عام انتخابات۔ دینی جماعتیں کیا کریں؟

   
۲۹ جون ۲۰۱۸ء

کچھ دنوں سے مجلس احرار اسلام پاکستان کے راہنماؤں مولانا سید کفیل شاہ بخاری، جناب حاجی عبد اللطیف چیمہ اور بعض دیگر دوستوں کے ساتھ مشاورت چل رہی ہے کہ جو دینی جماعتیں ملک کی عمومی دینی جدوجہد میں تو شریک ہیں مگر انتخابات میں براہ راست حصہ نہیں لیتیں، انہیں عام انتخابات میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ ان جماعتوں میں ”پاکستان شریعت کونسل“ اور ”مجلس احرار اسلام پاکستان“ شامل ہیں، جبکہ بہت سی دیگر جماعتیں بھی اسی دائرہ میں سرگرم عمل ہیں۔ اس سلسلہ میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر ایسی چند جماعتوں کا کوئی باہمی مشاورتی اجلاس ہو جائے تو یہ مشاورت کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔

اس دوران ”پاکستان شریعت کونسل“ کی صوبائی مجلس عاملہ کا لاہور میں گزشتہ روز اجلاس ہوا، جس میں کچھ تجاویز اور سفارشات ان دینی جماعتوں، ملک بھر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی خدمت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کی رپورٹ قارئین کی خدمت میں صوبائی سیکرٹری اطلاعات حافظ عبید الرحمٰن معاویہ کی طرف سے پیش ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی دوست کسی مشورہ اور تجویز کے ذریعے مشاورت میں شریک ہونا چاہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جائے گا:

”پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ نے ملک بھر کے اہل دین، علماء کرام اور دینی کارکنوں سے اپیل کی ہے کہ وہ انتخابات میں کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہوئے اس سے دینی و ملی مقاصد کے حوالے سے حلف لیں، تاکہ انتخابات کو نظریاتی حوالے سے بامقصد بنایا جا سکے۔

اس اپیل کا فیصلہ صوبائی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا گیا، جو امیر صوبہ پنجاب مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کی زیر صدارت ۲۵ جون کو لاہور میں منعقد ہوا اور اس میں مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے بھی شرکت کی۔ جبکہ دیگر شرکاء میں مفتی محمد نعمان پسروری، مولانا عبید اللہ عامر، مفتی محمد نعمان گوجرانوالہ، مولانا محمد عثمان رمضان، مولانا محمد اسلم ندیم، قاری نثار احمد، مولانا عبید الرحمٰن معاویہ، قاری عبد الشکور قادری اور حکیم حافظ ارشد الرحمٰن شامل ہیں۔

اجلاس میں ترکی کے انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان اور ان کی جماعت کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے عالم اسلام کے بہتر مستقبل کے لیے حوصلہ افزا قرار دیا گیا اور صدر اردگان اور ان کے رفقاء کو مبارکباد دی گئی۔

اجلاس میں درج ذیل قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی:

  • ملکی وحدت و سالمیت کا تحفظ اور قومی خودمختاری کی بحالی سب سے اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ بیرونی طاقتوں کی مسلسل مداخلت اور پاکستان کے نظریاتی تشخص اور اسلامی شناخت کے خلاف بین الاقوامی اور علاقائی سازشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردی، کرپشن اور نااہلیت کے ساتھ ساتھ گروہی، معاشی اور سیاسی مفادات کی بالادستی نے قومی وحدت اور سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں اور ہر طرف بے یقینی اور خلفشار کا ماحول دکھائی دے رہا ہے۔
  • قیامِ پاکستان کے مقصد اور دستور پاکستان کے مطابق ملک میں نفاذ اسلام اور قرآن و سنت کے احکام کی بالادستی ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے سے خارج ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۷ء میں تحریک نظام مصطفٰیؐ کی قیادت کرنے والی بعض سیاسی قیادتیں بھی اب نظام مصطفٰیؐ کا نام لینے سے گریزاں ہیں، بلکہ ملک کے اسلامی اہداف کی مخالفت کرنے والے عناصر کو ان کی سپورٹ حاصل ہے۔
  • قیام پاکستان کی تحریک میں مسلم تہذیب کے تحفظ اور عملداری کو اس کا سب سے بڑا مقصد قرار دیا گیا تھا، مگر مغربی ثقافت اور ہندو تہذیب کی دو طرفہ یلغار اور فحاشی و عریانی کے بڑھتے ہوئے سیلاب پر مسلم تہذیب کے بہت سے علمبرداروں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ جبکہ ابلاغ، تعلیم اور لابنگ کے بیشتر ریاستی و غیر ریاستی ادارے اس تہذیبی اور فکری یلغار کی کمین گاہیں بن چکی ہیں۔
  • دستور پاکستان کی واضح صراحت اور ہدایت کے باوجود سودی نظام کی لعنت ملک پر بدستور مسلط ہے اور اسے نہ صرف تحفظ دیا جا رہا ہے، بلکہ عمومی ماحول میں بھی حلال و حرام کا تصور طے شدہ پالیسی کے تحت کمزور کیا جا رہا ہے، وغیر ذٰلک۔

ان حالات میں قوم کی مثبت اور صحیح سمت رہنمائی کی ذمہ داری سب سے زیادہ علمائے کرام اور دینی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ متحد ہو کر مشترکہ ایجنڈے کے تحت اس سمت مسلسل پیش رفت کرتی رہیں۔ اس لیے ”پاکستان شریعت کونسل“ ملک بھر کے اہل دین، علماء کرام اور دینی کارکنوں سے سفارش کرتی ہے کہ

  • جن حلقوں میں دینی جماعتوں کے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، ان میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے۔
  • جس حلقے میں دینی جماعتوں کے ایک سے زائد امیدوار باہم مدمقابل ہیں ان کے درمیان مفاہمت اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے پوری کوشش کریں۔
  • اور جہاں دینی جماعتوں کا کوئی امیدوار نہیں ہے، وہاں کسی بھی موزوں امیدوار کی حمایت کرتے وقت اس سے یہ عہد لیں کہ وہ
    1. قومی اور ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کو روکنے کی کوشش کریں گے۔
    2. دستور کے مطابق ملک میں نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کریں گے۔
    3. عقیدۂ ختم نبوت و ناموس رسالتؐ کے خلاف سازشوں کی مزاحمت کریں گے۔
    4. سودی نظام کے خاتمہ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔
    5. فحاشی و عریانی اور اسلام مخالف سرگرمیوں کے سدباب، اسلامی تہذیب اور ثقافت کی پاسداری اور خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کریں گے۔
    6. دینی مدارس اور دینی شخصیات کے خلاف کردار کشی کی مہم اور منفی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے محنت کریں گے۔

دریں اثنا صوبائی مجلس عاملہ کا آئندہ اجلاس ۱۸ جولائی کو گوجرانوالہ میں طلب کیا گیا ہے، جس میں اس وقت تک کی پیشرفت کا جائزہ لیا جائے گا۔“

   
2016ء سے
Flag Counter