کھل رہا۔ جس دن جین کا کوڈ کھل گیا پھر ہم بتا سکیں گے کہ ان صاحب کی عمر چالیس ہوگی یا پینتالیس سال۔ اس میں سب کچھ لکھا ہوا ہے، فائل بنی ہوئی ہے۔
میں اس سے ہٹ کر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم نے اس حدیث میں ایک اور بات یہ فرمائی کہ ایک طرف فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے اور دوسری طرف شیطان کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔ روح کا تعلق جسم سے قائم ہوتے ہی دو سمیں فیڈ ہو جاتی ہیں۔ اب انسان کی مرضی ہے کہ وہ کون سی سم استعمال کرتا ہے۔ جب انسان دنیا میں آتا ہے تو حدیث کے مطابق پیدا ہوتے ہی شیطان اس کو مس کر کے اپنا کنکشن جوڑتا ہے، صرف ایک آدمی کو شیطان مس نہیں کر سکا، عیسی ابن مریم علیہ السلام کو ۔ بعض روایات کے مطابق حضور صلى الله علیہ وسلم کو بھی مس نہیں کیا ، لیکن بہر حال حضور صلى الله علیہ وسلم کے ساتھ تو شیطان تھا۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمؐ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! آپ کے ساتھ بھی شیطان ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں! مگر میں نے اسے قابو کیا ہوا ہے۔ شیطان کی ڈیوٹی حضورؐ کے ساتھ بھی تھی، لیکن آپؐ نے اسے قابو کیا ہوا تھا۔
میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ اخلاقی تربیت، روح کی تربیت ، تازگی اور روح کے لیے غذا فراہم کرنے کے جتنے طریقے حضور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم نے بتائے ہیں انہیں ایک نظم اور سسٹم کے تحت لانے کا نام سلوک ہے۔ اس پر مزید بات اگلی نشست میں کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
تیسری نشست
ابھی ہم اسی مرحلے میں ہیں کہ تصوف کی اصل جڑیں کہاں ہیں؟ آج تصوف کا پورا ایک نظام ہے، اس کے بہت سے پہلو اور بہت سی صورتیں ہیں۔ میں نے سابقہ نشستوں میں گزارش کی تھی کہ جس طرح دینی علوم کے باقی شعبے بعد میں منظم ہوئے ہیں، لیکن ان کی اصل جڑیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں موجود تھیں، تصوف کی نوعیت بھی ایسے ہی ہے۔ مثال کے طور پر علوم حدیث بعد میں منظم ہوئے ہیں ۔ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں علوم حدیث اس صورت میں موجود نہیں تھےکہ علم حدیث کیا ہے؟ سند کیا ہوتی ہے؟ اس کے قواعد وضوابط کیا ہیں؟ یہ تمام مسائل و مباحث دوسری تیسری صدی میں مکمل ہوئے ہیں ، اس سے قبل اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس کی ضرورت بعد میں محسوس کی گئی ، اور جب ضرورت محسوس کی گئی تو اسے مرتب اور مدون کر لیا گیا۔ اسی طرح علم کلام بھی بعد میں مرتب ہوا ہے، صحابہ کرام کے دور میں یہ عقائد کا علم ” علم کلام “کے نام سے نہیں تھا، نہ اس کے یہ قواعد وضوابط اور تفصیلات تھیں۔
میں نے گزارش کی تھی کہ علم کلام کی ضرورت اس وقت پیش آئی ، جب باہر کے فلسفے اسلام میں شامل ہونے لگے۔ یونانی فلسفہ اور ہندی فلسفہ وغیرہ جب اسلامی ماحول میں شامل ہونے لگے تو ان میں امتیاز کے لیے اور ان کو اسلام سے الگ ظاہر کرنے کے لیے مسلم مفکرین کو کچھ اصول وضوابط وضع کرنے پڑے۔ اسی طرح اصول حدیث کا عنوان بھی دوسری ، تیسری صدی کی بات ہے۔ اصول فقہ بھی دوسری ، تیسری صدی کی بات ہے۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین کے زمانے میں یہ تقسیم تھی اور نہ ضابطہ بندی تھی اور نہ ہی علوم کی الگ الگ تشکیل تھی ، کہ یہ علم الگ ہے، یہ الگ ہے، بلکہ سب علوم یکساں تھے۔ ان کے درمیان درجہ بندی اور ضابطہ بندی بھی نہیں تھی کہ یہ قاعدہ ہے، یہ ضابطہ ہے۔ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا ہے، علوم کی تقسیم کا ر اور ضابطہ بندی ہوتی گئی ہے، اور علوم کے ارتقاء کا فطری طریقہ یہی ہوتا ہے۔
بہت سے دوستوں کو اشکال ہوتا ہے کہ تصوف صحابہ کرامؓ کے زمانے میں نہیں تھا، اب کہاں سے آگیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ علم کلام بھی صحابہ کرام کے زمانے میں نہیں تھا، یہ کہاں سے آگیا ہے؟ اصول حدیث ، اصول تفسیر اور اصول فقہ بھی صحابہ کرام کے زمانے میں نہیں تھے۔ یہ تمام اصول اور علوم بعد میں مرتب ہوئے ہیں، جوں جوں ضرورت پڑتی گئی، علوم وفنون مدون ہوتے چلے گئے ۔ پہلی صدی میں اس سارے عمل کی بنیاد یں تو ملتی ہیں لیکن ان علوم کی تقسیم اور تفصیلات اس عہد میں موجود نہیں تھیں ۔ دوسری اور تیسری صدی میں اس سلسلے میں دو کام ہوئے ہیں، ان علوم کی تقسیم اور ان کی قاعدہ بندی، ضابطہ بندی یہ دونوں کام اتباع تابعین کے دور میں اور اس کے بعد کے دور میں ہوئے ہیں ، اور ان کی ضرورت بھی تب ہی پیش آئی ہے، اس سے پہلے اس درجہ بندی کی ضرورت نہیں تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے علم کلام، علم حدیث، علم فقہ اور اصول فقہ آہستہ آہستہ مدون ہوتے گئے، لیکن ان سب کی بنیادیں قرآن و حدیث میں اور صحابہ کے دور میں موجود ہیں، جبکہ ان کی ترتیب و تدوین اور ارتقاء بعد میں ہوا ہے ۔
حتیٰ کہ تابعین کے زمانے میں تصوف اور عقائد دونوں فقہ کا شعبہ شمار ہوتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ صغار تابعین میں سے ہیں۔ آخری دور کے تابعین میں امام صاحبؒ کا شمار ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فقہ کی تعریف اس طرح کرتے ہیں : ”معرفۃالنفس مالها وما عليها“ فقہ کی جو تعریف آج مروج ہے، یہ امام صاحبؒ کے دور کی نہیں ہے۔ ہم احکام اور قوانین کو فقہ کہتے ہیں ، جبکہ امام صاحبؒ نے فقہ کی یہ تعریف نہیں کی ۔ انہوں نے فقہ کی تعریف اس طرح کی : معرفۃالنفس مالها وما عليها“ ایک انسان کی جو ذمہ داریاں اور جو اس کے حقوق ہیں، عمومی دائرے میں ، ان کو پہچاننے کا نام فقہ ہے۔
اس تعریف میں تین باتیں شامل تھیں۔ امام غزالیؒ نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے کہ تابعین کے دور تک فقہ تین علوم پر مشتمل ہوتی تھی۔ اس دور میں جب فقہ کا لفظ بولا جاتا تھا تو اس سے صرف احکام مراد نہیں ہوتے تھے۔ یہ اختصاص بعد میں ہوا ہے، اتباع تابعین کے دور میں اور ائمہ کے بعد کے دور میں یہ اختصاص ہوا۔ تابعین کے دور میں فقہ کا لفظ تین شعبوں پر بولا جاتا تھا:
(۱) عقائد پر فقہ کا لفظ بولا جاتا تھا، جسے فقہ العقائد کہا جاتا تھا۔
(۲) جس کو ہم فقہ کہتے ہیں، اس کو اُس وقت فقہ الاحکام کہتے تھے۔
(۳) فقہ النفس کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اپنے خدا کو پہچانے ، یہی علم تصوف ہے۔
اس زمانے میں تینوں شعبے عقائد، تصوف اور فقہ کا معروف شعبہ فقہ میں شامل تھے، تینوں فقہ کے شعبے تھے۔ فقہ العقائد، فقہ العبادات والاحکام، اور فقہ النفس۔ اگر موقع ملے تو امام غزالیؒ کی یہ بحث ضرور پڑھیں ، وہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں نے فقہ کو احکام میں بند کر دیا ہے، حالانکہ اس کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس حکم کے پیچھے عقیدہ کیا ہے، یہ بھی بیان کرنا چاہیے اور اس حکم کے بعد اس کی عملی تربیت کیا ہے، یہ بھی بیان ہونا چاہیے۔ امام غزالیؒ کا اپنا ایک موقف ہے، انہوں نے اس پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے کہ یہ قوانین ہیں، ان کے پیچھے عقیدہ یہ ہے، اور یہ قوانین ہیں ، ان کی عملی تربیت یہ ہے۔ عقید ہ ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے اور عملی تربیت ،تربیت نفس اور اصلاح نفس سے متعلق ہے۔
میں نے یہ بات اس لیے عرض کی ہے کہ تابعین کے زمانے تک تصوف کے مسائل موجود تھے ، لیکن اصطلاح نہیں تھی اور یہ فقہ کا شعبہ شمار ہوتا تھا، اس کو فقہ النفس کہا جاتا تھا کہ انسان کے نفس اور ذات کے بارے میں جو احکام و مسائل اور اصلاح کے ضابطے ہیں یہ فقہ النفس ہیں اور یہ باقاعدہ فقہ کا حصہ شمار ہوتا تھا۔ چنانچہ دیکھیں کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جو عقائد پر رسالہ لکھا اس کا نام ”الفقہ الاکبر“ یہ رسالہ عقائد کا ہے اور اس کا نام ہے الفقہ الاکبر، یعنی عقائد کی فقہ بڑی فقہ ہے، اس زمانے کی اصطلاحات یہ ہیں ۔
اس زمانے میں عقائد کو عام طور پر توحید اور صفات کا علم اور ایمانیات کا علم کہا جاتاتھا۔ چنانچہ آج بھی محدثین کے ہاں اصطلاحات اور ہیں، جبکہ متکلمین کے ہاں اصطلاحات اور ہیں۔ محدثین کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ وہ ان تمام بحثوں کے لیے علم الکلام کی اصطلاح استعمال نہیں کرتے ، بلکہ ایمانیات کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ آپ متکلمین کی کتاب دیکھیں گے تو عقائد کی کتب علم الکلام کے نام سے ہوں گی اور احادیث کے ذخیروں میں آپ عقائد کی بحث دیکھیں گے تو ایمانیات کے حوالے سے ہو گی ۔ کوئی محدث کلام کا لفظ استعمال نہیں کرے گا۔ محدثین کی اصطلاح کتاب العقائد، کتاب الایمان اور ایمانیات ہے۔ جب کہ متکلمین جو عقائد پر بحث کرتے ہیں وہ عقائد کی بات علم کلام کے نام سے کرتے ہیں۔ باتیں وہی ہے ، انداز وہی ہے، محض ٹرمز اور عنوانات الگ الگ ہیں۔ امام بخاریؒ عقائد کی ابحاث ”کتاب الایمان“ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں اور شرح عقائد میں اور دوسری عقائد کی کتابوں میں وہی ابحاث علم کلام کے حوالے سے ملیں گی۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بخاری شریف پر بحث کی ہے، میں یہاں اپنے موضوع کے حوالے سے اس کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ بخاری شریف پر تراجم ابواب کے حوالہ سے ایک رسالہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کا بھی ہے، اس میں امام بخاریؒ کی الجامع الصحیح پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ بخاری ایک موضوع کی کتاب نہیں ہے، بلکہ چار موضوعات کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں اکٹھا کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ سے پہلے احادیث عام طور پر چار الگ الگ شعبوں میں مختلف عنوانات کے حوالے سے الگ الگ جمع کی جاتی تھیں ، امام بخاریؒ نے ان سب کو اکٹھا کر دیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ مثلاً احکام کی روایات ہیں ، امام مالکؒ کی موطا دیکھیں گے تو آپ کو عقیدے کی بات نہیں ملے گی ، سب احکام ملیں گے ، مؤطا امام مالک احکام اور معاملات پر ہے، اس میں عقائد کی بحث ہے، نہ اخلاقیات کی بحث ہےاور نہ زہد ورقائق کی بحث ہے۔ امام طبریؒ کی تفسیر دیکھیں گے تو اس میں ساری کی ساری تفسیر ملے گی ، وہاں احکام نہیں ملیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک کی کتاب الزہد والرقائق دیکھیں گے تو اس میں اخلاقیات اور اصلاح نفس کی باتیں ملیں گی ، اس میں نہ احکام ہیں اور نہ عقائد ہیں۔ یہ تمام کتب الگ الگ موضوعات پر ہیں ۔ اس طرح امام بخاریؒ سے پہلے عقائد کا شعبہ الگ تھا ، اخلاقیات کا شعبہ الگ تھا، تفسیر کا شعبہ الگ تھااور تاریخ کا شعبہ الگ تھا۔ شاہ صاحبؒ کہتے ہیں کہ بخاری جامع اس لیے بھی ہے کہ امام بخاریؒ نے اس کتاب میں ان تمام موضوعات کو جمع کیا ہے۔
یہ میرا موضوع نہیں ہے، لیکن میں صرف حوالہ دے رہا ہوں کہ محدثین جسے زہد اور رقائق کہتے ہیں ، یہی تصوف کا شعبہ ہے۔ محدثین کے ہاں ان مباحث کو کتاب الزہد والرقائق اور کتاب الاذکار والدعوات کے تحت ذکر کیا جاتا ہے۔ تصوف کے باب میں اذکار و دعوات ،اصلاح نفس، تربیت و تزکیہ اور اس کے طریقہ کا ماخذ محد ثین کی کتاب الدعوات والاذکار اور کتاب الرقائق ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ اتباع تابعین میں سے ہیں، بہت بڑے محدث ہیں ان کا خطاب امیر المومنین فی الحدیث ہے، ان کی ”کتاب الزہد“ معروف کتاب ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ زہد اور رقائق ، اخلاقیات اور اصلاح نفس کے حوالے سے صوفیاء کا اصل ماخذ یہی روایات ہیں، پھر بعد میں اس میں کیا اضافے ہوئے ، وہ الگ عرض کروں گا ، لیکن اصل ماخذ کتبِ احادیث کی یہی روایات ہیں۔ مثال کے طور پر بخاری شریف کا حوالہ دیا ہے، اس میں ایک مستقل باب”کتاب الرقاق کے نام سے ہے ، اس میں سبھی تصوف بیان کیا گیا ہے، البتہ اصطلاح ”رقاق“ کی ہے۔ رقاق کا معنی ہے ”دل میں نرمی پیدا کرنا“ اور تصوف کا موضوع بھی دل اور اس کی اصلاح ہے۔تمام صوفیاء کرام اپنے اپنے انداز کے مطابق سب سے زیادہ دل پر زور دیتے ہیں ۔ کوئی ذکر اذکار کے ذریعے، کوئی مراقبہ کے ذریعے، کوئی تلاوت کے ذریعے، لیکن سب کی اصل توجہ اور فوکس دل پر ہے۔ جس کی بنیاد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے: ”وان فی الانسان مضغۃً اذا صلحت صلح الجسد كلہ واذا افسدت فسد الجسد كلہ الا وھی القلب“ کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، وہ صحیح رہے تو سارا جسم رہتا صحیح ہے ، اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہوتا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے،میں عموماً عرض کیا کرتا ہوں کہ میڈیکل سائنس بھی یہی کہتی ہے اور صوفیاء بھی یہی کہتے ہیں کہ سارے جسم کا مدار دل پر ہے۔ میڈیکل سائنس بھی جسم کے نظام کی بنیا د دل کو قرار دیتی ہے کہ دل ٹھیک کام کر رہا ہے تو باقی بھی ٹھیک ہے، گزارا ہو جائے گا۔ اگر آپریشن وغیرہ کرنا ہو تو سب سے پہلے یہ چیک کیا کرتے ہیں کہ دل کس کیفیت میں ہے۔ آپریشن کسی اور بیماری کا کرنا ہو تب بھی سرجن سب سے پہلے دل کو چیک کرتا ہے کہ دل آپریشن کا متحمل ہے یا نہیں؟ جسمانی طور پر میڈیکل سائنس بھی سب سے زیادہ فوکس دل کو کرتی ہے، اور روحانی طور پر صوفیاء بھی سب سے زیادہ دل کو فوکس کرتے ہیں اور یہ اپنی طرف سے نہیں کرتے ، بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، جو ابھی پیش کیا گیا، اس کی روشنی میں کہتے ہیں۔
یوں سمجھ لیجیے کہ میڈیکل سائنس اور ڈاکٹر صاحبان سیٹ پر توجہ دیتے ہیں، اور صوفیاء کرام سم اور پیکج پر توجہ دیتے ہیں کہ اس میں کیا پروگرام فیڈ ہے، اس کے اندر سسٹم کیا ہے ، اندر کی کیفیات کیا ہیں؟ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مبارک نے جواذ کا رو دعوات ، اخلاقیات اور اصلاح نفس کو الگ موضوع بنا کر کتاب لکھی ہے، اس کا نام ”کتاب الزہد“ ، اور امام بخاریؒ نے اصلاح نفس کی اکثر روایات اپنی صحیح بخاری میں ”کتاب الرقاق“ میں جمع کی ہیں۔ رقاق کا معنی ہے دل کو نرم کرنا ، دل کو آمادہ کرنا ، دل کی اصلاح کرنا اور دل میں ایسی نرمی پیدا کرنا کہ وہ حق کی قبولیت کے لیے تیار ہو سکے۔ قرآن مجید میں بھی ہے:” الم يأن للذين آمنوا أن تخشع قلوبهم لذكر الله وما نزل من الحق “ کیا ایمان والوں کے لیے اب تک وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جھک جائیں جو نازل ہو چکا ہے۔
دل میں خشوع پیدا ہونا ، دل میں نرمی پیدا ہونا، اور دل میں قبول حق کی صلاحیت پیدا ہونا اس پر محنت کرنا تصوف کا مقصد ہے۔کیونکہ دل نرم ہوگا، اس میں قبول کی صلاحیت ہوگی تو دل مائل ہوگا ، ورنہ دل میں سختی ہوگی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ”ثم قست قلوبكم من بعد ذلك فھی كالحجارة أو أشد قسوة “ اس کے بعد تمہارے دل پھر پتھر کی طرح یا اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے۔
قرآن مجید نے بھی یہ مضمون بیان کیا ہے کہ دل کی نرمی، دل کا قبول حق کی طرف مائل ہونا اور دل میں لچک ہونا قبول حق کی علامت ہے، اور دل کی سختی کفر ، فسق اور ضد کی علامت ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں اسے یوں تعبیر کیا۔ ایک صحابی اقرع بن حابس تمیمیؓ آئے ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضورؐ کے نواسے حضرت حسن ؓآئے تو حضورؐ نے انہیں بوسہ دیا، سینے سے لگایا، سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ صحابی اس منظر کو تعجب سے دیکھ رہے تھے، پھر کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں، پیار کرتے ہیں، میرے تو دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔“ ایک روایت کے مطابق فرمایا کہ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا ہے اور تیرے سینے میں پتھر کا دل رکھ دیا ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
گویا انسان کی عادات و اخلاقیات کا مرکز دل ہے۔ دل کی کیفیات اور دل کے مدارج کو قرآن پاک نے بھی مدار قرار دیا ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مدار قرار دیا ہے، اور محدثین بھی جب دل کی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو ان کا عنوان ”زہد و رقائق“ ہوتا ہے۔ موجودہ تصوف کی اصطلاحات بعد کی ہیں۔ یہ بات میں آگے چل کر عرض کروں گا کہ یہ اصلاحات کیوں آئی ہیں اور تصوف اور سلوک کے طریقے کیوں آئے ہیں، لیکن اس وقت میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ اس کا اصل ماخذ اور اس کی قدیم زمانے کی اصطلاحات اور ٹرمز کا ماخذ قرآن مجید، سنت رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کا تعامل ہے۔
آج ہی میں بخاری شریف کی کتاب الرقاق دیکھی ، جو اس موضوع پر ہےکہ دل میں کیسے نرمی پیدا کی جائے، دل کو اصلاح پر کیسے آمادہ کیا جائے؟ اور دل میں قبول حق کی صلاحیت کیسے اجاگر کی جائے ؟ اس کا یہ موضوع ہے اور عنوان ”الرقاق“ ہے، اس کے تحت تقریباً تین درجن عنوانات ہیں، میں ان میں سے مثال کے طور پر چند عنوانات کا حوالہ دینا چاہوں گا ۔
پہلا عنوان ہے” لاعيش الاعيش الآخرة “۔مشہور واقعہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی لڑائی میں جب خندق کھودرہے تھے تو یہ رجز پڑھ رہے تھے: ”اللهم لاعيش الاعيش الآخرة “ کہ مسلمان کی اصل زندگی آخرت کی ہے۔ دنیا کی بے رغبتی اور آخرت کا شوق انسان کو اصلاح پر آمادہ کرتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی یہ کہا ہے” ان هي إلا حياتنا الدنيا“ دنیا سے دل لگا لینا انسان کے لیے فساد کا باعث بنتا ہے، اور یہ سمجھنا کہ دنیا میری گزرگاہ ہے، میرے سارے مراحل آخرت میں طے ہوں گے یہ چیز انسان کے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے بہت بڑا فلسفہ ہے اور حقیقت ہے کہ انسان میں آخرت کا شوق اور دنیا سے بے رغبتی ہمیشہ انسان کو اصلاح کی طرف لے جاتی ہے۔
اسی طرح امام بخاریؒ نے اس حدیث کو عنوان بنایا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل“ دنیا میں ایسے رہو جیسے راستے سے گزر رہے ہو ، گویا مسافر ہو ایک منزل سے آئے ہو دوسری منزل پر جانا ہے۔ درمیان میں یہ گذرگاہ ہے۔ یہ بات انسان کو اصل حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے ہے کہ تمہارا اصل ٹھکانا دنیا نہیں ہے ، بلکہ آخرت ہے ۔ اس باب میں امام بخاریؒ نے ایک طویل حدیث ذکر کی ہے۔
آگے ایک عنوان ہے: ”ما يحذر من زهرة الدنيا والتنافس فيها“ کہ دنیا کی نمود ونمائش اور دنیا کی رونقوں سے آدمی کو بچایا جائے اور اس میں مقابلہ بازی سے بچایا جائے۔ یہ بھی اصلاح کا ایک راستہ ہے کہ دنیا کی زیب وزینت، دنیا کی رو نقوں، دنیا کے عیش و عشرت کے اسباب اور دنیا کی چہل پہل میں مقابلہ نہ کیا جائے۔ اسلام انسان کی کسی فطری صلاحیت کو دباتا نہیں ہے۔ یوں ہی قرآن مجید اور اسلام انسان کے اندر موجود مقابلے کی فطری صلاحیتوں کو دباتے نہیں، بلکہ اس کا میدان تبدیل کرتے ہیں ۔ قرآن پاک خود دعوت دیتا ہے: ”وفي ذلك فليتنافس المتنافسون“ ریس اور مقابلہ کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اسی لیے تنافس سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ تنافس کی دعوت دی ہےکہ ایک دوسرے سے ریس لگاؤ، ایک دوسرے کا مقابلہ کرو، لیکن کس میں؟ آخرت کی زندگی میں۔ دنیا کی زندگی کے اسباب میں ایک دوسرے کا مقابلہ مت کرو ۔
انسانی فطرت ہے کہ آدمی دوسروں سے مقابلہ کرتا ہے کہ مجھ میں فلاں بات ہے، دوسرے میں نہیں ہے یا دوسرے میں ہے اور مجھ میں نہیں ہے۔ میں فلاں معاملے میں فلاں سے آگے ہوں، فلاں معاملے میں وہ مجھ سے آگے ہے، ہم دونوں میں یہ فرق ہے۔ اسلام اس فطری تقاضے کی نفی نہیں کرتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرو، لیکن نیکی کے حوالے سے۔ایک حدیث میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تشریح فرمائی ہے کہ کسی دوسرے آدمی کے ساتھ اپنا تقابل کرو تو نیکی میں اپنے سے بہتر آدمی کے ساتھ تقابل کرو اور دنیا داری کے اعتبار سے اپنے سے کمتر درجے کے آدمی سے تقابل کرو۔
مقابلے کا یہ میدان بتایا اور طریقہ بتایا کہ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کے حوالے سے بہتر آدمی سے تقابل کرو گے تو تمہاری تم پر کمزوریاں واضح ہوں گی، اس سے اندازہ ہو گا کہ وہ تہجد پڑھتا ہے، میں نہیں پڑھتا ، وہ پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہے، مجھ سے کمی رہ جاتی ہے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے، مجھ سے نہیں ہوتی ، وہ فلاں نیک کام کرتا ہے، میں نہیں کرتا۔ اور دنیا داری کے اعتبار سے اپنے سے کم تر درجے کے آدمی سے تقابل کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تم پر واضح ہوں گی کہ اس کے پاس مکان نہیں ہے، میرے پاس ہے، اس کے پاس گاڑی نہیں ہے، میرے پاس ہے، اس کا خرچہ پورا نہیں ہوتا ، میرا گزارہ ہو جاتا ہے، اس کے پاس فلاں چیز نہیں ہے، میرے پاس ہے۔
یہ بھی اصلاح کا ایک طریقہ ہے کہ آدمی تقابل کر کے دیکھے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دعوت دی ہے، فرمایا کہ تقابل کرو لیکن خیر کے کاموں میں، نیکی کے کاموں میں اپنا تقابل بھی کرو، دوسروں کا بھی کرو۔ یہ انسانی مزاج اور انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنا تقابل بھی کرتا ہے اور دوسروں کا بھی کرتا ہے کہ ان میں سے کون اوپر ہے، کون نیچے ہے، کس کا درجہ کیا ہے، کس کا لیول کیا ہے۔
مشہور روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات چاند نہیں تھا، مطلع صاف تھا،آسمان پر ستارے جگمگا رہے تھے، ہر طرف ستاروں کی رونقیں تھیں ، میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھلے میدان میں بیٹھی ہوئی تھی تو میرا جی چاہا کہ ایک سوال کروں۔ لہذا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کوئی خوش قسمت آدمی ایسا ہے جس کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جیسی ہوں، یعنی ان گنت ہوں؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ میں جب یہ سوال کروں گی تو جواب میں والد محترم حضرت صدیق اکبرؓ کا نام آئے گا ، تو میں نے یہ سوال کیا کہ کوئی ایسا آدمی ہے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہے۔ میں نے عرض کیا : کون؟ فرمایا: عمرؓ۔ یہ سن کر بے ساختہ میرے منہ سے نکلا ”ابی یا رسول الله!“یا رسول اللہ ! میرے والد صاحب؟ جواب توقع کے خلاف آیا تو فوراً بول پڑیں، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عائشہ ! ابو بکر کی نیکیوں کی بات کرتی ہو؟ عمرؓ کی ساری عمر کی نیکیاں ایک طرف اور ابوبکر کی غار حرا کی تین راتیں ایک طرف۔ یہ تقابل انسانی فطرت ہے۔ امام بخاریؒ اس کو عنوان بنا رہے ہیں کہ تنافس کرو، لیکن کس چیز میں کرو، یہ بھی اصلاح نفس کا ایک راستہ ہے۔
اسی طرح امام بخاری کا ایک اور مستقل عنوان ہے:”ما يتقى من فتنۃالمال“ مال نعمت بھی ہے اور مال آزمائش بھی ہے، اس کو فتنہ بننے سے بچاؤ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:”إنما أموالكم وأولادكم فتنۃ“ کہ بلا شبہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے۔ اگرمال نعمت رہے تو بہت اچھی بات ہے، لیکن اگر فتنہ بن جائے تو نہایت خطرناک ہے۔ بلکہ بیوی ، بچوں کے متعلق بھی فرمایا : ”ان من أزواجكم وأولادكم عدوالكم“ بیویوں اور اولا د سے بچ کر رہو۔
اسی طرح امام بخاری کا ایک اور عنوان ہے: ”فضل الفقر“ فقر مستقل عزیمت ہے، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ذوق دے دیں تو فقر بہت بڑی نعمت ہے، فقر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”كاد الفقران يكون كفراً “ قریب ہے کہ فقر ومحتاجی کفر بن جائے۔ لیکن اگر کسی کا عزیمت کا ذوق ہو تو فقر سے بڑی کوئی نعمت نہیں ، جناب نبی کریمؐ دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ! مجھے ضرورت کے پیسے دینا، ضرورت سے زیادہ نہیں ، بس میرا گزارہ چلتا رہے، زیادہ نہ دینا۔ یہ بھی دعا ہے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔اس لیے اگر کسی کو یہ عزیمت کا ذوق مل جائے تو بہت بڑی نعمت ہے، لیکن بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فقر بہت سے حوالوں سے غنا سے بہتر ہے، البتہ بعض صورتوں میں غنا بہتر ہو جائے گا۔
اسی طرح بخاری شریف کے کتاب الرقاق میں ایک باب کا عنوان ہے: ”حفظ اللسان“زبان کی حفاظت۔ صوفیائے کرام کے جو طریقے ہیں، ان میں خاموشی اور زبان کو بند رکھنااور چپ رہنابھی ایک مستقل طریقہ ہے۔ بے شک چپ کا روزہ نہ رکھو، لیکن زیادہ دیر خاموشی اختیار کرو، جتنی خاموشی اختیار کرو گے اتنا دل کی اصلاح کے لیے بہتر ہوگا۔ یہ صوفیائے کرام کے ہاں ایک مستقل دائرہ ہے، جسے محدثین زبان کی حفاظت کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ یعنی زبان اور شرمگاہ جسم کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں، ان کے صحیح استعمال کی گارنٹی تم دے دو، جنت کی گارنٹی میں دیتا ہوں۔
یا مثلاً ایک اور عنوان ہے: ”البكاء من خشيۃالله“ اللہ کو یاد کر کے رونا۔ یہ بھی صوفیاء کرام کے اعمال میں بڑا عمل ہےکہ تنہائی میں بیٹھ جاؤ، اللہ تعالیٰ کو یادکر کے روؤ ، اللہ کا خوف دل میں ہو۔اور ایک باب کا عنوان ہے: ”من جاهد نفسہ فی طاعۃالله“ اللہ کی اطاعت میں خود کو مشقت میں ڈالنا۔ یہ اصلاح کا ایک مستقل ذریعہ اور مستقل طریقہ ہے۔
مذکورہ بالا تمام امور اصلاح نفس کے مختلف پہلو ہیں۔ دیکھیں، بعض حضرات تصوف کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کیا ہے، اس کے مختلف طریقے کیوں رائج ہیں؟ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ ہر کام کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ جس طرح پہلوانی کے اپنے طریقے ہیں، جسم کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلوانوں کے طریقے الگ الگ ہیں، اور جسم کے اندر کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی پہلوانوں کے طریقے الگ الگ ہیں۔ یہ تعلیم ، تربیت اور ٹریننگ کے مختلف طریقے ہیں، کسی کا تجربہ کچھ ہے، کسی کا تجربہ کچھ اور ہے۔
میں اس موضوع پر آگے چل کر بات کروں گا، آج ایک بات یہ عرض کی ہے کہ اصلاح نفس کے شعبے میں دنیا بھر میں جو کام پھیلا ہوا ہے، اس کا اصل ماخذ سنت رسولؐ اور صحابہؓ کا تعامل ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ اس میں بہت سی خرابیاں اور بہت سی الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس پر الگ بحث ہوگی ، لیکن ان سارے اعمال کا اصل ماخذ حدیث وسنت اور صحابہ کرامؓ کا تعامل ہے۔
اور دوسری بات آج میں نے یہ کی ہے کہ وہی ساری باتیں اگر آپ اصطلاح کے فرق کے ساتھ محدثین کے ہاں دیکھیں گے تو محدثین نے بھی اس پر کام کیا ہے، اصلاح کے بہت سے پہلو بیان کیے ہیں اور اصلاح نفس کے اعمال،اذکار و دعوات ، ریاضت ومجاہدہ پر تفصیل سے بات کی ہے۔ یہ جس قدر اعمال ہیں ، سب اعمال پر آپ کو محد ثین کا بڑا وسیع کام ملے گا، اس موضوع پر محدثین کی مستقل کتابیں اور ان کے مستقل ابواب ملیں گے ،جن میں انہوں نے ان تینوں حوالوں سے، اصلاح نفس کے حوالے سے، اذکار و دعوات کے حوالے سے اور مجاہدہ اور ریاضت کے حوالے سے سینکڑوں نہیں ، بلکہ ہزاروں احادیث الگ عنوان کے ساتھ پیش کی ہیں کہ دل کی نرمی کے لیے، اصلاح نفس کے لیے، اپنے آپ کو عبادات کا عادی بنانے کے لیےاور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے یہ یہ طریقہ ہے۔
آج گفتگو صرف اسی نکتے پر ہوئی ہے، اس کے بعد تصوف آگے بڑھا ہے تو اس میں اگر خرابیاں آئی ہیں تو کہاں سے آئی ہیں اور کیسے آئی ہیں، اس پر ان شاء اللہ اگلی نشست میں بات کروں گا، آج اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ تصوف باہر سے آنے والا شعبہ نہیں ہے، بلکہ اندر سے پھوٹنے والا شعبہ ہے۔ جس طرح علم کلام ، اصول حدیث، اصول فقہ اور علم مناظرہ کا ماخذ قرآن و سنت ہے، اسی طرح علم تصوف کا ماخذ بھی قرآن مجید ، سنتِ رسولؐ اور تعاملِ صحابہؓ ہے۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
چوتھی نشست
تصوف کے حوالے سے پچھلی دو تین نشستوں میں ہم نے اس پہلو پر بات کی تھی کہ تصوف کوئی باہر سے آنے والی چیز نہیں ہے۔ اس کا بنیادی ماخذ قرآن مجید، حدیث وسنت اور صحابہ کرامؓ کا تعامل ہے، البتہ وقت کے ساتھ ساتھ باہر سے دوسری قوموں کے جو اپنے اپنے تصوف کے رجحانات تھے، ان کے ساتھ تقابل ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں آمیزش ضرور ہوئی ہے، لیکن بنیادی ماخذ سلوک ، احسان، اصلاح نفس، ریاضت، ذکر اذکار اور تبتل وغیرہ کا قرآن وسنت اور تعامل صحابہؓ ہی ہے۔ یہ باہر سے آنے والی چیز نہیں ہے۔ گزشتہ نشستوں میں ہم نے اس پہلو پر بات کی تھی۔
آج تصوف کے حوالے سے ایک اور مغالطے پر بات کرنا چاہیں گے ۔ وہ یہ کہ صوفیاء کرام کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ معاشرے کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہتے ہیں۔وہ فرد کی بات کرتے ہیں، فرد کی اصلاح کی بات کرتے ہیں، جبکہ معاشرے کی بات نہیں کرتے ۔ عام طور پر ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ صوفی کسی گوشہ نشین آدمی کا نام ہے، جو کونے میں بیٹھا ہوتا ہے، اور اس کا معاشرے کے اجتماعی معاملات سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہوتا۔ یہ تصور درست نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا بنیادی ہدف فرد ہے، ان کا بنیادی کام اصلاحِ نفس اور شخصی اصلاح کا ہی ہے اور یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ فرد کی اصلاح ہوگی تو معاشرے کی اصلاح ہوگی ۔ مثلاً پرزے ٹھیک ہوں گے تو مشینری ٹھیک ہوگی۔ مشین کی صحیح کار کردگی کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس کے پرزے صحیح کام کریں۔ پرزے صحیح ہوں گے تو مشینری صحیح کام کرے گی اور پرزے صحیح نہیں ہوں گے تو مشین صحیح کام نہیں کرے گی ، اس لیے سب سے پہلی بنیادی ضرورت بھی فرد کی اصلاح اور اصلاح نفس ہےکہ بطور شخص کسی شخص کے عقائداور ایمانیات درست ہوں، اس کا تعلق باللہ ، اس کی روحانیت، اس کے ذکر واذکار، اس کا سنت پر عمل ، یہ سب مضبوط ہو ۔ یہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی وہ اجتماعی مشینری میں زیادہ مضبوط کام کر سکے گا۔ یہ بات درست ہے کہ صوفیاء کرام کا بنیادی کام اصلاح نفس ہوتا ہے اور ان کا بنیادی ہدف فرد ہوتا ہے۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ معاشرے کے معاملات سے لاتعلق رہتے ہیں۔ نہیں، ان کی نظر پورے ماحول پر ہوتی ہے، جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے، اپنے دائرے میں رہتے ہوئے وہاں معاشرے کی اصلاح میں کردار ادا کرتے ہیں اور جہاں دخل دینے کا موقع ملتا ہے، دخل بھی دیتے ہیں ۔ میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ معاشرے اور سماج کے معاملات سے لاتعلقی کے حوالے سے صوفی کا یہ تعارف صحیح نہیں ہے۔ اس پر دو تین نشستوں میں بات ہوگی، لیکن آج میں واقعاتی طور پر دو تین صوفیاء کرامؓ کا تذکرہ کرنا چاہوں گا اور اُلٹی ترتیب سے ذکر کروں گا ۔ اصل ترتیب تو یہ ہے کہ میں حضرت حسن بصریؒ سے شروع کروں، لیکن میں قریب زمانے کے چند بڑے صوفیاء کا ذکر پہلے کروں گا ، جو صوفی بھی درجہ اوّل کے تھے اور انہوں نے معاشرے کے معاملات میں قیادت بھی درجہ اول پر ہی کی ہےاور سوسائٹی کی اجتماعی قیادت میں کردار بھی صف اوّل کا ادا کیا ہے۔ بیسیوں نام ہیں، لیکن میں قریب کے زمانے کے تین نام لوں گا، ان کا تھوڑا تھوڑ ا ذکر کروں گا۔
ان میں ایک حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، آپؒ نقشبندی سلسلے کے بہت بڑے صوفی ہیں۔ اگر صوفیاء کرام کے درجات قائم کیے جائیں تو یہ بہت اونچے درجے کے صوفی ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ اگر میں ساری توجہ پیری مریدی کی طرف دے دوں تو ہندوستان میں کسی اور پیر کو مرید نہ ملیں ، لیکن میرا دوسرا کام بھی ہے، میں ادھر بھی توجہ دیتا ہوں ، ادھر بھی توجہ دیتا ہوں ۔ اپنے وقت کے بہت بڑے صوفی اور نقشبندی سلسلے کے بہت بڑے شیخ تھے۔ آج بھی جنوبی ایشیا میں نقشبندی سلسلے کی کم و بیش ساری سندیں مجدد صاحبؒ سے گزر کر آگے جاتی ہیں۔ ہندوستان ، بنگلہ دیش، پاکستان، یا افغانستان میں جو بھی نقشبندی ہے، اس کا سلسلہ حضرت مجددالف ثانی سے ہو کر گزرتا ہے،گویا آپؒ جنکشن ہیں۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ کا جب تاریخ تعارف کرواتی ہے تو صوفی سے زیادہ ایک نظریاتی اور تہذیبی مجاہد کے طور پر تعارف کرواتی ہے۔ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف جو جنگ انہوں نے لڑی ہے، اس پر انہیں علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
اکبر کے دین الہی کے خلاف جو علمی اور فکری جنگ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے لڑی ہے، وہ وہی لڑ سکتے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اکیلے تھے، ان کے ساتھ اور بھی علماء تھے ، جنہوں نے اس کارخیر میں حصہ لیا۔ آج کل یہ بھی ایک عام تاثر ہے کہ وہ اکیلے تھے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پورے برصغیر میں علماء کی ایک بڑی جماعت تھی، جنہوں نے اکبر کے دین الہی کو مسترد کیا تھا اور اس کے خلاف عوامی فضا کو قائم رکھا تھا۔
یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ اکبر کا دین الہی کیا تھا؟ جلال الدین اکبر، جسے اکبر اعظم اور مغل اعظم بھی کہتے ہیں، مغل حکمرانوں میں سب سے زیادہ طاقت ور حکمران تھا۔ اسی سے آپ اندازہ کر لیں کہ تاریخ اسے اکبر اعظم اور مغل اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے، لیکن کچھ لوگوں نے اس کا ذہن خراب کر دیا تھا۔ ذہن خراب کرنے والے بھی علماء میں سے ہی تھے۔ دنیا میں مولوی بہت بڑا کردار ہے، اِدھر ہو تب بھی اور اُدھر ہو تب بھی ، اس لیے کہتے ہیں: ”اذازل العالم زل بزلۃ عالم كثير“ کہ جب مولوی پھسلتا ہے تو اکیلا نہیں پھسلتا، اس کے ساتھ ایک جہان پھسلتا ہے۔ اُدھر بھی بڑے بڑے لوگ تھے، جن میں ابوالفضل اور فیضی تھے، یہ کوئی معمولی عالم نہیں تھے، بلکہ بڑے مضبوط عالم تھے ۔ کچھ لوگوں نے اکبر کو پٹی پڑھا دی کہ جناب ! جناب نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے دین کو اور دین کے پرانے روایتی ڈھانچے کو ہزار سال پورے ہو گئے ہیں، اب اس کی تجدید ہونی چاہیے۔ نیاڈھانچہ، نئے ضابطے، نئے احکام اور نئے قوانین مرتب ہونے چاہئیں، اسی طرح اس کے ذہن میں آہستہ آہستہ یہ بات بھی ڈالی گئی کہ تم مجتہد ہو، بلکہ صرف مجتہد نہیں ، مجدد اور امام مطلق ہو، تمہیں اختیار حاصل ہے کہ تم دین کے بنیادی ڈھانچے میں جو چاہو، زمانے کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کرلو۔ یہ اس کے ذہن میں بٹھا یا گیا اور مجالس میں اس کا قصیدہ پڑھ کر بہت سے علما ءکی توثیق کے ساتھ اسے باقاعدہ مجتہد اعظم کا خطاب دیا گیا اور اس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔ اس کے بعد اکبر نے جو کچھ کیا ہے، مجتہد اعظم کے ٹائٹل کے ساتھ اور مجتہد اعظم کی حیثیت سے کیا ۔
اس کی مثال سمجھنی ہے تو ایسے سمجھ لیں کہ جیسے ہمارے ہاں کوئی جرنیل مارشل لاء لگاتا ہے تو اب تک ہماری عدالت کی روایت یہی ہے کہ عدالت اس کو جواز فراہم کر دیتی ہے اور اسے آئین میں ضرورت کے مطابق ترامیم کا اختیار بھی دے دیتی ہے۔ صدر ایوب خان ،ضیاء الحق مرحوم یحییٰ خان اور جنرل مشرف کو یہ اختیار دیا گیا کہ آئین میں ترمیم کر لو۔ ورنہ آئین میں ایک چھوٹی سی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت چاہیے۔ اگر دو تہائی اکثریت نہ ہو تو دستور میں ایک جملہ کی ترمیم بھی نہیں ہوسکتی، لیکن ہمارے فوجی جرنیلوں کو سپریم کورٹ نے کئی بار یہ اختیار دیا کہ آپ کی مرضی ہے، آپ ضرورت کے مطابق آئین میں ترمیم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ان جرنیلوں نے دستور میں ترمیم کی۔ یہی بات اکبربادشاہ کو کہی گئی کہ آپ شریعت کے ڈھانچے میں اپنی مرضی کی ترمیمیں کر سکتے ہیں، آپ مجتہد اعظم ہیں، جو چاہیں ترمیم کرلیں۔
اس طرح اکبر نے اپنے دور میں دین الہی کے نام سے ایک بالکل نیا ڈھانچا کھڑا کر دیا اور اس میں عیسائی، ہندو، پارسی اور آتش پرست، سب کی باتوں کو جمع کر کے معجون مرکب تیار کیا کہ سب مذاہب ٹھیک ہیں۔ اس میں نماز بھی تھی، سورج کو سجدہ بھی تھا اور بت بھی تھے ۔ ”اتحاد بین المذاہب“ کا سب سے بڑا مظاہرہ اکبر اعظم نے کیا ہے۔اس کے علاوہ بادشاہ کا پروٹوکول تھا کہ اس کو سجدہ کر کے اندر دربار میں پیش ہوں ۔ اس میں اور بہت سی خرابیاں تھیں، جو آپ پڑھیں گے تو دنگ رہ جائیں گے کہ کیا کیا تبدیلیاں اور کیا کیا حرام و حلال کے ضابطے قائم کیے اور سب کچھ بدل دیا گیا تھا۔ اس میں شراب حلال کر دی گئی تھی ، زنا کی مخصوص حالات میں اجازت دے دی گئی تھی ، دوسری شادی منع کر دی گئی تھی اور غسل جنابت منسوخ کر دیا گیا تھا ، وغیرہ ایک ملغوبہ تیار کیا تھا۔ اکبر کے دین الٰہی کی چند باتیں میں نے ذکر کی ہیں، اگر تفصیل پڑھنی ہو تو مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ” تاریخ دعوت و عزیمت“ ، حضرت مولانا سید محمد میاں کی ”علمائے ہند کا شاندار ماضی“ اور شیخ محمد اکرام کی ”آب کوثر“ میں پوری تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اکبر نے دین کا کون سا نیاڈھانچا کھڑا کیا تھا اور نافذ بھی کر دیا تھا، کیونکہ اس کے پاس طاقت تھی۔
حضرت مجددالف ثانیؒ جب اس پوزیشن میں آئے کہ معاملات میں دخل دے سکیں تو یہ اکبر کے بیٹے جہانگیر کا دور تھا۔ حضرت مجددالف ثانی نے اس دین الہی کے نئے ڈھانچے کے خلاف جدوجہد کی، لیکن ان کی جدو جہد کا طریق کار مختلف تھا۔ ان کا طریق کار یہ تھا کہ جو اصحاب اقتدار ہیں، ان کی ذہن سازی کر کے ان کا ذہن بدلنا تا کہ وہ اس کو مستر د کریں۔ مجد دصاحبؒ نے ہماری طرح تحریک نہیں چلائی ، پبلک میں نہیں آئے ، جلسے نہیں کیے، جلوس نہیں نکالے، بلکہ جہانگیر کے درباریوں میں گھس گئے۔ ان کے مکتوبات ”مکتوبات مجددالف ثانی“ تصوف اور اصلاح اُمت کا عظیم ذخیرہ ہیں۔ ان میں تصوف بھی اعلیٰ درجے کا ہے، اصلاح نفس کے سارے تقاضے اس کا حصہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اصلاح امت اور اصلاح معاشرہ بھی اس میں اعلیٰ سطح پر نظر آتا ہے۔ حضرت مجددالف ثانیؒ نے اتنے بڑے طوفان کو روکنے کے لیے یہ تکنیک اختیار کی کہ جو ارباب اقتدار تھے ، نواب، جرنیل، وزیر، سردار، ان سے فرداً فرداً خط و کتابت ، ملاقاتیں اور ذہن سازی کی اور اس طویل جدوجہد کے بعد حضرت مجد د صاحبؒ نے جہانگیر کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے باپ کا نافذ کردہ دین ترک کر کے اصل دین پر آ جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کے ارد گرد کا ماحول اُنہوں نے ہموار کیا۔ اسے لابنگ اور ذہن سازی کی جدوجہد کہا جاتا ہے۔
بلکہ بعض تاریخی روایات کے مطابق جو بات جہانگیر کی تبدیلی کا سب سے بڑا ذریعہ بتائی جاتی ہے، (واللہ اعلم اس کی کیا حقیقت ہے) وہ یہ ہے کہ ایک موقع پر خان خاناں خانِ اعظم نے ، جو جہانگیر کا وزیر اعظم تھا اور حضرت مجدد صاحبؒ کا مرید تھا ، حضرت مجدد الف ثانیؒ کو پیش کش کی، جبکہ حضرت مجدد صاحب جہانگیر کے دربار میں سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں گرفتار تھے جو کہ بادشاہ کے دربارمیں حاضری کے لیے ضروری تھا لیکن انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کروں گا اور قلعہ گوالیار میں نظر بند رہے۔ تو خان خاناں نے ایک دن کہا کہ حضرت ! اگر آپ اجازت دیں تو جہانگیر کو آپ کی جگہ بھیج دوں اور آپ کو اس کی جگہ پر بٹھا دوں۔ میں کمانڈر انچیف ہوں، مارشل لاء نافذ کر دوں؟ اجازت ہو تو میں یہ کر سکتا ہوں۔ مگر حضرت مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا ”نہیں، فقیر اقتدار کے لیے محنت نہیں کر رہا، فقیر جہانگیر کی اصلاح چاہتا ہے۔“ یعنی حکومت وہی کرے ، حکومت اس کا کام ہے، لیکن اسلام اور شریعت کے مطابق حکومت کرے۔
حضرت مجد د صاحبؒ نے اس طریقے سے بڑی طویل اور صبر آزما محنت کی ہے، اور اسی انداز سے اس سارے نظام کو تبدیل کرنے میں جہانگیر کے دور میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جہانگیر کے دور میں ہی اکبر کا سارے کا سارا دین الہی تحلیل ہو گیا تھا اور اصل نظام بحال ہو گیا تھا۔ بادشاہوں کا نظام تو بادشاہی ہوتا ہے، لیکن ہمارا عدالتی اور معاشرتی نظام ہمیشہ ٹھیک رہا ہے۔ یہ تاریخ ہے کہ ظالم سے ظالم بادشاہوں کے دور میں بھی ہمارا عدالتی نظام ٹھیک کام کرتا رہا ہے۔ یہ ایسی تاریخ ہے جس کا مؤرخین آج بھی اعتراف کرتے ہیں کہ سیاسی محاذ پر بادشاہی نظام میں تمام تر خرابیوں کے باوجود مسلمانوں کا عدالتی نظام ہمیشہ صحیح رہا ہے اور قاضی شریعت کے مطابق فیصلے کرتے رہے ہیں۔
یہ میں نے ایک صوفی کی مثال دی ہے۔ بات اس نکتے پر کر رہا ہوں کہ صوفیاء کرام کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں ہے کہ وہ اجتماعی معاملات سے ، معاشرے کے معاملات سے لاتعلق رہے ہیں اور گوشہ نشین رہے ہیں ۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ بہت بڑے صوفی تھے، لیکن سماج کے اجتماعی معاملات میں انہوں نے محنت کی ہے، اکبر کے دین الہی کے خلاف جدو جہد کی ہے ، اس میں کامیابی حاصل کی ہے اور جہانگیر کے دور میں سارے سسٹم کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا یہ معاشرے کے اجتماعی معاملات میں کردار ہے۔
ایک بڑے صوفی کا دوسرا حوالہ دینا چاہوں گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بھی بہت بڑے صوفی تھے، تصوف میں ان کا بڑا اونچا مقام تھا اور چشتیہ اور قادریہ سلسلہ میں ان کی نمایاں حیثیت تھی ۔ تصوف کی دنیا میں دیکھیں تو اُن کے وقت میں شاید ہی ان سے بڑا کوئی صوفی ہو، بلکہ ان کے بعد بھی ان کے پائے کے شاید کم ہی آئے ہوں، لیکن ملت کے اجتماعی معاملات میں جو محنت اُنہوں نے کی ہے، آج تک ہم ان کی ہی محنت پر چل رہے ہیں۔ جب حضرت شاہ ولی اللہؒ دہلی میں اپنے والد محترم شاہ عبدالرحیم محدث دہلویؒ کی مسند پر مسند نشین ہوئے تو یہ وہ دور تھا جب اورنگزیب فوت ہو چکا تھا۔ اور نگ زیب بڑا طاقتور حکمران تھا ، اس نے پورے جنوبی ایشیا پر پچاس سال حکومت کی ہے، لیکن اور نگ زیب کے بعد اس کا کوئی جانشین نہیں آیا۔ مؤرخین جب تجزیہ کرتے ہیں تو سارے پہلو گنتے ہیں۔ اور نگ زیب کا کریڈٹ اور خوبی ہے کہ اس نے اسلامی ریاست و حکومت کا تصور قائم کیا، لیکن اور نگ زیب کا سب سے بڑا ڈسکریڈٹ یہ ہے کہ اس نے خاندان کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی، بلکہ اپنے حکومت کے کاموں میں اُلجھا رہا۔
اس ڈسکریڈٹ کی سنگینی دیکھیں کہ جب اور نگ زیب کا بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی جگہ بادشاہ بنا ہے تو یہ وہ شخص تھا، جس نے باقاعدہ شیعہ مذہب اختیار کر لیا تھا اور خطبے میں خلفائے ثلاثہ کا نام لینے پر پابندی لگا دی تھی ، اس پر لاہور میں بڑے ہنگامے ہوئے ۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا، لیکن اور نگ زیب کے بعد طوائف الملوکی پھیل گئی ، بغاوتیں ہونے لگیں، ہندو مرہٹے ادھر سے بڑھ رہے تھے، یہاں سکھوں کی طاقت زور پکڑ رہی تھی اور بنگال کی طرف سے انگریز بڑھ رہے تھے تو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے خلفشار محسوس کر کے، طوائف الملو کی اور ہر طرف افرا تفری دیکھ کر جو بڑے بڑے کام کیے، ان میں ایک کام یہ بھی تھا کہ انہوں نے جرنیلوں کو ، علمائے کرام کو ، مشائخ عظام کو، سرداروں کو، بڑے بڑے نوابوں کو خطوط لکھے اور ان خطوط میں انہیں جھنجھوڑنے کی کوشش کی اور اپنا درد دل بیان کیا کہ حالات بگڑ رہے ہیں ، ہم تباہی کی طرف جا رہے ہیں، مسلمان کم زور ہورہے ہیں ۔ ہندو قبضہ کرتے جا رہے ہیں، انگریز ادھر سے آرہے ہیں، تم کیا کر رہے ہو؟ شاہ صاحبؒ کی کتاب ”البدور البازغۃ“ ان کے خطوط کا مجموعہ ہے، وہ کتاب پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ اس شخص کے اندر ملک کے اجتماعی حالات کی اصلاح کے لیے کتنی آگ لگی ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود توجہ دلانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ، لوگوں نے ان کی بات نہیں سنی۔
خطرات جب تین چار طرف سے ہوں تو پھر ترجیح قائم کی جاتی ہے کہ پہلے کون سے خطرے سے نمٹنا ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ انگریز بھی آرہے تھے، ادھر سے سکھ بھی طاقت پکڑ رہے تھے، ادھر سے ہندو مر ہٹے بڑھتے آ رہے تھے، تو شاہ صاحبؒ نے محسوس کیا کہ اگر دہلی پر ہندوؤں کا یا مرہٹوں کا قبضہ ہو گیا تو شاید پھر شمالی ہندوستان میں مسلمان محفوظ نہ رہیں۔ اس پر شاہ صاحب نے وہ تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ، جسے اگرچہ بعض مؤرخین شاہ صاحب کی غلطی شمار کرتے ہیں اور بعض اسے بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں، بہرحال ہمارے نزدیک تو کارنامہ تھا کہ احمد شاہ ابدالی سے رابطہ کرکے اسے دعوت دی۔ پانی پت کی تاریخی لڑائی ہوئی، جو پانی پت کی تیسری لڑائی کہلاتی ہے، بڑی خوف ناک لڑائی ہوئی اور مؤرخین کہتے ہیں کہ اس میں جو ہندوؤں کو بڑی فیصلہ کن شکست ہوئی ، اس وقت یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ شمالی ہندوستان مسلمانوں کا ہے جبکہ جنوبی ہندوستان میں ہندو بہر حال طاقت ور ہیں۔
اس کے بعد شاہ صاحبؒ نے فکری اصلاح، تعلیمی اصلاح، امت کی علمی قیادت اور بہت سے میدانوں میں اصلاحات کا کام کیا۔ میں نے شاہ صاحبؒ کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ شاہ صاحبؒ صوفی تھے، اپنے وقت کے سب سے بڑے صوفی تھے ، لیکن اپنے وقت کے اجتماعی معاملات ، معاشرتی معاملات اور ملت کے مسائل سے لاتعلق نہیں تھے ، نہ صرف یہ کہ لاتعلق نہیں تھے ، بلکہ عملی محنت میں پیش پیش تھے ۔ یہ شاہ صاحبؒ کی کرامت ہے کہ ہندوستان میں جو بھی علمی فکری تحریکیں اس وقت ہیں ، وہ کسی نہ کسی حوالے سے شاہ صاحبؒ کو اپنا مقتدا اور امام مانتی ہیں۔ مکاتب فکر بھی اور علمی ، فکری تحریکیں بھی اپنی نسبت شاہ صاحبؒ کی طرف کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ وہ ہماری فکری اور علمی تحریکات کا مرکز اور جنکشن ہیں۔
یہ دو حوالے میں نے اس پر دیے ہیں کہ تصوف کے بارے میں جو یہ تصور پایا جاتا ہے کہ صوفیاء کرام صرف فرد کی بات کرتے ہیں معاشرے کی بات نہیں کرتے، گوشہ نشین ہیں، سوسائٹی کی اجتماعی صورتحال میں دخل نہیں دیتے ، کنارہ کش لوگ ہیں، جنہیں ملت اور قوم سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ یہ مغالطہ ہے۔ صوفیاء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، جنہوں نے گوشہ بھی آباد کیا ہے اور سوسائٹی اور سماج میں کردار بھی ادا کیا ہے، جنہوں نے فرد کی اصلاح بھی کی ہے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی محنت کی ہے، جنہوں نے اصلاح نفس پر بھی کام کیا ہے لیکن اصلاح معاشرہ اور اصلاح اُمت کی طرف سے بھی غافل نہیں رہے۔ اس پر میں نے دو نام لیے ہیں، ایک حضرت مجد د الف ثانیؒ جو صوفی بھی تھے اور مجاہد ، مفکر اور متکلم بھی تھے، عقائد کی اصلاح کے میدان میں اور اکبر کے دین الہی کے مقابلے کے میدان میں ان کا کردار اور خدمات ہیں اور جب بھی تاریخ اکبر کے دینِ الہی کا ذکر کرتی ہے تو اس کی ناکامی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب مجدد صاحبؒ کی علمی اور فکری محنت کو شمار کیا جاتا ہے اور دوسرا حضرت شاہ ولی اللہؒ کا ذکر کیا ، ان کی تصوف میں بڑی خدمات ہیں ۔ آپؒ بہت بڑے وحدۃ الوجودی تھے،اس پر اگر بات کریں تو بات لمبی ہو جائے گی ، آپ بہت بڑے صوفی تھے، شیخ اکبرؒ کی لائن پر اور شیخ اکبر کی طرز کے صوفی تھے، لیکن دوسری طرف ان کی علمی ، جہادی اور تحر یکی خدمات بھی ہیں کہ اُنہوں نے پورے ہندوستان کے علمی اور فکری ماحول کا رخ موڑ دیا۔
حضرت شاہ صاحبؒ نے اپنی فکری اور علمی جد و جہد کا ذکر کرتے ہوئے حجۃ اللہ البالغہ میں ایک بڑے مزے کی بات لکھی ہے کہ میں نے جو کام کیے ہیں اور اجتہادی فیصلے کیے ہیں تو ایک مصرع اُنہوں نے بولا ہے:
میں تو شیر پر سوار ہو گیا ہوں ، اب جس کی ہمت ہے، میرے پیچھے آ کر بیٹھے۔
میں جب حجۃ اللہ البالغہ کی کلاس میں طلبہ کو یہ پڑھا تا ہوں تو عرض کیا کرتا ہوں کہ تین سو سال ہو گئے ہیں ابھی تک شاہ صاحبؒ کا ردیف بننے کی کسی میں ہمت نہیں ہوئی ، اس میدان میں شاہ صاحب ابھی تک اکیلے ہیں، کوئی ثانی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی کو لے آئیں گے ، ان شاء اللہ، لیکن تین صدیوں سے فکری اور علمی دنیا میں شاہ صاحب کی ہی حکمرانی ہے اور میں تاریخ کے طالب علم کے طور پر سمجھتا ہوں کہ ہم ابھی تک شاہ ولی اللہؒ کے دور سے ہی گزر رہے ہیں۔
