(تخصص فی الافتاء کے شرکاء سے خطاب )
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج یہاں ایک نکاح کے سلسلہ میں حاضری ہوئی ہے، واہنڈو ضلع گوجرانوالہ کے حافظ محمد شفیق ہمارے عزیز شاگرد ہیں، جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں اور الشریعہ اکادمی میں ہمارے ساتھ شریک کار رہے ہیں، ان کے نکاح کے لیے ساہیوال آنا ہوا تو جامعہ حقانیہ میں حاضری ضروری تھی۔ یہ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہے، حضرت مولانا مفتی سید عبد الشکور ترمذیؒ کے ساتھ میری نیازمندی رہی ہے اور برادرم مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی ہمارے محترم دوست اور بھائی ہیں، ان کا ارشاد ہے کہ تخصص فی الافتاء کے شرکاء اور دیگر طلبہ کے ساتھ کچھ گفتگو کروں، تعمیل حکم میں چند باتیں عرض کر رہا ہوں۔
میرا ایک عرصہ سے معمول ہے کہ کوئی شاگرد افتاء میں تخصص کے لیے مشورہ کرتا ہے تو اسے جامعہ دارالعلوم کراچی میں جانے کا مشورہ دیتا ہوں، وہاں رسائی نہ ہو سکے تو اس مشورہ میں میری دوسری ترجیح جامعہ حقانیہ ساہیوال ہوتا ہے اور متعدد فضلاء اس حوالہ سے یہاں حاضر ہو کر استفادہ کر چکے ہیں۔
آپ دوستوں سے افتاء اور تحقیق کے بارے میں صرف ایک پہلو پر عرض کروں گا کہ عام طور پر کوئی مسئلہ پوچھا جاتا ہے، یا فتویٰ طلب کیا جاتا ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور اس کا ما لہ و ما علیہ کیا ہے؟ اس مسئلہ کے ضروری پہلوؤں کو دیکھ کر فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے۔ یہ انتہائی ضروری بات ہے کہ جس مسئلہ کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے اور خوب غور کیا جائے کہ مسئلہ کی نوعیت کیا ہے، مگر اسی کے ساتھ اگر یہ پہلو بھی سامنے رکھ لیا جائے کہ مسئلہ کیوں پوچھا جا رہا ہے تو صحیح جواب دینے میں زیادہ آسانی رہتی ہے۔ اس لیے میں مفتیان کرام سے گزارش کیا کرتا ہوں کہ یہ ضرور دیکھیں کہ مسئلہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ’’کیوں‘‘ کا سوال بھی شامل کر لیں کہ مسئلہ پوچھنے والے کی غرض کیا ہے اور وہ اسے کہاں استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟
اس پر ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا جو تفسیر قرطبی میں آیت کریمہ ’’ومن یقتل مؤمنا متعمدًا‘‘ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اپنے شاگردوں کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا اور یہ بات پوچھی کہ کیا قاتل کے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ نہیں قاتل کے لیے توبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ شخص یہ سن کر چلا گیا تو شاگردوں نے سوال کیا کہ حضرت الاستاذ! یہ آپ نے کیا فرما دیا؟ ہمیں تو آپ نے یہ فرما رکھا ہے کہ توبہ کی گنجائش قاتل کے لیے بھی ہے مگر اس شخص کو مختلف جواب دے دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا میں نے اس شخص کے چہرے سے اندازہ کر لیا تھا کہ یہ کسی کو قتل کرنے کے ارادہ سے جا رہا ہے اور اپنی تسلی کے لیے مجھ سے یہ سوال کر رہا ہے۔ روایت میں ہے کہ مجلس کے شرکاء نے اس بات کا پیچھا کیا تو حضرت ابن عباسؓ کا یہ اندازہ درست ثابت ہوا، وہ شخص اسی ارادے سے جا رہا تھا مگر حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا ارشاد سُن کر اس سے باز آگیا۔
اس لیے اگر کسی بھی استفتاء میں یہ بھی اندازہ کر لیا جائے کہ سوال پوچھنے والے کی نیت کیا ہے تو بات سمجھنے اور اس کا جواب دینے میں آسانی ہو جاتی ہے اور جواب موقع کے حوالہ سے ضرورت کے مطابق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تحقیق کے باب میں بھی کسی کا موقف سن کر یا اس کی بات پڑھ کر یہ تو دیکھا جاتا ہے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ لیکن اگر اس پر بھی غور کر لیا جائے کہ کیوں کہہ رہا ہے؟ تو بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اس بارے میں بھی ایک واقعہ کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ قریب کے زمانے میں ہمارے ایک محترم فاضل بزرگ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحبؒ گزرے ہیں جو عالم و فاضل تھے اور ان کی بہت سی علمی و دینی خدمات سے اہل علم مسلسل استفادہ کر رہے ہیں۔ اب سے ربع صدی قبل کی بات ہے، انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھ دیا کہ نکاح میں چار بیویوں تک تحدید کا قرآنی حکم نازل ہونے کے بعد جہاں نبی اکرمؐ نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے والے بہت سے حضرات کو زائد بیویاں الگ کر دینے کا حکم دیا تھا وہاں خود بھی چار سے زائد بیویوں سے حقوق زوجیت میں لاتعلقی اختیار کر کے انہیں ’’ازواج شرف‘‘ (اعزازی بیویوں) کا درجہ دے دیا تھا۔ اس پر بہت سے دوستوں نے انہیں توجہ دلائی کہ یہ بات درست نہیں ہے، پشاور کے مولانا محمد اشرف قریشیؒ نے ماہنامہ صدائے اسلام میں اور ہم نے ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں اس پر گرفت کی تو ڈاکٹر صاحب محترم نے وضاحت کی کہ میں نے دراصل مغربی دانشوروں کے اس اعتراض کا جواب دینے کی ایک صورت اختیار کی ہے کہ نبی اکرمؐ نے قرآن کریم کے حکم کے بعد دوسروں سے چار سے زائد بیویاں چھڑوا دیں تو خود کیوں نہیں چھوڑیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے میں نے یہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ یہ بات ایسے ہی تھی جیسے کوئی مناظر اپنے مخالف مناظر کے کسی اعتراض کا جواب دینے کے لیے اپنی طرف سے کوئی جواب گھڑ لیتا ہے جبکہ اس جواب کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہوتی اور یہ عام طور پر مناظروں میں ہو جاتا ہے جسے بدنیتی پر محمول کرنے کی بجائے وضع الوقتی کی ضرورت پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کا مسئلہ ہے یہاں اس قسم کی بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے انہیں اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے، اس پر ڈاکٹر حمید اللہ صاحبؒ نے اپنے موقف سے رجوع کا اعلان کیا اور تحریری طور پر معذرت کی۔
اس لیے تحقیق کے باب میں بھی یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ کسی مسئلہ میں کسی دوست کا موقف معمول سے ہٹ کر دکھائی دے تو اس پر فوری ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے اس پہلو کو دیکھ لیا جائے کہ اسے یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے تو اسے سمجھانے اور صحیح موقف کی طرف توجہ دلانے میں بہتری اور آسانی رہتی ہے۔