والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی وفات کو ۵ مئی کو چار سال گزر گئے ہیں۔ ہم یومِ وفات، برسی یا عرس کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ہماری روایات و معمولات کا حصہ ہے، لیکن حسنِ اتفاق سے میرا ۵ مئی کا دن جہانیاں منڈی میں گزرا، جہاں حضرت والد محترمؒ اور حضرت عم مکرم مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ طالب علمی کے دور میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں اور مختلف حوالوں سے ان بزرگوں کا تذکرہ سارا دن چلتا رہا۔ جہانیاں منڈی میں ہمارے دوست مولانا قاری محمد سالک صاحب کا بنات کا مدرسہ ہے، جہاں چار مئی کی شام کو بخاری شریف کے اختتامی سبق کی تقریب تھی۔ اگلے روز شام کو دارالعلوم عید گاہ کبیر والا میں ختم بخاری شریف کی تقریب میں حاضری تھی، اس لیے میں نے ۵ مئی کا دن اپنے بزرگوں کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے جامعہ رحمانیہ میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔
ہمارے دونوں بزرگوں نے جامعہ رحمانیہ جہانیاں منڈی میں حضرت مولانا غلام محمد صاحبؒ کے دور میں تعلیم حاصل کی ہے اور اس دور کی یادوں کا وہ اکثر تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ میرے دور طالب علمی کے ایک بزرگ ساتھی حضرت مولانا سید محمد یعقوب عابدؒ ایک عرصہ تک اس جامعہ کے مہتمم رہے ہیں اور انہوں نے جامعہ کی ایک نئی عمارت بھی تعمیر کرائی تھی، ان کے دور میں مجھے یہاں حاضری کا ایک بار موقع ملا تھا۔ ہم نے طالب علمی کے چار پانچ سال کا عرصہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اکٹھے گزارا تھا اور وہ میرے بعض اسباق میں ہم سبق ہونے کے علاوہ ہم ذوق اور ہم فکر بھی تھے۔ اب ان کے فرزند مولانا سید وجیہ الرحمٰن شاہ اس ادارے کا اہتمام سنبھالے ہوئے ہیں، ملک کے معروف نعت خواں اور مداحِ رسول سید عزیز الرحمٰن شاہ ان کے چھوٹے بھائی ہیں، انہوں نے کم و بیش تیرہ سال باہر گزارنے کے بعد دو ماہ قبل جامعہ رحمانیہ کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، اس لیے وہاں حاضری کا ایک مقصد اس خاندان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جامعہ رحمانیہ کی دوبارہ آبادی کا ذریعہ بنائیں اور اپنے والد مرحوم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازیں۔
میری حاضری پر انہوں نے جامعہ رحمانیہ کے بنات کے شعبہ کی دوبارہ بحالی کا پروگرام بنا لیا۔ ظہر کی نماز کے بعد جامع مسجد رحمانیہ میں اس کے آغاز کی تقریب ہوئی، جس میں انہوں نے اس کا اعلان کیا۔ راقم الحروف نے دینی تعلیم کی اہمیت اور خواتین میں دینی تعلیم کی اہمیت اور خواتین میں دینی تعلیم کے فروغ کی ضرورت کے حوالہ سے گفتگو کی اور اس گفتگو میں یہ عرض کیا کہ جہانیاں منڈی کے ساتھ میرا کئی حوالوں سے تعلق ہے۔
پہلی بار تیرہ چودہ سال کی عمر میں جہانیاں آنے کا اتفاق ہوا تھا۔ میرے ماموں زاد بھائی محمد یونس مرحوم کی شادی تھی، میں بارات کے ساتھ آیا تھا، جو گوجرانوالہ سے جہانیاں منڈی کے کسی گاؤں میں آئی تھی۔ اس سفر کی دو باتیں ابھی تک ذہن میں نقش ہیں:
- ایک یہ کہ لاہور میں راوی کا پل ابھی زیر تعمیر تھا اور ہماری بس نے کشتیوں کے پل کے ذریعے راوی کو کراس کیا تھا۔
- دوسری یہ کہ ہماری بس کی لائٹوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اسے ٹھیک کرانے کے لیے ملتان جانا پڑا تھا۔ ملتان میں جامعہ خیر المدارس کے قریب بس مستری کے پاس کھڑی ہوئی اور ہم نے جامعہ خیر المدارس کی مسجد میں غالباً عصر کی نماز پڑھی، جبکہ نماز کے بعد حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا جو مسجد میں ہی تشریف فرما تھے۔
