’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (۵)

   
۲۸ مارچ ۱۹۶۹ء

(مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تصنیف ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ کی تلخیص۔ قسط ۵)

اسلام کے دستوری نظام میں خراج، جزیہ، عشر، زکوٰۃ، فئی، عشور خمس، وقف اور اس قسم کے محاصل اسی غرض سے مقرر کیے گئے ہیں کہ وہ ملک کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کے کام آئیں، اس لیے وہ عام طور پر مزید ٹیکس عائد کرنے کو جائز نہیں سمجھتا۔ البتہ اگر بیت المال کے یہ مسطورہ بالا محاصل ان ضروریات کو کافی نہ ہوں، یا ہنگامی اہم اجتماعی ضروریات ان محاصل سے فاضل آمدنی کے بغیر پوری نہ ہو سکیں تو عدل و انصاف کے ساتھ ہنگامی محاصل اغنیاء اور اہلِ ثروت پر عائد کیے جا سکتے ہیں۔

(و) کراء الارض

امام یا خلیفہ (حکومت) کی جن زمینوں کو سالانہ اجرت (لگان) مقرر کر کے کاشت کے لیے دے دیتا ہے، ان سے وصول شدہ محاصل کا نام ’’کراء الارض‘‘ ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسی سرکاری زمینوں کو جن سے نہ عشر لیا جاتا ہے اور نہ خراج بلکہ ان کو اجرت پر کاشت کے لیے دے دیا جاتا ہے، ’’ارض المملکۃ‘‘ یا ’’ارض الحوزہ‘‘ کہتے ہیں۔ اور یہ زمین یا وہ ہوتی ہے جو لاوارث ہو کر بیت المال کی جانب منتقل ہو جائے، اور یا لشکر کشی سے فتح ہونے کے بعد وقف للمسلمین بن کر اجیروں کو اجرت مقررہ پر دے دی جائے۔

(ہ) عشور

کوئی غیر مسلم یا جو مسلمان اور ذمی بھی دارالحرب اور دارالسلام کے درمیان تجارتی کاروبار کو جاری رکھتے ہیں، ان سے جو محصول (کسٹم ڈیوٹی) لیا جائے، اس طریقہ سے حاصل شدہ محصول کا نام ’’عشور‘‘ ہے۔ اور یہ محصول مسلمان کے مالِ تجارت میں سے چالیسواں، ذمی کے اسبابِ تجارت سے بیسواں، اور حربی کے مالِ تجارت سے دسواں حصہ لیا جاتا ہے۔

(ی) وقف

جو اشیائے منقولہ یا غیر منقولہ ذاتی ملکیت سے نکال کر فی سبیل اللہ دے دی جائیں وہ اسلامی اصطلاح میں ’’وقف‘‘ کہلاتی ہیں، اور اوقاف کی وہ تمام آمدنی جو فی سبیل اللہ دی گئی ہے، بیت المال کا حق متصور ہوتی ہے۔

(ے) اموال فاضلہ

مسطورہ بالا آمدنی کے طریقوں کے علاوہ جو بھی متفرق آمدنیاں بیت المال کی مِلک قرار دی جائیں، ان سب کو ’’اموالِ فاضلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی مسلمان یا ذمی کا انتقال ہو جائے اور وہ لاوارث ہو، تو اس کا مال ’’بیت المال‘‘ کا حق ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ذمی بغاوت کر کے یا کوئی مسلمان العیاذ باللہ مرتد ہو کر دارالحرب کو فرار ہو جائے تو ان کا تمام مال ضبط ہو کر بیت المال کی ملکیت ہو جاتا ہے۔

مصارف بیت المال

بیت المال کے محاصل کو چار مختلف شعبوں میں تقسیم کر کے چار ’’بیوت المال‘‘ قائم کرنے چاہئیں۔ مگر یہ چاروں مرکزی بیت المال کے تحت رہیں گے:

پہلا شعبہ مالِ غنیمت، کنز اور رکاز کے خمس اور صدقات سے تعلق رکھتا ہے۔

اور دوسرا شعبہ زکوٰۃ، عشر اور مسلمان تاجروں سے وصول شدہ عشور سے وابستہ ہے۔

ان دونوں شعبوں کے مصارف یہ ہیں: (۱) فقراء (۲) مساکین (۳) عاملین (۴) مؤلفۃ القلوب (۵) رقاب غارمین (۶) فی سبیل اللہ (۷) ابن سبیل۔

تیسرا شعبہ خراج، جزیہ، غیر مسلم تاجروں سے وصول کردہ عشور، فئی، کراء الارض اور ضرائب سے متعلق ہے۔ اس شعبہ کے مصارف ہر قسم کے وظائف اور شعبہ ہائے حکومت کے نظم و انتظام کے اخراجات ہیں۔

اور چوتھا شعبہ اموالِ فاضلہ پر مشتمل ہے جس کے مصارف رفاہِ عامہ (پبلک ورکس) لا وارث بچوں کی پرورش اور دیگر امورِ خیر ہیں۔

فقہاء نے یہ بھی تصریح کر دی ہے کہ امام (خلیفہ) مصالحِ خلافت کے پیش نظر بوقت ضرورت ایک شعبہ سے دوسرے شعبہ کے لیے قرض لے سکتا ہے۔ اور جب تک اس دوسرے شعبہ میں وافر آمدنی نہ ہو، دوسرے شعبوں سے اس شعبہ کی کفالت کر سکتا ہے۔

اعداد و شمار اور ان کی اہمیت

سطحی نظر میں اس مسئلہ کی کچھ زیادہ اہمیت معلوم نہیں ہوتی اور نہ یہ ’’اسلام کے معاشی نظام‘‘ میں بظاہر دخیل نظر آتا ہے۔ لیکن دراصل معاشی مسائل میں ’’اعداد و شمار‘‘ کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے کہ جب تک کسی ملک کی صحیح مردم شماری نہ کی جائے؛ اور پھر پبلک کی معاشی زندگی کے درجات یعنی برسرِ روزگار، بے روزگار، تاجر، صناع، نیز معذور، فقیر، دائم المریض اور صاحبِ حاجت افراد کے صحیح اعداد و شمار مرتب نہ ہوں؛ اور زمین، کارخانے، معدنیات یعنی ذرائع پیداوار اور محاصل و مصارف کی تعیین و تشخیص میں بھی اعداد و شمار کا لحاظ نہ رکھا جائے؛ تو پھر کوئی حکومت نہ اس مقصد کی تکمیل کر سکتی ہے کہ قلمرو حکومت میں ایک فرد بھی محروم المعیشت نہ رہے، اور نہ وہ معاشی عدل و انصاف کا حقیقی توازن قائم رکھ سکتی ہے۔

معاشی نظم و انتظام کے لحاظ سے ازبس ضروری ہے کہ اولی الامر اپنے قلمرو میں مردم شماری کا نظم قائم کرے، اور مسلم و غیر مسلم اور ذمی و مستامِن کی تفصیلات کو جدا جدا رجسٹروں میں درج کرائے۔ اور برسر روزگار، بے روزگار، مریض، معذور اصناف کے اعداد و شمار محفوظ رکھے۔ نیز محاصل و مصارف کی تفصیلات کے لیے علیحدہ رجسٹر رکھے تاکہ ہر شخص اپنے معاشی حقوق کو بآسانی حاصل کر سکے اور خلافت کا معاشی نظام ’’صالح نظام‘‘ کہلانے کا مستحق ہو۔

وظائف

اسلامی نظامِ حکومت میں دو قسم کی رعایا حقوقِ شہری سے مستفید ہوتی ہے۔ ایک ’’مسلم‘‘ یعنی وہ جماعت جس نے اسلام کے مکمل نظام کو قبول کر لیا اور دینِ الٰہی کے ہر فیصلہ کو اپنا ایمان بنا لیا۔ اور دوسری ’’ذمی‘‘ یعنی وہ غیر مسلم جماعت جس نے ایمانیات، عبادات اور اخلاقیات دینی میں آزاد رہ کر اور اسلام سے انحراف کر کے صرف سیاسی و اقتصادی اور معاشرتی امور میں حکومتِ اسلامیہ اور اس کے قوانین کی پناہ قبول کر لی، اور اسلامی طاقت (خلافت) کا مطیع رہنا منظور کر لیا ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے اس دوسری جماعت پر اس کے مال، اس کی آبرو کی حفاظت کے باوجود نہ مقررہ ٹیکس (خراج و جزیہ) کے علاوہ ان پر کوئی ٹیکس عائد ہوتا ہے اور نہ وہ فوجی خدمات کے لیے مجبور کیے جا سکتے ہیں، اور نہ حکومت کی دوسری خدمات ان پر عائد ہوتی ہیں۔

لیکن پہلی جماعت (مسلم) پر یہ سب خدماتِ مالی و جانی عائد ہیں اور وہ ان خدمات کے لیے خاص خاص حالات میں مجبور بھی کی جا سکتی ہے۔ پس حکومت (خلافت) اس جماعت کے افراد سے مختلف شعبوں کی خدمت لیتی اور ان کی اور ان کے اہل و عیال کی براہ راست کفالت کرتی ہے۔ مثلاً جہاد و اعلاء کلمۃ اللہ کی خدمت، وصولئ صدقات و زکوٰۃ کی خدمات، تعلیم و تبلیغ کی خدمت، مختلف محکمہ جات کی خدمت۔ اور جو افرادِ امت ان خدمات کے قابل نہیں ہیں، مثلاً مریض اور معذور؛ یا معاشی وسائل سے قطعاً محروم ہیں، مثلاً یتامیٰ و بیوگان، فقراء اور مساکین؛ تو ان کا بارِ کفالت بھی حکومت کے کاندھوں پر ہے۔ تاکہ صالح معاشی نظام کا مقصدِ وحید فوت نہ ہونے پائے۔

وظائف کا یہ نظم مختلف حیثیات کے اعتبار سے متعدد شعبوں پر مشتمل ہے اور ہر ایک شعبہ کے لیے رجسٹر اور فہرستیں جدا جدا رہنا ضروری ہیں۔

پہلا شعبہ ان وظائف سے متعلق ہے جو فوجی خدمات یعنی ’’جہاد بالسیف‘‘ سے وابستہ ہے۔ اور چونکہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے ہر پیرو کے لیے والنٹیر ہونا ضروری اور جہاد کے لیے آمادہ رہنا واجب ہے، اس لیے اس شعبہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے: ایک وہ فوجی جماعت جو میدانِ جہاد میں عام طور سے حصہ لیتی رہتی اور باقاعدہ فوج میں شامل ہے۔ اور دوسری وہ جماعت جو عام طور پر اپنے کاروبار میں مشغول رہتی ہے مگر وقت پر فوجی خدمت کے لیے حاضر ہو جاتی ہے۔ ایسی جماعت کو والنٹیر ’’مطوِّعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ خلافتِ اسلامیہ کی جانب سے ان دونوں جماعتوں کے لیے وظائف کا تقرر کیا جاتا ہے۔

دوسرا شعبہ قضاۃ و عمّالِ حکومت سے متعلق ہے۔ حکومت کے سسٹم پر قائم نہیں کہ ان کی اساس و بنیاد، دماغ اور تعلیمی استعدادات کا معیار قائم کر کے مقرر کی جائے، اور اس طرح رضاکارانہ خدمت کو تجارتی (بزنس) سسٹم میں ڈھال دیا جائے، بلکہ ان کے لیے بھی حکومت کی جانب سے ۔۔۔۔

(باقی حصہ دستیاب نہیں ہو سکا)

(باقی آئندہ)
   
2016ء سے
Flag Counter