کشمیر کا مقدمہ: اقوام متحدہ کا کردار اور ہماری ذمہ داری

   
جامعہ اسلامیہ محمدیہ، فیصل آباد
۵ فروری ۲۰۲۰ء

بعد الحمد والصلوٰۃ … جامعہ محمدیہ فیصل آباد میں ہمارے محترم بزرگ اور پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا عبد الرزاق صاحب دامت برکاتہم کی صدارت میں منعقد ہو رہی ہے۔ آج کی اس نشست کو بھی اسی عنوان کے ساتھ مُعنوَن کیا گیا ہے کہ ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ، اپنے بھارتی مسلمان بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا، ہم آہنگی کا اظہار کریں اور ان کو حوصلہ دلائیں کہ ان کی مظلومیت میں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس مناسبت سے دنیا بھر میں ریلیاں بھی ہو رہی ہیں، جلسے بھی ہو رہے ہیں، نشستیں بھی ہو رہی ہیں، بیانات بھی ہو رہے ہیں، تقریریں بھی ہو رہی ہیں، بہت کچھ ہو رہا ہے۔ تو ہماری یہ چھوٹی سی نشست بھی، مختصر نشست بھی اسی قومی مسئلے کے حوالے سے ہے۔

تو میں مختصر وقت میں یہ کشمیری عوام کا مقدمہ پیش کرنا چاہوں گا، آپ کو ایک جیوری سمجھ کر۔ آپ نئی نسل ہیں اور ہماری نئی نسل کو اٹھانوے فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ کو پتہ نہیں ہے کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ بس جذباتی وابستگی ہے۔ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟ اس کا حل کیا ہے؟ تو آپ یوں سمجھ لیجیے جیسے ایک گرینڈ جیوری ہے یہ، اور میں ایک وکیل ہوں، تو کشمیر کا مقدمہ پیش کرنا چاہوں گا۔ کشمیر کا، کشمیری عوام کا۔ اور مقصد میرا یہ ہو گا کہ میں آپ کو یہ بتا سکوں کہ مسئلہ کشمیر اس وقت کس پوزیشن میں ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

کشمیر ایک خطے کا نام ہے۔ یہ ہمارے مشرقی جانب کشمیر، جموں اور گلگت، بلتستان، یہ خطہ ہے۔ اس وقت دنیا کے بین الاقوامی دستاویزات میں کشمیر کے حوالے سے جو علاقہ متنازعہ سمجھا جا رہا ہے، جس پر جھگڑا ہے، اس کا حدودِ اربعہ کیا ہے، یہ ذرا ذہن میں رکھ لیں۔ ایک تنازعہ ہے دنیا میں، دو قوموں کا، یا وہاں کے علاقے کے لوگوں کا۔ تو تنازعہ جس خطے کے حوالے سے ہے اُس کا حدودِ اربعہ کیا ہے؟

ایک تو جموں ہے، جموں ریاست تھی مستقل۔ دوسری وادئ کشمیر ہے۔ تیسرا گلگت، بلتستان، سکردو، اس کو ہم شمالی علاقہ جات کہتے ہیں۔ ایک لداخ ہے۔ یہ چار پانچ خطے مل کر وہ دائرہ بنتے ہیں جس دائرے پر تنازعہ ہے کہ اس کا فیصلہ کرنا ہے اور اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ متنازعہ علاقہ، اس میں وادئ کشمیر بھی شامل ہے، جموں بھی شامل ہے، پاکستان کا یہ آزاد کشمیر بھی شامل ہے، اور گلگت بھی شامل ہے، بلتستان شامل ہے، سکردو شامل ہے، چین کے ساتھ لگا ہوا علاقہ لداخ شامل ہے۔ یہ خطہ ہے جو متنازعہ ہے۔ تنازعہ کیا ہے؟ یہ تو متنازعہ علاقہ ہے نا۔

تنازعہ کیا ہے؟ میں بہت لمبی داستان چھیڑنے کی بجائے؛ تنازعے کا موجودہ راؤنڈ جو ہے نا، ۱۹۴۷ء میں شروع ہوا تھا۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سب متحدہ ہندوستان کہلاتا تھا۔ اور یہاں حکومت کس کی تھی؟ انگریزوں کی تھی۔ انگریزوں نے ایک سو نوے سال پہلے ۱۷۵۷ء میں مغلوں سے حکومت چھیننا شروع کی تھی اور ۱۸۵۷ء کو مکمل کر لی تھی۔ پھر نوے سال انگریزوں نے یہاں براہ راست حکومت کی ہے پورے اس متحدہ ہندوستان میں۔ پھر جب انگریز جانے لگ گیا تو پھر یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ اس ملک کو تقسیم کیا جائے۔ مسلمانوں کا مطالبہ تھا اکثریت کا کہ ہمیں الگ کیا جائے اور ہندوؤں کو الگ کیا جائے۔ تو یہ پاکستان کی تحریک چلی۔ اور انگریز جب گیا۔ انگریز کے جانے تک یہ سارا ایک ملک تھا۔ انگریز جب گیا تو یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، پاکستان اور ہندوستان۔ اس کی بنیاد مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کا یہ مطالبہ تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ تہذیبی ثقافتی طور پہ نہیں رہ سکتے، ہمارا گزارا نہیں ہو گا، ہمیں الگ کر دیا جائے۔

