چار جون کا دن ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں گزرا۔ جامعہ اشاعت الاسلام مانسہرہ کے استاذ مولانا فضل الہادی اور جامع مسجد فاروق اعظمؓ اچھڑیاں کے خطیب مولانا عبد الحق عامر میرے ساتھ تھے۔ ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات نے ”مذہبی ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ“ کے عنوان کے تحت تین روزہ سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا، جو تین جون سے پانچ جون تک جاری رہا۔ مجھے درمیان والے دن کی تین نشستوں میں شرکت کا موقع ملا۔ ڈاکٹر ریاض الازہری کی نگرانی میں ہونے والے اس سیمینار میں یونیورسٹی کو صوبائی محکمہ اوقاف و مذہبی و اقلیتی امور کا تعاون حاصل تھا۔ اس میں مختلف یونیورسٹیوں کے سینئر اساتذہ کرام کے علاوہ متعدد علمائے کرام اور اربابِ دانش نے خطاب کیا، جبکہ مسیحی رہنما جوزف جان، ہندو رہنما ہارون سرودیال اور چترال کے کیلاشی مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون رہنما سید گل نے بھی اس میں سرگرم کردار ادا کیا۔ دیگر مقررین میں ڈاکٹر فخر الحسن کراروی، ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز اور سوات یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جہان زیب خان بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ مجھے جس نشست میں گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، اس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کی۔ ان معروضات کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہزارہ یونیورسٹی اور اس کے شعبہ اسلامیات کا شکر گزار ہوں کہ اربابِ علم و دانش کے اس اجتماع میں حاضری، کچھ عرض کرنے اور بہت کچھ سننے کا موقع فراہم کیا۔ خدا کرے کہ ہمارا یہ مل بیٹھنا ہم سب کے لیے دارین کی سعادت کا باعث بنے، آمین۔
مکالمہ بین المذاہب کے مختلف اہداف اور دائرے ہیں، جن میں سے سب سے اہم دائرہ میرے نزدیک باہمی تعارف اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہم ایک دوسرے کے بارے میں کوئی بھی صحیح موقف اور طرز عمل اختیار نہیں کر سکتے۔ یہ ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور جوں جوں انسانی سوسائٹی گلوبلائزیشن کی طرف پیشرفت کر رہی ہے، اس کے ساتھ اس بات کی اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے موقف اور کردار سے واقفیت حاصل کریں۔ اس کے لیے مل بیٹھنا، تبادلہ خیالات کرنا اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو خود اس سے سننا بہت زیادہ ضروری ہے۔ مجھے اپنے پیش رو مقرر ہارون سرودیال کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں ازخود کوئی موقف اور رائے قائم کرنے کی بجائے اس کی پوزیشن اور صورت حال کا اس سے معلومات حاصل کر کے فیصلہ کرنا چاہیے۔
اس وقت امن کے حوالے سے بھی مذہبی ہم آہنگی اور باہمی مکالمے کی ضرورت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عالمی اور قومی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے لیے مذہبی ہم آہنگی ضروری ہے۔ میں اس وقت قومی حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ملک میں بد امنی کی جو صورت حال ہے، اس کے ساتھ مذہب کا تذکرہ معمول بن گیا ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ مذہب کا غلط یا جذباتی استعمال بھی بد امنی کا ایک باعث ہے، لیکن اسے صرف مذہب کے ساتھ نتھی کر دینا درست نہیں، بلکہ مذہب کو بدنام کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں بد امنی، لاقانونیت اور قتل و غارت کے اسباب میں زبان و نسل کے جھگڑے بھی ہیں اور علاقائی و قومی تنازعات بھی شامل ہیں، یہاں سیاسی بنیاد پر بھی قتل و غارت ہوتی ہے اور دیگر وجوہ سے بھی بد امنی کو فروغ ملتا ہے۔ ان سب کے پیچھے عالمی قوتوں کے وہ مفادات اور ایجنڈے ہیں، جو اس علاقے اور خطے کے بارے میں انہوں نے طے کر رکھے ہیں۔ اس لیے بد امنی کے سد باب اور امن کے قیام کے لیے صرف اہلِ مذہب کو بدنام کرتے چلے جانے کی بجائے مجموعی صورت حال کو دیکھنا ہو گا، اس خطے میں عالمی قوتوں کے مفادات اور کشمکش کو دیکھنا ہو گا اور ان کے ایجنڈے پر نظر رکھنا ہو گی، جس کی تکمیل کے لیے یہاں بد امنی کی فضا کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
اس اصولی گزارش کے بعد میں عرض کرنا چاہوں گا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان میں غیر مسلم قوموں نے بھی حصہ لیا ہے، وہ بھی قیامِ پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والوں میں شامل ہیں۔ مجھے اس سے انکار نہیں اور تسلیم کرتا ہوں کہ ہندوؤں، مسیحیوں، سکھوں اور دیگر غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد نے قیام پاکستان کی حمایت کی تھی اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا، مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ غیر مسلم قوموں نے اس سماجی معاہدے اور سوشل کنٹریکٹ کے تناظر میں قیام پاکستان کی حمایت کی تھی، جو تحریک پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ انہوں نے طے کیا تھا۔ انہوں نے یہ حقیقت تسلیم کر کے تحریک پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی کہ پاکستان مسلمانوں کے تہذیبی تشخص اور مذہبی شناخت کے تحفظ و بقا کے لیے قائم کیا جا رہا ہے اور اسلامی نظام کے ازسرنو تجربے کے لیے قائم کیا جا رہا ہے۔ یہ اس وقت کا سوشل کنٹریکٹ تھا جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ہوا تھا اور اس سماجی معاہدے نے بالآخر ۱۹۷۳ء کے دستور کی شکل اختیار کی تھی، جس پر سب نے اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اس لیے پاکستان میں غیر مسلموں کے حقوق کا تعین اسی سماجی معاہدے کے دائرے میں ہو گا اور میں اس گزارش کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ جب حقوق کے باب میں اس سوشل کنٹریکٹ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات اسے چیلنج کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تو معاملہ بگاڑ کی طرف جانے لگتا ہے اور باہمی بے اعتمادی کی صورت حال پیدا ہونے لگتی ہے۔ میں غیر مسلم قوموں کی قیادتوں سے یہ عرض کروں گا کہ وہ اس معروضی حقیقت کو ضرور سامنے رکھیں۔
اس کے بعد میں موجودہ معروضی صورت حال میں پاکستان میں قیامِ امن کے لیے مسلم اکثریت سے کچھ عرض مناسب سمجھتا ہوں، اس لیے کہ وہ بہرحال اس ملک کی اکثریت ہیں، رولنگ کلاس ہیں اور اپنے ہم وطن بھائیوں کے حقوق و مفادات کی حفاظت و نگرانی بہرحال ان کی ذمہ داری ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت کے آخری حصے کی اصلاح بھی انہی طریقوں اور راستوں سے ہو گی، جن طریقوں سے امت کے پہلے حصوں نے فلاح پائی ہے۔ اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کے طرز عمل کی ایک جھلک پیش کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اپنے دور میں غیر مسلم باشندوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ اس لیے کہ ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ وہی ہیں اور ہم نے اسی سرچشمے سے رہنمائی حاصل کرنی ہے۔ اگر ہم آج اس سنت اور اسوہ کو اپنا لیں تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔
بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک تنازع پیش ہوا کہ ایک یہودی اور مسلمان کے مکالمے میں حضرت یونس علیہ السلام کا تذکرہ نامناسب انداز میں ہوا ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”لا تفضلونی علی یونس بن متی“ مجھے حضرت یونس علیہ السلام پر فضیلت نہ دو۔ اس پر محدثین کرامؒ فرماتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت یونس علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت تو حاصل ہے، لہٰذا یہاں ارشاد نبویؐ کا مطلب یہ ہے کہ میرا حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ تقابل اس انداز سے نہ کرو کہ ان کی اہانت کا پہلو اس سے نکلتا ہو۔
ہمارے ہاں خطیبانہ انداز اور جذباتی ماحول میں جس طرح حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اور آسمانی مذاہب کے درمیان تقابل کیا جاتا ہے، اس پس منظر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ اپنی فضیلت کا ذکر تو کیا جائے، لیکن دوسرے مذہب اور اس کے بزرگوں کا تذکرہ اس لہجے میں نہ کیا جائے، جس سے ان کی توہین ہوتی ہو۔
اسی طرح بخاری شریف کی روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی لبید بن اعصم نے جادو کی کاروائی کی اور اس کے اثرات بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ معمولات میں محسوس ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واردات سے آگاہ کیا کہ ایک یہودی لبید بن اعصم نے کنگھی اور بالوں کے ایک گچھے پر جادو کا عمل کر کے اسے ذی اروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے چھپا دیا ہے، جس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی اروان کے کنویں سے وہ چیزیں برآمد کر لیں، مگر ان کی نمائش کرنے کی بجائے وہیں انہیں مٹی کھود کر دفن کر دیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ وہ کنگھی اور بالوں کا گچھا اپنے ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے، اسے لوگوں کو دکھایا کیوں نہیں اور انہیں وہیں کیوں دفن کر دیا؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے بچا لیا ہے تو میں اسے عام کر کے لوگوں میں شر نہیں پھیلانا چاہتا۔
آج ہم جس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو پھیلا دیتے ہیں اور ان میں سے بہت سی باتیں فساد اور بد امنی کا باعث بنتی ہیں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ کسی خبر کو عام کرنے سے قبل جہاں یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ خبر درست ہے یا نہیں، وہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کا پھیلانا سوسائٹی میں بد امنی اور فساد کا ذریعہ تو نہیں بنے گا؟
مؤرخین نے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دن بازار میں ایک بوڑھے یہودی کو دکانوں پر بھیک مانگتے دیکھا تو بلا کر پوچھا کہ کیا تمہیں بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا؟ اور کیا وہ تمہاری ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتا؟ اس نے کہا کہ وظیفہ ملتا ہے اور ضروریات کے مطابق ملتا ہے، تو پوچھا کہ پھر بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ مجھے سال کے بعد جزیہ بھی دینا ہوتا ہے، جس کے لیے میرے پاس رقم نہیں ہے، اس کے لیے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم کھائیں، یعنی یہ اپنی کمائی سے ہمیں جزیہ ادا کرے اور بڑھاپے میں ہم اسے لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں۔ پھر اس بوڑھے سے فرمایا کہ بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں، ہم تمہارا مسئلہ حل کر دیں گے۔ دوسرے دن اصحاب شوریٰ کو بلا کر مشورہ کیا اور جزیہ کے قانون میں ترمیم کر دی کہ جو غیر مسلم کمانے کے قابل نہ رہے اس کا جزیہ معاف ہے۔
یہ باتیں میں نے اس لیے عرض کی ہیں کہ ہم بہرحال مسلم اکثریت کے طور پر رولنگ کلاس ہیں اور سب سے زیادہ ذمہ داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے، اس لیے اگر ہم ان معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدینؓ کے طرز عمل کو اختیار کر لیں تو اپنی ذمہ داری کو زیادہ بہتر طور پر پورا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک بار پھر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں بد امنی اور قتل و غارت کی سب سے بڑی وجہ علاقائی صورت حال اور اس خطے میں بیرونی قوتوں کی مداخلت ہے، اس لیے ہمیں سب سے زیادہ توجہ قومی خود مختاری کی بحالی کی طرف دینا ہو گی اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل کرنا ہو گا۔ جب تک ہماری خود مختاری مکمل اور عملی طور پر بحال نہیں ہو گی اور ہمارے فیصلے باہر ہوتے رہیں گے، امن کا قیام ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ہم سب کو مل کر قومی خود مختاری کی بحالی کے لیے کام کرنا ہو گا، اس لیے کہ اسی سے ہمارا امن اور مستقبل وابستہ ہے۔