میٹرو بس لاہور کا ایک سفر

   
۱۵ اپریل ۲۰۱۳ء

لاہور میں شروع میں ہونے والی میٹرو بس سروس کے بارے میں اخبارات میں مسلسل پڑھتے آرہے تھے مگر اس میں سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ جی تو کئی بار چاہا مگر اس کے مختلف اسٹیشنوں پر مسلسل رش دیکھ کر لائن میں لگنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دن بالآخر اس کا ارادہ کر ہی لیا۔ ۹ اپریل کو قصور کے قریب کتلوہی خورد کے مقام پر جامعہ رقیہؓ للبنات میں بخاری شریف کے آخری سبق کے لیے حاضری کا پروگرام تھا، مولانا محمد اکبر اور ان کے فرزند مولانا حافظ عبد الرحمن اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ سرحدی علاقے میں طالبات کی اس دینی درسگاہ کا ایک عرصہ سے اہتمام کیے ہوئے ہیں اور دورہ حدیث میں اس سال پندرہ طالبات کی تعداد مدرسہ کے محل وقوع کے حساب سے خاصی حوصلہ افزا تھی۔ انہوں نے ایک روز قبل مجھ سے دریافت کیا کہ میرا ذریعۂ سفر کیا ہوگا اور وہ مجھے وصول کرنے کے لیے گاڑی کہاں بھیجیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا میٹرو بس پر سفر کرنے کا ارادہ ہے اس لیے وہ مجھے اس کے آخری سٹیشن گجومتہ سے دو بجے کے لگ بھگ وصول کر لیں۔

گوجرانوالہ سے ویگن پر شاہدرہ پہنچا اور وہاں سے میٹرو بس کے اسٹیشن سے سوار ہونے کی ترتیب بنائی، اکیلا ہی سفر کر رہا تھا جیسا کہ میرا عام معمول ہے، میٹرو اسٹیشن پر مسافروں کی لمبی لائن دیکھ کر کچھ الجھن سی ہوئی مگر برقی سیڑھی کو عبور کر کے لائن میں لگنے کا حوصلہ کر ہی لیا۔ مجھے لائن میں کھڑا دیکھ کر عملے کا ایک نوجوان آگے بڑھا اور کہا کہ آپ لائن میں کھڑے نہ ہوں آگے سیدھے کاؤنٹر پر چلے جائیں، آپ کو براہ راست ٹکٹ مل جائے گا۔ میں ساری لائن کراس کر کے کھڑکی کے پاس پہنچا اور لائن میں گھسنے لگا تو وہاں کھڑا ایک پولیس مین بازو سے پکڑ کر مجھے دوسری کھڑکی کے پاس لے گیا کہ آپ (بوڑھوں) کے لیے یہ الگ کھڑکی ہے۔ وہاں سے ٹکٹ حاصل کیا اور نیچے اتر کر بس کی طرف بڑھا، میرے بس میں داخل ہونے تک بس بھر چکی تھی اور کوئی سیٹ خالی نہیں تھی اس لیے ایک سیٹ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ قریب ہی ایک سیٹ پر دو نوجوان بیٹھے تھے ان میں سے ایک اٹھا، میرے لیے سیٹ خالی کر دی، خود موبائل فون کان پر لگائے دروازے کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور گجومتہ سے ایک دو اسٹیشن پہلے اپنی منزل پر اتر گیا۔ مجھے یہ سارا منظر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور کچھ دیر کے لیے یوں محسوس ہوا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ مختلف ممالک کے بڑے شہروں میں میٹرو بسوں اور انڈر گراؤنڈ ریلوے میں سفر کرنے کا خاصا تجربہ رکھتا ہوں۔ اس پس منظر میں لاہور میں اس قسم کا تجربہ یقیناً خواب سے کم نہیں تھا جو میں نے ۹ اپریل کو دیکھا اور جیتے جاگتے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔

شاہدرہ سے روانہ ہو کر گجومتہ تک یہ سفر ٹھیک پچاس منٹ میں ہوا جو نارمل ذرائع سے میرے اندازے میں شاید کم و بیش دو گھنٹے میں طے ہوتا۔ واپسی پر بھی میٹرو بس سے ہی سفر کا ارادہ تھا مگر ایک اور لالچ نے پروگرام تبدیل کر دیا، وہ یہ کہ ایک دوست عامر جمیل صاحب نے گجومتہ سے مجھے اپنی گاڑی پر کتلوہی پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں ایک صاحب ذوق ساتھی نے اکابر بزرگوں کی یادگاروں اور تبرکات کی گیلری سجا رکھی ہے، اگر واپسی پر اسے دیکھنے کے لیے وقت نکال سکیں تو اس کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ میرے لیے اس پیشکش کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس لیے میں نے ہاں کر دی۔ چنانچہ واپسی پر ہم جامعہ قاسمیہ رحمان پورہ اچھرہ لاہور پہنچے ، وہاں محترم بزرگ حضرت مولانا شاہ محمد صاحب سے زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن سے خاصے عرصہ سے نیاز مندی چلی آرہی ہے اور وہ بھی ہمیشہ دعاؤں اور شفقتوں سے نوازتے ہیں، ان دنوں علیل ہیں اللہ تعالیٰ صحت کاملہ سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ گیلری والے باذوق دوست حافظ آصف محمود صاحب جامعہ قاسمیہ میں مدرس ہیں اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی دامت برکاتہم کے داماد ہیں جو ہمارے انتہائی مہربان بزرگوں میں سے ہیں، نوادرات اور تبرکات کے حوالہ سے حضرت مفتی صاحب محترم کے ذوق سے میں ایک عرصہ سے آگاہ ہوں اور اس سے استفادہ بھی کرتا رہتا ہوں، اب ان کا یہ ذوق ان کے داماد میں منتقل ہوتا دیکھ کر میری خوشی دوبالا ہوگئی۔

حافظ آصف محمود نے اپنے جمع کردہ تبرکات کی ایک جھلک دکھائی جس میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ سمیت بیسیوں بزرگوں کی تحریرات کے ساتھ ساتھ ان کی دستار یا لباس کے ٹکڑے اور دیگر تبرکات ذوق اور حسن ترتیب کے ساتھ محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ اس سرسری ملاقات سے بات نہیں بنی اس کے لیے مستقل ’’شدّر حال‘‘ کر کے آنا ہوگا اور کچھ وقت بھی فارغ کرنا ہوگا، خدا کرے کہ جلد ہی اس کا کوئی مناسب موقع میسر آجائے۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter