میرے افغانستان جانے کے مقاصد میں ایک بات یہ بھی تھی کہ بین الاقوامی ادارے اور غیر ملکی این جی اوز وہاں افغانستان کی تعمیر نو کے عنوان سے جو کام کر رہی ہیں ان کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہو جائیں۔ اسی سلسلہ میں دو اصحاب سے ملاقات ہوئی اور ان سے ان اداروں کی سرگرمیوں کے حوالہ سے مختصر تبادلہ خیالات ہوا۔ ایک وزارت صحت میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ کے ڈائریکٹر مولانا شمس الدین حقیار ہیں جو وزارت صحت سے متعلق این جی اوز کی نگرانی کرتے ہیں۔ اور دوسرے جناب سہیل فاروقی ہیں جو کسی سرکاری منصب پر نہیں ہیں مگر این جی اوز کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ مغربی ممالک سے آنے والی این جی اوز کی بجائے مسلم ممالک کی این جی اوز اور رفاہی ادارے افغانستان کی تعمیر نو اور افغان عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں دلچسپی لیں اور آگے آئیں، تاکہ ان مفاسد اور خرابیوں سے بچا جا سکے جو مغربی ممالک کی این جی اوز کے متحرک ہونے سے سامنے آ رہے ہیں۔
سہیل فاروقی صاحب اس سلسلہ میں پاکستان کے کئی شہروں کا دورہ کر چکے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پاکستان سے جو اصحاب خیر طالبان حکومت سے تعاون کر رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں وہ چھپ چھپا کر اور انفرادی طور پر نہیں بلکہ سامنے آکر اور منظم صورت میں کریں تاکہ ان کے تعاون کا افغان رائے عامہ کو بھی علم ہو۔ اور یک طرفہ جو تاثر قائم ہو رہا ہے کہ افغان عوام کی امداد کے لیے صرف مغربی ممالک کے ادارے ہی دلچسپی رکھتے ہیں، اس کا ازالہ ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام اور اصحاب خیر طالبان حکومت کی بہت امداد کر رہے ہیں لیکن چونکہ وہ انفرادی طور پر ہوتی ہے اور بہت سے اصحاب خیر سمجھتے ہیں کہ اس تعاون کے ظاہر ہونے سے ان کے ثواب میں فرق آئے گا اس لیے افغان عوام کے لیے پاکستانی بھائیوں کی امداد نظر نہیں آتی۔ جبکہ موجودہ حالات میں اس کی ضرورت ہے کہ یہ امداد نظر آئے اور وہ افغان عوام کو معلوم ہو کہ ان کی بحالی اور تعمیر نو میں ان کے پاکستانی بھائی بھی پوری طرح شریک ہیں۔
مولانا شمس الدین حقیار نے بتایا کہ بیرونی ممالک سے آنے والی این جی اوز کو افغان حکومت کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ افغانستان کی حدود میں امارت اسلامی افغانستان کے قوانین کا پوری طرح احترام کریں گی اور اگر ان کا کوئی کارندہ افغانستان میں کسی جرم کا ارتکاب کرے گا تو اسے اس ملک کے قوانین کے تحت سزا دی جائے گی۔ اس معاہدہ کے تحت این جی اوز افغانستان میں کام کر رہی ہیں اور ہم ان کی سرگرمیوں کی پوری طرح نگرانی کرتے ہیں۔
افغانستان میں کام کرنے والی غیر ملکی این جی اوز کے بارے میں چند شکایات سننے میں آ رہی ہیں۔ ایک یہ کہ طالبان حکومت نے سابقہ دور کے جن کمیونسٹ افسران اور اہلکاروں کو ملازمت سے فارغ کیا تھا ان میں سے بیشتر این جی اوز میں کھپ گئے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ این جی اوز ان افراد کو کھپانے میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں جس کی وجہ سے بہت سی این جی اوز کابل حکومت کے سابق کمیونسٹ اہلکاروں کی پناہ گاہیں بلکہ کمین گاہیں بن گئی ہیں۔
دوسری شکایت یہ ہے کہ ان این جی اوز میں بین الاقوامی اداروں کے انتظامی اور غیر ترقیاتی اخراجات کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یعنی ان کے فراہم کردہ فنڈز میں سے افغان عوام کی ضروریات پر رقم کم خرچ ہوتی ہے اور ان اداروں کے اپنے دفاتر، عملہ کی تنخواہوں، آمد و رفت اور دیگر ضروریات پر اس سے کہیں زیادہ رقوم خرچ ہو جاتی ہیں۔ مثلاً سہیل فاروقی صاحب نے بتایا کہ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کا سالانہ فنڈ ۲۰۰ ملین ڈالر ہے مگر اس کا ۸۰ فیصد انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے اور صرف ۲۰ فیصد رقم افغان عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو پاتی ہے۔