صوفیاء کرام نے اپنے اپنے دور میں اصلاح معاشرہ، اصلاح امت اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں کیا کیا کردار ادا کیا ہے، اس حوالے سے ایک تیسرے صوفی کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا۔ ہمارے قریب کے زمانے میں ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، جن کو ہم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چشتی سلسلہ کے بہت بڑے شیخ تھے ۔ حضرت میاں جی نور محمد جنجھیا لوی کے خلیفہ تھے۔ ان کا چشتی سلسلہ حضرت تھانویؒ سے چلا آ رہا ہے۔ مجھے بھی ان کی خانقاہ اور گوشہ عافیت میں تھا نہ بھون میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ حضرت حاجی صاحبؒ کی نشست گاہ دیکھی ، چھوٹا سا کمرہ ہے، مجھے وہاں کچھ دیر گزارنے کا موقع ملا ۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ حاجی صاحبؒ صوفی تھے اور آپؒ دیو بندیوں اور بریلویوں کے مشترکہ پیر ہیں ۔ اہل حدیث حضرات تو خیر عام طور پر پیروں کو مانتے ہی نہیں ہیں، لیکن دیوبندی، بریلوی جو پیروں کو مانتے ہیں، حاجی صاحب ان کے مشترک پیر ہیں ۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے خلیفہ اور حضرت مولانا احمد علی سہارن پوری کے شاگرد ہیں۔ دوسری طرف حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ بھی حضرت حاجی صاحبؒ کے خلیفہ ہیں۔ حضرت حاجی صاحبؒ دیو بندیوں اور بریلویوں کے سانجھے پیر ہیں۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اپنے وقت کے بہت بڑے صوفی تھے ، چشتی سلسلہ کے بزرگ تھے ، تصوف کے بڑے امام تھے، لیکن ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شاملی کے محاذ کی کمان بھی آپ نے کی ہے۔ میں کچھ عرصہ قبل انڈیا گیا تو شاملی کا میدان بھی دیکھا، جہاں حاجی صاحبؒ نے جنگ لڑی تھی اور میں نے شاملی کا شہر بھی دیکھا ہے۔
اپنے ذوق کی بات آئی ہے تو ایک اور بات عرض کر دیتا ہوں کہ امریکا میں جنوب اور شمال کی بڑی طویل خانہ جنگی رہی ہے۔ اس میں شمال کو فتح اور جنوب کو شکست ہوئی تھی۔ جنوب کا کمانڈر جنرل لی تھا، جس نے اٹلانٹا میں جارج واشنگٹن کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور شمال کی بالادستی تسلیم کی تھی۔ اٹلانٹا امریکا کا بہت بڑا شہر ہے۔ میرے ایک دوست افتخار رانا وہاں کافی عرصہ سے رہتے ہیں۔ پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ہیں۔ میں ان کےہاں گیا تو ان سے کہا کہ میں اٹلانٹا میں جنرل لی کا میدان دیکھنا چاہتا ہوں، جہاں اس نے ہتھیار ڈالے تھے۔ وہ کہنے لگے جنرل لی کون تھا؟ ہم تیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں، ہمیں اس کا پتہ نہیں ہے۔ بہرحال ہم تلاش کر کے اس میدان میں گئے، جہاں جنرل لی کا مجسمہ بھی لگا ہوا ہےاور نیچے تاریخ لکھی ہوئی ہے۔
یہ میرا اپنا ذوق ہے۔ میں انڈیا گیا تو دوستوں سے کہا کہ شاملی ضرور دیکھنا ہے، جہاں شاملی کے محاذ پر خالص مولویوں اور پیروں نے انگریزوں سے جنگ لڑی تھی ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی امارت میں وہاں انگریز فوج کے ساتھ جو لڑائی ہوئی اس کی بڑی دل چسپ داستان ہے، داستان کی تفصیل میں جاؤں گا تو بات لمبی ہو جائے گی ۔ تفصیل کے لیے مولا نا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ” سوانح قاسمی“ دیکھی جاسکتی ہے، تین جلدوں میں ہے۔ اس میں انہوں نے جنگ کی ساری تفصیل بیان کی ہے کہ شاملی کا محاذ کیسے گرم ہوا؟ کیسے لڑائی ہوئی ؟کون کون شریک تھا؟ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ جنگ کے امیر تھے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کمانڈر تھے، اور مولانا رشید احمد گنگوہی قاضی تھے ۔ ان حضرات نے شاملی کے محاذ پر جنگ لڑی ہے، جنگ جیتی ہے، اس کے بعد سترہ دن حکومت کی ہے، ( حکومت تو ایک دن کی بھی کافی ہوتی ہے ) سترہ دن شاملی کی پوری تحصیل کے علاقے پر امیر المومنین کی حیثیت سے حکومت کی ہے۔ پھر شکست ہوگئی تھی، لیکن میں یہ بات ذکر کر رہا ہوں کہ حضرت حاجی صاحبؒ اپنے وقت کے بہت بڑے صوفی تھے اور اپنے وقت کے بہت بڑے مجاہد تھے۔ تصوف میں ان کا مقام دوسری صف میں نہیں ، پہلی صف میں ہے اور تحریکی زندگی میں اور جہاد کی زندگی میں بھی ان کا مقام دوسری صف میں نہیں ہے، بلکہ پہلی صف میں ہے۔
ان کی ایک اور بات ذکر کرنا چاہوں گا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ یہاں سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے، وہیں مدفون ہیں۔ بعد میں دیوبند کا مدرسہ بنا، اس کے خاصا عرصہ بعد ایک صاحب حج پر گئے ، حضرت حاجی صاحبؒ سے ملاقات کی اور انہیں خبر دی کہ حضرت! ہم نے ایک مدرسہ بنایا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ باتیں کیں تو حضرت حاجی صاحب فرمانے لگے وہ مدرسہ تم نے بنایا ہے؟ ہماری یہاں اللہ تعالیٰ کے سامنےسجدہ میں درخواستیں اور دعائیں کرتے کرتے پیشانیاں گھس گئی ہیں کہ یا اللہ!مہربانی کریں اور ہندوستان میں کوئی سلسلہ بنائیں اور تم کہہ رہے ہو کہ ہم نے مدرسہ بنایا ہے۔ اس مدرسہ کے پیچھے ہم بھی ہیں۔
میں نے یہ بات عرض کی کہ صوفیاء کرام کے بارے میں یہ تصور کہ وہ فرد کی بات کرتے ہیں، سوسائٹی کی بات نہیں کرتے، گوشہ نشین لوگ ہیں اور ان کی معاشرےکی طرف توجہ نہیں ہوتی، یہ تصور درست نہیں ہے۔ اب ایک لطیفہ کی بات ذکر کرنا چاہوں گا کہ جنرل مشرف کے دور میں ”پاکستان صوفی کونسل“ بنی تھی ، جس میں صوفیوں کے سر پرست اعلیٰ جنرل پرویز مشرف تھے، اس کونسل کے چیئر مین چوہدری شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید تھے۔ یہ ایک پلان تھا کہ ”صوفی اسلام“ کو زندہ کیا جائے۔ امریکا میں باقاعدہ تھنک ٹینک نے ایک ترتیب بنائی تھی کہ ”صوفی اسلام قابل قبول ہے،مولوی اسلام قابل قبول نہیں ہے۔“ یہ بات اسی پس منظر اور بیک گراؤنڈ میں کہی گئی کہ چونکہ صوفی فرد کی بات کرتے ہیں، گوشے میں بیٹھے اللہ اللہ کرتے رہتے ہیں اور معاشرے کے اجتماعی معاملات کی بات نہیں کرتے ،جبکہ مولوی تو ہر بات میں دخل دیتا ہے، اس لیے مولوی اسلام کے مقابلے میں صوفی اسلام کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ پورا ایک فلسفہ اور پلاننگ تھی جس پر اس کی باقاعدہ کونسل بنی۔
اس پر میں نے دو تین قسطوں میں کالم لکھا تھا ، جس میں لکھا کہ آپ لوگوں کو بہت بڑا مغالطہ ہوا ہے۔ آپ صوفی اسلام کے بارے میں یہ تصور کر رہے ہیں کہ صوفی اسلام سماج اور سوسائٹی کے معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ یہ بات آپ اس خطے میں بیٹھ کر کر رہے ہیں جہاں کے بڑے صوفی حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ گنے جاتے ہیں۔ اس خطے میں آپ صوفی اسلام کو فرد کا معاملہ کہہ کر اس سے توقع کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو نہیں چھیڑے گا ، آپ لوگ بڑے مغالطے میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں جنوبی ایشیا میں تصوف حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے حوالے سے متعارف ہے، میں نے لکھا کہ اگر آپ یہ صوفی اسلام لانا چاہتے ہیں توہم آپ کا ساتھ دینے کے لیے حاضر ہیں۔
بہرحال آج میں نے ماضی قریب کے تین بزرگوں حضرت مجدد الف ثانیؒ ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے حوالہ کے ساتھ اس نکتہ پر گفتگو کی ہے کہ یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ صوفی وہ ہے جو گوشہ نشین ہے، معاشرہ سے لاتعلق ہے ،اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ صوفی کا بنیادی کام فرد کی اصلاح ہے، لیکن صوفی اجتماعی معاملات میں لاتعلق نہیں ہوتا ۔ جو اصل صوفیاء کرام ہیں وہ معاشرہ سے لاتعلق نہیں ہوتے بلکہ اس میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پر آج تین حوالے دیے ہیں، ماضی بعید کے کچھ حوالے ان شاء اللہ اگلی نشست میں دوں گا کہ پرانے زمانے کے صوفیاء کرام کا بھی یہی حال تھا، جو مذکورہ بالا تین بزرگوں کا تھا۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
پانچویں نشست
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تصوف کے حوالے سے اس پہلو پر بات کی تھی کہ تصوف باہر سے آنے والی چیز نہیں، بلکہ اسلام کی داخلی چیز ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ تصوف کا ماخذ قرآن وسنت اور صحابہ کرامؓ کا تعامل ہے۔ البتہ جس طرح عقائد میں جب دوسرے فلسفے آئے ہیں تو ہم نے ان کی اصطلاحات میں بھی بات کی ہے اور اس طرح علم کلام وجود میں آیا ہے۔ حالانکہ علم کلام کے مآخذ بھی قرآن وسنت ، حدیث رسولؐ اور صحابہ کرام ہی ہیں، لیکن جب باہر سے دوسرے فلسفے آئے اور ان کے ساتھ علم کلام کے تقابل کا مرحلہ آیا تو ان کے ساتھ تقابل ، بحث مباحثے میں ہمیں نئی اصطلاحات اختیار کرنا پڑیں ، یہی صورتحال تصوف کے ساتھ پیش آئی ہے۔ جیسے وہاں تھوڑی سی جدت پیدا ہوئی ، یہاں بھی یہ جدت پیدا ہوئی۔ ذکر اذکار ، خلوت ،اصلاح نفس اور سلوک و احسان کا اصل ماخذ تو قرآن پاک اور سنت رسول ہی ہے، لیکن جوں جوں بات آگے بڑھی اور دوسری قوموں کی ریاضتیں اور مجاہدے سامنے آئے تو کچھ چیزیں ہم نے ان سے اخذ کیں، لیکن ان علوم کی بنیاد ہماری اپنی ہے۔ جس طرح علم کلام میں ہم نے نئی اصطلاحات اختیار کی تھیں، یہاں بھی بہت سی نئی اصطلاحات اختیار کیں اور کچھ طریق کار نئے بنائے، لیکن تصوف و سلوک کا بنیادی ماخذ قرآن مجید ، سنت رسول اور صحابہ کرام ہے۔
سابقہ نشستوں میں ایک تو اس نکتے پر بات کی تھی ، اس کے بعد دوسرا موضوع جس پر ہم نے گفتگو شروع کی تھی اور ابھی تک چل رہی ہے، وہ یہ ہے کہ صوفیاء کرام کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ گوشہ نشیں قسم کے لوگ ہیں، خلوت گزیں قسم کے لوگ ہیں، انہیں صرف ذات سے اور شخصی اصلاح سے دل چسپی ہوتی ہے، ان کا معاشرے اور امت کی اصلاح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں صوفی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کسی اجتماعی کام سے کوئی تعلق نہیں، بس اپنی ذات میں مگن ہے، یہ تاثر ٹھیک نہیں ہے۔ صوفیاء کرامؒ فرد کی اصلاح کی بات کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کی بات بھی کرتے ہیں اور اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔اس پر قریب کے زمانے کے تین صوفیاء کرام حضرت مجدد الف ثانیؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے حوالہ سے عرض کیا تھا کہ یہ اپنے وقت کے کمال کے صوفی تھے اور مجاہد بھی کمال کے تھے اور انہوں نے علمی، فکری، تعلیمی ہر میدان میں سوسائٹی کی اصلاح کی کوشش کی ہے، فرد کی اصلاح کی بات بھی کی ہے اور معاشرے اور امت کی اصلاح کی بات بھی کی ہے ۔ اس لیے یہ کہنا کہ صوفی وہ ہے جس کا اجتماعی معاملات سے، سوسائٹی اور عام لوگوں سے کوئی واسطہ نہ ہو، یہ بات درست نہیں ہے۔ صوفیاء کرام اگرچہ خلوت میں رہتے ہیں، لیکن یہ سارے کام کرتے ہیں۔
آج ایک ابتدائی دور کے صوفی کا ذکر کروں گا اور ایک درمیانے دور کے صوفی کا ذکر کروں گا۔ یہ دونوں صوفی بھی بڑے پائے کے تھے، لیکن عوام کی اصلاح، علمی جدوجہد، تعلیمی خدمات ، معاشرے کی اصلاح ، حق کی آواز بلند کرنے اور ظالموں کو ظالم کہنے کے سلسلے میں بھی انہوں نے بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔ اگر چہ ہماری تاریخ میں اس نوعیت کے سینکڑوں صوفیاء کرام ہیں، لیکن میں مثال کے طور پر د وصوفیاء کا ذکر کرتا ہوں ۔ ایک بالکل ابتدائی دور کے صوفی ہیں یعنی حضرت حسن بصریؒ جو کہ تابعین میں سے ہیں اور امام الصوفیاء کہلاتے ہیں۔ اس زمانے میں ان کا اپنا ایک مرکز تھا، اس کو درس گاہ کہہ لیں ، یا خانقاہ کہہ لیں۔ بہرحال ان کا اپنا ایک مرکز تھا، اپنا ایک حلقہ تھا، جو لوگ ان سے متعلق تھے ان کے پاس آکر رہتے تھے، ان کے پاس آکر پڑھتے تھے ، ان سے سیکھتے بھی تھے ، اور ذکر اذکار بھی کرتے تھے۔ ان کا بہت بڑا حلقہ تھا اور ان کی خدمات کا بہت بڑا دائرہ تھا۔حضرت حسن بصریؒ کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ ان کی والدہ ام المومنین حضرت اُم سلمہؓ کی آزاد کردہ لونڈی تھیں۔ ان کی خدمت میں رہتی تھیں تو کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ماں کام میں لگی ہوئی ہے، بچہ دودھ کے لیے رو رہا ہے تو ام المومنین اپنے سینے سے لگا لیتی تھیں۔ دودھ تو ہوتا نہیں تھا، لیکن پستان منہ میں ڈال دیتی تھیں، تا کہ بچہ بہل جائے۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصریؒ جو کچھ بھی تھے ، اس تبرک کی وجہ سے تھے۔ ان کے بیٹے نہیں تھے، لیکن انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کو بہلانے کے لیے ام المومنین ام سلمہؓ اپنا پستان ان کی منہ میں دیتیں ۔ اس کی اپنی برکات ہیں۔ حضرت حسن بصریؒ اپنے دور کے بڑے مصلحین میں سے تھے۔
اصل میں ہمیں بعض چیزوں سے مغالطہ ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ سے اصلاح کے حوالے سے دولائنیں اور دوطریق کار شروع سے ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں ۔ ایک لائن اور طریق کا رہے کہ مقابلہ کر کے اصلاح کا راستہ اختیار کیا جائے۔ دوسری لائن اور طریق کار یہ ہے کہ مقابلہ نہ کیا جائے بلکہ ساتھ رہ کے اصلاح کے بات کی جائے ۔ ایک انداز یہ ہے کہ نظام کی اصلاح کے لیے، امت ، معاشرے اور حکومت کی اصلاح کے لیے مقابلے پر کھڑا ہوا جائے اور مقابلہ کیا جائے ۔ اس کے برعکس دوسرا طریق کار یہ ہے کہ سامنے آئے بغیر اور فریق بنے بغیر اصلاح کی جدو جہد کی جائے۔ دونوں طریق کار واضح ہیں ۔ جیسے حضرات صحابہ کرام میں حضرت عبداللہ بن زبیر ؓاور حضرت امام حسینؓ سامنے آنے والے بزرگوں میں سے ہیں۔ یہ حضرات سامنے آئے ہیں، مقابلہ کیا ہے، لڑائی لڑی ہے، عبد اللہ بن زبیرؓ نے تو خلافت قائم کی ہے اور پورا ایک نظام قائم کیا ہے اور پھر شہید ہوئے ہیں، ایک لائن یہ ہے۔ اس کے بالمقابل ایک لائن حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی بھی ہے۔ وہ خود سامنے نہیں آئے، فریق نہیں بنے ،لیکن ظلم کو ظلم کہا ہے، ہر غلط بات کی اصلاح کی ہے، اور کھل کر بتایا ہے کہ یہ غلط ہے اور یہ صحیح ہے۔
بخاری شریف میں ان کا واقعہ مذکور ہے، جب حضرت معاویہ ؓنے یزید کو اپنا ولی عہد نامزد کیا کہ میرے بعد وہ خلیفہ ہوگا تو بہت سے صحابہ کرام نے اختلاف کیا کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ الگ مسئلہ ہے، میں اس مسئلے کی تفصیل میں نہیں جارہا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے بھی ایک مجلس میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں نے امت میں کوئی گروہ بنانا ہوتا تو مجھ سے بڑا گروہ کسی کا نہ بنتا، میں عمر کا بیٹا ہوں۔ مجھ سے زیادہ شاید کسی کی جماعت نہ بنتی، لیکن میں نے فریق نہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سامنے نہیں آؤں گا، اپنے دائرے میں اصلاح کی بات کروں گا۔یوں وہ ساتھ رہے، لیکن ٹوکتے بھی رہے اور غلط بات کو غلط کہتے رہے۔
بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا دل چسپ واقعہ ہے کہ جس زمانے میں حجاج بن یوسف کی ، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی اور ضحاک خارجی کی لڑائیاں جاری تھیں، اس وقت ایک حج ایسا بھی آیا ہےکہ منیٰ میں ایک طرف عبداللہ بن زبیر کی امارت میں ایک بہت بڑا گروہ حج کرنے کے لیے جمع تھا۔ اس کے مقابلے میں حجاج بن یوسف کا گروہ ہے اور تیسری طرف ضحاک خارجی کا گروہ بھی منیٰ میں موجود تھا۔ ضحاک خارجی بہت بڑا کما نڈر تھا ، اس کی بھی اچھی خاصی مضبوط جماعت تھی۔ منیٰ میں تین کیمپ تھے، تینوں مسلح اور تینوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن۔ ان حالات میں سرکاری نظم کے تحت حضرت عبداللہ بن عمر حجاج کے ساتھ تھے۔ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو ہدایت کر رکھی تھی کہ سیاست میں اپنی مرضی کر لینا، لیکن جہاں مسئلے کی بات ہوتو عبداللہ بن عمر سے پوچھنا۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو گزرتے ہوئے کسی کا نیزہ لگا، زخمی ہو گئے۔ کسی نے اراد تاً نہیں مارا، چلتے چلتے کسی کی نوک لگی اور آپؓ زخمی ہو گئے ۔ حجاج حال پوچھنے کے لیے آیا ، کہا حضرت! کیا حال ہے؟ فرمایا: ٹھیک ہوں ، حجاج بولا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کس نے آپ کو زخمی کیا ہے؟ مطلب یہ تھا کہ آپ صرف بتا ئیں ، پھر میں خود ہی دیکھ لوں گا۔ آخر حجاج تھا ناں ، تو عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ مجھے زخمی کرنے والا وہ ہے جس نے منیٰ میں ہتھیار لانے کی روایت شروع کی ہے۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ میرے زخمی ہونے کے ذمہ دار تم ہو، کہ تم نے ہی آغاز کیا تھا، تم منیٰ میں ہتھیار لے کر آئے تو دوسرے بھی ہتھیار لائے۔اس لیے مجھے تم نے زخمی کیا ہے۔ اس پر حجاج چپ ہو گیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ اصلاح کے حوالے سے دونوں لائنیں اور طریق کار ٹھیک ہیں ۔ ذوق اور وقت کے اعتبار سے دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ میں نے دونوں طرف کے تین بڑے صحابہ کرامؓ کا نام لیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ، حضرت امام حسینؓ اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ۔ جبکہ حضرت حسن بصریؒ کا ذوق بھی سامنے آئے بغیر اور فریق بنے بغیر اصلاح کی جدو جہد کا تھا۔ آپؒ اپنے وقت کے بڑے صوفی تھے، اپنے وقت کے بڑے محدث تھے ، اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے اور اپنے وقت کے بہت بڑے خطیب تھے، حضرت حسن بصریؒ اور حجاج دونوں آپس میں معاصر تھے اور دونوں بڑے خطیب بھی تھے ۔ علوم عربیہ کے ماہرین آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان میں بڑا خطیب کون تھا ؟ حجاج بھی عربی فصاحت کے اعلیٰ کے درجے کا آدمی تھا۔ آج تک حجاج کے خطبے ان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے عربی ادب میں پڑھائے جاتے ہیں۔ حجاج بڑا فصیح اللسان خطیب تھا اور ادب عربی کے ممتاز لوگوں میں سے تھا۔ اس کا ظالم ہونا اپنی جگہ پر، لیکن وہ خطیب اور ادیب بہت بڑا تھا۔ آپ کو اس کے ایک خطبے کی جھلک دکھاتا ہوں۔ جب حجاج کوفہ کا گورنر بنا ہے، تو اس کا جامع مسجد کوفہ میں پہلا خطبہ بڑا معرکۃ ا لآراء خطبہ ہے، اس نے کہا:
اے لوگو! سروں کی فصلیں پک چکی ہیں، کٹائی کا وقت آ گیا ہے اور اس کام کے لیے اللہ نے میرا انتخاب کیا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آج بہت سے سروں پر عمامے ہیں، چہروں پر داڑھیاں ہیں، بڑے قبے جبے اور چوغے پہنے ہوئے ہیں ، کل یہ چہرے خاک اور خون میں تڑپتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اللہ پاک نے اس کام کے لیے مجھے بھیجا ہے۔
یہ اس کا بطور گورنر پہلا خطاب تھا۔ کہتے ہیں ایک لاکھ سے زیادہ افراد ( جنگوں میں مارے جانے والے الگ ) حجاج کے حکم سے مارے گئے ، جسے ٹارگٹ کلنگ کہتے ہیں۔ یہ لمبا قصہ ہے، میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت حسن بصریؒ کو حجاج نے بہت رام کرنے کی کوشش کی ، اس کے مقابلے پر بھی نہیں آئے ، ساتھ بھی نہیں دیا اور ہر ظلم پر اسے ٹوکتے تھے۔ یہ ایک مستقل محاذ ہے کہ فریق بنے بغیر ظلم کے خلاف مہم چلانا،اور یہ اصلاح کا مستقل طریق کار ہے ۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حجاج بن یوسف نے حضرت انسؓ سے پوچھا حضرت! آپ صحابئ رسول ہیں، آپ یہ بتائیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں مجرموں کو جو سزائیں دی ہیں، ان میں سب سے زیادہ سنگین سزا کون سی دی ہے؟ حضرت انس بن مالک ؓنے عرنیین کا قصہ بیان کیا کہ اس قبیلہ کے لوگ آئے تھے، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چرواہا قتل کر دیااور جانوروں کے باڑے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر فرار ہو گئے۔ لیکن وہ پکڑے گئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھیں نکلوا دی تھیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے تھے اور انہیں دھوپ میں پھینک دیا تھا۔ حضرت انسؓ نے یہ روایت بیان کر دی، لیکن جب حضرت حسن بصریؒ کو پتا چلا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے پہلے پتا چلتا تو میں حضرت انسؓ کو یہ روایت بیان کرنے سے روک دیتا۔ کاش حضرت انسؓ حجاج کو یہ قصہ نہ بتاتے ، کیونکہ اب تو وہ یہی کچھ کرے گا اور لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور آنکھیں نکالنے کے لیے اس کو تو جواز مل جائے گا کہ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل زندگی میں صرف ایک دفعہ کیا ہے، اس کے بعد نہیں کیا۔
یہاں سے محدثین یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ ہر حدیث اور ہر مسئلہ ہر آدمی کو بتانا درست نہیں ہے۔بلکہ بتانے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ یہ بات کون پوچھ رہا ہے اور کیوں پوچھ رہا ہے؟ کہیں وہ اس کا غلط استعمال تو نہیں کرے گا۔
بہرحال میں نے حضرت حسن بصریؒ کا حوالہ دیا ہے کہ وہ بہت بڑے صوفی تھے، لیکن اصلاح معاشرہ ، حق کے اظہار اور باطل کو باطل کہنے میں حضرت حسن بصریؒ آج بھی ان لوگوں کے لیے معیار ، کسوٹی، نمونہ اور اسوہ ہیں، جو معاشرے کی اصلاح کے لیے ، ظالموں کے ظلم کو ظلم کہنے کے لیے اور حاکموں کے جور کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔
اب ایک وسطی عہد کے بہت بڑے صوفی کا نام لوں گا ، حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ امام الصوفیاء ہیں، ان کی ولایت و کرامت اور تصوف وسلوک اور بزرگی پر سب کا اتفاق ہے۔ بڑے بڑے صوفیاء ان کا دم بھرتے ہیں ، ان کا نام لیتے ہیں تو نظریں جھک جاتی ہیں۔ حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ کی دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا، یہ بات بتانے کے لیے کہ وہ بہت بڑے صوفی تھے، لیکن بہت بڑے مصلح اور بہت بڑے حق گو تھے۔ لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کو صحیح راستے پر لانا ، معاشرے کی اصلاح کرنا، معاشرے کی خرابیوں کے خلاف آواز بلند کرنا، لوگوں کو اصلاح کی طرف آمادہ کرنا ، شر سے بچانا، یہ تحریکِ اصلاح ہوتی ہے، صوفیاء اپنے دور کے بڑے مصلحین ہوتے ہیں، ان کے پیش نظر فرد کی اصلاح بھی ہوتی ہےاور سوسائٹی کی اصلاح بھی ہوتی ہے۔
حضرت شاہ عبد القادر جیلانیؒ عباسی دور کے بزرگ ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی ولادت ۴۷۰ ہجری میں ہوئی ہے اور تقریباً ۹۰ سال عمر پائی ہے، ۵۶۰ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ آپؒ اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد آ گئے تھے اور پھر بغداد میں ہی رہے ہیں۔ ان کے بڑے شیخ قاضی ابوسعید مخرمی تھے ، ان ہی سے انہوں نے تربیت حاصل کی ، اور ان ہی کے مدرسے میں آپ نے پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ ان کا دائرہ عوام کی اصلاح کا بھی تھا، غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کا بھی تھا، حکمرانوں کی اصلاح کا بھی تھا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی تھا۔
بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے درس میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے تھے، حتی کہ ایک موقع پر ان کے استاذ کا مدرسہ تنگ پڑ گیا تو مدرسے میں توسیع کرنا پڑی اور نئی عمارت بنی، جس میں آپ درس دیا کرتے تھے اور درس میں عوام کی اصلاح کی بات ہوتی تھی ، غلط عقائد کی تردید ہوتی تھی اور حکام کے مظالم کے خلاف آواز بلند ہوتی تھی۔ ان کا انداز یہ تھا کہ دوٹوک کہتے تھے کہ یہ زیادتی ہے، یہ غلط ہے، یہ درست نہیں ہے، یہ ظلم ہے، یہ جبر ہے۔ اس کی دو تین جھلکیاں عرض کرنا چاہوں گا۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے، لیکن ان کی تین خوبیاں بڑی اہم تھیں ۔
پہلی یہ کہ آپؒ بہت سخی تھے ۔ جو چیز آتی تھی اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دیتے تھے اور خود کہتے تھے کہ میرے ہاتھ میں سوراخ ہے، جو چیز آتی ہے ہاتھ میں ٹکتی نہیں ہے ۔ان کے پاس بہت کچھ آتا تھا مگر کچھ بھی نہیں رہتا تھا۔ اور صوفیاء کرام یہ بات فرماتے ہیں کہ بہت کچھ اسی کے پاس آتا ہے، جس کے پاس بہت کچھ باقی نہ بچے۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ ان کے پاس بہت کچھ آتا تھا، جتنے ہدیے ان کے پاس آتے تھے کسی اورکے پاس نہیں آتے تھے ، لیکن ان میں سے گھر میں کچھ بھی باقی نہیں رہتا تھا، صبح آیا تو شام تک سب ختم ہو جاتا تھا۔