جہانیاں منڈی سے میرا تعلق والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے دورِ طالب علمی اور برادرم مولانا محمد یعقوب عابدؒ کے دور خطاب اور دور اہتمام کے حوالہ سے بھی ہے اور اس خطہ سے ایک مناسبت اور بھی ہے کہ میرے انتہائی عزیز ساتھی اور تحریکی زندگی کے اہم رفیق کار مولانا اللہ وسایا قاسم شہیدؒ کا تعلق اسی خطہ سے تھا۔ انہوں نے جمعیت علماء اسلام اور جہادِ افغانستان میں سرگرم کردار ادا کیا اور دونوں محاذوں پر میری اور ان کی قریبی اور گہری رفاقت رہی۔ دس سال قبل مئی کی نو تاریخ کو وہ ٹریفک کے ایک حادثہ میں شہید ہو گئے۔ حضرت حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے ساتھ عقیدت و محبت کا گہرا تعلق رکھتے تھے اور میرے ساتھ ان کے تعلق و رفاقت کا معاملہ ایسا تھا کہ دوستوں نے انہیں میری چابی کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ میرے ذوق و مزاج کو سمجھتے تھے اور جو کام دوسرے احباب مجھ سے نہیں لے سکتے تھے وہ آسانی سے لے لیا کرتے تھے۔
اس علاقہ میں آنے کا موقع ملتا ہے تو ان کے گھر جانے کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالتا ہوں۔ انہوں نے آخر عمر میں دارالقرآن قاسمیہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ قائم کی تھی، جو ان کے بھائی قاری محمد زبیر چلا رہے ہیں۔ اس دفعہ ان کے گھر کے علاوہ قبر پر بھی حاضری کا موقع مل گیا۔ قبرستان میں حضرت مولانا محمد یعقوب عابدؒ اور مولانا اللہ وسایا قاسمؒ کے علاوہ حضرت مولانا محمد سلیمان طارقؒ کی قبر پر بھی فاتحہ خوانی اور دعا کی توفیق ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان تینوں حضرات کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے پسماندگان کو ان کی روایات جاری رکھنے کی توفیق دیں۔
جہانیاں منڈی سے شام کو دارالعلوم کبیر والا میں حاضری ہوئی اور ختم بخاری شریف کی تقریب میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ اس موقع پر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی، حضرت مولانا ارشاد احمد، حضرت مولانا پیر عزیز الرحمٰن ہزاروی، حضرت مولانا عبد المجید آف کوٹ منڈا، حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی، حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، حضرت مولانا عبد الکریم نعمانی اور دیگر بہت سے بزرگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔
ان سب بزرگوں کو اسی فکر اور سوچ میں پریشان پایا کہ ہم انتخابات میں دینی ووٹوں کو متحد رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور نہ صرف مذہبی جماعتیں، بلکہ مسلکی جماعتیں بھی بہت سے حلقوں میں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، جس کا فائدہ بہرحال سیکولر قوتوں کو ہی ہو گا۔ بعض دوستوں نے اس سلسلہ میں کوئی عملی کردار ادا کرنے کی بات کی تو میں نے عرض کیا کہ بڑے بڑے بزرگوں نے محنت کی ہے جو عمومی طور پر نتیجہ خیز نظر نہیں آ رہی اور میں نے تو گزشتہ دو عشروں سے خود کو زبان و قلم کے ذریعہ توجہ دلانے تک محدود کر رکھا ہے، جس میں بحمد اللہ تعالیٰ اپنی بساط کی حد تک کوئی کمی نہیں کر رہا۔ اس سے آگے کوئی کام میرے بس میں نہیں ہے کہ وہاں بڑے بڑوں کے پر جلنے لگتے ہیں۔
یہ سطور دارالعلوم کبیر والا میں فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد قلم بند کر رہا ہوں اور یہاں سے جامعہ خالد بن ولیدؓ وہاڑی جانے کی تیاری میں ہوں۔
اس کے ساتھ ایک بات جو کسی حد تک غیر متعلقہ بھی ہے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ہفت روزہ ”ضرب مومن“ میں ان دنوں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی شائع کردہ ایک کتاب کے مندرجات زیر بحث ہیں، جو الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے خلاف جنگِ آزادی کا آغاز کرنے والے عظیم مجاہد امیر عبد القادر الجزائریؒ کی شخصیت و کردار کے حوالے سے ہے اور اس بحث میں میری بعض تحریرات پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے موقف کی وضاحت ماہنامہ ”الشریعہ“ کے تازہ شمارہ میں دو مفصل مضامین کی صورت میں کر دی ہے۔ دلچسپی رکھنے والے احباب حافظ محمد طاہر، مکتبہ امام اہل سنت، جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ سے یہ شمارہ طلب کر سکتے ہیں یا الشریعہ کی ویب سائٹ https://alsharia.org/2013/may پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ویسے اگر ”ضرب مومن“ بھی میرے ان دو مضامین کو شائع کر دے تو خود اس کے اپنے قارئین کو متعلقہ مسئلہ کے دونوں پہلوؤں سے واقفیت حاصل ہو جائے گی اور وہ یک طرفہ موقف پر الجھن کا شکار رہنے سے محفوظ رہیں گے۔