سلامتی کونسل نے روس اور امریکہ کی کوشش سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے تمام فریقوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جنگ بند کر دیں اور اس کے بعد ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر واپس چلے جائیں۔ مصر اور اسرائیل نے جنگ بندی قبول کر لی ہے اور سینائی کے محاذ پر جنگ بند ہو چکی ہے، مگر آخری خبریں آنے تک شام نے جنگ بندی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، چنانچہ گولان کے محاذ پر جنگ جاری ہے، توقع ہے کہ جلد ہی اس محاذ پر بھی جنگ بند ہو جائے گی۔
جہاں تک اس جنگ کے نتائج کا تعلق ہے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجموعی طور پر اس کے نتائج عرب عوام کے حق میں ہیں اور عربوں نے اس جنگ میں اپنی قوت اور صلاحیت کا لوہا منوا لیا ہے۔
عربوں کی سب سے بڑی کامیابی ان کا باہمی اتحاد و اتفاق ہے جس نے امریکہ جیسی عالمی طاقت کو بھی پریشان کر کے رکھ دیا، اور جس کے پیش نظر وہ اسرائیل جو عرب علاقے خالی کرنے کے مطالبہ کا مضحکہ اڑاتا تھا، اب خود یہ پیشکش کرنے پر مجبور ہوا کہ اگر جنگ بند کر دی جائے تو وہ عرب علاقے خالی کرنے پر تیار ہے۔
دوسری عظیم کامیابی میدانِ جنگ میں عرب افواج کے اعتماد کی بحالی ہے۔ عربوں کی بہادری اور جفاکشی میں کوئی کلام نہیں لیکن ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اچانک حملہ کر کے دھوکہ اور فریب سے عرب افواج کو جو نقصان پہنچایا تھا اس سے عربوں کا وقار خصوصاً عرب افواج کا اعتماد بری طرح مجروح ہوا تھا۔ اب ان غیور مجاہدین اسلام نے آگ اور خون کا دریا عبور کر کے اس اعتماد و وقار کو بحال کیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ان کے ساتھ دھوکہ نہ کیا جائے تو وہ دنیا کی بہترین تربیت یافتہ اور منظم فوج کو بھی ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔
تیسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ عرب مجاہدین نے عالمی رائے عامہ کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ اب اسرائیل کے مسئلہ اور فلسطینی مہاجرین کے قضیہ کو سرد خانہ میں زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا۔ اور اب یہ مسئلہ جلد اور بہت جلد طے کرنا ہو گا، ورنہ مشرقِ وسطیٰ میں آگ کے شعلے بھڑکتے رہیں گے جو کسی بھی وقت عالمی امن کو بھسم کر سکتے ہیں۔
اس جنگ میں کامیابی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر کے فرزندانِ توحید کے دل اس دوران اپنے عرب بھائیوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے رہے، اور اب انہیں یقین ہوتا جا رہا ہے کہ عالم اسلام کی فلاح کا راز اسی میں مضمر ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان متحد ہو کر اپنا لائحہ عمل طے کریں اور ان عالمی سامراجی طاقتوں کے پنجہ سے نجات حاصل کریں جو دنیا کو اپنے اپنے اثر و رسوخ کے علاقوں میں تقسیم کر کے بین الاقوامی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اب عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کا بھی امتحان ہے۔ سلامتی کونسل نے ۱۹۶۷ء میں بھی عرب علاقے خالی کرنے کی قرارداد منظور کی تھی مگر ساری دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل کے سامنے اقوام متحدہ کا عظیم الشان ادارہ بے بس رہا۔ اور اسرائیل نے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کی ہدایات کو پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں دی۔ نہ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کی کھلم کھلا توہین پر کسی قسم کی کاروائی کی ہمت کی۔ اور دراصل حالیہ جنگ کا باعث بھی اقوام متحدہ کی یہی بے حسی یا بیچارگی ہے۔ اگر سلامتی کونسل کی ۱۹۶۷ء کی قرارداد پر عمل ہوتا اور امریکہ اسرائیل کو اتنی کھلی چھٹی نہ دیتا کہ وہ عالمی ادارہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیرتا رہے، اور عالمی رائے عامہ کو یکسر نظرانداز کر کے مشرقِ وسطیٰ میں کھلم کھلا غنڈہ گردی کرتا رہا، تو یقیناً یہ جنگ نہ ہوتی۔ عرب عوام نے بہت زیادہ صبر کیا، اقوام متحدہ کے فیصلوں کا ہر لمحہ احترام کیا، عالمی رائے عامہ کو ملحوظ رکھا، اور اسرائیل کی غنڈہ گردی کے باوجود شرافت و انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مگر اسرائیل شرافت و انسانیت کا لباس اتار کر عالمی رائے عامہ کے سامنے عریاں ہو کر ناچتا رہا اور سلامتی کونسل نے خاموش تماشائی کا روپ دھار لیا۔
اب پھر عربوں نے جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ حالانکہ جنگ کی پوزیشن عربوں کی بہ نسبت اسرائیل کو زیادہ نقصان دہ تھی، مگر عرب عوام نے اقوام متحدہ کو ایک بار پھر آزمائش کا موقع دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کا منصفانہ حل تلاش کر کے اس خطہ کو امن کی نوید دیتا ہے یا حسبِ سابق سرد مہری سے کام لے کر ایک اور عرب اسرائیل جنگ کا انتظار کرتا ہے۔