اس حوالے سے ان کا ایک واقعہ بڑا مشہور ہے۔ عمرہ بنت عبد الرحمٰن حضرت عائشہؓ کی شاگرد اور آپ کی علمی جانشین ہیں، عمرہ کو حضرت عائشہ کا علمی جانشین سمجھا جاتا ہے۔ یہ اسعد بن زرارہؓ کی پوتی ہیں، بہت بڑی عالمہ اور محدثہ تھیں۔ کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عائشہؓ کے پاس ایک لاکھ درہم بطور ہدیہ آئے ۔ ایک درہم ہمارے موجودہ سکے میں تقریباً دو سو روپے کا ہے۔ اس حساب سے ایک لاکھ درہم دو کروڑ روپے بنتے ہیں، اور یہ صدقہ نہیں تھا، بلکہ ذاتی ہدیہ کسی نے ام المومنینؓ کی خدمت میں بھیجا۔عمرہ بنت عبد الرحمٰن کہتی ہیں کہ سارا دن ہم بیواؤں، یتیموں، مجاہدین کے گھروں اور مستحقین میں بانٹتے رہے ، عصر تک ایک لاکھ درہم بانٹ دیے اور باقی کچھ نہیں رہا ۔ کہتی ہیں رمضان کا مہینہ تھا، عصر کے بعد مجھے فکر ہوئی کہ گھر میں روزہ کھولنے کے لیے کوئی چیز ہے یا نہیں، گھر میں کچھ نہیں تھا تو میں نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ اماں جان! روزہ کھولنے کے لیے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے، تو حضرت عائشہ ؓکہنے لگیں کہ تم نے صبح کیوں نہیں بتایا ،تاکہ میں دو چار درہم روک لیتی اور کھجوریں منگوا لیتے ۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے، اس لیے اب پانی سے روزہ کھول لو ۔ اندازہ کیجیے کہ کھڑے کھڑے دو کروڑ روپے بانٹ دیے، اور گھر کا عالم یہ ہے کہ شام کو روزہ کھولنے کے لیے ایک کھجور بھی نہیں ہے اور ڈانٹ رہی ہیں کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ کچھ درہم روک لیتی اور کھجوریں منگوالیتے ۔ یہی حال حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا تھا۔ لوگ ان کی مثال دیا کرتے تھے کہ ان کے پاس کوئی چیز ٹھہرتی نہیں ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی دوسری خوبی اور اہم بات اصلاح معاشرہ ہے۔ آپ اس سے اندازہ کر لیں خود ایک مقام پر ارشاد میں فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زیادہ یہودی اور عیسائی اسلام قبول کر چکے ہیں، اور ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے میرے ہاتھ پر گنا ہوں سے توبہ کی ہے۔ صوفیاء کرام جو بیعت لیتے ہیں، یہ ”بیعت علی الاعمال“ ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اعمال کی بیعت لیا کرتے تھے کہ گناہ نہیں کرو گے، نماز کی پابندی کرو گے، وغیرہ۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تیسری اہم خوبی یہ ہے کہ آپؒ حکمرانوں کے اقدامات پر کھلم کھلا تنقید کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ عباسی خلیفہ مکتفی لامر اللہ نے ابو الوفا نامی ایک شخص کو قاضی بنا دیا، جو بڑا ظالم مشہور تھا، عوام میں اس کی شہرت اچھی نہیں تھی، خلیفہ نے اسے جج بنادیا تو مجمع عام میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی نے اس کو لتاڑا ، فرمایا: ”وليت على المسلمين اظلم الظالمين ما جو ابک غدا عند رب العلمین؟“ اے بادشاہ ! تم نے ایک ظالم ترین شخص کو لوگوں پر قاضی بنادیا ہے، کل خدا کو کیا جواب دو گے؟ تمہارا کیا حال ہوگا؟ اس کے اعمال کا حساب تمہیں دیناپڑے گا۔ ان کی بات کی اہمیت دیکھیے کہ د وسرے ہی دن خلیفہ نے اسے معزول کر دیا۔
اسی طرح ایک شخص ، جو خلیفہ کا وزیر تھا، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے پاس آیا۔آپ نے اسے ڈانٹ دیا، فرمایا کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ دنیا کے چار پیسوں کی خاطر ظالم بادشاہ کا ساتھی بنا ہوا ہے؟ کب تک یہ بادشاہت چلے گی؟ اس سے کب تک کھاؤ گے؟ کب تک ان کے دستر خوان پر رہو گے؟ اللہ کے پاس نہیں جانا؟ صوفیاء کرام کا یہ کام بھی تھا۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اپنے مریدوں کو ذکر واذکار کی تلقین بھی کرتے تھے اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔ آپؒ امام الصوفیاء ہیں، بہت بڑے صوفی ہیں اور اللہ کے ولی ہیں، لیکن جہاں لوگوں کو ذکر اذکار بتاتے تھے، مراقبہ بتاتے تھے، وہیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے، حق کی بات کرتے تھے، ظالم کو ظالم کہتے تھے اور اصلاح معاشرہ اور سماج کی اصلاح کی بات بھی کرتے تھے۔
اس حوالہ سے میں نے گزشتہ نشست میں تین بزرگوں کا ذکر کیا تھا، حضرت مجدد الف ثانی ؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ۔ آج میں نے دو پرانے بزرگوں کا نام لیا ہے، حضرت حسن بصریؒ اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ۔ ان سب ہستیوں کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ یہ بات کہہ دینا کہ صوفیاء کرام صرف فرد اور ذات سے ہی غرض رکھتے ہیں، ان کو معاشرے کی اصلاح اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، بالکل غلط ہے۔ جو اصل صوفیاء کرام ہیں وہ جہاں ذات کی بات کرتے تھے، اصلاح معاشرہ کی بات کرتے تھے، ذکر اذکار کی بات کرتے تھے، لوگوں کے قلب ونفس کی اصلاح کرتے تھے ، غلط عقائد کی تردید کرتے تھے اور اپنے وقت کے مصلحین تھے، وہیں ظالم حکمرانوں کے خلاف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے اور ان کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ ہمارے صوفیاء کرام کا ہمیشہ سے یہ انداز رہا ہے۔
میں نے تصوف کےحوالے سے دو مغالطوں پر بات کی ہے۔ ایک مغالطہ یہ کہ تصوف اسلام میں خارج سے آنے والی چیز ہے۔ اس نکتے پر بات ہو چکی ہے۔ دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ صوفیاء کرام صرف ذات سے غرض رکھتے تھے اور معاشرے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس مغالطہ کی بھی وضاحت کر دی ہے۔ تیسری بات ابھی باقی ہے کہ شریعت اور طریقت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کیا طریقت ، شریعت سے الگ کوئی چیز ہے یا شریعت ہی کا حصہ ہے؟ تصوف کا شریعت سے کیا تعلق ہے؟ کیا یہ شریعت کے دائرے سے باہر کی کوئی چیز ہے؟ ہمارے ہاں یہ مغالطہ بھی موجود ہے کہ طریقت کو شریعت سے الگ سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شریعت کی بات نہیں ہے، بلکہ معرفت کی بات ہے۔ اس بارے میں ہمارے کلاسیکل ، معیاری اور مستند صوفیاء کرام کا ارشاد اور عمل کیا ہے؟ اس پر اگلی نشست میں بات ہو گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
چھٹی نشست
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ تصوف کے حوالے سے دو تین پہلوؤں پر بات ہو چکی ہے۔ آج ایک اور حوالے سے مختصر بات ہوگی ۔ مؤرخین جب حالات اور واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں تو کئی سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور ان سوالات پر بحث بھی ہوتی ہے۔ آج ایک سوال کا جائزہ لینا چاہوں گا۔ یہ تاریخ کا سوال ہے کہ اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی، لیکن جب انہوں نے عسکری و سیاسی شکست کھائی تو اندلس میں مسلمانوں کا وجود ختم ہو گیا۔ جب کہ برصغیر میں مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود ہزار سال حکومت کی ہے، جب مسلمان یہاں آئے تھے تب بھی اقلیت میں تھے، اور جب انگریز آئے ہیں اور مسلمان اقتدار سے پیچھے ہٹے ہیں تب بھی مسلمان اقلیت میں تھے، لیکن یہاں انگریز مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔اس فرق کی وجہ کیا ہے؟
یورپ اندلس میں مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا، اس کامیابی کو حاصل کرنے میں اسے نصف صدی کے لگ بھگ عرصہ لگا۔ انہوں نے کچھ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنالیا تھا، کچھ مسلمان قتل کر دیے گئے تھے، اور کچھ وہاں سے نکل گئے تھے اور مختلف علاقوں میں پھیل گئے تھے۔ یہ بھی تاریخ کا سوال ہے کہ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں اسپینش سب سے پہلے پہنچے تھے۔ ویسے معروف بات یہ ہے کہ امریکہ کولمبس نے دریافت کیا تھا، لیکن یہ واقعہ چیلنج ہو گیا ہے۔ بعض مؤرخین اس واقعہ کو نہیں مانتے ، وہ کہتے ہیں کہ کولمبس سے پہلے اسپینش مسلمان وہاں پہنچے تھے ۔ امریکہ میں پرانے مسلمانوں کی تہذیب اور ثقافت کے جو آثار موجود ہیں، ان پر تحقیق ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا میں کولمبس پہلے پہنچا ہے یا عرب؟ گو تاریخی واقعہ تو یہ ہے کہ کولمبس پہلے پہنچا، لیکن اب وہاں ایسے شواہد مل رہے ہیں جن کی روشنی میں یہ بات ہو رہی ہے کہ عرب پہلے وہاں پہنچے تھے۔
امریکا میں اسپینش نسل اور جو امریکن کالے ہیں ان دونوں کے بارے میں یہ بات چل رہی ہے کہ یہ دونوں اصلاً مسلمان تھے۔ جو اسپینش نسل ہے ان کے آباؤ اجداد اسپین پر عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے قبضہ کے بعد مسلمانوں پر ہونے والے جبر و ظلم کے نتیجے میں وہاں سے بھاگے، اسپین سے سمندر کے راستے گئے تھے، کچھ راستے میں غرق ہو گئے تھے، جو بچ گئے اور کسی طریقے سے امریکہ پہنچ گئے، ان کی نسل اسپینش وہاں آج تک چلی آرہی ہے۔ جبکہ بہت سے کالوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اصل میں مسلمان تھے ، ہمارا تعلق شہباز قبیلے سے ہے ۔ معروف نو مسلم ما لکم ایکس نے بھی شہباز کا لقب اختیار کیا تھا جو شہید ہو گیا تھا اور ایلی جاہ محمد نے بھی یہی موقف پیش کیا کہ امریکی ہمیں افریقہ سے اٹھا کر لائے تھے اور یہاں آ کر غلام بنا کر بیچ دیا تھا اور ہمیں جبراً عیسائی بنایا گیا۔
اس بات کے تاریخی شواہد تو اپنے مقام پر موجود ہیں، لیکن دو باتوں کا میں بھی ذاتی طور پر گواہ ہوں۔ گوجرانوالہ کے ڈاکٹر زاہد ہمارے دوست نیو یارک میں ہوتے ہیں۔میں جب ۱۹۸۷ء میں امریکا گیا تو وہ ایک دن کہنے لگے کہ لوگ اتنا سفر کر کے ہمارے پاس چیک اپ کے لیے آتے ہیں، آپ یہاں آئے ہوئے ہیں، میرا کلینک ہے، آپ چیک کروالیں۔ میں نے کہا مجھے بظاہر ضرورت تو محسوس نہیں ہورہی، لیکن چیک کروالیتا ہوں۔ وہ مجھے اپنے کلینک لے گئے، خون وغیرہ چیک کیا۔ وہاں ایک نوجوان اسپینش لڑکی تھی، اٹھارہ انیس سال کی ، اس نے سوئی سے میرا خون نکالا۔ جب اس نے میری رگ میں سوئی چبھوئی تو میں نے کوئی دعا پڑھی۔ اب مجھے یاد نہیں کہ کون سی پڑھی تھی، لیکن میں نے قرآن پاک یا حدیث کی کوئی دعا پڑھی۔ خیر اس نے خون نکالا اور چیک کیا۔ دوسرے دن ڈاکٹر زاہد صاحب شام کو نماز پڑھنے آئے ، جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا تو کہنے لگے کہ مولانا! آپ نے اس لڑکی کو کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا کہ میں نے تو اسے کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ نے کچھ کہا تھا، تو میں نے کہا کہ پھر کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ وہ کہتی ہے کہ جو مولوی صاحب آئے تھے انہوں نے جو پڑھا تھا وہ پوچھ کر بتائیں کہ کیا پڑھا تھا ؟ وہ کہتی ہے کہ مجھے نانی گود میں لے کر یہی الفاظ پڑھا کرتی تھی ، مولوی صاحب کے وہ الفاظ سن کر مجھے نانی کی دعا یاد آگئی ہے۔ میں نے کہا معلوم ہوا کہ اس کے ننھیال اصلاً مسلمان تھے، اس کی نانی تک مسلمان ہی رہے ہیں ۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔
اسی طرح غالباً نوے کی بات ہے، میں ایک بار شکا گو گیا۔ ہمارے فیصل آباد کے بزرگ حافظ صدیق انور صاحبؒ بڑے باذوق آدمی تھے ، اہل حدیث تھے، صحافی تھے، ایک زمانہ میں ہفت روزہ پاکستانی کے نام سے ایک اخبار ان کی ادارت میں فیصل آباد سے نکلتا تھا، اس کے ایڈیٹر تھے ، پھر شکاگو چلے گئے، میرا ان سے پرانا تعلق تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے کھانے پر بلایا ، میں چلا گیا تو پڑوس کے بچوں میں سے ایک بچہ آیا، اس کا نام علی تھا، میں نے اس کا خاندان پوچھا تو پتہ چلا کہ عیسائی فیملی ہے ۔ میں چونکا کہ عیسائی فیملی میں علی کہاں سے آگیا؟ مجھے تجسس ہوا، میری عادت ہے کہ ایسی کوئی بات سامنے آئے تو کھوج کرید میں لگ جاتا ہوں۔ اس کے باپ دادا عیسائی ہیں، اور دو تین نسلوں سے عیسائی ہیں تو عیسائی فیملی میں علی نام ان کے ہاں کدھر سے آیا ہے؟ تحقیق کی تو پتا چلا اس کے پردادا کا نام علی تھا، اور وہ مسلمان تھا۔وہ دراصل اسپینش تھے۔
ان دو واقعات کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں ۔ اسپینش کا دعویٰ نہیں ہے لیکن کالوں کا باقاعدہ دعویٰ ہے کہ ہم اصلاً مسلمان تھے، ہمیں جبراً عیسائی بنایا گیا، اور اسپینش کے بارے میں ریسرچ ہو رہی ہے کہ جو اسپینش نسل وہاں آباد ہے اور امریکہ کی دوسری بڑی آبادی ہے، وہاں کی سیکنڈ لینگوج بھی اسپینش ہے، امریکہ میں انگریزی اور اسپینش دو قومی زبانیں ہیں۔ اس حوالے سے علمی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ یہ اصلاً مسلمان تھے اور یہاں آکر ماحول میں گھل مل گئے ، ان پر جبر تو نہیں ہوا، لیکن وہ عیسائی ہو گئے۔
اسپین میں جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو پچیس تیس سال سے زیادہ عرصہ نہیں لگا کہ جبر کے ذریعے اسپین مسلمانوں سے تقریباً خالی ہو گیا تھا، یا وہ قتل ہو گئے تھے یا عیسائی ہو گئے تھے یا وہاں سے بھاگے تو کچھ سمندر میں غرق ہو گئے اور کچھ امریکہ پہنچ گئے اور کچھ ادھر ادھر پھیل گئے تو مؤرخین نے یہ سوال اٹھایا کہ وہاں تو پوری آبادی کو تبدیل کرنے میں ان کو نصف صدی بھی نہیں لگی، جبکہ برصغیر میں انگریز دو صدیاں رہا ہے، ایک پوری صدی ایسٹ انڈیا کمپنی رہی ہے اور پھر نوے سال تاج برطانیہ رہا ہے،یہاں انگریز اپنے مقاصد میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکا؟
ایک دفعہ ایک سیمینار میں یہ سوال زیر بحث تھا ، سیمینار حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار کے ساتھ ہال میں ہو رہا تھا، جس میں بریلوی ، دیو بندی اور دیگر حضرات بھی شریک تھے۔ یہ سوال اٹھایا گیا اور مختلف حضرات کو دعوت دی کہ اس پر بات کریں کہ اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ میں نے وہاں جو گفتگو کی اس کا خلاصہ عرض کرتا ہوں ۔
میں نے کہا کہ اس کی دو جہیں میری سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اسپین میں اسلام تلوار کے راستے گیا تھا، جہاد کے ذریعے گیا تھا ، موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد اس کے فاتح ہیں۔ وہاں جب تک مسلمانوں کی تلوار قائم رہی، مسلمان رہے، لیکن جب تلوار کمزور ہوئی تو کفر غالب آ گیا اور مسلمان ختم ہو گئے۔ اس کے برعکس برصغیر میں اسلام زیادہ تر صوفیاء کرام کے ذریعے آیا ہے، اس سے انکار نہیں کہ برصغیر میں اسلام کا تعارف تلوار کے راستے ہوا ہے، لیکن یہاں کی اکثر آبادی تلوار کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوئی، بلکہ صوفیاء کرام کی محنت سے مسلمان ہوئی ہے۔ حضرت سید علی ہجویریؒ ، حضرت معین الدین اجمیریؒ اور شاہ محمد غوثؒ وغیرہ حضرات صوفیاء آئے، انہوں نے یہاں آکر ڈیرے لگا لیے اور یہاں کی آبادی میں بالکل گھل مل گئے ۔ انہوں نے صرف یہاں ڈیرے نہیں لگائے بلکہ یہاں کے ماحول کا اپنے آپ کو حصہ بنالیا ،کیوں کہ دوسرے کو متاثر کرنے کے لیے گھل مل کر رہنا بھی ضروری ہوتا ہے، جبکہ بعض صوفیاء کرام پر ایک بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی گھل مل گئے تھے ۔ حالانکہ یہ گھلنا ملنا ان کی ضرورت تھی ، اس کا انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔
یہ جو تاریخ میں آتا ہے کہ فلاں بزرگ کے ہاتھ پر اتنے لاکھ لوگ مسلمان ہوئے ، یہ ویسے ہی نہیں ہو گئے۔ حضرت سید علی ہجویری لاہور میں آکر بیٹھ گئے اور ڈیرہ لگا لیا، پھر جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو کتنے لاکھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے ۔ ان بزرگوں نے انسانوں کی عام نفسیات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ عام انسانی نفسیات اور عام آدمی کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی بزرگ، جس سے عقیدت ہو جائے ، اس سے دعا کرانا، بچہ دم کرانا اور اس سے خیر کی دعا کی درخواست کرنا، یہ سارے کام عام انسان کی روحانی یا نفسیاتی ضروریات ہیں ۔ اس میں بالکل نچلی سطح پر مذہب کی تمیز بھی نہیں ہوتی ۔ عام سطح کے لوگ کسی کو بھی بزرگ سمجھ کر اس سے دعا کی درخواست کر دیتے ہیں ، مثلاً آپ ننکانہ صاحب جا کر دیکھ لیں، اس کو جہالت کہہ لیں، بے خبری کہہ لیں ، یا کچھ بھی عنوان دے دیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ننکانہ صاحب سکھوں کے بڑے گوردوارے میں روز مرہ آنے والے لوگوں میں سکھ دس فیصد بھی نہیں ہوں گے ، نوے فیصد مسلمان آتے ہیں۔ سب کو اس مقام سے ایک عقیدت سی ہو گئی ہے کہ یہ کسی بزرگ کی جگہ ہے اور یہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ وہاں لوگ چڑھاوے چڑھاتے ہیں، بکرے لاتے ہیں، اور وہ سب کچھ ہوتا ہے، جو مزارات پر ہوتا ہے۔
حتیٰ کہ لندن میں مجھے ایک سکھ دوست نے طعنہ دیا، جو طعنہ مجھے بھولتا نہیں ہے۔ وہ بزرگ کو گیانی جی کہتے ہیں۔ مجھے کہنے لگا گیانی جی ! امرتسر میں جو دو تین مسجدیں ہیں، وہاں ہماری بوڑھی عورتیں شام کو لائن میں کھڑی ہوتی ہیں کہ نماز کے بعد مولوی صاحب نکلیں تو میرے بچے کو دم کریں اور لاہور میں آپ کی مسجد کے باہر مسلح گارڈ پہرہ دار ہوتا ہے۔ اس کے اس طعنہ کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
امرتسر میں میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ ہندو اور سکھ عورتیں شام کو مسجد کے گرد لائن لگائے ہوتی ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ شام کو کسی بزرگ سے دعا کرائیں تو قبول ہوتی ہے۔ نمازی باہر نکلتے ہیں تو وہ عورتیں کہتی ہیں پھونک ماردیں۔ عوامی نفسیات یہی ہے کہ جس کے بارے میں یہ تصور ہو کہ یہ بزرگ ہے، نیک بندہ ہے تو اس کو اس سے غرض نہیں کہ مسلمان ہے یا کافر ہے، بس اس سے دعا کرانی ہے، اس سے دم کروانا ہے اور اس کے ہاں حاضری دینی ہے۔ عمومی کلچر یہی ہے۔ حضرات صوفیاء کرامؒ نے جنوبی ایشیا کے اس خطے میں لوگوں کی اس نفسیات سے فائدہ اٹھایا، اور بزرگ بن کر بیٹھ گئے اور کسی کو دم کر دیا، کسی کو تعویذ دے دیا، کسی کیلئے دعا کر دی، کسی کو لنگر سے کھانا کھلا دیا، کسی کو اٹھ کرمل لیا، کسی کا ہاتھ تھام لیا، کسی کے سر پر ہاتھ پھیر دیا، یہ دیکھے بغیر کہ وہ مسلمان ہے یا کیا ہے، انہیں اس سے غرض نہیں تھی۔ ان کے اس طرز عمل سے یہاں کی اکثریت مسلمان ہوئی ہے۔ یہ بالکل نچلی سطح کی بات ہے، لیکن اگر آپ اس کا تجزیہ کریں گے توسمجھ میں آئے گا کہ یہاں اسلام کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ یہی بنا۔
دنیا میں دعوت وتبلیغِ اسلام کے تین بڑے ذرائع تھے۔ مؤرخ اس کا تجزیہ کرتا ہے کہ اسلام دنیا میں تین راستوں سے پھیلا ہے۔
جہاد تبلیغِ اسلام کا ایک مستقل راستہ ہے، جو اسلام کے تعارف کا ذریعہ بنا۔ مجاہدین آئے، انہوں نے جہاد کیا اور اسلام کا غلبہ قائم ہوا ہے۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ کا یہ ایک مستقل دروازہ ہے۔
جبکہ تبلیغِ اسلام کا دوسرا دروازہ جو شاید اس سے بڑا ہے، وہ ہے جسے ہم تصوف و سلوک کہتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ حضرات صوفیاء کرام میں سے کوئی بزرگ عام لوگوں کی نفسیات سے فائدہ اٹھا کر ایک جگہ ڈیرہ لگا لیتے، حادثاتی طور پر نہیں، بلکہ ایک طے شدہ پروگرام اور پالیسی کے تحت کہ اس علاقے کے لوگوں کا مزاج کیا ہے، ان کو کیسے قابو کرنا ہے۔ چنانچہ جولوگ آتے گئے ہیں وہ قابو ہوتے گئے ہیں۔ اس پر ایک واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا۔ بسا اوقات اس حوالے سے تکلف بھی محسوس ہوتا تھا، لیکن اس تکلف میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے ایک بزرگ حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دعاجوؒ تبلیغی جماعت کے بڑے بزرگوں میں سے تھے، میں نے ان کی زیارت کی ہے۔ ٹنڈو آدم میں ان کی قبر ہے۔ وہ بڑے ماہر نفسیات تھے ۔ ان کا ایک واقعہ میں نے ان کے جانشین سے سنا۔ میں صوفیاء کرام کا طریقہ کار بتا رہا ہوں۔ آپؒ گاڑی میں سفر کر رہے تھے، فی الواقع اللہ والے بزرگ تھے اور شکل وصورت سے بھی یہی محسوس ہو رہا تھا کہ بزرگ ہیں۔ ساتھ والی نشست پر دوسری طرف بیٹھے لوگ آپس میں خواب کی باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے کہا میں نے یہ خواب دیکھا ہے ۔ شاہ عبدالعزیز دعاجوؒ نے اپنے ساتھی سے کہا کہ کسی طریقے سے آہستہ سے ان کے کان میں بات ڈالو کہ یہ بزرگ خواب کی بڑی اچھی تعبیر بتاتے ہیں۔ اس کے کان میں وہ بات چلی گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نوجوان لڑکا شاہ عبدالعزیز دعاجوؒ کے پاس آیا اور کہا کہ حضرت! میں نے ایک درخواست کرنی ہے۔ فرمایا جی بتائیں۔ اس نے کہا سنا ہے آپ خواب کی تعبیر اچھی بتاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا خواب سناؤ ، سمجھ میں آئی تو تعبیر بتا دوں گا۔ اس سے خواب سن کر فرمایا یہ تو بڑا مبارک خواب ہے، تم دین کے داعی بنو گے۔ اسے سینے سے لگا یا، اس کا ماتھا چوما اور کہا کہ بیٹا! تمہارا خواب یہ بتا رہا ہے تم دین کے داعی بنو گے۔ شاہ عبدالعزیز دعاجوؒ کے جس جانشین نے مجھے یہ قصہ سنایا، اس نے بتایا کہ وہ نو جوان تبلیغی جماعت میں سال لگا چکا ہے، اور اب پکا داعی ہو گیا ہے۔ میں یہ بتارہا ہوں کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کا دوسرا بڑا درواز ہ حضرات صوفیاء کرامؒ ہیں۔
اسلام کی تبلیغ کا تیسرا بڑا دروازہ تجارت تھا۔ آپ غور کریں کہ پورا مشرقی ایشیا یعنی ملائیشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، ہانگ کانگ وغیرہ کے علاقہ میں نہ کبھی کوئی مجاہد گیا ہے اور نہ کوئی صوفی گیا ہے، بلکہ وہاں اسلام تاجروں کے ذریعے پھیلا ہے۔ اس وقت اس خطے میں کم و بیش چالیس کروڑ مسلمان ہیں، مگر پوری تاریخ میں وہاں نہ کبھی جہاد ہوا ہے اور نہ کوئی صوفی وہاں گئے ہیں، بلکہ مشرق بعید کی ساری پٹی تجارت کے راستے سے مسلمان ہوئی ہے۔ مسلمان تاجر وہاں گئے، ان کا طرز عمل دیکھ کر وہاں کے رہنے والے لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔
اس لیے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اسلام کی دعوت کی تین مین گیٹ ہیں، جہاد، تصوف و سلوک، اور دیانت دارانہ تجارت ۔
میں نے سیمینار میں اس سوال، کہ اندلس میں عیسائیوں نے قبضہ کرنے کے بعد نصف صدی میں سارا اندلس تبدیل کر دیا تھا اور یہاں قبضہ کرنے کے بعد دو سو سال تک بھی زور لگا کر تبدیل نہیں کر سکے، کے جواب میں کہا کہ میں تاریخ کا ایک طالب علم ہوں، مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسپین میں اسلام تلوار کے راستے سے گیا تھا، تلوار جب تک قائم رہی ہے مسلمان بھی قائم رہے ہیں اور جب تلوار ڈھیلی پڑی ہے تو مسلمان بھی ڈھیلے پڑ گئے۔ جبکہ یہاں ہمارے خطے میں اسلام صوفیاء کرام کے راستے سے آیا تھا اور دل میں اترا ہے۔ یہاں تلوار زیادہ اثر انداز نہیں ہوئی، چنانچہ صوفیاء کا ماحول ابھی تک قائم ہے۔ اب بھی ہماری نفسیات یہی ہیں، جتنے ہم پیر پرست ہیں، اتنا اور کون ہے؟ بزرگ کو بزرگ سمجھنا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دینا ، یہ ہمارا مزاج ہے۔ میں نے کہا چونکہ یہاں اسلام صوفیاء کرام کے ذریعے آیا ہے اور صوفیاء کرام یہاں سے نکلے نہیں ہیں اور صوفیاء کے نظام اور ان کے نیٹ ورک کو کوئی فرق نہیں پڑا، اس لیے اسلام بھی یہاں سے نہیں نکلا اور اب تک چل رہا ہے۔
اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب انگریز یہاں آیا تو انگریز کے قبضے کے بعد یہاں بہت مظالم ہوئے ہیں۔ اگر آپ مظالم کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ تیس ہزار علماء تو صرف یوپی میں پھانسی پر چڑھے ہیں، قتل ہوئے ہیں ۔ یوپی ایک صوبہ ہے، وہاں علماء پر مظالم ہوئے ، علماء جیلوں میں گئے ہیں، کالا پانی بھی گئے ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے مورچہ نہیں چھوڑا ، ہتھیار نہیں ڈالے، یہاں کی مذہبی قیادت سرنڈر نہیں ہوئی اور اپنا کام جاری رکھا۔ بس اتنا فرق ہوا ہے کہ دلی چھوڑا اور دیو بند کے چھوٹے سے گاؤں میں آ کر بیٹھ گئے۔ کہاں دہلی اور کہاں دیوبند، اب بھی دیو بند چھوٹا سا شہر ہے یا بڑا قصبہ کہہ لیں ۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو سال پہلے تو وہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ اس وقت علماء کرام نے فیصلہ کیا اور سب سے الگ تھلگ ہو کر کیموفلاج ہوکر دنیا کی نظروں سے دور ہو کر چٹائیوں پر بیٹھ گئے ، مسجد میں ڈیرہ لگالیا اور اپنا کام کرتے رہے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ راڈار کی رینج سے نیچے چلے گئے کہ نظروں میں نہ آؤ ، اور خاموشی سے کام کرتے رہو۔ مخالف یہی سمجھتے رہے کہ ٹھیک ہے نورانی قاعدہ پڑھتے ہیں، اور کیا کرتے ہیں، لیکن انہیں ڈیڑھ سو سال کے بعد اب پتا چلا ہے کہ یہ کیا کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے نہایت نچلی سطح سے کام شروع کیا تھا، جس کو گراس روٹ کہتے ہیں کہ بالکل نیچے جا کر، زمین کے ساتھ لگ کر کام کرو ۔ علما ء کرام تقریباً ایک صدی تک کیموفلاج رہے ہیں۔
ایک واقعہ مشہور ہے غالباً اندرا گاندھی کے دور کا واقعہ ہے، پتا چلا کہ بستی نظام الدین کا اجتماع ہورہا ہے، بہت بڑا اجتماع تھا۔ سیاسی حکمرانوں کو تو کوئی بھی بڑا اجتماع خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اتنے لوگ کیوں اکٹھے ہو گئے ہیں، کہیں کل یہ لوگ ہمارے لیے کوئی خطرہ ہی نہ بن جائیں۔ اس لیے حکومت نے کہا کہ پتا کرو، حکومت نے سی آئی ڈی پیچھے لگائی کہ اتنے لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے چار چھ مہینے کے بعد رپورٹ دی اور کہا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ وہاں بندے تو کافی جمع ہوتے ہیں لیکن وہ یا زمین کے نیچے کی بات کرتے ہیں یا آسمان کے اوپر کی ، وہ درمیان کی بات ہی نہیں کرتے ۔ یعنی ان کی ساری گفتگو کا خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ قبر میں کیا ہو گا اور آسمانوں پر کیا ہوتا ہے۔ وہ درمیان کی بات نہیں کرتے اس لیے ان سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی صوفیاء کرام اور علماء کرام کی حکمت عملی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ یہاں اسلام کے ابھی تک قائم رہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں مذہبی رہنماؤں نے ہتھیار نہیں ڈالے، سرنڈ رنہیں ہوئے۔ ایک ہے شکست، شکست اور چیز ہوتی ہے، سرنڈر ہونا اور چیز ہوتا ہے۔ یہاں علماء مار کھاتے رہے، کئی دفعہ مار کھائی ہے، لیکن پھر کھڑے ہو گئے ، ہار نہیں مانی۔
میں نے حضرات صوفیاء کرامؒ کے کردار کا ایک پہلو آپ کے سامنے رکھا ہے کہ علماء تو فقہی انداز سے بات کرتے ہیں ، جبکہ صوفی عوامی انداز سے بات کرتا ہے،صوفی کی نفسیات اور ہیں ،صوفی کا علم کلام اور ہے، صوفی کا طرز تکلم اور ہے۔ وہ عوام کی بالکل نچلی سطح پر آ کر لوگوں کی نفسیات سمجھ کر ان کی کمزوریاں، مجبوریاں سمجھ کر اس کے مطابق بات کرتے ہیں، اور اس خطے جنوبی ایشیا میں اسلام کی دعوت کا یہ سب سے بڑا نفسیاتی طریقہ کار تھا۔ اگر آپ میرے اس جملہ کا کوئی غلط مطلب نہ لے لیں تو یہ ایک نفسیاتی حربہ تھا، جو صوفیاء کرام نے یہاں استعمال کیا اور انہوں نے عام آدمی کو مخاطب کر کے اس تک رسائی حاصل کی۔
میں اکثر یہ بات کہا کرتا ہوں کہ صوفیاء کی زبان مختلف ہوتی ہے۔ فقہا کی اپنی زبان ہے، محدثین کی اپنی زبان ہے ، متکلمین کی اپنی زبان ہے، اسی طرح صوفیاء کی اپنی زبان ہے، وہ اپنے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ اس پر ایک دو قصے سنا یا کرتا ہوں۔
غالباً حضرت بایزید بسطامیؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک دن اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، اچانک کہنے لگے کہ دنیا کا کوئی کام میری مرضی کے بغیر نہیں ہوتا۔ارد گرد بیٹھے مریدین حیرت میں پڑ گئے اور کہا پیر صاحب! آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ تو خدائی دعویٰ ہے، یہ دعویٰ کہ دنیا کا کوئی کام میری مرضی کے بغیر نہیں ہوتا، خدا کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا ۔ فرما یا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔ مریدین نے کہا حضرت! کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ کسی مفتی نے سن لیا تو فتویٰ لگ جائے گا۔ لیکن پیر صاحب کہتے ہیں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ ساتھیوں نے اصرار کیا کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آرہی، یہ سیدھا سادا خدائی دعویٰ ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں تو انہوں نے کہا بات سنو ۔ جب سے میں نے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے اور خدا کی مرضی کو میں نے اپنی مرضی بنالیا ہے، تو کوئی کام میری مرضی کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟ میری اپنی کوئی مرضی ہے ہی نہیں۔ جو اس کی مرضی ہے وہی میری مرضی ہے۔ میں نے اپنی مرضی ختم کر دی ہے۔ کیا ہی خوب صورت جملہ ہے کہ جب سے میں نے اپنی مرضی ختم کر دی ہے اور اس کی مرضی کو اپنی مرضی قرار دے دیا ہے تو کوئی کام میری مرضی کے بغیر نہیں ہوتا۔
یہ اصل ” نفسیات“ ہے ، بات کہنے اور بات سمجھانے کا انداز اور ڈھنگ ہے ۔ صوفیاء کرام کا اپنا طرز کلام ہے۔ اس پر ایک اور حوالہ دوں گا۔
دیکھیے ، کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں ؟ محدثین نے ساری روایات سامنے رکھ کر گناہ کبیرہ کی ایک تعریف متعین کی ہے۔ امام ذہبیؒ بڑے محدث اور بڑے ناقد ہیں، انہوں نے اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ اس میں کبیرہ گناہ کی یہ تعریف کی ہے کہ
جس گناہ کے ساتھ اخروی سزا کا ذکر ہے، جہنم کی وعید ہے وہ کبیرہ گناہ ہے،
جس گناہ کے ارتکاب پر دنیوی سزا ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا وغیرہ مقرر ہے وہ کبیرہ گناہ ہے ،
جس کام پر قرآن وحدیث میں لعنت کا ذکر ہے، وہ کبیرہ گناہ ہے،
جس کام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا ذکر ہے، وہ کبیرہ گناہ ہے،
اور جس کام کے کرنے والے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براءت اور لاتعلقی کا اعلان کیا کہ فلاں کام کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے، وہ کبیرہ گناہ ہے۔
جس گناہ کے ساتھ ان میں سے کسی بات کا ذکر ہو وہ محدثین کے ہاں کبیرہ گناہ ہے، امام ذہبیؒ نے کتاب الکبائر میں اسی اصول پر ستر گناہ کبیرہ ذکر کیے ہیں، محدثین کی طے کردہ گناہ کبیرہ کی یہ تعریف بالکل صحیح ہے، لیکن میں نے عرض کیا کہ صوفیاء کا اپنا طرز کلام ہے۔ چنانچہ حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ صغیرہ اور کبیرہ گناہ کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے بڑی مزے کی بات کی ، فرمایا کہ بڑے سے بڑے گناہ پر معافی مانگ لوتو وہ صغیرہ ہو جاتا ہے، اور اگر چھوٹی سی غلطی پر اڑ جاؤ تو وہ کبیرہ ہو جاتا ہے۔
میں نے گزارش کی ہے کہ حضرات صوفیاء کرامؒ کا یہ مستقل طریقہ رہا ہے کہ عوام کی نفسیات، مزاج اور کمزوریاں بالکل نچلی سطح پر آکر دیکھتے ہیں، انہوں نے عوام کی نفسیات سمجھی ہیں اور اس کے مطابق لوگوں میں نفوذ حاصل کر نے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی کمزوریاں بھی آتی ہیں،لیکن وہ اپنے عمل اور محنت کے ذریعے لوگوں کو قابو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ حضرات صوفیاء کرامؒ کے کردار کے بیسیوں پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے۔ اللهم صل علی سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
ساتویں نشست
گزشتہ نشست کی گفتگو میں ایک تاریخی سوال کا ذکر کیا تھا کہ اسپین پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے، مگر جب وہ اسپین سے نکلے ہیں تو ان کا وہاں سے وجود ہی مٹ گیا، چنانچہ اسپین آج بھی غیر مسلم اکثریت کاملک ہے، اکا دکا مسلمان باہر سے گئے ہوئے ہوں تو الگ بات ہے۔ اس کے برعکس برصغیر جنوبی ایشیا پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی ہے، وہی یورپین جب یہاں آئے اور یہاں سے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے دو سو سال بھرپور محنت کی اور بڑی کوششیں کیں، لیکن وہ اپنے اس مشن میں کامیاب نہیں ہوئے کہ برصغیر کے مسلم معاشرے کو عیسائی معاشرے میں تبدیل کر سکیں۔ یہاں کے مسلمان آج تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ مؤرخین تو ہر معاملے میں ایسے سوالات اٹھاتے ہیں، تا کہ صورت حال واضح ہو سکے۔مورخین نے اس سوال کے اپنے اپنے حساب سے جواب دیے ہیں۔ ایک جواب میں نے ایک سیمینار میں عرض کیا تھا کہ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اسپین میں اسلام تلوار کے راستے سے گیا تھا، اس لیے جب تک ہماری تلوار مضبوط رہی ہے، اسلام وہاں موجود رہا ہے، جب تلوار کمزور پڑی ہے تو اسلام بھی ساتھ ہی رخصت ہو گیا۔ جبکہ ہندوستان میں اسلام تلوار کے راستے سے متعارف تو ہوا ہے، لیکن آیا صوفیاء کرامؒ کے راستے سے ہے۔ چونکہ یہاں اسلام دل کے راستے سے آیا ہے، اس لیے وہ کیفیت بدلنے میں انگریز کامیاب نہیں ہوا، اور ان شاء اللہ کامیاب ہو گا بھی نہیں ۔
آج اس پر گفتگو ہوگی کہ صوفیاء کرامؒ کا معاشرے میں بنیادی کام کیا رہا ہے یا کیا کام ہوتا ہے۔ صوفیاء کرام رحمہم اللہ کی سرگرمیوں ، ان کی زندگی اور حالات کا مطالعہ کریں تو جن اہداف پر وہ کام کرتے چلے آرہے ہیں، انہیں چار پانچ دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں صوفیاء کرامؒ نے بنیادی کام اسلام کی دعوت کا کیا ہے۔ آپ جس بزرگ کا بھی تذکرہ پڑھیں گے، حضرت خواجہ معین الدین اجمیر یؒ، حضرت سید علی ہجویریؒ ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒوغیرہم ہمارے پرانے صوفیاء کرامؒ کے کاموں کو اگر آپ دیکھیں تو ان کا بنیادی کام یہ نظر آئے گا کہ وہ غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں لائے ہیں۔ کسی نے دس لاکھ مسلمان کیے ہیں، کسی کی محنت سے چار لاکھ مسلمان ہوئے، کسی نے تیس لاکھ کو مسلمان کیا ہے، اس تعداد میں مبالغہ ہو سکتا ہے لیکن اتنا مبالغہ بھی نہیں ہے۔
بہرحال غیر مسلم ماحول میں اسلام کی دعوت صوفیاء کرامؒ کا بنیادی مقصد تھا، اور اس کے لیے انہوں نے دور استے اختیار کیے۔ اس مقصد کے لیے ان کے پاس دو ہتھیار تھے۔ ہر کام کا کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے، کوئی مین گیٹ ہوتا ہے ، حضرات صوفیاء کرامؒ نے دو چیزوں سے فائدہ اٹھایا ہے، ایک انسان کی روحانی ضروریات کااور دوسرا انسانی نفسیات کا ، اس پر پچھلی نشست میں بات ہوئی تھی کہ ان کے ہتھیار کیا تھے۔ صوفیاء کرامؒ نے ایک روحانیات کا ہتھیار استعمال کیا اور ہمارے ہاں ابھی تک صوفیاء کرامؒ کا وہ ماحول باقی ہے کہ بزرگوں سے دم، درود، تعویذ مسلمان بھی لیتے ہیں اور غیر مسلم بھی لیتے ہیں۔ اب بھی انڈیا اور پاکستان میں صوفیاء کے پاس غیر مسلم بھی آتے ہیں۔
ہمارے ہاں اب تو فلش سسٹم ہے، ایک زمانے میں یہ فلش سسٹم نہیں ہوتا تھا تو صفائی کے لیے ہمارے ہاں عورتیں آیا کرتی تھیں۔ عیسائی عورتیں غسل خانے اور بیت الخلا کی صفائی وغیرہ کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے ایک مسیحی خاتون ہمارے ہاں مسلسل آتی تھیں، ہم اس سے مانوس تھے۔ ایک دن اس نے والد صاحب حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ سے تعویذ مانگا،تو والد صاحبؒ نے دے دیا۔ مجھے یہ دیکھ کر تردد ہوا کہ والد صاحب نے اس غیر مسلم خاتون کے لیے تعویذ میں لکھا کیا ہو گا۔ میں نے بھی والد صاحب سے تعویذ سیکھا ہے لیکن عام طور پر کرتا نہیں ہوں۔ آپؒ عام طور پر تعویذ میں یہ عبارت لکھا کرتے تھے، ’’بسم الله الرحمن الرحیم، رب الناس اذهب الباس و اشف انت الشافی‘‘۔یہ ان کا عام تعویذ ہوتا تھا۔ اور کبھی موقع محل کے مطابق کوئی متعلقہ آیت وغیرہ لکھ دیتے۔ مثلاً کوئی جادو کا تعویذ لیتا تو لکھتے ”ولا يفلح الساحر حيث اتیٰ“۔
جب اس خاتون کو تعویذ لکھ کر دیا تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ عیسائی عورت ہے، اس کو آخر کوئی آیت لکھ کر دی ہوگی ۔ کچھ نہ کچھ تو لکھ کر دیا ہوگا، لیکن اب میں والد صاحبؒ سے کیسے پوچھوں یا اس عورت سے کیسے پوچھوں ۔ اس کے لیے میں نے حیلہ اختیار کیا ، میں نے اس خاتون سے تعویذ لے لیا اور اسے کہا کہ دکھاؤ، میں دوبارہ تعویذ لکھوا کر لاتا ہوں ۔ میں نے اس بہانے اس خاتون کے ہاتھ سے تعویذ لے لیا، اور جب اسے کھول کر دیکھا تو اس میں صرف ایک جملہ لکھا ہوا تھا اور وہ بھی پنجابی کا ”رباتوں ای سچا ایں“ لیکن اس خاتون کا کام بن گیا۔ یہ ہے روحانیت ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان میں روح رکھی ہے تو روح کی کچھ ضروریات ہیں وہ صحیح طریقے سے پوری ہوں، یا غلط طریقے سے دونوں طریقے ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں روحانی تسکین کے لیے جو ریاضتیں اور یوگا کی مشقیں ہیں وہ بھی ایک طریقہ ہے کہ اس سے انسان کی روح کو سکون ملتا ہے ، آپ اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے ۔ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ طریقہ غلط ہے، اس سے وقتی سکون ملتا ہے، لیکن ا ن کے ہاں روحانی تسکین کے لیے یہ سب چیزیں ہیں۔ اسی طرح بدھوں میں بھی مراقبہ رائج ہے۔
روحانی تسکین انسان کی بنیادی ضرورت ہے، وہ مسلمان ہو یا کافر دونوں کی ضرورت ہے۔ آپ آج بھی مغرب کے کسی حصے میں چلے جائیں تو دیکھیں گے کہ وہاں سب سے زیادہ خلا روحانیت کا ہے، اسی لیے وہاں سب سے زیادہ پذیرائی اس کو ملتی ہے جو اس شعبے میں کام کرتا ہے۔وہاں ہندو جوگیوں نے بڑے بڑے حلقے بنارکھے ہیں، لوگوں کو ذکر کرواتے ہیں، مراقبے اور یوگا کی مشقیں کرواتے ہیں۔ ہمارے صوفیاء میں بھی وہی صوفی زیادہ کامیاب ہیں جو ذکر کی محفلیں ، ذکر کے حلقے اور مراقبے کے حلقے قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے وہ موجود خلا کسی حد تک پر ہوتا ہے، بلکہ بات آئی ہے تو میں یہاں ایک بات اور عرض کر دوں ۔
ہمارے ایک نو مسلم دوست ہیں ڈاکٹر یحییٰ برٹ۔ ایک دفعہ ہم نے انہیں ورلڈ اسلامک فورم کے تحت لندن میں استقبالیہ دیا۔ اس موقع پر میں نے ان کے سامنے دو سوال رکھے۔ ایک یہ کہ اسلام کی دعوت کے لیے مغربی دنیا میں آپ کیا طریق کار بہتر سمجھتے ہیں ؟ یعنی یورپ میں اسلام کی دعوت کا کون سا طریقہ بہتر ہوگا؟دوسرا سوال میں نے ان کے سامنے یہ رکھا کہ جو شخص اسلام قبول کرتا ہے اسے کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟ مثلاً آپ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اپنے معاشرے سے کٹ کر نئے معاشرے میں آئے ہیں تو پہلے معاشرے کے رویے میں آپ کو کیا فرق نظر آیا ہے اور نئے معاشرے کے رویے میں آپ کیا چاہتے تھے اس میں سے کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا؟ میرے ان سوالوں پر انہوں نے تفصیلی بحث کی، اس کا ایک حصہ نقل کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ یورپ میں آپ عقلیات کی بات نہ کریں ، کیونکہ عقلیات میں یہ آپ سے آگے ہیں۔ اس لیے یہاں آپ روحانیت کی بات کریں، کیونکہ روحانیت سے وہ خالی ہیں ، یہ ان کی ضرورت ہے۔ مارکیٹ میں وہ چیز چلتی ہے جس کی طلب ہو، جو پہلے ہی موجود ہے، اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں ہوگی ۔ انہوں نے کہا یہاں عقلیات سے بات نہ کریں ، ہاں عقلیات میں سے کامن سینس کی بات کریں۔ ان کی عقلیات کو سمجھ کر اس کے مطابق کامن سینس میں ان کے سامنے اسلام کا پیغام رکھیں تو فوراً سمجھیں گے۔ ان کے ہاں بنیادی خلا روحانیت کا ہے۔ وہ اس کو وجدانیات کہتے ہیں کہ انہیں دل کی تسکین چاہیے، کوئی ایسی مشقیں، کوئی ایسے طریقے، کوئی ذکر اذکار جس سے ان کا دل سکون محسوس کرے۔
ڈاکٹر یحییٰ برٹ نے با قاعدہ دو نام لیے کہ یہاں بات کرنی ہے تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی زبان میں بات کریں ، کہ ان کے ہاں عقلیات بھی ہے اور روحانیات بھی ہے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ صوفی بھی بڑے تھے ، اور متکلم بھی بڑے تھے۔ اور دوسرا انہوں نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا نام لیا کہ یہاں مولانا تھانویؒ کی زبان بولیں،وہ ان کو سمجھ میں آئے گی۔ جو زبان آپ بولتے ہیں کہ شریعت نافذ کرو، یہ ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے دونوں پر ریسرچ کی ہے، دونوں کو اسٹڈی کیا ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مغرب میں بات کرنے کے لیے حضرت شاہ ولی اللہؒ یا حضرت تھانویؒ والا لہجہ اختیار کریں ، تب آپ انہیں بات سمجھا سکیں گے ، اور یہ ان کی ضرورت ہے، اس لیے وہ بات قبول کر لیں گے۔
میں نے یہ عرض کیا ہے کہ صوفیاء کرامؒ نے روحانیات کا خلا محسوس کیا اور نفسیات کو سمجھ کر بات کی ہے۔ صوفیاء کرامؒ نے اپنی نفسیات مسلط نہیں کیں، بل کہ مخاطبین کی نفسیات کے مطابق بات کی ہے۔ وہ خود اپنے مقام سے نیچے اتر کر آئے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دوں گا۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ قرآن پاک کے اسلوب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے الفوز الکبیر میں لکھتے ہیں کہ کلام کا اصول یہ ہے کہ مخاطَب کی سطح دیکھی جاتی ہے، خطاب کرنے والے کی نہیں۔ اگر خطاب کرنے والا اپنی سطح پر بات کرے تو مخاطَب کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اس لیے گفتگو کرنے کے لیے مخاطب کی نفسیات اور اس کی ذہنی سطح دیکھنا پڑتی ہے کہ وہ کس سطح پر ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں عام انسان کی سطح پر بات کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مشکل سے مشکل اور بڑے سے بڑے مسئلے کی بات کی ہے لیکن ایک عام انسان کے لیول پر آکر، کیونکہ قرآن کریم تو سب کے لیے ہے۔ میں کبھی کبھی عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے اختیارات وغیرہ کے جو مسائل خیالی اور شرح عقائد میں ہم پڑھتے پڑھاتے ہوئے اچھے اچھے اساتذہ کے دماغ بھی گھوم جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی حقیقت کی بات ایک چھوٹی سی مکڑی کی مثال دے کر بیان کی ہے: ”مثل الذين اتحذو من دون الله اولياء كمثل العنكبوت اتخذت بيتا وان او هن البيوت لبيت العنكبوت“ جنہوں نے الله کے سوا اور مددگار بنا رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی طرح ہے،جس نے گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھرہوتا ہے۔
یہ بات کہ عقیدہ کیا ہے، ایک عام آدمی مکڑی سے ہی سمجھے گا، وہ عقیدے کی کتاب ”خیالی“ سے نہیں سمجھے گا۔ دعوت اور خطاب کا اصول یہ ہے کہ آپ جس سے مخاطب ہیں اس کی ذہنی سطح دیکھیں کہ یہ کون سی بات سمجھے گا، ورنہ وہ یہ تو کہے گا کہ تقریر بڑی زبردست ہوئی ہے، البتہ کہنے والے نے کہا کیا ہے یہ پتا نہیں چلا۔ ہمارے ہاں بہت سی تقریریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں مولوی صاحب نے بڑی زبردست تقریر کی ہے، لیکن کیا کہا ہے؟ اس کا پتہ نہیں ہوتا۔
پرانی بات ہے، ایک مرتبہ ایک خطیب صاحب تشریف لائے۔ میں نے طالب علموں سے پوچھا رات جلسے میں گئے تھے؟ کیسا ہوا جلسہ؟ انہوں نے کہا استاد جی! خطیب صاحب نے کمال کر دیا، پھٹے بھن دتے ،مٹی پلید کر دتی ۔ میں نے کہا کیا وہ اسی کام کے لیے آئے تھے؟ تختے توڑنے کے لیے اور مٹی پلید کرنے کے لیے؟ پھر میں نے پوچھا انہوں نے بات کیا کی ہے؟ طلباء کہنے لگے استاد جی! یہ کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ انہوں نے کیا بات کی ہے۔
حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی عام آدمی کی نفسیات دیکھی ہیں۔ اس میں اگر انہیں کہیں قوالی بھی کرنا پڑی ہے تو کی ہے۔ یہ رویہ دعوت کی ضروریات میں سے ہے۔ کہیں ان کو بہت سی باتیں برداشت کرنا پڑی ہیں تو برداشت کی ہیں کہ اس کو کسی طرح قابو کرنا ہے۔ جیسے شکاری شکار کو قابو کرنے کے لیے بہت سی حرکتیں ایسی بھی کرتا ہے جو اچھی نہیں لگتیں، لیکن اس کے لیے وہ ضروری ہوتی ہیں، جن کے بغیر ہرن قابو نہیں آئے گا۔ اسی طرح صوفیاء کرامؒ کے پاس لوگوں کو قابو کرنے کے دو ہتھیار تھے ، روحانیت اور نفسیات۔ صوفیاء نے ان ہی دو ہتھیاروں سے معاشرے میں نفوذ کیا ہے۔ لوگ ان کے پاس آتے اور صوفیاء کسی کو دم کر دیتے، کسی کو وظیفہ بتا دیتے، کسی کو تعویذ دے دیتے۔ صوفیاء کرامؒ دیکھتے کہ اس کو فلاں بات پسند ہے ، تو اس کے مطابق اس سے بات کر دیتے۔ اس راستے سے حضرات صوفیاء کرامؒ کا بڑا کام ہمارے معاشرے میں ”دعوت اسلام“ کا کام تھا۔
میں نے یہ عرض کیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اسلام صوفیاء کرامؒ کے ذریعہ اور تصوف کے راستے سے آیا ہے ، جبکہ مشرقِ بعید میں اسلام تجارت کے ذریعے گیا ہے، وہاں نہ کوئی صوفی گیا ہے اور نہ کوئی مجاہد گیا ہے۔ وہاں ایک تلوار بھی نہیں گئی لیکن اس خطہ میں کم و بیش چالیس کروڑ مسلمان ہیں جو تجارت کے راستے مسلمان ہوئے ہیں اور باقی دنیا میں اسلام جہاد کے ذریعے گیا ہے ،پورا وسط ایشیا افغانستان اور ماوراء النہر وغیرہ جہاد کے ذریعے اسلام میں آیا ہے۔ دعوت اسلام کے ہمارے یہ تین مرکزی دروازے تھے۔
میں نے ذکر کیا کہ صوفیاء کرامؒ کا ایک کام دعوتِ اسلام تھا۔ صوفیاء نے لوگوں کے روحانی خلا کو محسوس کرتے ہوئے اور لوگوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے انہیں اسلام کی دعوت دی ہے، تو ان کے ہاتھ پر لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ آج جب ہم اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو صرف حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ہاتھ پر ایک لاکھ افراد نے تو بہ کی ہے، وہ خود فرماتے ہیں کہ الحمداللہ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ افراد تو بہ کر چکے ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بیٹے خواجہ محمد معصوم ؒ کے ہاتھ پر بھی کتنے افراد نے اسلام قبول کیا اور توبہ کی۔ حضرت خواجہ محمد معصومؒ کے بارے میں مولانا علی میاںؒ لکھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پر نو لاکھ آدمی مسلمان ہوئے ہیں۔ بلکہ حضرت مجددصاحب رحمہ اللہ کے ایک خلیفہ سید آدم بنوری رحمہ اللہ تو شاہجہان کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔ مولانا علی میاںؒ نے لکھا ہے کہ ان کے ہاتھ پر اتنے لوگ مسلمان ہوتے جارہے تھے اور ان کے گرد اتنا ہجوم ہوتا تھا کہ جب وہ دہلی سے لاہور آئے تو ان کے ساتھ دس ہزار علماءمریدوں کا قافلہ تھا۔ شاہجہان سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ یہ کہیں کل تخت پر قبضہ نہ کر لیں ، حکومت کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کل اگر انہوں نے دہلی کا رخ کر لیا تو ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہوگا ؟ ان حالات میں باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے شاہجہان نے سید آدم بنوری کو آمادہ کیا کہ آپ حج کے لیے اور بیت اللہ کی زیارت کے لیے تشریف لے جائیں۔ چنانچہ وہاں تشریف لے گئے ، اور شاہجہان نے وہاں کے لوگوں سے باقاعدہ پلاننگ کی کہ انہیں یہاں ہی رکھیں، پھر وہیں ان کی وفات ہوئی۔ یہ ایک بزرگ کا قصہ ہے ، ان کی ایسی مقبولیت تھی۔
میں یہ بتا رہا ہوں کہ صوفیاء کرامؒ کے ہاتھ پر لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے ، اور آخری زمانے میں یہ دعوت کی تحریک حضرت سید احمد شہید کی شخصیت میں نظر آتی ہے، جو بنیادی طور پر مجاہد آدمی تھے، انہوں نے عملی جہاد کیا ہے، لیکن وہ صوفی بھی تھے۔ جب انہوں نے ہندوستان کا دورہ کیا اور یہاں سے راجھستان وغیرہ گئے ہیں تو چالیس ہزار غیر مسلم ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں۔ باقی لوگوں کو چھوڑیں، چالیس ہزار افراد صرف سید احمد شہیدؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ہیں۔ تو صوفیاء کرامؒ کا ایک بنیادی کام دعوت تھا۔امت سے باہر ان کا میدان یہ تھا کہ غیر مسلموں کو کسی طریقے سے اسلام کے دائرے میں لے آئیں ۔اس کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑا ، وہ انہوں نے کیا اور اپنے دور میں بہت کام کیا۔ ہماری آبادی اور علاقے میں ان کی ہی برکات ہیں کہ یہاں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
صوفیاء کرامؒ کا دوسرا بنیادی کام اصلاح امت کا تھا ۔ اصلاح امت میں امت کی داخلی خرابیوں کو دور کرنا بنیادی کام ہوتا ہے۔ اس پر ان کے دو محاذ تھے۔ ایک یہ کہ پیر جب بیعت لیتا ہے تو مرید سے تو بہ کرواتا ہے۔ تو بہ تصوف کا ایک مستقل شعبہ ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو بہ کرواتے تھے۔ اعمال کی بیعت کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ بہت سے لوگوں کو حضور نبی کریمؐ نے تو بہ کروائی۔ اس کا ذکر حضرات صحابہ کرامؓ کے ہاں بھی ملتا ہے، اور صوفیاء کرامؒ کے ہاں تو کسی کو اپنے ساتھ جوڑنے کی پہلی شرط ہی بیعت ہوتی ہے اور بیعت کا معنی یہی ہوتا ہے کہ تو بہ کرو۔ اس کے جو عملی نتائج ہیں وہ اپنی جگہ ، لیکن یہ ایک بہت بڑا نفسیاتی طریقہ بھی ہے کہ انسان یہ جان لیتا ہے کہ میں اپنی زندگی تبدیل کر رہا ہوں ۔ تو بہ صرف ایک لفظ نہیں ہوتا، بلکہ جب وہ پیر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ زندگی میں ایک تبدیلی لا رہا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی میں تبدیلی لا رہا ہوں ۔ اس کے بعد اگلے نفسیاتی طریقے ہوتے ہیں کہ اسے بیعت کر لیا ہے، تو اب میرا مرید ہے، اب پیر صاحب نے کسی کو اپنی ٹوپی دے دی، کسی کو رو مال دے دیا۔ قابو کرنے کے اور قابور رکھنے کے یہ نفسیاتی طریقے ہیں۔
اصلاح امت کا محاذ صوفیاء کا دوسرا بڑا محاذ چلا آ رہا ہے۔ صوفیاء کرامؒ باقاعدہ تو بہ کرواتے تھے اور تو بہ کے ساتھ اعمال صالحہ کی تلقین کرتے تھے ، فرائض کی پابندی کی تلقین ، حلال حرام میں فرق کی تلقین، گناہوں سے بچنے کی تلقین اور اس کے ساتھ عقیدے کی اصلاح کرتے۔ امت کے اندر صوفیاء کرامؒ کی محنت کا یہ میدان تھا۔ حضرات صوفیاء کرامؒ اس کا باقاعدہ اہتمام کرتے تھے ، لوگوں سے بیعت لیتے تھے ، وعدے لیتے تھے ، ان کی نگرانی کرتے تھے، بلکہ بعض صوفیاء کے ہاں تو کو تا ہی کرنے پر کوئی نہ کوئی سزا بھی ہوتی تھی ۔
حضرات صوفیاء کرامؒ کا تیسرا بڑا کام ”معاشرے میں ذکر اذکار کی تلقین“ کا تھا، اور یہ اپنے مقام پر بجائے خود بہت بڑا کام ہے۔ یہ تصوف کا تیسرا بڑا شعبہ ہے۔ ذکر اذکار کے دو بڑے نمایاں فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی جتنا زیادہ ذکر کرے گا اتنا زیادہ دین کے ساتھ اس کا تعلق جڑے گا، اور دوسرا یہ کہ ذکر جتنا زیادہ ہو گا عملی زندگی میں اس کی برکات بھی اتنی ہی ہوں گی، کیونکہ شیطان کی آماجگاہ بھی یہی سوسائٹی ہے، شیطان کے کام کا میدان بھی یہی معاشرہ ہے۔ برکات کے حصول کے لیے اور شیطانی حربوں سے بچنے کے لیے برکت اور شر کا تقابل اسی معاشرے میں جاری ہے۔ برکات کا اپنا نیٹ ورک ہے، نحوستوں کا اپنا نیٹ ورک ہے۔ ان کا تقابل بھی چل رہا ہے، یہ دونوں نیٹ ورک ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اس لیے صوفیاء کرامؒ کے ہاں ایک انسان کے شیطانی اثرات سے تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ ذکر اذکار، استغفار ، درود شریف، قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ اعمال ہیں۔ اور صوفیاء کرامؒ کوشش کرتے تھے کہ آدمی کے چوبیس گھنٹوں میں سے زیادہ وقت اسی کام میں گزرے۔
بعض حضرات نے اس پر بحث بھی کی ہے کہ انسانی ضرورتوں کی وجہ سے اس قدر وقت نکالنا کیسے ممکن ہے؟ لیکن صوفیاء سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر شیطانی اثرات سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ آدمی جتنی قرآن پاک کی تلاوت زیادہ کرے گا، جتنا درود شریف زیادہ پڑھے گا، جتنا ذکر اذ کار زیادہ کرے گا اتنا ہی شیطانی اثرات سے محفوظ رہے گا اور اتنی ہی برکات بھی حاصل ہوں گی ۔ شر سے بچنا اور برکات کا حصول فرد کے لیے بھی ، خاندان کے لیے بھی اور معاشرے کے لیے بھی نہایت اہم اور ناگزیر ہے۔اس کے لیے صوفیاء کرامؒ ذکر اذکار کی کثرت کرواتے، اتنی کثرت کہ بسا اوقات محسوس ہونے لگتا کہ اتنا ذ کر کیسے کیا جائے؟ لیکن وہ سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے اور انہیں سنبھالنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ حضرات صوفیاء کرامؒ کی محنت کا یہ تیسرا بڑا میدان تھا ۔
حضرات صوفیاء کرامؒ کی جدوجہد کا چوتھا بڑا میدان ”خدمت خلق“ ہے۔ خانقاہ کا ایک بہت بڑا کردار خدمت خلق کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ اسی لیے ہماری خانقاہوں میں اب جو بھی صورت حال ہو، البتہ ماضی میں ان خانقاہوں میں ذکر اور لنگر دولازم وملزوم چیزیں تھیں۔ کوئی خانقاہ لنگر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔ خانقاہ کا بنیادی کام تھا ضرورت مندوں اور مسافروں میں کھانا تقسیم کرنا، اور جو آئے اسے کھانا کھلانا۔ اس کو سیاسی زبان میں ڈیرہ داری کہتے ہیں اور روحانی زبان میں خانقاہ کہتے ہیں۔ لوگوں کی خدمت اور لوگوں کوکھلانا پلانا یہ بھی عوام کو مانوس کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ میں ایک بگڑی ہوئی خانقاہ کی مثال پیش کرتا ہوں۔ سکھوں کے گوردوارے ہمارے خیال میں بگڑی ہوئی خانقاہ ہیں۔ اس پر اگر بات کروں گا تو وہ صورت حال پیش آئے گی ، جو شاعر نے اس شعر میں بیان کی ہے۔
سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کو جب ہندو ازم سے ان کی بت پرستی اور ذات پات کے فرق کی وجہ سے نفرت ہوگئی، کیونکہ مزاج کے اعتبار سے وہ خود بہت بڑے موحد تھے، تو وہ حضرات صوفیاء کرامؒ کے ہاں گئے۔ حضرت بابا فرید اور میاں میرؒ وغیرہ کے پاس گئے اور صوفیاء کرامؒ کے ہاں پناہ لی اور سارا کام یہیں سے سیکھا ہے۔ گرو نانک نے حج بھی کیا، بغداد جا کر شیخ عبد القادر کے مزار پر چلہ بھی کیا، لیکن مسلمان نہیں ہوئے اور ایک نیا مذہب شروع کر دیا۔ انہوں نے سکھ مذہب میں خانقاہی نظام کی نقل ہے۔ کسی گردوارے میں اگر آپ جائیں تو ایسے مناظر عام طور پر دیکھنے کو ملیں گے۔ لیکن یہ یادر کھیے کہ ہمت ہو تو جائیں ، ویسے نہ جائیں، اگر ہاضمہ ٹھیک ہے تو یہ مناظر دیکھیں ، ہاضمہ ٹھیک نہ ہو تو پھر ایسی جگہوں پر نہیں جانا چاہیے۔ اگر ہاضمہ ٹھیک نہ ہو تو روٹی بھی نہیں کھانی چاہیے۔ میں نے سکھوں کے کئی گردوارے دیکھے ہیں۔ ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔
برمنگھم (انگلینڈ) میں سکھوں کا بہت بڑا گردوارہ ہے، یورپ کا سب سے بڑا گردوارہ کہلاتا ہے۔ ایک دن مولانا سید سلیمان ندوی (لکھنؤ)،مولا نا عیسیٰ منصوری، مولانا رضاء الحق اور میں ہم پانچ سات علماء اکٹھے تھے۔ ارادہ ہوا کہ آج ان کا گردوارہ دیکھتے ہیں۔ ہم نے انہیں پیغام بھیجا کہ پانچ سات مولوی ہیں اور گردوارے کا وزٹ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا تشریف لائیں۔ انہوں نے ہمارے جانے سے پہلے ہمارے بارے میں معلومات حاصل کر لی تھیں کہ یہ بندے کون ہیں، یہ بھی ان کا ایک نظام ہے۔ ہم دو گھنٹے کے بعد گئے تو ہم سے پہلے وہ معلومات مکمل کر چکے تھے۔ اس کے مطابق انہوں نے ہمیں پورا پروٹوکول اور پورا احترام دیا۔ لیکن دو باتیں وہاں ایسی ہو ئیں کہ ہمارے لیے مشکل ہو گیا۔
ایک بات یہ ہے کہ گردوارے کی حدود میں ننگے پاؤں جاتے ہیں۔ وہ اس معاملے میں اس قدر سختی کرتے ہیں کہ جراب بھی نہیں پہننے دیتے۔ وہ خود بھی ایسے ہی کرتے ہیں، اور ہمیں بھی یہی کہا کہ اندر ننگے پاؤں جانا ہوگا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے مسجد میں بھی تو ننگے پاؤں جاتے ہیں، یہاں بھی چلے جائیں گے،کوئی بات نہیں۔
ان کے ہاں جانے کی دوسری شرط یہ ہے کہ ایک بڑے ہال میں گرنتھ رکھی ہوتی ہے، جس نے جانا ہے پہلے اس کو سجدہ کرے پھر اندر داخل ہو۔ اسے وہ متھا ٹیکنا کہتے ہیں۔ ہم نے کہا ہم پہلی شرط مان لیں گے، جوتے اور جرابیں اتار دیں گے، لیکن ما تھا نہیں ٹیکیں گے ۔ ان کا بڑا گر و کہنے لگا کہ اندر داخل ہونے کے لیے یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ ہم نے کہا کہ نہیں، یہ ہم بالکل نہیں کریں گے ، ماتھا نہیں ٹیکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر آپ گردوارے کے عبادت کے کمرے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ہم نے کہا کہ ما تھا ٹیکنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا ماتھا ٹیکے بغیر تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی گردوارے کی عبادت گاہ کی حدود میں قدم بھی رکھ سکے۔ لیکن ہم اڑے رہے کہ ہم ما تھا نہیں ٹیکیں گے۔ اس پر وہ پریشان ہو گئے کہ یہ بات نہیں مان رہے اور ہم بھی پریشان تھے کہ اس کے بغیر اندر نہیں جا سکیں گے۔
بہرحال ان کے ہر گردوارے کے ساتھ ”پنج پیاروں“ کی ایک کمیٹی ہوتی ہے، وہ ہر معاملے میں آخری اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان پنج پیاروں کی ہمارے بارے میں میٹنگ ہوئی کہ معزز مہمان ہیں، انہیں خالی واپس بھیجنا ٹھیک نہیں، مگر وہ ماتھا ٹیکنے پر کسی قیمت پر تیار نہیں ہیں اور ماتھا ٹیکے بغیر کوئی اندر آنہیں سکتا تو اب کیا کریں؟ ہم ویٹنگ روم میں بیٹھے رہے کہ دیکھتے ہیں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک گھنٹہ ان کی میٹنگ جاری رہی اور یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ آپ ہمارےمعزز مہمان ہیں اس لیے اگر آپ ماتھا نہیں ٹیک رہے تو ٹھیک ہے آپ اندر تشریف لے آئیے۔
ہم اندر گئے پھر سارا گردوارہ وزٹ کیا۔ میں وہاں کی اصل بات جو بتانا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے گردوارے کے نظام میں مکمل طور پر مسلمانوں کے خانقاہ کی نقل کی ہے۔ گردوارے کے معمولات یہ ہیں کہ وہاں چوبیس گھنٹے گرنتھ کی قرأت ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا یہ ہمارا ساتواں سال ہے، اس قرأت میں ایک منٹ کا وقفہ نہیں پڑا۔ دو دو گھنٹے ایک ایک گرو آ کر قرأت کرتا ہے، اور لوگ بیٹھ کر اس کی قرأت سنتے ہیں۔ ان کی مقدس کتاب گرنتھ کئی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں کچھ قرآن کی آیتیں ہیں، کچھ حدیثیں ہیں، کچھ بابا فرید کے اقوال ہیں، کچھ بھگت کے مقولے ہیں۔ یہ سب ملا کر انہوں نے ایک معجون مرکب بنائی ہوئی ہے، اور اسے بڑے مزے لے لے کر پڑھتے ہیں، چوبیس گھنٹے اس کی قرأت چلتی رہتی ہے۔ روزانہ سینکڑوں لوگ آکر اسے سنتے ہیں۔ ان کی عبادت یہی ہے کہ آئے، ما تھا ٹیکا اور بیٹھ گئے، گھنٹہ، پون گھنٹہ گرنتھ کی قرأت سنی اور چلے گئے۔
ان کے ہاں دوسری اہم چیز لنگر ہے، جو میں بتانا چاہ رہا ہوں۔ گردوارے کے منتظمین کہہ رہے تھے کہ چوبیس گھنٹے میں یومیہ پانچ ہزار افراد ہمارے ہاں سے کھانا کھاتے ہیں، اس میں کوئی تمیز نہیں ہےکہ مسلمان ہے، یا عیسائی ہے۔ سب بالکل مفت کھانا کھاتے ہیں اور وہاں بڑے اچھے معیار کا کھانا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس گردوارے کو بنے ہوئے سات سال ہو گئے ہیں، سات سال سے ہمارے ہاں کھانے والوں کی اوسط تعداد یومیہ پانچ ہزار ہے، اس دوران ایک دن ناغہ نہیں ہے، ایک وقت ناغہ نہیں ہے۔ کھانے کے ساتھ پھل ، چائے اور حلوہ سب کچھ ملتا ہے۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ یہ پرشاد آپ کو بھی کھانا پڑے گا۔ ہم نے کہا ہم حلوہ کھا لیں گے ، البتہ گوشت نہیں کھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، جیسے آپ کی مرضی۔
میں یہ بتا رہا ہوں کہ سکھ مذہب بگڑی ہوئی خانقاہ ہے۔ انہوں نے بالکل خانقاہی نظام قائم کیا ہے۔ گرونانک بنیادی طور پر صوفیاء کرامؒ سے متاثر تھے اور سکھ بابا فرید کے تو عاشق ہیں۔ اگر آپ کسی سکھ کے سامنے بابا فریدؒ یا میاں میرؒ کا نام لے لیں تو وہ آپ کی بیعت ہو جائے گا کہ آپ بابا فرید کا نام لیتے ہیں ۔ اور یہ بھی آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ سکھوں نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل، جو دنیا بھر میں ان کا سب سےمقدس گردوارہ ہے، کا سنگ بنیاد حضرت میاں میرؒسے رکھوایا تھا۔ حضرت میاں میرؒ لاہور سے تشریف لے گئے تھے اور سکھوں کی فرمائش پر اس کا سنگ بنیا درکھا تھا۔ میں ایک صوفی کا تعارف کروارہا ہوں ، میں نے بتایا کہ صوفی کسی کو کسی بات میں نہ نہیں کرتا۔ وہ گولڈن ٹیمپل میں نے بھی دیکھا ہے۔
میں نے آج کی نشست میں یہ بات کی ہے کہ حضرات صوفیاء کرامؒ اور خانقاہ کے چار بنیادی کام تھے۔ دعوت اسلام، اصلاح امت، حفاظت اور برکت کے حصول کے لیے معاشرے میں ذکر اذکار کی تلقین اور خدمت خلق۔ اگر ہم موجودہ حالات میں غور کریں تو ان میں سے بعد والے تینوں کام کسی نہ کسی درجہ میں ہو رہے ہیں، اصلاح امت کی بات کو تبلیغی جماعت کا عمل کسی حد تک کو پورا کر رہا ہے ، ذکر اذکار کی محفلیں بھی ہیں اور خدمت خلق کسی درجہ میں ہے۔ لیکن غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت کا کام جو صوفیاء کرامؒ کا بنیادی کام تھا، ہم میں سے کوئی بھی نہیں کر رہا۔ نہ مدر سے کر رہے ہیں، نہ خانقا ہیں کر رہی ہیں اور نہ تبلیغی جماعت والے کر رہے ہیں۔ کوئی بھی نہیں کر رہااور کہیں بھی نہیں ہو رہا، ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے ۔ اللهم صل علی سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
آٹھویں نشست
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ نشست میں یہ عرض کیا تھا کہ صوفیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ دین کی دعوت بھی پہنچائی جائے اور انسانوں کی اصلاح بھی کی جائے، چونکہ ان کا میدان کار بالکل نچلی سطح پر عامۃ الناس اور عام لوگ ہوتے ہیں، اس لیے صوفیاء کرامؒ نے ہمارے جنوبی ایشیا میں اپنی حکمت عملی میں دو باتوں کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ ایک عام آدمی کی روحانی ضروریات دم درود، ذکر اذکار وغیرہ کا ، جس کی عام آدمی کو ضرورت رہتی ہے ، اور دوسرے عام آدمی کی نفسیات کا لحاظ رکھا کہ اس کے ذہن کو کس راستے سے اپروچ کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا صوفیاء کرامؒ نے روحانی ضروریات اور نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے بالکل عام سطح ، گراس روٹ پر اس کی حکمت عملی وضع کی ہے اور اس کے مطابق کام کیا ہے۔ اس میں کہیں اونچ نیچ بھی ہوئی ہے، جو ایسے مسائل میں عام سی بات ہے۔
تصوف کا بنیادی کام تو اتنا ہے، لیکن کسی بھی کام میں اگر حدود سے آگے بڑھا جائے تو اس کام میں بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بگاڑ تصوف ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر کام کی ایک جائز حد ہوتی ہے، ایک قابل برداشت حد ہوتی ہے، اور ایک اس سے اگلی حد ہوتی ہے۔ جب غلو آ جائے اور کام حد سے بڑھ جائے تو خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ تصوف کی بہت سی بگڑی ہوئی شکلیں بھی سامنے آئی ہیں۔ میں نے ایک بہت بگڑی ہوئی شکل کا ذکر کیا تھا کہ سکھ ازم بھی تصوف کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ میں نے اس کا تھوڑا سا پس منظر عرض کیا تھا کہ سکھ مذہب اصل میں تصوف کی حد سے زیادہ بگڑی ہوئی صورت ہے، جو آگے چل کر مذہب بن گیا۔ تصوف کی راہ میں اس بگاڑ کے اور بھی کئی مظاہر ہیں۔
آج میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگرچہ تصوف کی ایک مستقل اصطلاح ہے، لیکن تصوف کے مبادی قرآن وسنت سے ثابت ہیں ، اور اس اعتبار سے شریعت اور تصوف میں کوئی منافات پر عملدرآمد اور کوئی تعارض نہیں ہے۔ وہی تصوف صحیح ہے جو شریعت کے تابع ہے۔ تصوف کا تو کام ہی شریعت کے احکام کی طرف لانا اور شریعت کے احکام میں بہتری پیدا کرنا ہے ۔ تصوف شریعت کے مقابلے میں کوئی نئی چیز نہیں پیش کرتا۔ تصوف کا بنیادی موضوع کیا ہے؟ صوفیاء کرامؒ تصوف کے موضوع کو جاننے کے لیے حدیثِ جبریل سے استفادہ کرتے ہیں ، جس میں جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ”ما الاحسان؟“ تو آپؐ نے فرمایا ”ان تعبد الله کانک تراه فان لم تكن تراه فانہ یراک“ اسی سے احسان کی اصطلاح وجود میں آئی ہے کہ عبادت کو بہتر سے بہتر طریقے پر ادا کرنا احسان ہے۔ صوفیاء کرامؒ احسان کا یہی معنی کرتے ہیں۔ مثلاً نماز کی کیفیات کو بہتر سےبہتر بنانا اور نماز کو اس کیفیت پر لے جانا کہ گویا آدمی اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔
چونکہ تصوف کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ عبادات کو زیادہ بہتر طریقے سے ادا کیا جائے، لیکن اگر عبادت ہی نہیں رہے گی تو آدمی بہتر کس چیز کو کرے گا؟ عبادت ہوگی تو اسے بہتر کرے گا ۔ نماز ہے تو اس کو بہتر کرنا احسان ہے، روزہ اور حج ہے تو انہیں بہتر کرنا احسان ہے۔ اگر حج، روزہ وغیرہ فرائض کو درمیان سے نکال دیں گے تو بہتر کس کو کرے گا؟ یہ تو تصوف کے بنیادی موضوع کے خلاف ہے کہ کوئی شریعت سے ہٹ کر تصوف کی بات کرے۔ تصوف کا بنیادی موضوع ہی یہ ہے کہ عبادات میں بہتری کی کیفیات پیدا کرنا۔
ابتدا میں ایک بات عرض کی تھی، وہ اگر دوبارہ دہرائی جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ تصوف ایک اصطلاح ہے، لیکن جو تصوف کا دائرہ ہے اس لحاظ سے بالکل ابتدائی دور میں یہ فقہ کا ہی ایک شعبہ سمجھا جاتا تھا۔ فقہ آج تو ہمارے ہاں احکام کے علم کا نام ہے، لیکن ابتدائی دور میں کم از کم تابعین کے دور تک فقہ صرف احکام کے علم کا نام نہیں تھا۔ فقہ کے تین بڑے شعبے تھے عقائد بھی فقہ کا شعبہ شمار ہوتا تھا ، فقہ العقائد، فقہ التوحید اور تصوف بھی فقہ کا ہی حصہ شمار ہوتا تھا۔ فقہ العقائد کے حوالے سے امام ابوحنیفہ نے جو کتاب لکھی ہے، اس کا نام ”الفقہ الاکبر“ ہے، اس میں امام صاحبؒ نے عقائد بیان کیے ہیں کہ اہل سنت کے عقائد کیا ہیں، مگر اس کا نام ”الفقہ الاکبر“ ہے ۔ اس وقت تک عقائد بھی فقہ کا حصہ تھے، احکام بھی فقہ کا حصہ تھے اور روحانی کیفیات بھی فقہ کا حصہ تھیں۔تابعین کے دور تک علم الکلام ، علم الاحکام اور علم التصوف تینوں فقہ میں شمار ہوتے تھے ، بعد میں جب اصطلاحات کی تقسیم ہوئی تو جس طرح عقائد کے مباحث کا نام علم کلام پڑ گیا، اسی طرح اس کو علم تصوف کہہ دیا گیا ۔ اب ہم عقائد کو عقائد کے حوالے سے کم جانتے ہیں، علم کلام کے نام سے زیادہ جانتے ہیں، حالانکہ ابتدا میں کلام اور متکلمین کی اصطلاح پسند نہیں کی جاتی تھی۔ اسی طرح کیفیات کو علم تصوف کا نام دے دیا گیا، لیکن بنیادی طور پر یہ شریعت کا ایک حصہ ہے۔
تصوف کا بنیادی کام کیا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات بڑی خوب صورتی سے سمجھائی ہے۔ انہوں نے تصوف پر بہت کچھ لکھا ہے۔ تصوف کی اصلاح کی ہے، تصوف کی غلط صورتوں کو رد کیا ہے اور اس کی صحیح صورتوں کو متعارف کروایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں جو احکام ہیں وہ تین قسم کے ہیں ۔
اوامر جیسے نماز پڑھو، روزہ رکھو، زکوٰۃ دو،حج کرو، سچ بولو، وغیرہ۔ نواہی جیسا کہ شراب نہ پیو، زنا نہ کرو ، حرام نہ کھاؤ، سود نہ کھاؤ، وغیرہ
یہ اوامر و نواہی معروف ہیں۔ یہ ظاہری اعمال ہیں۔ امر کا تعلق بھی ظاہری عمل سے ہے اورنہی کا تعلق بھی ظاہری عمل سے ہے۔ لیکن ظاہری اوامر اور نواہی کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے کچھ ایسے احکام بھی دیے ہیں اور امر کے صیغے کے ساتھ دیے ہیں ، جن کا تعلق ظاہری اعمال سے نہیں ، بلکہ قلبی کیفیات سے ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں کہا ہے ”اقیمو الصلوٰۃ “اور یہ بھی کہا ہے ”الذين ھم فی صلاتھم خاشعون “ رکوع سجدہ کا تعلق ظاہری کیفیت سے ہے، جبکہ خشوع کا تعلق دل سے ہے۔ دل میں جتنا خشوع ہوگا اتنا ہی نماز کی کیفیت بہتر ہوگی۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز کے ظاہری احکام فقہ بتاتی ہے اور خشوع کا سبق تصوف والے دیتے ہیں ۔خشوع فقہ نہیں بتائے گی ، فقہ میں کہیں بھی خشوع کی تعریف نہیں ہے کہ خشوع کسے کہتے ہیں؟حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خشوع کا بھی حکم دیا ہے۔
اسی طرح قرآن مجید نے ایک کیفیت بیان کی ہے جس کا تعلق دل سے ہے۔ فرمایا ”والذين آمنو اشد حبالله“ محبت کا تعلق دل کی کیفیات سے ہے۔ محبت کیسے پیدا ہوتی ہے ، محبت کیسے نفرت میں بدلتی ہے ، محبت کیسے زیادہ ہوتی ہے اس کا تعلق ظاہر اعمال سے نہیں ہے، بلکہ دل کی کیفیات سے ہے۔ دل کی بہت سی کیفیات ایسی ہیں جو بہتر ہوں تو انسان کے اعمال بہتر ہوتے ہیں ، اگر وہ خراب ہو جائیں تو انسان کے اعمال خراب ہو جاتے ہیں۔
قرآن پاک کے بہت سے احکام ہیں جن کا تعلق دل کی کیفیات سے ہے، مثلاً قرآن مجید میں ہے ”یایهالذین آمنوا اصبروا“ اے ایمان والو! صبر کرو۔ صبر کا تعلق دل سے اور دل کی کیفیات سے ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایمان اور تصدیق کا اصل تعلق دل سے ہے، زبان سے تو صرف اقرار ہوتا ہے ۔شکر اور توکل کا حکم دیا گیا ہے، ان کا تعلق بھی دل کی کیفیات سے ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ریا، تکبر اور عجب سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، ان سب کا تعلق دل کی کیفیات سے ہے۔
چونکہ بہت سے اعمال، احکام و او امر ایسے ہیں جن کا تعلق دل کی کیفیات سے ہے، اس وجہ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مطلب بھی حضرات صوفیاء کرامؒ یہی ارشاد فرماتے ہیں۔ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ”الا ان في الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد كلہ واذا فسدت فسد الجسد كلہ“ جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، وہ صحیح ہو تو جسم کا سارا نظام صحیح ہوتا ہے، وہ گڑ بڑ ہو جائے تو سارے جسم کا نظام گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ جسمانی نظام میں بھی مرکز دل ہے اور روحانی نظام میں بھی مرکز دل ہے۔ میڈیکل میں بھی سارے جسم کی حرکت کا مرکز دل ہے۔ آپ کسی مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ، ڈاکٹر اس کی سرجری کرنا چاہتا ہو تو پہلے دل چیک کرتا ہے کہ دل اس سرجری کا متحمل ہے یا نہیں۔
جسمانی نظام میں بھی انسانی جسم کی تمام حرکات کا مرکز دل ہے اور روحانی حرکات میں بھی سارے جسم کا مرکز دل ہے۔ خلوص ، محبت ، نفرت،غصہ، کینہ، بغض سب کا دل مرکز ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ دل سے تعلق رکھنے والے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی میں شامل ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دل کی سختی کو شقاوت کا ذریعہ بتایا ہے، اور دل کی نرمی کی خوبی بیان فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ” الم يان للذين امنوا ان تخشع قلوبهم لذكر الله وما نزل من الحق“ کیا ایمان والوں پر یہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے اور شریعت کے احکام کی پیروی کے لیے نرم ہو جائیں؟ اور دوسری طرف اس کا دوسرا پہلو یوں بیان فرمایا ”ولا یکونوا كالذين اوتوا الكتاب من قبل فطال عليهم الامد فقست قلوبهم“ اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں کہ ان پر لمبا زمانہ گزر گیا اور ان کے دل سخت ہو گئے۔
ایک دل کی جسمانی سختی اور نرمی ہے کہ دل بڑھ گیا ہے، دل کم ہو گیا ہے ، دل کی سپلائی رک گئی ہے وغیرہ۔ اور ایک دل کی سختی اور نرمی روحانی ہے کہ دل کی کیفیات ، دل کی صلاحیتوں اور دل کی خصوصیات میں فرق آگیا ہے، تو صوفیاء کہتے ہیں کہ اس کا دل سخت ہو گیا ہے، پھر ریاضت اور مجاہدے کے ساتھ انسان کے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔
اسی حوالے سے ایک چھوٹی سی مثال ذکر کرنا چاہوں گا۔ روزے کے مقاصد میں قرآن مجید نے تقویٰ کو بیان فرمایا ہے ”لعلكم تتقون“ روزے کا تعلق جسم سے ہے، جبکہ تقویٰ کا تعلق دل سے ہے۔ اب دل میں تقویٰ کیسے پیدا ہو گا؟ ایک جملہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”من صام رمضان ايمانا واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“ جس نے روزہ رکھا ایمان کی حالت میں اور احتساب کے ساتھ تو اس کا تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
احتساب کیا ہے؟ احتساب کا لفظی معنی ہے ”شمار کرنا“روزے کی روح کو سمجھ کر روزہ رکھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا احتساب ہے، صرف عادت پوری کرنا احتساب نہیں ہے۔ احتساب کا تعلق دل سے ہے ۔ روزے کا تعلق جسم سے ہے، مگر احتساب کا تعلق دل سے ہے۔ جب آدمی احتساب کے ساتھ یعنی روزے کو روزہ سمجھ کے رکھے گا تو لازما اس میں تقویٰ پیدا ہوگا۔ مثلاً ایک آدمی روزہ رکھ رہا ہے، عادت نہیں پوری کر رہا، بلکہ اسے معلوم ہے کہ میں نے سارا دن کھانا پینا نہیں ہے ، سب کچھ منع ہو گیا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک حلال چیزیں بھی منع ہیں، تو جب وہ شام کو روزہ کھولتا ہے تو اگر وہ روزے کو روزہ سمجھ رہا ہے تو دل میں ضرور یہ احساس پیدا ہو گا کہ جن چیزوں سے بارہ گھنٹے کے لیے منع کیا تھا، ان سے رک رہا ہوں تو جن چیزوں سے چوبیس گھنٹے کے لیے منع کیا گیا ہے، ان سے بھی بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کچھ چیزوں سے میں ایک مہینہ پر ہیز کرتا ہوں، لیکن وہ محرمات جن سے سارا سال منع کیا گیا ہے، ان سے تو مجھے پورا سال، اور پوری زندگی احتراز کرنا چاہیے، اور ان سے دور رہنا چاہیے۔
اسی طرح ایک حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کو انسان کے نفس کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یعنی روزہ اس کی باطنی کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ظاہری اعمال انسان کی باطنی کیفیات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من استطاع منكم الباءة فليتزوج“ جو آدمی شادی کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرے۔”و من لم يستطع فعليہ الصوم فان لہ وجاء“ جو حالات و مواقع نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے، روزہ اس کے لیے کنٹرول کا ذریعہ ہے، بھوک کی شدت نفس کے کنٹرول کا ذریعہ ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں نماز کے بارے میں فرمایا ”ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر“ نماز انسان کو بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ نماز کا سب سے بڑا مقصد تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کاحکم پورا ہوتا ہے، لیکن نماز کی حکمتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو فحش اور منکر سے روکتی ہے۔ باقی باتیں تو شاید تفصیل طلب ہوں، مگر ایک آدمی اگر نمازی ہے، اس نے پانچ وقت نماز پڑھنی ہے تو کم از کم اسے سارا دن کپڑے اور اپنا جسم پاک رکھنا پڑے گا۔ جسم اور کپڑوں کو پاک رکھنے کے لیے وہ کتنی غلط حرکتوں سے بچے گا ، یہ تمام گننا شروع کر دیں تو طویل فہرست بن جائے گی ۔غلط کام کا خیال آئے تو نماز روک لیتی ہے کہ نہیں یہ کام نہیں کرنا، کیونکہ ابھی نماز بھی پڑھنی ہے، نماز کا وقت قریب ہے ، پتانہیں دوبارہ صاف ستھرا ہونے کا موقع ملے یا نہ ملے۔یوں جسم اور کپڑوں کو پاک رکھنے کے لیے آدمی کئی غلط کاموں سے بچ جاتا ہے، یہ نماز کا کم از کم فائدہ ہے۔ یہ میں نے اس حوالے سے چھوٹی سی مثال دی ہے۔
