مصری وزیر خارجہ کی مسجد اقصیٰ میں پٹائی

   
جنوری ۲۰۰۴ء

روزنامہ جنگ لاہور ۲۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کے مطابق مصر کے وزیر خارجہ احمد ماہر گزشتہ روز مسجد اقصیٰ کے صحن میں نماز ادا کرنے کے لیے آئے تو فلسطینی نوجوانوں نے ان کی پٹائی کر دی اور اس قدر مارا کہ وہ بے ہوش ہوگئے اور انہیں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔

مصر ایک دور میں فلسطین کی آزادی، فلسطین کی وحدت اور فلسطینی عوام کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار تھا اور صدر جمال عبد الناصر مرحوم پورے خطے میں اسرائیلی دہشت گردی اور اس کے مغربی سرپرستوں کے سب سے بڑے نقاد تھے لیکن جب سے مصر کے صدر انور سادات مرحوم نے کیمپ ڈیوڈ میں امریکی حکمرانوں کے ساتھ بیٹھ کر فلسطین کی تقسیم، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور فلسطینیوں کے بارے میں امریکی ایجنڈے کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مصری حکومت اور فلسطینی عوام کے درمیان دوری بڑھتی جا رہی ہے اور اپنی آزادی و خود مختاری کے ساتھ ساتھ فلسطین کی وحدت کے لیے لڑنے والے فلسطینی حریت پسند مصری حکومت کو اپنا مخالف تصور کرتے ہیں جس کا ایک عملی اظہار مذکورہ بالا واقعہ ہے کہ مصری وزیر خارجہ کو مسجد اقصیٰ کے صحن میں فلسطینی نوجوانوں کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا ہے۔

فلسطینی نوجوانوں کی اس حرکت کو یقیناً عالمی حلقوں میں انتہا پسندی سے تعبیر کیا جائے گا اور مختلف اطراف سے ان کی مذمت بھی کی جائے گی لیکن اس واقعہ کے حوالہ سے مسلم حکمرانوں کے سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ وہ مسلم ممالک کی حکومتوں اور ان کے عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کا ایک بار پھر جائزہ لے لیں اور مغرب کی خوشنودی میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ اپنے عوام کے درمیان کھلے بندوں چلنا پھرنا بھی ان کے لیے مشکل ہوجائے۔ مسلم ملکوں کے عوام اب اتنے بے خبر نہیں رہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے طرز عمل اور ان کی مغرب نوازی کے اسباب و عوامل سے ناواقف ہوں اور انہیں یہ دھوکہ دیا جا سکے کہ ان کے حکمران جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کے مفاد میں ہے۔ عالم اسلام کی رائے عامہ بیدار ہو رہی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے عزائم کو خوب سمجھتی ہے اس لیے مسلم حکمرانوں کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے ورنہ ان کے لیے زیادہ دیر تک مسلم عوام کے جذبات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter