رمضان المبارک کے دوران تراویح میں ختم قرآن کریم کی بیسیوں تقریبات میں شرکت کا سالہا سال سے معمول ہے، جو اس سال کرونا بحران کی وجہ سے تعطل کا شکار رہا، البتہ مسجد نور جامعہ نصرۃ العلوم ، مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ اور الشریعہ اکادمی کے علاوہ قریب کی کچھ گھریلو تقریبات میں حاضری اور گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اس سال رمضان المبارک کرونا بحران کی وجہ سے بہت سی قدغنوں اور احتیاطات کے ماحول میں گزر رہا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہے اور ہماری کوتاہیوں پر توجہ دلانے کے لیے ہے، اللہ رب العزت ہمیں اس سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے سبق حاصل کرنے کی توفیق سے بھی نوازیں ، آمین یا رب العالمین۔
ترایح میں قرآن کریم کے اختتام پر جو دو سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھی گئی ہیں، یہ معوذتین کہلاتی ہیں، یعنی پناہ دینے والی سورتیں، جن کے ذریعہ ہم ہر شر سے پناہ دینے کی اللہ پاک سے درخواست کرتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو یہ سورتیں تلاوت کرتے تھے اور اپنے ہاتھوں پر پھونک کر ہاتھوں کو برکت اور شفا کے لیے اپنے جسم پر پھیرتے تھے۔ یہ دو سورتیں بہت سے مضامین و معارف پر مشتمل ہیں، جن میں سے دو تین کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔
ایک یہ کہ سورۃ الفلق میں جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بات کی گئی ہے، ان میں ’’من شر ما خلق‘‘ ہر اس چیز کے شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس میں خیر کے ساتھ شر کا پہلو بھی موجود ہے۔ مثلاً انسان کے لیے ہوا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ سانس کے بغیر زندگی نہیں ہے، لیکن یہ ہوا اگر ضرورت کے مطابق ہے تو خیر ہے اور اگر اس میں حد سے زیادہ کمی یا بیشی ہو گئی ہے تو یہی عذاب بن جاتی ہے۔ اسی طرح پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جو زندگی کے لیے ناگزیر ہے، مگر پانی میسر نہ ہو تو عذاب ہے اور اگر حد برداشت سے بڑھ جائے تو بھی عذاب ہے۔ گویا دنیا کی ہر چیز میں خیر کے ساتھ شر کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے، جس سے بچنا اور پناہ مانگتے رہنا ضروری ہے۔
دوسری بات یہ کہ خیر و شر کے بہت سے پہلوؤں سے ہم آگاہ نہیں ہوتے، انہیں پیدا کرنے والی ذات ہی جانتی ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تم خود اس سے اپنے طور پر اور اپنے زور سے نہیں بچ سکتے، یہ ’’عالم غیب‘‘ ہے یعنی ’’اَن دیکھا جہان‘‘ جو ہمارے اردگرد موجود ہے، کام کر رہا ہے، متحرک ہے، معاملات پر اثر انداز ہے، مگر دکھائی نہیں دیتا۔ ظاہر بات ہے کہ جو چیز دکھائی نہ دے رہی ہو اس سے بچنے کے لیے دیکھنے والے کی قوت کی پناہ اور شیلٹر حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ورنہ انسان از خود نہیں بچ پاتا، ان دو سورتوں میں بنیادی طور پر یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ تمہارے اردگرد چاروں طرف جو ’’اَن دیکھا جہان‘‘ موجود ہے اور نظر نہ آنے والا نظام اپنے پورے نیٹ ورک کے ساتھ کام کر رہا ہے اس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ضروری ہے۔
اب دیکھیے کہ ہم جب قرآن کریم کی تلاوت کا آغاز کرتے ہیں تو ’’اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم‘‘ پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کا اختتام ’’قل اعوذ‘‘ کے عنوان سے دو سورتوں پر ہوتا ہے ، یعنی اول و آخر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی ہماری حفاظت کا سب سے بڑا دائرہ ہے، اس لیے ہمیں ہر وقت خود کو اللہ تعالیٰ کی پناہ کے ماحول میں رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
تیسری بات یہ عرض کروں گا کہ سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے ایک بڑے دشمن کا ذکر کیا ہے جو نسل انسانی کے آغاز سے اس کی دشمنی پر کھڑا ہے اور قیامت تک اس نے اس دشمنی پر قائم رہنا ہے مگر نظر نہیں آتا اور چھپ کر وار کرتا ہے۔ ’’الوسواس الخناس‘‘ چھپ کر وار کرنے والا اور دلوں میں وسوسے ڈال کر کاروائی کرنے والا دشمن جسے شیطان کہتے ہیں، اور رب العزت نے اس آخری سورۃ میں فرمایا ہے کہ یہ دشمن جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یہی کردار ادا کرتے ہیں۔
شیطان کے بارے میں قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے ’’‘یراکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم‘‘ وہ اور اس کا گروہ تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ یعنی اَن دیکھے دشمن سے واسطہ ہے۔ حتیٰ کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ شیطانوں کو انسانوں کے جسم میں وہاں تک رسائی حاصل ہے جہاں تک خون سرایت کرتا ہے، گویا اسے ہمارے جسم کے اندر بھی رسائی حاصل ہے مگر ہم اسے دیکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایسے دشمن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے سوا اور کیا چارہ ہے؟ اور ان سورتوں میں ہمیں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
اَن دیکھے دشمن کی ایک ہلکی سی جھلک اللہ تعالیٰ نے ہمیں کرونا وائرس کے ذریعہ بھی دکھا دی ہے کہ ایک وائرس ہمارے ماحول میں موجود ہے، کام کرتا ہے، نقصان بھی پہنچاتا ہے، مگر نہ نظر آتا ہے اور نہ ہی کام کرتے دکھائی دیتا ہے۔ اس کے کام کا پتہ کام کر گزرنے کے بعد چلتا ہے۔ اس سے پہلے ہمیں مچھر سے واسطہ رہا ہے جو بہت چھوٹی چیز ہے اور بڑا نقصان پہنچاتی ہے، مگر وہ کتنا چھوٹا بھی ہو بہرحال نظر آتا ہے اور اس کے کاٹتے ہوئے تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے۔ جبکہ کرونا نہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کاروائی ڈالتے ہوئے محسوس ہوتا ہے، اس کی کاروائی اس کے کام کر گزرنے کے بعد محسوس ہوتی ہے اور اس کے اثرات سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنا کام کر دکھایا ہے۔
گویا اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ نظر آنے والے دشمن سے نظر نہ آنے والا دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے، جس سے بچنے کے لیے زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مگر جو دشمن نظر نہ آرہا ہو اس سے بچنے کے لیے ایسی طاقت کی پناہ اور شیلٹر کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ نظر آرہا ہے اور وہ اسے کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
اس لیے جس طرح شیطان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا اور پناہ کی درخواست کرتے رہنا ہماری ضرورت ہے اسی طرح کرونا جیسی وباؤں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی احتیاط، علاج اور اسباب کے درجہ کی تمام تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پناہ حاصل کرنا اور خالق کائنات سے پناہ کی درخواست کرتے رہنا بھی ضروری ہے۔ اور اس کا طریقہ توبہ و استغفار ، عبادات، ذکرِ الٰہی، درود شریف، صدقہ خیرات اور دیگر اعمالِ خیر میں اضافہ ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