میں نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ گزارش کی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں ظاہری اعمال کا حکم فرمایا ہے وہیں باطنی کیفیات کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ قرآن مجید میں نماز کا حکم دیا تو وہیں نماز میں خشوع پیدا کرنے کی تلقین فرمائی ۔ اسی طرح مثلاً زکوٰۃ کا حکم فرمایا تو زکوٰۃ کی یہ حکمت بھی ذکر فرمائی کہ زکوۃ اس لیے ہے تاکہ تمہارے مال سے لوگوں کا حق نکلے اور تمہارے اندر سے بخل دور ہو۔ یہ انسان کی اصلاح کے لیے اور قلب کی کیفیات کی اصلاح کے لیے ہے۔
قرآن مجید نے ظاہری اعمال کا حکم دیا ہے، اور اعمال کی کیفیات کو بہتر کرنے کا حکم بھی قرآن پاک اور جناب نبی کریم کی احادیث مبارکہ میں ہے۔ جیسا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جہادِ نفس کو جہادِ اکبر کہا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ سب سے لڑنا آسان ہوتا ہے، مگر خود سے لڑنا مشکل ہوتا ہے۔ آدمی ساری دنیا سے لڑ لیتا ہے، اپنے آپ سے لڑے تب پتا چلتا ہے۔ جہاد بالنفس میں اپنے آپ سے لڑنا، اپنی خواہشات، اپنی امیدوں اور اپنی تو قعات سے لڑنا ہوتا ہے اسی لیے اسے جہاد اکبر کہا ہے۔ ساری دنیا سے لڑنا آسان ہے، مگر دو لڑائیاں قرآن پاک نے مشکل بتائی ہیں۔ فرمایا ، ساری دنیا کو دعوت دینا آسان ہے گھر والوں کو دعوت دینا مشکل ہے۔قرآن مجید میں ہے ”وامر اھلک بالصلوٰۃ واصطبر علیھا “اس کا ایک معنی مفسرین یہ کرتے ہیں کہ گھر والوں کو نماز کا کہو، تو مضبوطی کے ساتھ، پاؤں مضبوط کر کے کہو ۔ گھر والوں کو نماز کا کہنے کے لیے صبر اور حوصلہ کرنا پڑے گا تو پکے رہنا۔ مفسرین اس کا دوسرا معنی یہ کرتے ہیں کہ گھر والوں کو نماز کا حکم دو مگر خود بھی نماز پر پکے رہنا۔ یہ نہیں کہ ان کو کہا ہے اور خود پڑھ نہیں رہے۔ لیکن یہ لڑائی بہرحال مشکل ہوتی ہے، ساری دنیا سے لڑائی آسان ہے، گھر والوں سے مشکل ہے اور اپنے آپ سے لڑائی اس سے زیادہ مشکل ہے۔
جہاد بالنفس یہی ہے کہ اپنی خواہشات کو کنٹرول کیا جائے ۔ یہ قرآن مجید کا حکم ہے، اسے نجات کا مدار قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ایک مقام پر سات قسمیں کھا کر یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔ فرمایا ”والشمس و وضحٰھا(۱)و القمر اذا تلٰھا(۲) و النهار اذا جلٰھا(۳)و الیل اذا یغشٰھا (۴) و السمآء و ما بنٰھا (۵)و الارض و ما طحٰھا(۶) و نفس و ما سوٰھا(۷)فالهمها فجورها و تقوٰھا(۸) قد افلح من زکٰھا (۹)و قد خاب من دسٰھا (۱۰)
قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔ اور دن کی جب اس کو روشن کر دے۔ اور رات کی جب اس کو چھپالے۔ اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی۔ اور زمین کی اور اس کے بچھانے والے کی۔ اور جان کی اور جس نے اس کو درست بنایا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قسمیں اٹھاتے چلے جا رہے ہیں کہ جس نے اس نفس کو سنوار لیا، وہ کامیاب ہے اور جس نے اس کو میلا کر دیا ، وہ نا کام ہے۔ اس ارشاد سے پہلے اللہ تعالیٰ نے سات قسمیں اٹھائی ہیں۔
یہ بات، کہ تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے ، بلکہ تصوف شریعت ہی کا ایک حصہ ہے، سمجھانے کے لیے میں ایک چھوٹی سی مثال دیا کرتا ہوں کہ مثلاً ایک مشین وہ ہے جو کوئی چیز بناتی ہے اور دوسری مشین اس کو پالش کرتی ہے۔ ایک اس برتن کا ڈھانچہ بناتی ہے اور دوسری مشین میں جاکر پالش ہوتی ہے، یہ پالش کرنے والی مشین تصوف ہے۔ ڈھانچہ بنانے والی مشین ”فقہ“ ہے، مقصد بتانے والی مشین ”عقائد“ ہے اور اسے پالش کرنے والی ، اس پر گل بوٹے ڈالنے والی اور اس کو مزین کرنے والی مشین یہی ”تصوف“ ہے۔ لہٰذا میں نے عرض کیا کہ تصوف شریعت ہی کا ایک حصہ ہے، تصوف شریعت سے الگ چیز نہیں ہے۔ اصطلاح کی بات الگ ہے۔لیکن جس طرح کلام کی اصطلاح اختیار کرنے سے عقائد کوئی الگ مذہب نہیں بن گیا، بلکہ اسی شریعت کا حصہ ہے، حالانکہ کلام کی اصطلاح ایک نئی اصطلاح تھی۔ شروع میں کلام کی اصطلاح نہیں تھی، مگر ہم نے عقائد کے لیے کلام کی اصطلاح بنائی ہے، اسی طرح نفس کی اصلاح الگ اصطلاح کے باوجود شریعت کا ہی حصہ ہے۔
میں نے آج اس نکتے پر مختصر بات کی ہے کہ تصوف اور شریعت میں کوئی تصادم نہیں ہے، بلکہ تصوف شریعت ہی کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ اس پر دو حوالے دوں گا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تصوف کی بگڑی ہوئی بہت سی شکلیں ہیں، میں اس سے انکار نہیں کر رہا، لیکن جو اہل اللہ صوفیاء کرامؒ گزرے ہیں ان ہی کی بات کو مستند سمجھا جائے گا۔ اگر کوئی تصوف کی حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسے حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللہ علیہ کے مکتوبات پڑھنے چاہئیں۔ ان سے بڑا صوفی کون ہوگا؟ انہوں نے اپنے مکتوبات میں سب سے زیادہ اس پر بات کی ہے اور سیر حاصل بحث کی ہے کہ تصوف کی جو بات شریعت کے احکام کے خلاف ہے وہ تصوف نہیں ہے۔ تصوف شریعت کے احکام میں بہتری لانے کے لیے ہے، شریعت کے احکام کو ختم کرنے کے لیے نہیں ہے۔
یہاں ایک حوالہ اور عرض کروں گا جو متعلقہ ہے بھی اور نہیں بھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زیادہ تر کام اخلاقیات کا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے دور سے قبل احکام پر زیادہ جمود ہو گیا تھا تو انجیل میں اخلاقی تعلیم پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تورات میں احکام زیادہ ہیں، وہ احکام کی کتاب ہے، زبورحمد ونعت کی کتاب ہے، اور انجیل اخلاقیات کی کتاب ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے اخلاقیات پر زیادہ زور دینے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید حضرت عیسی علیہ السلام شریعت کو منسوخ کرنے آئے ہیں۔ اخلاقیات پر ہی زور دیتے جارہے ہیں، صوفی ازم کی طرف زیادہ زور دیتے جارہے ہیں۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے وضاحت کی جو انجیل میں موجود ہے کہ میں موسیٰ کی شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا، میں موسیٰ کی شریعت پر عمل کروانے آیا ہوں ۔
میں نے یہ حوالہ اس لیے دیا ہے کہ صوفیاء کرامؒ کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام والی ہے ۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ زیادہ تر ذکر اذکار پر زور دیتے ہیں، لیکن اس کا اصل مقصد بھی شریعت پر عمل کروانا ہی ہے۔
دوسری بات یہ کرنا چاہوں گا کہ ہمارے قریب کے زمانے کے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ بہت بڑے صوفی تھے، ہمارے اس دور کے صوفیاء کے امام ہیں ہم انہیں امام الاولیاء کہتے ہیں۔ بہت بڑے صوفی ، بہت بڑے عالم اور مصلح تھے۔ آپؒ عام طور پر ایک بات فرمایا کرتے تھے کہ تصوف کرامات کا نام نہیں ہے، تصوف تو حقیقت میں شریعت کی پابندی کا نام ہے۔ لہٰذا اگر کوئی آدمی فضا میں اڑتا ہوا آئے، میں آنکھوں سے دیکھوں مگر اس کا کوئی عمل شریعت کے خلاف ہو تو میں اسے ولی نہیں مانوں گا ، وہ ولی نہیں ہے۔ بظاہر ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ یہ اڑ کر آگیا ہے تو پہنچا ہوا بزرگ ہے۔ لیکن حضرت لاہوریؒ نے فرمایا کہ اس کا کوئی عمل شریعت کے خلاف ہو تو میں اس کو ولی نہیں مانتا کیونکہ ولایت شریعت کی پابندی کا نام ہے ۔
ایک اور واقعہ کسی جگہ پڑھا تھا، غالباً حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے کہ ایک آدمی ان کی خدمت میں آیا، مہینہ دو مہینہ ساتھ رہا۔ ایک روز وہ کہنے لگا کہ حضرت! میں تو آپ کی بڑی شہرت سن کر آیا تھا ،مگر ویسے ہی خالی جا رہا ہوں۔ میرے ذہن میں تصور تھا کہ یہاں کرامتیں ظاہر ہوں گی، اور میں نے سوچا تھا یہاں پتا نہیں کیا کیا ہو گا، لیکن میں اتنا عرصہ یہاں رہا، مگر مجھے تو یہاں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ انہوں نے فرمایا تم کیا دیکھنا چاہتے تھے؟ اس نے کہا کہ آپ ولی ہیں تو پھر ولی نظر آنا چاہیے ؟ صوفی اگر صوفی ہو تو وہ نظر آنا چاہیے۔ حضرت سمجھ گئے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے، فرمایا دیکھو تم کتنا عرصہ میرے ساتھ رہے ہو؟ اس نے بتایا اتنا عرصہ۔ حضرت نے فرمایا کہ اس دوران تم نے میرا کوئی کام سنت کے خلاف دیکھا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔تو فرمایا کہ اور کرامت کسے کہتے ہیں؟ اور کرامت کس چیز کا نام ہے؟
تصوف، کرامت اور ولایت شریعت کی پابندی کا نام ہے، صرف پابندی کا نہیں، بلکہ شریعت کے احکام کی کیفیات کو بہتر سے بہتر بنانے کا نام ہے۔ تصوف اور ولایت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بڑا ولی بن گیا تو اب نمازیں معاف ہوگئی ہیں، بلکہ صوفی کی نمازیں تو بڑھ جاتی ہیں۔ عام مسلمان دن میں پانچ نمازیں پڑھتا ہے، مگر صوفی آٹھ نونمازیں پڑھتا ہے۔ وہ اشراق ، چاشت ، تہجد اور اوابین بھی پڑھتا ہے۔اور صوفی کی نماز لمبی ہو جاتی ہے، پانچ منٹ کی نماز پندرہ منٹ کی ہو جاتی ہے ۔ صوفی کے روزے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ باقی لوگ سال میں ایک مہینہ روزے رکھتے ہیں، مگر وہ ہر مہینے میں پتا نہیں کتنے روزےرکھتا ہے۔
میں نے آج کی نشست میں دو باتیں بیان کیں۔ ایک یہ کہ تصوف شریعت کے احکام کو منسوخ کرنے کا نام نہیں، بلکہ شریعت کے احکام میں اضافے کا نام ہے۔ اور دوسری یہ کہ تصوف شریعت کے احکام میں کیفیات کو بہتر سے بہتر بنانے کا نام ہے جس کو حدیث جبریل میں ”احسان“ کہا گیا ہے۔ اللهم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
نویں نشست
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس سال ہماری نشستوں میں تصوف کے حوالے سے مختلف باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر نشست میں کسی نہ کسی پہلو پر گفتگو ہوتی ہے۔ گذشتہ نشست میں یہ عرض کیا تھا کہ عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ طریقت اور چیز ہے، شریعت اور چیز ہے اور تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ یہ غلط بات ہے۔ جو اس طرح کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں اور جو ایسے عملاً کرتے ہیں وہ بھی غلط کرتے ہیں۔ طریقت شریعت کو پالش کرنے کا نام ہے اور شریعت کے احکام کو بہتر انداز میں کرنے کا نام ہے، جسے حدیث نبوی میں احسان کہا گیا ہے۔ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ما الاحسان؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ان تعبد الله كانك تراه“ عبادت ایسے کرو گویا اللہ کو دیکھ رہے ہو یعنی اپنی عبادات کی کیفیات اور ہیئت کو بہتر بنانے کا نام احسان ہےاور یہی تصوف ہے۔ تصوف شریعت کو ختم کرنے کا یا شریعت سے ہٹانے کا نام نہیں ، بلکہ شریعت کے احکام کو زیادہ بہتر انداز میں سر انجام دینے کا نام ہے۔ طریقت میں خلط ملط بھی ہوتا رہتا ہے، مگر جو اصل طریقت اور تصوف ہے وہ شریعت سے متصادم نہیں ہے، بلکہ شریعت کی معاون ہے۔
آج اس پہلو پر مختصر گفتگو ہوگی کہ بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ صوفیاء کرامؒ نے جو اصطلاحات اختیار کی ہیں، ان میں باہمی فرق ہے۔ ہر سلسلے کی اپنی اصطلاحات ہیں۔ چشتیوں کی اپنی ہیں، قادریوں کی اپنی ہیں، سہر وردیوں کی اپنی ہیں اور نقشبندیوں کی اپنی ہیں ۔ صوفیاء کرام کی اصطلاحات مثلاً ذکر جلی، ذکر خفی، سری، جہری، وغیرہ ہر ایک کی اپنی اپنی اصطلاحات ہیں۔ یہ اصطلاحات صحابہ کرام اور خیر القرون کے دور میں تو نہیں تھیں ، یہ کہاں سے آ گئی ہیں؟
صوفیاء کرام کی اصطلاحات بھی مختلف ہیں، اسی طرح ہر ایک کا طریق کار بھی مختلف اور الگ الگ ہے ۔ طریق کار مثلاً چلہ کاٹنا ہے یا اتنے دن بیٹھنا ہے، اتنی تسبیحات پوری کرنی ہیں، مختلف کاموں کے دورانیے صوفیاء کرام کے ہاں مختلف ہیں۔ یہ مخصوص طریقہ کار بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں نہیں تھا، پھر کہاں سے آیا ہے؟ اس لیے اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ چونکہ خیر القرون میں یہ چیزیں نہیں تھیں لہٰذا یہ بدعت ہیں۔
اس حوالے سے ایک بات تو یہ عرض کروں گا کہ دیکھئے، ایک ہوتے ہیں مقاصد اور دوسرے ہوتے ہیں ذرائع ۔ مقصد ایک ہوتا ہے، اس کے ذرائع اور طریقہ ہائے کار مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثلاً مجھے کراچی جانا ہے، مقصد کراچی پہنچنا ہے، اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ سیالکوٹ سے ریل گاڑی میں بیٹھوں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لاہور سے جہاز میں بیٹھوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اور سواری مل جائے اس کے ذریعے کراچی چلا جاؤں۔ ایک دفعہ ہمارے ایک مہربان دوست کراچی جانے کیلئے موٹر سائیکل پر لاہور گئے اور گاڑی میں سیٹ نہ ملنے کے باعث موٹر سائیکل پر ہی گئے اور کراچی پہنچ گئے۔ الغرض مقصد مختلف نہیں ہوتا، ذرائع مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً سواری کیلئے جہاز بھی ہو سکتا ہے، ریل گاڑی بھی ہو سکتی ہے اور عام بس بھی بطور ذریعہ استعمال ہو سکتی ہے۔
اسی طرح شریعت کے جو مقاصد ہیں، وہ تو تغیر پذیر نہیں ہوتے، البتہ ذرائع ہر زمانے میں موقع محل کے مطابق ہوتے ہیں۔ ذرائع مخصوص بھی نہیں ہوتے کہ وہی ایک ہی ذریعہ ہے اور ذرائع منع بھی نہیں ہوتے۔ اس کی ایک مثال دوں گا کہ قرآن مجید صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی حفظ ہوتا تھا، سینکڑوں صحابہ کرامؓ حفاظ تھے، ستر تو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے ہیں، لیکن حفظ کا جو طریقہ آج رائج ہے یہ اس زمانے میں نہیں ہوتا تھا کہ سبق سنانا ہے، سبقی اور منزل سنانی ہے۔ سبقی پون پارہ اور منزل ایک پارہ سنانی ہے، دو گھنٹے بیٹھنا ہے یا چار گھنٹے بیٹھنا ہے۔ یہ نہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا اور نہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں۔ قرآن پاک کے حفظ کا طریق کار حضورؐ اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں مختلف تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد میں کوئی قاری بیٹھ کر نہیں پڑھاتا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے زمانے میں مسجد میں ایک قاری صاحب کو مقرر کیا کہ بچوں کو پڑھایا کرے، مسجد میں باقاعدہ حفظ کی کلاس حضرت عثمانؓ کے دور میں شروع ہوئی ہے۔
اسی طرح ہمارے ہاں پانی پتی حضرات کا طریقہ الگ ہے ، مصریوں کا طریقہ الگ ہے، ہر مدرسے کے استاد کی الگ ترتیب ہوتی ہے۔ نصرۃ العلوم کے قاری صاحب کی ترتیب جدا ہے اور الشریعہ اکادمی کے قاری صاحب کی ترتیب جدا ہے۔ ترتیب بھی الگ ہے، طریقہ کار بھی الگ ہے ، لیکن چونکہ مقصد ایک ہی ہے قرآن مجید یاد کرنا ، اس لیے یہ سب ٹھیک ہیں، ان میں سے کوئی ضروری بھی نہیں ہے اور کوئی غلط بھی نہیں ہے۔
اس میں ضرورت اور تجربات کی بنیاد پر بھی فرق ہوتا ہے۔ کہیں موقع محل اور مشاہدات و تجربات کی بنا پر نئی ترتیب اور طریق کار جاری کر لیا جاتا ہے، جسے کوئی بھی غلط نہیں قرار دیتا۔ کئی مدارس میں صبح سے شام تک پڑھائی ہوتی ہے، طلباء عشاء کے بعد بھی بیٹھے ہوتے ہیں، جبکہ میں ایسے مدارس بھی جانتا ہوں اور وہاں جاتا رہتا ہوں جہاں صرف شام کو پڑھائی ہوتی ہے۔ بچے صبح سکول جاتے ہیں اور شام کو قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ میں نے یورپی ممالک میں یہی ترتیب دیکھی ہے کہ صرف شام کو دو تین گھنٹے قرآن مجید پڑھتے ہیں ، اور کچھ دیر سے سہی، لیکن حفظ کر لیتے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ جس طرح باقی معاملات میں فرق آیا، اسی طرح تصوف کی اصطلاحات اور طریق کار میں بھی فرق آیا۔ اگر تجوید و قرأت کی اصطلاحات کو دیکھیں اشمام، اخفا اور قلقلہ تو قرآن و حدیث میں یہ اصطلاحات کہیں نہیں ملیں گی۔
یوں ہی درس نظامی ہے، کوئی ہم سے پوچھے کہ درس نظامی میں یہ جو تمہارا طریقہ ہے کہ آٹھ سال میں درس نظامی پڑھاتے ہیں کیا یہ طریقہ خیر القرون میں تھا تو ہم کہیں گے نہیں تھا۔اسی طرح درس نظامی کی درجہ بندی ، نصاب اور اوقات کا تعین صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں نہیں تھی تو کیا یہ ترتیب اور طریقہ کار چھوڑ دیں گے؟ ہر گز نہیں۔ یہ دراصل تجربات سے ایک ترتیب آگئی ہے جوکہ تجربات کا نتیجہ ہے۔ تجربے سے نئی باتیں آتی ہیں، اور مواقع سے بدلتی رہتی ہیں۔ اس پر ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا۔
گزشتہ صدی میں وسطی ایشیاء بخار ا،سمرقند، تاشقند، ازبکستان اور تاجکستان پر پون صدی جبر کی گزری ہے، وہاں مسجدیں اور مدارس بند تھے، ہزاروں مدرسوں پر تالے لگا دیے گئے اور تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ بلکہ تعلیم پر پابندی کا حال یہ تھا کہ بسا اوقات استاد کلاس میں بچوں سے پوچھتا کہ کسی کو کوئی سورت یاد ہے؟ کوئی بچہ کہتا یاد ہے۔ استاد کہتا سناؤ۔ بچے نے سنادی تو استاد پوچھتا کس سے پڑھی ہے؟ بچہ بتاتا فلاں استاد سے۔ تو وہ قرآن کی تعلیم دینے والا استاد دوسرے دن غائب ہوتا تھا۔ بچے کو کچھ نہیں کہتے تھے، لیکن اسے قرآن مجید پڑھانے والا اس کے بعد نہیں ملتا تھا۔ آپ شاید یہ بات سن سکیں یا نہیں کہ سمر قند کی مرکزی جامع مسجد کا مین ہال چالیس سال سینما ہال رہا ہے۔
میں ان کیفیات کا خود مشاہدہ کر کے آیا ہوں ۔ ایک دفعہ تاشقند میں ایک دوست استاد ذاکر جان ملے ، جو کہ بڑے اچھے عالم ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ عربی بڑی اچھی بولتے ہیں اور عالم بھی ٹھیک ٹھاک ہیں، آپ نے کہاں پڑھا ہے؟ یہاں تو کوئی مسجد اور مدرسہ کھلا نہیں تھا، مدارس کو تالے لگے ہوئے تھے ، تو آپ نے کہاں پڑھ لیا؟ استاد ذاکر جان مجھے اپنے مکان کے پیچھے لے گئے، جہاں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے درمیان ایک سرنگ کا راستہ تھا، سیڑھیاں تھیں۔ ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچے تو وہاں اٹھارہ بیس فٹ کا ایک ہال تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے یہاں پڑھا ہے۔ استاد بھی چھپ چھپا کر رات بارہ بجے آتے تھے اور ہم شاگرد بھی رات کو چھپ کر آتے تھے،کسی کو کچھ پتا نہیں چلتاتھا کہ یہاں کیا ہورہا ہے، ہم نے کتابیں یہاں پڑھی ہیں، و ہی نور الانوار اور اصول الشاشی جو آپ نے زمین کے اوپر بیٹھ کر پڑھی ہیں ہم نے زمین کے نیچے بیٹھ کر پڑھی ہیں۔ اور ان کا کہنا تھا کہ اس طرز کے مدارس تاشقند شہر میں آپ کو بیسیوں ملیں گے۔
یہ ایک طریق کار ہے جو موقع محل کے مطابق اختیار کیا گیا، اب کوئی کہے کہ کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رات بارہ بجے کلاس لگتی تھی تو اس کا جواب نفی میں ہوگا ، لیکن یہ ذرائع ہیں اور میں نے اصولی بات یہ کی ہے کہ مقاصد ایک ہی رہتے ہیں، جبکہ ذرائع ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور ذرائع کی بنیاد تجربات ، مواقع اور حالات اور استاد کے مزاج پر ہوتی ہے۔ پڑھانے والے کا ذوق غالب رہتا ہے۔ پانی پتی استاد اپنے لہجے میں پڑھائے گا ، اور دوسرے لہجے کا قاری الگ ہے، اسے کہیں کہ ایسے پڑھاؤ تو وہ نہیں پڑھا سکے گا۔
اپنا ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں۔ امریکا میں نیو یارک کے ساتھ بفیلو ایک جگہ کا نام ہے۔ وہاں دارالعلوم مدنیہ کے نام سے ہمارا بڑا مدرسہ ہے، امریکہ کے بڑے مدارس میں ہے ۔ ہمارے بزرگ محترم ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن صاحب کا مدرسہ ہے۔ میں وہاں گیا تو دیکھا کہ تہہ خانے میں حفظ کی کلاس لگی ہوئی تھی۔ تپائیاں لگی ہوئی ہیں، ایک لڑکے کو قاری صاحب نے مرغا بنایا ہوا ہے اور ڈنڈا قاری صاحب کے ہاتھ میں ہے ۔ میں دیکھ کر حیران ہو کر سوچنے لگا کہ گوجرانوالہ میں ہوں یا امریکا میں ہوں؟ قاری صاحب ملے، میں نے ان سے پوچھا آپ پانی پتی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ پانی پتی ہوں اور گوجرانوالہ کا ہوں، میں نے حفظ گوجرانوالہ میں آپ کے مدرسہ انوار العلوم میں کیا ہے۔
ہمارے ہاں ایک فرق پڑا تھا اب بھی ہے۔ ہمارے ہاں حضرت مولانا ولی اللہ صاحب ”انھی والے استاد“ مشہور ہیں ۔ میرے بچپن میں فوت ہوئے ہیں۔ اپنے وقت کے امام تھے، ان کا طریق یہ نہیں تھا کہ سبق پڑھائیں، ان کا طریق کار تھا کہ طالب علم خود سبق حل کر کے لائیں، وہ خود ایک لفظ نہیں بولتے تھے، طالب علم کتاب حل کر کے لاتے اور ان کو سنا دیتے۔ ان کا تجربہ یہ تھا۔ میں نے خود کئی کتابیں استاذ محترم حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب ہزارویؒ سے اسی طرز پر پڑھی ہیں۔ وہ بھی یہی فرماتے کہ مطالعہ کر کے آؤ اور سبق حل کر کے لاؤ ۔ یہ استاد کا طریق کار ہوتا ہے، جو ہر استاد کا مختلف ہوتا ہے۔
میں جوبات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تعلیم کے طریقوں میں علاقے کے حوالے سے، تجربے اور مواقع کے حوالے سے فرق آتا ہے، کسی کو شام کا وقت ملتا ہے تو کسی کو صبح کا، ہر ایک طریقہ کار ٹھیک ہے۔ اگر ذوق ہو تو آدمی کسی بھی وقت اور کسی بھی طریقے سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ مثلاً میرے ایک راہوالی کے ساتھی حافظ مقصود احمدؒ تھے، کیمیکل انجینئر تھے، انہیں قرآن مجید حفظ کرنے کا شوق ہوا ، گتہ فیکٹری میں ملازم تھے، عصر کے وقت چھٹی کر کے مدرسہ میں جاتے، عشاء تک وہاں رہتے اور پڑھتے یوں انہوں نے چار سال میں قرآن پاک مکمل حفظ کر لیا اور بعد میں قرآن پاک تراویح میں سنایا بھی ہے، اب فوت ہو چکے ہیں۔ انہیں ایک دفعہ شوق ہوا کہ عربی پڑھنی ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے فارغ اوقات میں عربی پڑھی اور ایم اے عربی کیا اور پھر وہ وقت بھی آیا ہے کہ میں عربی کے ترجمے ان سے کروایا کرتا تھا۔
اس لیے میں نے کہا کہ یہ ذوق کی بات ہوتی ہے اور عرض کیا کہ ایک تو تجربات کی بنیاد پر طریقہ ہائے کار تشکیل پاتے ہیں، دوسرا حالات و مواقع کی بنیاد پر اور تیسرے استاد کے شخصی ذوق پر تشکیل پاتے ہیں۔ بعینہٖ یہی چیز تصوف میں بھی ہے۔ تصوف کی اصطلاحات اور تصوف کا طریق کار قرآن مجید کے حفظ و تجوید اور درس نظامی کے طریق کار سے مختلف نہیں ہے ۔ وہی چیزیں جو ہم نے یہاں کی ہیں وہاں بھی کی ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جب غلو کریں گے تو وہ غلو بدعت بن جائے گا۔ بدعت کسی نئے کام کو کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی کام میں غلو کرنے اور دوسرے کام کی نفی کرنے کا نام ہے۔ مثلاً خیر کا کوئی کام ہو اپنے ذوق کے مطابق کرنا چاہیے، لیکن جب اس میں غلو کریں گے ، کہیں گے کہ یہی ٹھیک ہے ، اس پر لزوم کریں گے اور نہ کرنے والے پر ملامت کریں گے تو وہ بدعت بن جائے گا۔ خیر کے کسی نئے کام کا نام بدعت نہیں ہوتا، بلکہ بدعت کی تعریف ہے ”کسی غیر ضروری کام کو لازم سمجھ لینا اور اس کے ترک پر وعید کر نا۔“
مثلاً ذکر اللہ کے بارے میں نقشبندیوں کا اپنا طریقہ ہے، چشتی حضرات اور سہر وردیوں کا اپنا اپنا طریقہ ہے۔ ان کے ذوق اور ان کے تجربات کے حوالے سے طریقہ کار مختلف ہے، مگر یہ کوئی حرج کی بات نہیں۔ اگر وہ اس کو اپنا طریق کار کہیں گے تو یہاں تک بات ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ ا سے دین کا حصہ کہیں گے کہ یہ تصوف کے لوازمات میں سے ہے ، یہی اصل طریقہ ہے، اور دوسروں کی نفی کریں گےتو اس سے کام بگڑ جائے گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم کہیں کہ درس نظامی پڑھانے کا ہمارا طریق کار تو ٹھیک ہے باقی سارے غلط ہیں تو وہاں بھی یہی گڑ بڑ پیدا ہوگی۔
میں نے دو گزارشات کی ہیں کہ تصوف کی اصطلاحات اور تصوف کا طریق کار بظاہر مختلف نظر آتا ہے، الگ الگ نظر آتا ہے، نئی باتیں نظر آتی ہیں، لیکن یہ نئی باتیں ذرائع کے حوالے سے قابل قبول ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح حفظ ، قرأت و تجوید کی اصطلاحات اور درس نظامی کا طریق کار اور درجہ بندی اور پڑھانے کا طریقہ کار الگ الگ ہے۔
بہرحال میں نے تصوف کی اصطلاحات اوراس کے طریق کار کے بارے میں یہ گزارش کی ہے کہ جس طرح دین کے باقی شعبوں میں حالاتِ زمانہ، تجربات، مواقع اور اساتذہ کے الگ الگ ذوق کے حوالے سے مختلف طریق کار تشکیل پائے ہیں اور وجود میں آئے ہیں اور ان کے مطابق سب نظام چلتے رہے ہیں، اسی طرح تصوف کی بھی مختلف اصطلاحات اور مختلف طریق کار ہیں۔ اس حد تک بات درست ہے ، جس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اشکال کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں غلو آجائے اور غلو کسی بھی شعبے میں پیدا ہو جائے وہ غلط ہوتا ہے ۔
غلو یعنی حد سے بڑھنا اس کی علامت عرض کردیتا ہوں۔ غلو کی دو علامتیں ہیں۔ ایک یہ کہ شریعت کے کسی حکم سے متصادم ہو۔ وہ پہلے تھا یا نہیں تھا، یہ الگ مسئلہ ہے، اگر شریعت کے کسی حکم سے متصادم ہے تو غلو ہے۔ اور غلو کی دوسری علامت یہ ہے کہ اس پر لزوم ہو اور اس کے علاوہ باقیوں کی نفی ہو۔ اگر غلو نہ ہو تو حالات کے مطابق جو طریق کا ر بھی وجود میں آئے گا، اس کے لیے اہل فن جو بھی اصطلاحات وضع کریں گے وہ درست ہوں گی اور اس کے مطابق کام کرنا غلط نہیں ہو گا۔ بس غلو اور حد سے تجاوزسے بچنا ضروری ہے باقی معاملات کی طرح تصوف میں بھی یہی اصول ہے۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
دسویں نشست
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی نشست کا موضوع طے ہوا تھا”تصوف کے مختلف پہلو“ گزشتہ نشستوں میں تصوف کے چند پہلوؤں پر گفتگو ہو چکی ہے۔ تصوف کیا ہے؟ شریعت کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے ؟حضرات صوفیاء کرامؒ کا انداز کار اور طریق کار کیا ہے؟ تصوف کا ہماری عملی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ تصوف اور سنت کا کیا جوڑ ہے؟ اور معاشرے اور امت کے اصلاح میں صوفیاء کا کردار کیا رہا ہے؟ ان مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی ہے، آج اس سلسلہ کی آخری نشست ہے۔ آج میں دو باتوں کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہوں گا۔
(۱) ایک تو یہ کہ ہم جس مکتب فکر یا دائرہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا تصوف کے ساتھ تعلق کیا ہے اور کیا رہا ہے؟ ہمارا عمومی تعارف ”علمائے دیوبند “ کے عنوان سے ہوتا ہے، دیوبندی علماء کا تصوف کے ساتھ کن لائنوں سے، کن راستوں سے اور کس قسم کا تعلق ہے؟
(۲) اس کے ساتھ ہی ایک دلچسپ سی بحث ذکر کرنا چاہوں گا جو من وجہ متعلق ہے بھی اور نہیں بھی۔ آج سے نصف صدی پہلے تک ہمارے ہاں ایک بحث چلتی رہی ہے کہ اس صدی کا مجدد کون ہے؟ اس میں ہر شخصیت کے پیروکار اپنی اپنی محبوب شخصیت بات کرتے رہے ہیں۔
ہمارا تصوف کے ساتھ ایک تعلق حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ہے اور مرکزی تعلق وہی ہے۔ جب ۱۸۶۶ء میں دیوبند کے مدرسہ کا آغاز ہوا تھا تو اس کے متعلقین تقریباً اکثر بزرگ حضرت حاجی صاحبؒ سے متعلق تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے ہمارے بزرگ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوایؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حافظ ضامن شہیدؒ حضرت حاجی صاحبؒ سے ہی متعلق تھے۔ مجھے چند ماہ پہلے دیوبند کے سفر کے موقع پر ان بزرگوں کے مراکز دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب اور میں دونوں ایک دن اپنے میزبانوں کو بتائے بغیر نکل گئے کہ زندگی میں پھر کبھی موقع ملے گایا نہیں ملے گا آج موقع ہےکہ ہم اپنے جن بزرگوں کا نام سنتے رہتے ہیں، ان سے متعلقہ مقامات کی زیارت کر لیں۔ ہم نے سارا دن انہی جگہوں میں گزارا۔ شاملی کا میدان دیکھا جہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی اور خانقاہ تھانہ بھون میں حضرت حاجی صاحب کا حجرہ دیکھا جہاں بیٹھا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ کاندھلہ اور گنگوہ بھی گئے۔ گنگوہ میں حضرت گنگوہیؒ کی خانقاہ دیکھی۔
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ چشتیہ کے اپنے وقت کے بڑے شیخ تھے۔تصوف کے چار معروف سلسلے ہیں قادری، سہروردی، نقشبندی اور چشتی۔ چشتی سلسلہ برصغیر میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے چلا آ رہا ہے۔ اجمیر شریف آج بھی دنیا کے رجوع کا مرکز ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد چشتی سلسلہ کے ایک بڑے بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ دیوبند کے جتنے بزرگ ہیں وہ تقریباً سب حضرت حاجی صاحبؒ کے بیعت تھے اور انہی کے مجاز تھے۔
بلکہ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام دیا ہے کہ وہ ہمارے برصغیر کے دو بڑے مذہبی گروہوں دیوبندی اور بریلوی کے مشترکہ پیر ہیں۔ حضرت حاجی صاحبؒ ہمارے تو ہیں ہی، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارے ہی ہیں، لیکن بریلویوں کے بھی ہیں۔ وہ بھی انہیں اپنا پیر مانتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت حاجی صاحب کے خلیفہ ہیں اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بھی حضرت حاجی صاحبؒ کے خلیفہ ہیں۔ روحانی طور پر ہمارے سرپرست اعلیٰ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ انہوں نے ویسے بھی سرپرستی فرمائی ہے اور ان کا ایک واقعہ بھی مشہور ہے۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ وغیرہ اکابر ۱۸۵۷ء کی آزادی کی جنگ کے بعد ہجرت کر کے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تھے وہیں جنۃ المعلیٰ میں ان کی قبر ہے۔ ان سے پہلے شاہ محمد اسحاق دہلوی اور شاہ عبد الغنی بھی وہیں چلے گئے تھے۔ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ آج بھی مسلمانوں کی سب سے بڑی پناہ گاہیں ہیں اور اس وقت چونکہ ویزہ وغیرہ کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا تھا تو جب اپنے ماحول سے زیادہ پریشان ہوتے تھے تو ہجرت کرکے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ چلے جاتے تھے اور باقی زندگی وہیں گزارتے۔ یہ سب اکابر وہیں مدفون ہیں۔ حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مکہ مکرمہ جانے کے تقریباً گیارہ سال بعد دیوبند کے مدرسے کا آغاز ہوا، تو کوئی صاحب حج پر گئے اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کے پاس جا کر کہنے لگے کہ حضرت! ہم نے دیوبند میں مدرسہ شروع کیا ہے اور ہم وہاں یہ کر رہے ہیں، وہ کر رہے ہیں وغیرہ ۔ رپورٹ دی تو حضرت حاجی صاحبؒ نے اپنے لہجے میں کہا کہ یہاں ہماری پیشانیاں گھس گئی ہیں دعائیں مانگ مانگ کر اور تم کہہ رہے ہو ہم نے مدرسہ شروع کیا ہے۔ اللہ پاک سے دس سال سے درخواستیں ہم کرتے رہے، دعائیں ہم مانگتے رہےتو کیا مدرسہ شروع کرنے میں ہم شامل نہیں ہیں؟ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ اس مدرسہ کے اس درجہ کے سر پرست تھے۔
جب ہم تصوف کے مختلف شجرے شمار کرتے ہیں تو جنکشن حضرت حاجی صاحبؒ ہیں۔ حضرت میاں جی نور محمد جنجھیالوی رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے وقت کے چشتی سلسلہ کے بہت بڑے شیخ تھے، حاجی صاحبؒ ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ چشتی سلسلہ میں حضرت مدنیؒ، حضرت شیخ الہندؒ اور مولانا نانوتوی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی بنیادی طور پر چشتی سلسلہ کے بزرگ ہیں۔
ایک اور روحانی سلسلہ جو ہمارے دیوبندیوں میں متعارف ہے وہ ہے نقشبندی سلسلہ۔ اس کی اپنی مستقل بہار ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں حضرت حاجی شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ اور پھر حضرت خواجہ احمد سعید رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی سلسلہ کے شیوخ تھے۔ میں نے انڈیا کے اس سفر میں حضرت حاجی شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ پر بھی حاضری دی ہے۔ ان کے موجودہ سجادہ نشین مولانا انس صاحب بڑے فاضل اور معقول آدمی ہیں۔ میں نے خانقاہ میں ان کی خدمت حاضری دی اور میں نے کہا کہ حضرت! میں اپنے پیر خانے میں بیٹھا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کیسے؟ تو میں نے بتایا کہ یہ ہماراسلسلہ ہے۔ حضرت خواجہ احمد سعید رحمۃ اللہ علیہ اور یہ ہمارے بزرگ تھے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں موسیٰ زئی شریف کی خانقاہ ہے یہ اس سلسلے سے ہے۔ حضرت خواجہ دوست محمد قندھاریؒ اور پھر خواجہ محمد عثمان اور خواجہ سراج الدین رحمہم اللہ تعالیٰ۔ موسیٰ زئی شریف بڑا مرکز ہے پھر وہاں سےدو سلسلے چلے ہیں۔ دونوں ایسے سمجھ لیں جیسے ایک تار گرم ہوتی ہے اور ایک ٹھنڈی ہوتی ہے، لیکن دونوں اکٹھی ہوتی ہیں۔ وہاں سے دو شاخیں نکلیں۔ایک حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور دوسری کندیاں شریف کی شاخ۔ یہ دونوں موسیٰ زئی شریف کی شاخیں ہیں۔
رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ میانوالی واں بچھراں کے بزرگ تھے، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے براہ راست شاگرد تھے، بہت بڑے موحد تھے اور قدرے سخت مزاج کے بزرگ تھے، بدعات کے خلاف جدوجہد میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ بیعت ان سے تھا۔ ان کے شاگرد بھی ہیں اور ان کے خلیفہ مجاز بھی ہیں۔ چنانچہ ہماری ایک تعلیمی سند والد محترم ؒ سے، مولانا حسین علی ؒ سے اور حضرت گنگوہیؒ سے بھی ہے، جو کہ عالی سند ہے، اس میں واسطے کم ہیں۔
کندیاں شریف کا سلسلہ بھی موسیٰ زئی شریف سے ہے ۔ نقشبندی بھی ہمارے ہاں دیوبندی حضرات میں وسیع پیمانے پر ہے اور نقشبندیوں کا سلسلہ ہمارے ہاں مسلسل چلا آ رہا ہے۔
تیسری طرف ایک روحانی سلسلہ قادری ہے۔ میں بھی ”راشدی“ سے اپنی نسبت اسی سلسلہ کی طرف کرتا ہوں۔ حضرت شاہ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں ایک بڑے بزرگ تھے حضرت شاہ محمد راشدؒ، جو کہ غالباً حضرت شاہ ولی اللہؒ ، شاہ عبدالعزیزؒ کے معاصر ہیں۔ وہاں سے چلتے چلاتے سندھ میں آ کر آباد ہوئے اور سندھ میں انہوں نے قادری سلسلے میں لوگوں کی اصلاح کا آغاز کیا ۔ یہاں اس سلسلہ کے وہ مرکز ہیں، ان سے آگے سلسلہ چلا۔ پیر جوگوٹھ اور پیر آف جھنڈا ان کے دو مراکز ہیں۔
حضرت شاہ محمد راشدؒ کا تحریک آزادی کے ساتھ بھی تعلق رہا ہے اور تصوف اور اصلاح کا سلسلہ بھی جا ری رہا۔ جب شہدائے بالاکوٹ سید احمد شہید ؒاور شاہ اسماعیل شہیدؒ جہاد کے لیے نکلے تو راجھستان سے آتے ہوئے پیر جوگوٹھ ان کا مرکز تھا جہاں انہوں نے قیام کیا انہوں نے میزبانی کی اور پھر بعد میں رابطے بھی رہے۔ حضرت سید احمد شہیدؒ کے جو خطوط چھپے ہیں ان میں حضرت شاہ محمد راشدؒ وغیرہ کے خطوط بھی ملتے ہیں ۔ آزادی کی جنگ میں ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ پاکستان کے قیام سے دو سال پہلے تک اس گدی کے مرید لڑتے رہے ہیں۔ پیر جوگوٹھ میں ۱۹۴۵ء میں انگریزوں نے آپریشن کیا تھا، بمباری کی تھی اور لوگ گرفتار کیے تھے تو جو پیر آف پگارا ابھی فوت ہوئے ہیں ، ان کے والد محترم پیر صبغت اللہ راشدی ؒ تحریک آزادی کے بہت بڑے مجاہد تھے، انہیں بغاوت کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا ، انگریز نے حیدرآباد جیل میں انہیں پھانسی دی تھی اور میت بھی نہیں دی تھی، حیدر آباد جیل میں ہی ان کی قبر بتائی جاتی ہے۔
اس سے آگے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ روایت یہ ہے کہ جب حضرت شاہ محمد راشدؒ فوت ہوئے تو انہوں نے اپنے حلقے کو تقسیم کیا، ایک بیٹے کو پگڑی عطا کی تو وہ پیر آف پگارا کہلائے اور دوسرے بیٹے کو جھنڈا عطا کیا تو وہ پیر آف جھنڈا کہلائے۔ یہ دونوں گدیاں وہاں موجود ہیں۔ دین پور شریف ، امروٹ شریف، ہالیجی شریف (حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجویؒ) اور شیرانوالہ (حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ) چاروں ان پیر آف پگارا اور پیر آف جھنڈا کی شاخیں ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی آزادی کی جنگ میں اور ان کی تعلیمی جدوجہد میں پیر آف جھنڈا ان کا بڑا مرکز رہا ہے۔ آپؒ وہاں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔یہ قادری سلسلہ ہے جس کا اپنا ایک دائرہ ہے۔
ہمارے ہاں زیادہ تر دیوبندی علماء میں چشتی، نقشبندی اور قادری سلسلے چلتے آئے ہیں۔ سہروردی خال خال ہیں، لیکن بطور سلسلے کے میں نے بڑا تلاش کیا ہے مگر ہمارے حلقہ میں کم ملے۔
ہمارے ان بزرگوں نے جو بنیادی کام کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک تو تصوف اور روحانیت کی لائن میں استفادہ کیا ہے، لیکن صرف استفادہ نہیں کیا، بلکہ اصلاح بھی کی ہے۔ جیسا کہ فطرت کا اصول ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اصل میں کمی بیشی ہو جاتی ہے، مثلاً باغ میں جب پودے اگتے ہیں تو سال دو سال بعد ان کی چھانٹی کر کے صاف کیا جاتا ہے، اس کو تہذیب کہتے ہیں۔ تجدید اسی کا نام ہے، چنانچہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدی کے سرے سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھیجتے ہیں ”من یجدد لھا دینھا“ جو دین کی تجدید کرتا ہے۔ تجدید کا یہ معنی نہیں کہ وہ کوئی نیا دین لے آتا ہے، بلکہ تجدید کا معنی یہ ہے کہ حالات اور زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں جو چیزیں اضافی شامل ہوتی رہتی ہیں مجدد آ کر ان سب کی چھانٹی کر دیتا ہے کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے۔ یہ یہاں تک ٹھیک ہے اس سے آگے غلط ہے۔ تجدید در حقیقت تہذیب کا نام ہے۔
ہمارے بزرگوں نے تصوف سے استفادہ کیا ہے، اور توازن بھی قائم کیا ہے۔اس کی نفی نہیں کی اور تصوف کی اس وقت کی موجودہ صورتحال کو من وعن قبول بھی نہیں کیا، بلکہ اس میں جو بدعات و رسوم تھیں، ان کی اصلاح کی ہے۔ چنانچہ ہمارے سب سے بڑے صوفی حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ گنے جاتے ہیں، ہمارے ہاں تصوف میں سب سے بڑا نام حضرت تھانویؒ کا ہے جبکہ بدعات و رسوم کی جتنی اصلاح اور بدعات و رسوم کے خلاف جتنی سختی انہوں نے کی ہے شاید کسی اور نے نہیں کی۔ انہوں نے چھانٹی کی کہ فلاں فلاں باتیں غلط ہیں۔ چنانچہ اس پر ایک بحث بھی چلتی رہی جس کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ چونکہ یہ ہماری آخری نشست ہے اس لیے اس میں یہ بحث بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔
فطری بات ہے کہ ہر شاگرد کو اپنا استاد اور ہر مرید کو اپنا پیر ہی سب سے بڑا لگتا ہے۔ یہ بات پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ حضرات صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے مفتی تھے اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ مکہ مکرمہ کے مفتی تھے اور یہ فرق معروف تھا کہ یہ مکہ کا مفتی ہے، ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں، ہم نے اپنے مفتی کی بات سننی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں روایت آتی ہے کہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے مسئلہ پوچھا ، انہوں نے بتایا تو کسی نے کہا چھوڑو یار ،ہم اپنے شہر سے مفتی سے کیوں نہ پوچھیں۔ ہمارے مفتی حضرت زید بن ثابتؓ ہیں۔
فطری بات ہے کہ آدمی کو جس کے ساتھ تعلق زیادہ ہو، وہی سب سے بڑا لگتا ہے۔ اسی سے آگے فقہی حلقے بنے ہیں۔ کوفہ والوں کا اپنا حلقہ، شام والوں کا اپنا حلقہ ، بصرہ والوں کا اپنا حلقہ، حضرت حسن بصری کا اپنا حلقہ اور ابراہیم نخعی کا اپنا حلقہ ، یہ سارے حلقے فطری بات ہے، گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ بحث چلتی رہی ہے کہ گزشتہ صدی کا مجدد کون ہے؟ کوئی نہ کوئی تو مجدد ہو گا، کون ہے؟ آج سے پون صدی پہلے تک اس مسئلہ پر باقاعدہ مکالمے، مباحثے،کتابیں اور رسالے بہت کچھ ہوتا رہا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدین کہتے حضرت تھانویؒ مجدد ہیں۔ علامہ انور شاہ کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد کہتے انور شاہؒ جیسا کون ہے؟ واقعی علامہ انور شاہ صاحبؒ کو انور شاہ کے زاویے میں دیکھا جائے تو ان جیسا کوئی نہیں ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدین کہتے حضرت مدنی جیسا کہاں سے لاؤ گے؟ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے معتقدین کہتے ان سے بڑا مفکر کون ہے؟ اس صدی کا مجدد حضرت تھانویؒ،حضرت مدنیؒ، علامہ کاشمیریؒ اور مولانا سندھیؒ میں سے کون ہے؟ اس پر مباحثے چل رہے تھے۔ اس پر ایک محاکمہ لکھا حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ نے جودیوبند کے پرانے فضلاء میں سے ہیں ، علامہ انور شاہ صاحبؒ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ بہت فاضل آدمی تھے، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک دفعہ تشریف لائے تھے، مجھے ان سے ملاقات اور زیارت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ انہوں نے اس پر محاکمہ لکھا کہ یہ بحث بند کرو، تقابل کی فضا ختم کرو کہ وہ مجدد ہے اور وہ نہیں ہے، یہ سارے ہی مجدد ہیں۔
اس پر ایک لطیفہ یاد آیا، جو متعلقہ نہیں ہے، مگر ذکر کر دیتا ہوں۔ صدر ایوب خان کا زمانہ تھا مزدور تحریکیں متحرک تھیں، میرا بھی ان کے ساتھ تعلق رہا ہے۔ لاہور میں مزدور تحریکیں متحد ہوئیں، ان میں مرزا ابراہیم مرحوم، بختیار اور طاؤس خان وغیرہ شامل تھے۔ ان کا اتحاد بنا تو چونکہ مرزا ابراہیم سینئر تھے انہیں صدر بنا لیا۔ نائب صدر پر جھگڑا ہو گیا، بیس پچیس گروپ تھے۔ ہر ایک کہتا نائب صدر ہمارا ہو گا۔ بحث خاصی بڑھ گئی تو طاؤس خان مزدور لیڈر تھے اور مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ دو تین گھنٹے سے بحث جاری ہے اور کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا تو کھڑے ہو گئےاور کہا بات سنو۔ جھگڑے کی کیا ضرورت ہے؟ مرزا صاحب صدر، اور باقی یہاں ہم جتنے لوگ بیٹھے ہیں سارے نائب صدر۔ اگلی بات کرو۔
اس صدی کا مجدد کون ہے؟ اس پر مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ نے محاکمہ لکھا کہ یہ اجتماعیت، ٹیم ورک اور تقسیم کار کا دور ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر بندے سے الگ الگ شعبہ میں کام لیا ہے۔ دینی فقہی تعبیرات اور فقہی دلائل کے استخراج و استنباط میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا جواب نہیں ہے۔ اس شعبہ کے مجدد وہ ہیں۔ سیاسیات ، تحریک آزادی اور جدوجہد میں حضرت مدنی ؒ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس شعبہ کے مجدد وہ ہیں۔ تصوف اور اصلاح معاشرہ میں حضرت تھانویؒ سے بڑھ کر کسی کا کام نہیں ہے۔ اس شعبہ کے مجدد وہ ہیں۔ اور افتاء میں مفتی اعظم مفتی کفایت اللہؒ سے بڑا کوئی نہیں ہے، اس شعبہ کے مجدد وہ ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ نے سب کا ذکر کر کے فرمایا یہ سبھی اپنےاپنے شعبہ کے مجدد ہیں اور جامع المجددین کی حیثیت اگر شخصیات میں شمار کریں تو حضرت شیخ الہندؒ کو حاصل ہے اور اداروں میں گنیں تو دارالعلوم دیوبند کو حاصل ہے۔
میں نے گزارش کی کہ تصوف کے حوالے سے دیوبندی حلقے کا زیادہ تر تعلق تصوف کی کون کون سی شاخوں سے رہا ہے ، اب بھی ہے اور ہمارے بزرگوں نے تصوف میں اصطلاح اور تجدید کا کام بھی سرانجام دیا ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ میں نے توتصوف کے عنوان سے اشارات میں چند باتیں کی ہیں، تفصیلی بات نہیں کر سکا۔ اگر آپ تصوف کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کرنا چاہیں کہ تصوف کیا ہے، اس کی اصطلاحات کیا ہیں ، اس کے اثرات کیا ہیں، تصوف اور شریعت کا جوڑ کیا ہے، اصل تصوف کون سا ہے اور اس میں ملاوٹیں کیا کیا ہیں، اور تصوف اور سلوک کا صحیح راستہ کیا ہے؟ اس پر تین کتابوں کا حوالہ دیتا ہوں۔
(۱) ایک حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات بہت بڑا ذخیرہ ہے جوکہ اصل فارسی میں ہے، اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔ ان مکتوبات میں انہوں نے اپنے متوسلین اور عقیدت مندوں کی مختلف حوالوں سے رہنمائی فرمائی ہے اور ان کے سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔ جنوبی ایشیا میں تصوف، سلوک، احسان کی اصل اور نقل کو پہچاننے کے لیے مکتوبات امام ربانی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(۲) اس کے بعد”مکتوبات شیخ الاسلام“۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی باقی کتابیں پڑھیں گے تو وہ بالکل مختلف محاذ کے آدمی محسوس ہوں گے، گویا محاذ جنگ پر کھڑا جرنیل ہے، لیکن اگر ان کے مکتوبات پڑھیں گے تو آپ کو بہت بڑا صوفی نظرآئے گا جو تصوف کے رموز و اصطلاحات پر بات کر رہا ہے۔
(۳) اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتبِ تصوف”التکشف فی مہمات التصوف“ وغیرہ
یہ تین شخصیات ہیں جنہوں نے تصوف کی حدود ،اصطلاحات اور دائر کار بیان فرمایا ہے اور چھانٹی کی ہے کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط ہے۔
اب آخری بات کرنا چاہوں گا۔ حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز نقشبندی سلسلہ میں حضرت مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کے مجاز تھے۔ عام طور پر بیعت نہیں کرتے تھے، لیکن کوئی اصرار کرتا تھا تو کر لیتے تھے۔ ان کے سینکڑوں مرید ہیں۔ میرا بیعت کا تعلق سلسلہ راشدیہ سے ہے۔ میں بیعت کے حوالےسے قادری ہوں۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کا تعلق ہے۔ ان کی وفات کے بعد بیعت میں اس دائرہ سے نہیں نکلا اور حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے کسی سے تعلق قائم کرنا چاہا، جس سے ذوق بھی ملتا ہو۔ چنانچہ قادری سلسلہ میں حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ میرے شیخ ہیں۔
حضرت والد محترم رحمۃ اللہ علیہ نے جب اپنے خلفاء کی فہرست مرتب کی تو اس میں میرا نام بھی لکھ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ میں مزاج کے اعتبار سے تصوف کی لائن کا آدمی نہیں ہوں اور اس معاملے میں تصوف اور صوفیاء کے حوالے سے میرا حال یہ ہے ”احب الصالحین ولست منھم، لعل اللہ یرزقنی صلاحا۔“ اور میرا جو تھوڑا بہت تعلق ہے وہ بھی قادری سلسلہ سے ہے، میں نقشبندی نہیں، بلکہ قادری ہوں۔حضرت والد محترمؒ نے فرمایا ٹھیک ہے میں نے کر دیا ہے جو کر دیاہے۔ پھر فرمایا کہ ایک کام تمہارے ذمہ لگانا ہے۔ میرے ساتھ وعدہ کرو کہ یہ کام کرو گے۔ میں نے پوچھا کیا؟ تو فرمایا کہ میں نے بہت سے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں، تصوف پر لکھنا چاہتا تھا، مگر نہیں لکھ سکا، لہٰذا یہ تم نے لکھنی ہے۔ میں نے عذر کیا کہ یہ میری لائن نہیں ہے ، لیکن فرمایا ضرور لکھنی ہے، میرے ساتھ وعدہ کرو۔ میں نے وعدہ کر لیا۔
جو بات میں یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کہنے لگے لکھنے سے پہلے دو کتابیں ضرور مطالعہ کر لینا، پھر لکھنا۔ ایک حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی ” تصوف کیا ہے؟“ یہ تصوف کے تعارف پر زبردست کتاب ہے۔ اور دوسری حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ”التکشف فی مہمات التصوف“ ضرور پڑھ لینا۔ میں نے والد محترمؒ سے وعدہ تو کر لیا لیکن میری دو کمزوریاں میرے سامنے ابھی تک رکاوٹ ہیں۔ ایک یہ کہ میں تصوف کی لائن کا آدمی نہیں ہوں، اور دوسری یہ کہ کتاب لکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے، میں پچاس سال سے مضمون ہی لکھ رہا ہوں۔ چار پانچ صفحے لکھنے کا معمول ہے، اس سے زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ مضمون نویسی اور کالم نویسی کا الحمد للہ میرا نصف صدی کا تجربہ ہے کہ اخبارات و جرائد میں لکھ رہا ہوں، لیکن میں مختصر لکھنے کا عادی ہوں، لمبی بات کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ جس طرح بعض لوگوں کے لیے مختصر بات کرنا مشکل ہوتا ہے، میرے لیے لمبی بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔
حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ غضب کے صحافی تھے، انہیں انگلش میں یہ کمال حاصل تھا کہ انگریز ان کے مضامین کو انگلش کی وجہ سے پڑھا کرتے تھے۔ ان کا انگلش پرچہ ”کامریڈ“ تھا جس کے وہ ایڈیٹر تھے ، لکھتے تھے تو لکھتے چلے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے انہیں خط لکھا کہ حضرت! کچھ مختصر لکھا کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ مختصر لکھنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے، مختصر لکھنے کے لیے سوچنا پڑتا ہے کہ اس جملہ کو کیسے مختصر کروں، اتنا سوچنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے۔
اسی طرح میرے پاس لمبا لکھنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ میں نے حضرت والد صاحبؒ کی وفات پر جو کالم وغیرہ لکھے تھے ان میں کہیں یہ بھی لکھ دیا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ تم نے تصوف پر کتاب لکھنی ہے۔ کراچی میں ہمارے نقشبندی سلسلہ کےبزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ گزرے ہیں، ان کے پوتے ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن میرے تعاقب میں لگ گئے کہ آپ تصوف پر کتاب لکھیں۔ میں نے کہا کہ میں کتاب نہیں لکھ سکتا، تو یہ تجویز ان کی تھی کہ آپ آٹھ دس نشستوں میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اس میں آپ جو کچھ کہنا چاہیں بیان کریں، وہ قلم بند ہو جائے گا اور اس کو چھانٹی کر کے ایک کتاب بنا دیں۔ ان کی تجویز پر اس سال کی نشستوں کا موضوع ”تصوف و سلوک“ رکھا گیا تھا، دس نشستیں ہوئی ہیں ، یہ لکھی جائیں گی، چھانٹی ہو گی اور پھر انہیں کتاب کی شکل دیں گے، ان شاءاللہ العزیز، تاکہ کسی حد تک والد محترمؒ سے کیا ہوا وعدہ پورا ہو جائے۔ اللھم صلی علی سیدنا محمدن النبی الامی و آلہ واصحابہ وبارک وسلم۔