تو تقسیم ہو گئی۔ اس تقسیم میں یہ اصول طے ہوا کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت ہے وہ پاکستان میں ہوں گے، اور جن علاقوں میں مسلم اکثریت نہیں ہے وہ ہندوستان میں ہوں گے۔ ہندو اکثریت نہیں، غیر مسلم اکثریت۔ جن علاقوں میں مسلم اکثریت ہے وہ کس میں ہوں گے؟ پاکستان میں۔ اور جن میں غیر مسلم اکثریت ہے وہ ہندوستان میں ہوں گے۔ اب بنگلہ دیش جو ہے نا یہ بھی اکثریتی علاقہ تھا۔ یہ مشرقی پاکستان کے نام سے پاکستان کا حصہ بنا۔ اور یہ کب تک رہا ہے؟ ۱۹۷۱ء تک رہا ہے۔ پھر یہ الگ ہو گیا ہم سے اور یہ بنگلہ دیش کے نام سے الگ ملک بنا۔ ورنہ یہ ہمارا حصہ تھا۔ اس تقسیم میں یہ پاکستان کا حصہ تھا پورا بنگلہ دیش۔ اور اس کا نام کیا تھا؟ مشرقی پاکستان۔ وہ کلکتہ کی جانب یہ بنگال کا علاقہ۔

سندھ مسلم اکثریت کا صوبہ تھا۔ بلوچستان مسلم اکثریت کا صوبہ تھا۔ کے پی کے صوبہ سرحد مسلم اکثریت کا صوبہ تھا۔ مغربی پنجاب مسلم اکثریت کا صوبہ تھا، مشرقی پنجاب میں ملے جلے تھے سکھ ہندو سارے۔ تو پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ ہو گیا۔ پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ ہوا کہ پنجاب کو تقسیم کیا جائے۔ یہاں کے لیے فارمولا یہ طے ہوا کہ مغربی پنجاب چونکہ لاہور تک، یہ سیالکوٹ تک سارا، آگے جتنا پنجاب ہے نا مغرب میں، یہ سارا مسلم اکثریت کا علاقہ تھا، یہ پاکستان میں۔ اور یہاں ملے جلے سارے مشرقی پنجاب میں، امرتسر ہے، لدھیانہ ہے، ہریانہ ہے، یہ سارا امرتسر سے آگے آگے جتنا پنجاب ہے، یہ مشرقی پنجاب ہے۔ تو اس میں پھر جب تقسیم کے لیے بارڈر بنانے کا موقع آیا تو یہ طے پایا کہ ایک کمیشن بیٹھے، یہ طے کرے کہ کس علاقے میں مسلم اکثریت ہے وہ پاکستان کو دے دیا جائے، جس میں غیر مسلم اکثریت ہے وہ انڈیا کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ سیالکوٹ، نارووال، شکرگڑھ، گورداسپور، اس اصول پر تقسیم ہو گئے۔ اب آپ ایک بات سے اندازہ کر لیں۔ یہ شکرگڑھ جو ہے نا، ہمارا سرحدی شہر ہے، یہ گورداسپور کی تحصیل تھی، یہ سیالکوٹ کا حصہ نہیں تھا، یہ گورداسپور کی تحصیل تھی۔ گورداسپور کا پرلا علاقہ وہ غیر مسلم اکثریت کا تھا، وہ انڈیا کے پاس چلا گیا، یہ شکرگڑھ کا علاقہ مسلم اکثریت کا تھا، یہ پاکستان کے پاس آگیا۔ میں تقسیم کا طریقہ کار بتا رہا ہوں آپ کو۔ پاکستان ہندوستان بن گئے۔

اچھا، اس وقت ایک اصول یہ طے ہوا تھا کہ ہندوستان میں سینکڑوں ریاستیں ایسی تھیں۔ بعض علاقے تو وہ تھے جن پر انگریزوں نے باقاعدہ اپنی حکومت قائم کی۔ بعض علاقے یہ تھے کہ جو نیم خودمختار ریاستیں کہلاتی تھیں، ان کے ساتھ انگریزوں کے معاہدے تھے۔ معاہدے یہ تھے، اندر کا نظام تمہارا، اوپر کا کنٹرول ہمارا۔ اس کو داخلی خودمختاری کہتے ہیں۔ سینکڑوں تھیں۔ اندر کا نظام جو مرضی کرو۔ لیکن اوپر کرنسی، مواصلات، خارجہ پالیسی، فوج شوج سب ہماری۔ لیکن اندر کا نظام تمہارا۔ اس طرز کی سینکڑوں ریاستیں پورے ہندوستان میں تھیں۔ میں مثال کے طور پر عرض کروں گا۔ ہمارے پاکستان میں بھی چھ سات ریاستیں آئی ہیں۔ بہاولپور ہے، مستقل الگ ریاست تھی۔ سوات ہے۔ قلات ہے۔ خیرپور ہے۔ چترال ہے۔ دھیر ہے۔ خودمختار ریاستیں تھیں۔ یعنی اندرونی طور پہ۔ اب قلات میں بھی شریعت کا نظام نافذ تھا، بہاولپور میں بھی نافذ تھا، سوات میں بھی نافذ تھا، دھیر میں بھی نافذ تھا۔ اپنا نظام عدالتی تھا۔ شریعہ، قضاء کا نظام تھا۔ اور اوپر انگریزوں کا کنٹرول تھا۔

ان آزاد ریاستوں کے لیے یہ طے ہوا، جو نیم آزاد ریاستیں تھیں۔ آزاد تو نہیں، نیم خودمختار ریاستیں جن کا اندرونی نظام وہاں کسی مہاراجے کے پاس، کسی نواب کے پاس۔ بہاولپور والے نواب کہلاتے تھے، وہ دوسرے راجے کہلاتے تھے۔ اپنی کسی خاندان کی حکومت ہے، کسی طبقے کی حکومت ہے۔ تو وہ اندرونی طور پر خودمختار تھے، اوپر انگریزوں کا کنٹرول تھا۔ ان ریاستوں کے لیے اصول یہ طے ہوا کہ ریاست کا نواب یا سردار یا سربراہ یا راجہ، پاکستان یا ہندوستان میں سے جس کے ساتھ ملنا چاہے مل جائے۔ یہ پاکستان ہے، وہ ہندوستان ہے۔ آزاد ریاستیں جو ساتھ ساتھ ہیں نا، ان کے راجوں کو اختیار ہے کہ وہ جس کے ساتھ ملنا چاہیں مل جائیں۔ یہ اصول طے ہوا۔ قلات، بہاولپور، خیرپور، سوات، یہ پاکستان کے ساتھ مل گئے۔

کشمیر کی صورتحال یہ تھی، کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے، مجموعی طور پر یہاں مسلم غالب اکثریت ہے۔ لیکن راجہ ہندو تھا، ڈوگرا۔ گلاب سنگھ اور ہری سنگھ، یہ ہندو تھے۔ ڈوگرا خاندان کہلاتا تھا۔ ڈوگرا خاندان کی حکومت تھی۔ تو یہ پورا کشمیر کا خطہ، یہ مقبوضہ کشمیر بھی، آزاد کشمیر بھی، گلگت بھی، بلتستان بھی، یہ پورا جو دائرہ تھا نا، یہ ڈوگرا حکومت کے تحت تھا۔ ڈوگرا کون تھے؟ خاندان تھا ایک۔ اور تھے ہندو۔ اور وہ حکومت کرتے تھے۔ تو اس وقت چونکہ مسلم اکثریت تھی، لوگوں کو یہ خیال تھا کہ مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ ہی جائے گی۔ اب بھی وہ پاکستان کے ساتھ ہی آنا چاہتے ہیں۔ لیکن ڈوگرا مہاراجے نے کیا کیا؟ اس نے انڈیا کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ یہ ہے موجودہ تنازعے کا آغاز۔ ڈوگرا مہاراجہ تھا ہری سنگھ، اس نے انڈیا کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور انڈیا کی فوجیں وہاں آ گئیں۔ اس نے کہا ہم انڈیا کے ساتھ ہیں، تو تحفظ کے لیے انڈیا کی فوجیں سری نگر میں آگئیں۔

اس اعلان کے خلاف مسلمانوں نے بغاوت کی۔ ڈوگرا پہلے بھی بہت ظلم کرتے آ رہے تھے، لمبی داستان ہے اس کی۔ لیکن یہ ڈوگرا مہاراجہ کا اعلان کہ ہم انڈیا میں شامل ہوں گے، اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا مسلمانوں نے۔ آغاز ہوا یہاں سے۔ سب سے پہلے تو گلگت سے۔ گلگت والوں نے ڈوگرا مہاراجہ کے خلاف، گلگت، سکردو، بلتستان، انہوں نے بغاوت کر دی کہ ہم نہیں مانتے، ہم پاکستان کے ساتھ جائیں گے۔ بغاوت کر دی، وہاں سے ان کا گورنر نکال دیا، لڑائی لڑی باقاعدہ۔ اس میں ہمارے مولانا عبد الرزاق صاحب فاضل دیوبند تھے ہمارے بزرگ تھے، وہ تھے۔ مولانا محمد کثیر صاحب فاضل دیوبند تھے، وہ بھی تھے۔ علماء بھی تھے، دوسرے لوگ بھی تھے۔ تو وہاں انہوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ڈوگروں کو نکال دیا وہاں سے۔ آزادی کہ ہم خودمختار ہیں بھئی، اور پھر بعد میں پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ یہ تو وہاں گلگت بلتستان میں۔

