جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت اور عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے ایمانی تقاضوں میں سے ہے اور ہر مسلمان کسی نہ کسی انداز میں اس کا اظہار ضرور کرتا رہتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جناب رسول اللہؐ کی بعثت کن مقاصد کے لیے ہوئی تھی؟ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرؐ نے انسانی معاشرہ کو خیر کے کن کاموں کی تلقین کی تھی، شر کے کن کاموں سے روکا تھا، اور بھرپور محنت کے ساتھ انسانی سوسائٹی کو کن تبدیلیوں اور اصلاحات سے روشناس کرایا تھا جن کی وجہ سے انہیں پیغمبر انقلاب کہا جاتا ہے۔ اور مؤرخین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی میں اتنی کم مدت میں اتنے مکمل انقلاب کی اور کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں رسولِ خدا نے ارشاد فرمایا تھا ’’کل امر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ کہ آج جاہلیت کی ساری قدریں میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جناب نبی اکرمؐ نے جاہلی معاشرہ کی اقدار کو پاؤں کے نیچے روند کر ایک پاکیزہ اور مثالی سوسائٹی کی طرف نسل انسانی کو گامزن کر دیا تھا۔
آئیے اس بات کا ہم تھوڑا سا جائزہ لے لیں کہ وہ کون سی اقدار تھیں جنہیں نبی اکرمؐ نے جاہلیت کی قدریں قرار دے کر ختم کیا تھا اور پھر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا وہ جاہلی قدریں پھر سے انسانی سوسائٹی کا حصہ تو نہیں بن گئیں؟ اس کا ایک سرسری سا منظر یہ ہے کہ نبی اکرمؐ نے:
- کفر و شرک اور بت پرستی کو جزیرۃ العرب میں اپنے دور میں مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔
- عریانی اس حد تک عام تھی کہ بہت سے مرد اور عورتیں خانہ کعبہ کا طواف بھی عریاں حالت میں کرتے تھے۔ مگر نبی اکرمؐ نے عریانی اور فحاشی کو ختم کر کے نہ صرف بیت اللہ کے عریاں حالت میں طواف پر پابندی لگا دی تھی بلکہ عام معاشرتی زندگی میں بھی ستر اور حجاب کے احکام لاگو کر دیے تھے۔
- جوا سر عام کھیلا جاتا تھا حتیٰ کہ حرم پاک کی حدود میں اور عبادت کی بعض صورتوں میں بھی جوئے کا رواج تھا جسے نبی کریمؐ نے ممنوع قرار دے دیا۔
- سود کا لین دین عام تھا، تجارت اور قرض دونوں میں سود کا کاروبار چلتا تھا مگر نبی اکرمؐ نے سود کا خاتمہ کر کے سودی کاروبار کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف قرار دے دیا۔
- شراب نوشی پر فخر کیا جاتا تھا اور شراب لوگوں کی گھٹی میں شامل سمجھی جاتی تھی مگر نبی اکرمؐ نے اس کی مکمل ممانعت فرما دی اور عملی طور پر معاشرے کو شراب سے پاک کر دیا۔
- نسل، زبان، علاقہ اور قومیت کا تفاخر اس معاشرہ کا امتیاز تھا۔ اس بنیاد پر ایک دوسرے پر برتری جتائی جاتی تھی اور ایک دوسرے پر غلبہ اور تسلط قائم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ نبی اکرمؐ نے انہیں جاہلی عصبیت کی علامات قرار دے کر ختم کیا اور اعلان کیا کہ شرافت اور برتری صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہوگی۔
- بیٹی کو عار اور بوجھ سمجھا جاتا تھا، اس کا زندہ رہنے کا حق باپ کے رحم و کرم پر ہوتا تھا اور اس دور میں ہزاروں بیٹیاں صرف اس وجہ سے زندہ دفن کر دی گئیں۔ مگر نبی اکرمؐ نے بیٹی کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دے کر عزت و توقیر بخشی۔
- ناچ گانا عام تھا۔ نبی اکرمؐ نے اسے ممنوع قرار دیا بلکہ اپنی بعثت کے مقاصد میں یہ فرما کر اس بات کو شامل کیا کہ مجھے ناچ گانے کے آلات توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
- حلال و حرام کا کوئی فرق نہیں تھا۔ لوگوں نے اپنے اپنے ضابطے بنا رکھے تھے اور دوسروں کا مال ہضم کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراش لیے تھے۔ نبی اکرمؐ نے کھانے پینے، لین دین اور دیگر معاملات میں حلال و حرام کے مکمل ضابطے دیے اور فرمایا کہ حرام کھانے والے اور حرام طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
- یتیم بچے اور عورت بطور خاص معاشرہ میں مظلومیت کا شکار تھے، ان کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا اور بالادست افراد ان پر کسی قسم کا ظلم روا رکھنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ نبی اکرمؐ نے ان دونوں طبقوں کو معاشرتی ظلم اور نا انصافی سے نجات دلائی اور ان کے حقوق کا تعین کیا۔
یہ ان وسیع تر معاشرتی اصلاحات میں سے چند باتیں ہیں جو جناب رسول اللہؐ نے ۲۳ سالہ محنت کے ساتھ معاشرہ میں لاگو کی تھیں۔ اور یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ رسول اکرمؐ کا بپا کردہ انقلاب انسانی تاریخ کا کامیاب ترین انقلاب تھا۔ مگر بد قسمتی سے ان میں سے بہت سی جاہلی قدریں آج پھر انسانی معاشرے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرہ کو ان سے نجات دلانے کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہم بھی محنت کریں۔