یہاں یہ جو آزاد کشمیر ہے نا، یہ پونچھ کا علاقہ، جموں، پونچھ اور سری نگری، وادی کے درمیان کا یہ علاقہ ہے۔ یہاں بھی علماء نے بغاوت کا اعلان کیا۔ ۱۹۴۷ء میں علماء کا اجتماع ہوا جس میں دوسرے سردار ابراہیم بھی تھے، حضرت مولانا میر واعظ محمد یوسف کشمیری تھے رحمہم اللہ تعالیٰ، حضرت علامہ انور شاہ کاشمیری کے شاگردوں میں۔ ایک ریٹائرڈ کرنل تھے کرنل احمد علی۔ یہ سردار عبد القیوم خان تھے۔ سردار ابراہیم تھے۔ چودھری غلام عباس تھے۔ یہ سارے، کچھ قومی سردار کچھ علماء مل کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ڈوگرا مہاراجہ کا فیصلہ نہیں مانتے، ہم پاکستان کے ساتھ جائیں گے، انہوں نے جہاد کا اعلان کیا۔ باقاعدہ جہاد کا فتویٰ مرتب ہوا۔ جہاد کا اعلان ہوا۔ اور جہاد کا آغاز ہوا۔ اس وقت جتنا بھی آزاد کشمیر، میرپور سمیت، مظفر آباد سمیت، یہ راولاکوٹ سمیت، جتنا خطہ ہے نا، یہ انہوں نے ڈوگروں کے خلاف لڑ کے آزاد کروایا ہے۔ اس میں کشمیری عوام بھی تھے، پاکستان کی فوج بھی شامل ہو گئی تھی، اور قبائل کے نوجوان بھی تھے ہمارے۔ یہ اچھی خاصی فوج اکٹھی ہو گئی تھی، کچھ قبائلی تھے، کچھ کشمیری تھے، کچھ پاکستانی فوج تھی۔ انہوں نے بغاوت کر دی اور لڑتے لڑتے سری نگر کے دروازے پر پہنچ گئے۔ یہ موجودہ بارڈر بھی۔ اور ان کی فوجیں سری نگر کی دروازے تک پہنچ گئیں کہ ہم نے؛ سری نگر پر قبضہ ہو جاتا تو سارا قصہ ہی صاف ہو جاتا۔ اور ان کو دو دن اور مل جاتے تین دن تو سری نگر پر قبضہ ہو جاتا۔ بالکل گھیرا ڈال لیا تھا انہوں نے سری نگر پر۔ جموں کے دروازے پہ پہنچ گئے تھے اور سری نگر کے۔ جموں، سیالکوٹ سے بائیس میل ہے۔ یہ جموں کوئی کوہ قاف نہیں ہے۔ سیالکوٹ کے ساتھ بیس بائیس میل آگے جموں ہے۔ رات کو سیالکوٹ میں کھڑے ہوں تو جموں میں گاڑیاں چلتی نظر آتی ہیں۔ میں نے کئی دفعہ دیکھی ہیں۔ رات مطلع صاف ہو، وہاں دور سے نظر آتی ہیں گاڑیاں جا رہی ہیں آ رہی ہیں۔ اور درمیان میں بارڈر ہے۔

تو یہ جموں کے دروازے پر، پونچھ کے دروازے پر، سری نگر کے دروازے پر پہنچ گئے تھے۔ ہندوستان کے وزیراعظم تھے پنڈت جواہر لال نہرو، بڑے لیڈر تھے، بڑا ذہین آدمی تھا، انہوں نے اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جناب، ٹھیک ہے یار تم ہماری جنگ بند کرواؤ، جو کہو گے وہ کریں گے۔ جیسے اس میں ایسے موقع پر ہوتا ہے۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں جا کر، جنگ بند کرواؤ، جس طرح کہو گے کر لیں گے۔ وہ ’’جس طرح کہو گے کر لیں گے‘‘ میں ہم پھنس گئے۔ اقوامِ متحدہ درمیان میں آ گئی۔ پاکستان پہ دباؤ ڈالا جنگ بند کرو بھئی۔ سیزفائر ہو گیا۔ پہلا مرحلہ کیا ہوا؟ سیزفائر، لڑائی بند۔ اور پھر لڑائی بند کس کے حکم پر ہوئی؟ اقوام متحدہ کے۔ اقوامِ متحدہ نے گارنٹی لی کہ ہم مسئلہ حل کروائیں گے اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کروائیں گے۔ ہم مہاراجہ کے فیصلے پر یقین نہیں کرتے، کشمیری عوام سے استصوابِ رائے کروائیں گے، ریفرنڈم کروائیں گے، ووٹ لیں گے، کشمیری عوام جدھر جانا چاہیں گے، ہم اُدھر بھیج دیں گے۔ پاکستان کے ساتھ آنا چاہیں ان کی مرضی، انڈیا کے ساتھ جانا چاہیں ان کی مرضی۔ لیکن فیصلہ کون کرے گا؟ کشمیر کے عوام کریں گے۔ اور عوام کس کے ذریعے کریں گے؟ استصوابِ رائے، رائے شماری کے ذریعے۔ اور رائے شماری کس کی نگرانی میں ہو گی؟ اقوامِ متحدہ کی۔

ڈوگرا مہاراجے کا فیصلہ مسترد۔ انڈیا نے بھی مان لیا، ہم نے بھی مان لیا، اقوام متحدہ نے بھی کہہ دیا کہ فیصلہ کریں گے کشمیر کے عوام۔ اور عوام فیصلہ کیسے کریں گے؟ ووٹ کے ذریعے، رائے شماری کے ذریعے۔ اور یہ ووٹ کا اہتمام کون کرے گا؟ اقوامِ متحدہ۔ اس پر فیصلہ کر دیا، لڑائی بند ہو گئی۔ اِدھر والا علاقہ آزاد کشمیر بن گیا، پرلا مقبوضہ کشمیر بن گیا اور یہ چلتا رہا چلتا رہا۔ یہ تھا تنازعے کا آغاز۔ ڈوگرا مہاراجے کا فیصلہ لوگوں نے مسترد کر دیا۔ اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد آج بھی موجود ہے، اس کے بعد بھی کئی دفعہ ہوئی ہے کہ یہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے اور آزادانہ رائے سے کریں گے ووٹ سے کریں گے۔ اقوامِ متحدہ اس کا اہتمام کرے گی اور گارنٹی دے گی۔ تب سے یہ تنازعہ چل رہا ہے۔ تب سے کتنے سال ہو گئے ہیں؟ سن ۴۸ء کی بات ہے یہ۔ اب کیا ہو گیا ہے؟ بہتر سال۔ اب مسئلے کی پوزیشن یہ ہے کہ اس پر دو تین جنگیں تو ہو چکی ہیں ہماری۔ ۶۵ء کی جنگ ہوئی ہے۔ ۷۱ء کی جنگ ہوئی ہے۔ جنگیں ہماری ہوتی رہی ہیں۔ اب بھی ہوتے ہوتے رکی ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ ہم میں شامل ہونا چاہیے۔ انڈیا والے کہتے ہیں ہمارا اٹوٹ انگ ہے یعنی جو ہم سے الگ نہیں ہو سکتا ہمارا حصہ ہے۔ ہم کہتے ہیں ہمارا حصہ ہے، وہ کہتے ہیں ہمارا حصہ ہے۔ فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے فیصلہ کیا، اصولی طور پر اقوامِ متحدہ آج بھی اس فیصلے کو مانتی ہے۔ ابھی سلامتی کونسل نے پچھلے دنوں کہا کہ کشمیری عوام نے فیصلہ کرنا ہے۔ بھئی کب کرنا ہے؟ کس نے کروانا ہے؟ یہ سارا ملبہ ساری خرابی اقوام متحدہ کی ہے کہ وعدہ کیا ہوا ہے، لالی پاپ دیا ہوا ہے، ریفرنڈم کا اہتمام نہیں کر رہے۔ حالانکہ اس دوران میں۔ ایک مسئلہ چل رہا ہے، یہ مذہبی بنیاد پہ ہو گا۔ بھئی! تم نے مذہبی بنیاد پہ فیصلے کیے ہیں:

  1. اسرائیل کی تقسیم کس نے کی ہے؟ فلسطین کی تقسیم کس نے کی ہے؟ اقوام متحدہ نے۔ کس بنیاد پہ کی ہے؟ ایک حصہ یہودیوں کو دیا ہے نا۔ کس بنیاد پہ دیا ہے؟ مذہب کی بنیاد پہ۔ نسلی مذہب ہے۔ اور فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل اور فلسطین میں تقسیم کس نے کیا ہے؟ اقوامِ متحدہ نے کیا ہے۔ اور کس بنیاد پہ کیا ہے؟ مذہب کی بنیاد پہ۔
  2. مشرقی تیمور ایک علاقہ ہے انڈونیشیا میں۔ وہاں کا مطالبہ آیا ایک علاقے میں۔ تیمور جزیرہ ہے۔ جزیرہ کس کا ہے؟ انڈونیشیا کا۔ ایک علاقے میں عیسائیوں کی اکثریت ہو گئی۔ ان کا مطالبہ آیا کہ ہمیں الگ کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے پاس درخواست گئی۔ اقوام متحدہ نے وہاں ریفرنڈم کروایا، تقسیم کیا۔ میرا ان سے سوال یہ ہے کہ بھئی تیمور کو کس نے تقسیم کیا ہے؟ اقوامِ متحدہ نے کیا ہے۔ اور کس بنیاد پہ کیا ہے؟ مذہب کی بنیاد پہ۔
  3. سوڈان کو تقسیم کیا اقوامِ متحدہ نے۔ جنوبی سوڈان میں عیسائیوں نے محنت کر کے اپنی اکثریت کر لی۔ یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے نا۔ یہ آٹھ دس پندرہ سال کی بات ہے۔ جنوبی سوڈان کے پہاڑی علاقے میں عیسائیوں نے محنت کر کے، وہاں بت پرست قبائل تھے ان کو عیسائی بنا لیا، اکثریت ہو گئی۔ ریفرنڈم کا مطالبہ کیا، اقوامِ متحدہ نے ریفرنڈم کروایا، جنوبی سوڈان کو سوڈان سے الگ کر کے نیا ملک بنوا دیا۔ یہ تیسری تقسیم ہے۔ کس نے کی ہے؟ اور کس بنیاد پہ کی ہے؟ مذہب کی۔

یہاں کہتے ہیں یہ مذہب کی بنیاد پہ ہے۔ بھئی، مذہب کی بنیاد پہ وہ نہیں کی تم نے؟ بات سمجھ میں آ رہی ہے؟ تم نے فلسطین کو مذہب کی بنیاد پہ تقسیم کیا ہے، تم نے تیمور کو مذہب کی بنیاد پہ تقسیم کیا ہے، تم نے سوڈان کو مذہب کی بنیاد پہ تقسیم کیا ہے۔ کشمیر میں آ کے پھنس گئے ہو، ریفرنڈم نہیں کروا رہے۔ یہ انڈیا کا دباؤ ہے۔ اس وقت عالمی طور پر جھگڑا ہمارا یہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل طاقت نہیں ہے، کشمیر کے مسئلے کا حل آزادانہ استصواب ہے۔ اقوامِ متحدہ اپنا وعدہ پورا کرے، اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری پوری کرے، جو وعدہ کیا ہوا ہے، گارنٹی دی ہوئی ہے۔ ابھی پھر گارنٹی دی ہے ہم کروائیں گے۔ کب کرواؤ گے بھئی؟ یا تو انکار کر دو۔

میں نے پچھلے دنوں سوال کیا کہ یا تو انکار کر دو کہ نہیں کرواتے۔ کوئی اگلا راستہ سوچیں۔ انکار بھی نہیں کر رہے، کروا بھی نہیں رہے۔ انکار کبھی نہیں کریں گے یہ۔ چھوٹی سی مثال دوں؟ جیسے ہمارے ملک کے حکمران اسلام سے انکار کبھی نہیں کریں گے۔ اور نافذ بھی؟ ستر سال سے ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے نا۔ کبھی کوئی حکمران بھی ہو، پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ ہو، عوامی، کوئی بھی ہو، اسلام سے انکار نہیں کریں گے وہ۔ نہ کبھی کیا ہے۔ اسلام سے انکار نہیں کریں گے، نظریۂ پاکستان سے انکار نہیں کریں گے، قراردادِ مقاصد سے انکار نہیں کریں گے۔ وہ فوج ہو تب نہیں کرے گی، سیاسی پارٹی ہو تب نہیں کرے گی، کوئی بھی گورنمنٹ ہو۔ پاکستان کی کوئی گورنمنٹ نہ قرارداد مقاصد سے انکار کرے گی، نہ اسلام سے انکار کرے گی، نہ نظریہ پاکستان سے انکار کرے گی، لیکن نہ کبھی نافذ کیا ہے نہ کبھی کریں گے۔ ایسے ہی ہے نا بھئی؟ میں نے یہاں بھی کہا، انکار کر دو یار، پھر ہم سیدھا راستہ اختیار کریں۔ وہ کہہ دیں ہمیں اسلام نہیں چاہیے، کہہ دو نا۔ یہ بھی نہیں کہتے۔ یا پھر کرو۔ جھگڑا سمجھ میں آیا ہے؟ یہاں بھی اقوام متحدہ، میں نے کہا یا تو انکار کر دو کہ نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کریں گے۔ تو کرو۔ اصل جھگڑا سمجھ میں آیا ہے؟

اس پر کشمیر میں عوام؛ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی بے پناہ فوج مسلط ہے ستر سال سے۔ فوجی طاقت کے بل پر انڈیا نے اس علاقے کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ آج انڈیا کی فوج ہٹ جائے وہاں سے تین چار دن کی بات ہے ساری۔ جبر کے ذریعے قبضہ کیا ہوا ہے۔ انڈیا کی فوج آج ہٹا دیں دیکھیں ہوتا کیا ہے۔ اور اب جبر اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے، اللہ معاف فرمائے، کتنے دن ہو گئے ہیں ان کو کرفیو نافذ کیے ہوئے؟ ایک سو اٹھاسی دن۔ کتنے مہینے بنتے ہیں یہ، چھ مہینے ہونے والے ہیں، پورے ملک پہ کرفیو ہے یار۔ اچھا، نہ اقوام متحدہ بولتی ہے، نہ انسانی حقوق کے ادارے بولتے ہیں، نہ مغرب بولتا ہے، بولتے بولتے وہ چپ کر جاتے ہیں آگے۔ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں، ہمارے ساتھ ان کا ہمیشہ معاملہ یہ ہے۔ زبانی جمع خرچ کریں گے عملاً‌ کچھ نہیں کریں گے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے۔

پاکستان اس کیس کا فریق ہے۔ مجھے اس بات پہ شدید پریشانی ہوتی ہے، میں کہتا ہوں یار ہم کشمیریوں کے حمایتی نہیں ہیں کشمیریوں کے وکیل ہیں۔ ہم کہتے ہیں جی ہم حمایت کر رہے ہیں۔ ہمارا کام حمایت کرنا ہے؟ ہم تو فریق ہیں۔ کشمیر کے کیس کا اقوامِ متحدہ میں مدعی کون ہے؟ ہم ہیں۔ اور مدعی باہر کھڑا ہو کر جی میں حمایت کر رہا ہوں۔ میں کہتا آرہا ہوں، اب بھی کہتا ہوں، بھئی ہم حمایتی نہیں ہیں، ہم وکیل ہیں، ہم کیس کے مدعی ہیں، فریق ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں ہم اور انڈیا سامنے فریق ہیں۔ ایک فریق کا کردار ادا کرو، حمایتی کا نہیں۔ کیوں جی بات ٹھیک سمجھ میں آ رہی ہے؟

دوسری بات، میں خود آزاد کشمیر میں جا کر علماء کرام کے کم از کم تین اجتماع پر ایک سوال کھڑا کر چکا ہوں اور کل پھر کشمیریوں کے اجتماع میں جا رہا ہوں اسلام آباد میں، کل پھر کروں گا۔ میرا آزاد کشمیر کے علماء سے، آزاد کشمیر کی حکومت سے ایک سوال ہے، آج پھر دہرا رہا ہوں یومِ کشمیر کے موقع پر، کہ میرے بھائی! آزاد کشمیر جو ہے، یہ ڈوگرا مہاراج کے خلاف بغاوت کر کے، جہاد کر کے یہ ریاست قائم ہوئی ہے۔ اور بغاوت ہوئی تھی جہاد کے فتوے پر۔ فتویٰ کس نے دیا تھا؟ علماء نے۔ فتویٰ موجود ہے۔ جہاد کا فتویٰ دیا گیا، اس پر جہاد کیا گیا، جہاد کے نتیجے میں ریاست قائم ہوئی۔ اس میں علماء بھی ہیں، دوسری قوموں کے لیڈر بھی ہیں، میں کسی کے کردار کا انکار نہیں کرتا، سب ہیں اس میں۔ یہ ریاست قائم ہوئی۔ موجودہ آزاد کشمیر کی آزاد جموں و کشمیر کی ریاست کہلاتی ہے، اس کی بنیاد جہاد کے فتوے پر ہے، جہاد کے عمل پر ہے۔ روکا کس نے تھا؟ اقوامِ متحدہ نے۔ کیا کہہ کے روکا تھا؟ کہ ہم کروائیں گے۔ فیصلہ کروا رہے ہیں؟ نہیں۔

اب میرا سوال یہ ہے، آزاد کشمیر کے علماء سے بھی، آزاد کشمیر کی حکومت سے بھی، کہ جس جہاد کے فتوے پر جس جہاد کے عمل پر یہ ریاست آزاد ہوئی تھی، جہاد کا وہ فتویٰ قائم ہے یا ختم ہو گیا ہے؟ وہ فتویٰ سٹینڈ کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ ختم ہو گیا ہے؟ یہ سوال میں دو تین دفعہ آزاد کشمیر کے علماء سے کر چکا ہوں اور کل پھر کرنے والا ہوں، کل پھر صبح میری ان سے ظہر کے بعد میٹنگ ہے اسلام آباد میں۔ سیدھا کہو ختم ہو گیا ہے۔ اگر ہے تو اس کو آگے کس نے بڑھانا ہے؟ سکھوں نے؟ اگر فتویٰ ختم ہو گیا ہے اس کا اعلان کرو۔ فتویٰ قائم ہے تو اس کا اعلان کرو۔ اگلی بات کرو کہ اس فتوے کی بنیاد پر آگے کیا کرنا ہے؟ یہ فیصلہ کرنا بنیادی طور پر دو طبقوں کی ذمہ داری ہے۔ آزاد کشمیر کے علماء کی اور آزاد کشمیر کی حکومت کی۔ آزاد کشمیر کے علماء کی جنہوں نے فتویٰ دیا تھا، یا واپس لو نا، یا آگے چلو۔ اور آزاد کشمیر کی حکومت، جو حکومت اور ریاست کھڑی ہی جہاد پر ہے، جس کے نیچے بنیادیں ہی جہاد ہے۔

اچھا، اب جہاد کا معنی کیا ہے؟ یہ بھی میں عرض کر دوں۔ ہم بھی مغالطے میں ہو جاتے ہیں نا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ڈنڈے لے کر چڑھ دوڑو۔ جہاد کا معنیٰ کیا ہے؟ سب سے پہلی؛ میں اپنی تجویز پھر دہرا رہا ہوں جو میں نے راولاکوٹ میں کھڑے ہو کر کہی تھی اور کل پھر عرض کروں گا ان شاء اللہ وہاں۔ آپ کے سامنے؛ بھئی آزاد کشمیر کے علماء فیصلہ کریں اس جہاد کے فتوے کے بارے میں کہ اگر وہ قائم ہے تو اس کا دوبارہ اعلان کریں اور اس کا طریق کار آج کے حالات کو سامنے رکھ کر کریں۔ میں کوئی فساد نہیں کھڑا کرنا چاہتا۔ لیکن اصولی موقف تو طے کریں نا، یہ موقف ہے ہمارا۔ اس کا فیصلہ کریں کہ اب اس کی پوزیشن کیا ہے۔ ایک طریق کار طے کریں ہم نے یوں کرنا ہے۔ اس طریق کار پر آزاد کشمیر کی حکومت کو؛ آزاد کشمیر کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء کے اعتماد کے ساتھ اپنے موقف طے کرے۔ اس کے بعد پاکستان کے اداروں کو۔ حکومتِ پاکستان کو، پاکستان کی فوج کو، پاکستان کے اداروں کو، میں کسی کو نظرانداز کرنے کی حمایت میں نہیں ہوں۔ کچھ کرو تو سہی نا، بیٹھو تو سہی، بیٹھ کر مسئلے پہ غور تو کرو، کوئی راستہ تو نکالو۔

تو بہرحال میں نے تھوڑا سا؛ مقدمہ آپ کی سمجھ میں آیا ہے؟ ہم پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم زبانی تقریروں میں لگے ہوئے ہیں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں، ابھی یہ مسئلہ جو کھڑا ہوا ہے، کشمیر میں جو انہوں نے کرفیو نافذ کیا ہے، ایک سو چھیاسی دن ہو گئے ہیں۔ انڈیا اس کے لیے پوری دنیا میں کمپین کر رہا ہے۔ کر رہا ہے نہیں کر رہا؟ اور کمپین کر کے دنیا کے بڑے حصے کو آپ کی حمایت میں اس نے رہنے دیا ہے؟ کیوں جی، زیادہ لوگ کس کے ساتھ ہیں؟ ان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہم تقریروں پہ لگے ہوئے ہیں۔

تیسری بات میں کرنے لگا ہوں۔ اب تیسرے نمبر پر اس کی ذمہ داری؛ یہ مسلمان حکومتوں کی جو مشترکہ تنظیم کیا کہلاتی ہے؟ او آئی سی۔ ’’آئی سی آئی سی پتہ نہیں کتھے گئی اے‘‘۔ او آئی سی، وہ کہاں کونسے فریزر میں منجمند پڑی ہے، وہ محترمہ کس فریزر میں ہیں، ان کو فریزر سے نکالا جائے۔ کس بیماری کا علاج ہے یہ؟ اس کا ڈائریکٹوریٹ ہے، اس کا سیکرٹریٹ ہے، اس کے عہدے دار ہیں، اس کی جناب میٹنگیں ہوتی ہیں۔ یہ کس بیماری کا علاج ہے او آئی سی؟ میں تو سچی بات ہے کبھی کبھی سخت بات کہہ دیتا ہوں، کہنی پڑتی ہے، کیا کریں۔ او آئی سی تو یہ بھی نہیں کر سکی کہ یہ اراکان کے مسلمانوں پر مظالم کو روک سکیں، سنکیانگ کے مسلمانوں پر جبر روک سکیں، او آئی سی سے تو اتنا بھی نہیں ہوا۔ یہ مسئلے کیا حل کرائے گی ہمارے! یہ فلسطین میں کیا کر رہی ہے او آئی سی اور کشمیر میں کیا کر رہی ہے اور اراکان میں کیا کر رہی ہے برما میں کیا کر رہی ہے، او آئی سی کیا کر رہی ہے یہ؟…

https://youtu.be/seq06noOVdM

2016ء سے
Flag Counter