پھر یہ شکایت بھی سننے میں آئی ہے کہ بعض این جی اوز عوام کو امداد دینے سے زیادہ امداد دینے کے عمل کو فلمانے اور ان کی ویڈیو تیار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس سلسلہ میں بطور مثال بتایا گیا کہ ایک بستی میں خواتین میں روٹیاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر پہلی بار عورتیں مطلوبہ تعداد میں نہیں آئیں تو ان کو روٹی نہیں ملی۔ دوسری بار پھر اعلان کیا گیا اور جب خاصی تعداد میں خواتین جمع ہوگئیں تو پہلے ان کی ویڈیو بنائی گئی اور پھر روٹیاں تقسیم کی گئیں۔ حالانکہ ویڈیو بنانا افغانستان میں منع ہے اور افغان قوانین کی خلاف ورزی کے ضمن میں آتا ہے۔
دوسری طرف طالبان حکومت کی صورتحال یہ ہے کہ خشک سالی، بین الاقوامی پابندیوں اور مسلسل حالت جنگ کی سہ طرفہ مشکلات کے باوجود عام اشیائے صرف پر ٹیکس لگانے سے گریز کیا جا رہا ہے تاکہ عام شہریوں کو ضرورت کی چیزیں سستے داموں ملتی رہیں۔ جبکہ وزراء اور افسران معمولی تنخواہوں پر گزارہ کر رہے ہیں، حتیٰ کہ بعض وفاقی وزراء تک کی تنخواہیں پاکستانی کرنسی کے حساب سے دو ہزار روپے سے زیادہ نہیں بنتیں۔ یہی وجہ ہے کہ عین حالت جنگ میں بھی کابل میں آٹے کی اسّی کلو کی بوری سات سو روپے میں، چینی بارہ روپے فی کلو، گھی کا بڑا کنستر پانچ سو روپے، پٹرول اٹھارہ روپے لیٹر، اور بکرے کا گوشت چالیس روپے فی کلو کے حساب سے مل رہا ہے۔ اور جو گاڑی بھاری بھر کم کسٹم ڈیوٹی کے باعث پاکستان میں تین سوا تین لاکھ کی ملتی ہے افغانستان میں برائے نام کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے ایک لاکھ روپے میں مل جاتی ہے۔
اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ طالبان حکومت نے خود قناعت اور کفایت شعاری کو اختیار کرتے ہوئے اپنے عوام کو ٹیکسوں کے غیر ضروری بوجھ سے بچایا ہوا ہے۔ مگر طالبان حکومت کے بس میں صرف یہی ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو کم سے کم کر کے عوام کو سہولت پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ جن کاموں کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے ان کو پورا کرنا ان کے اختیار سے باہر ہے۔ مثلاً سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، خصوصاً پشاور سے کابل جانے والا روڈ جو بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے پوری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اور ان سڑکوں وغیرہ کی تعمیر کے لیے طالبان حکومت کے پاس مطلوبہ فنڈز موجود نہیں ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی ادارے امداد اور تعاون کے لیے جو شرائط عائد کر رہے ہیں ان کو پورا کرنا طالبان حکومت کے لیے ممکن ہی نہیں۔ ان میں سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ طالبان حکومت اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفے کو قبول کر کے شرعی قوانین کے عملی نفاذ سے دستبردار ہو جائے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسا کرنے سے تو طالبان کے وجود اور ان کے اقتدار کا جواز ہی ختم ہو کر رہ جائے گا۔
ان حالات میں افغانستان کے عوام اور طالبان حکومت کی مشکلات و مسائل اور ضروریات کو سمجھنا اور ان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے افغان عوام کی بحالی اور افغانستان کی تعمیر نو میں ان سے تعاون کرنا نہ صرف دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے بلکہ اسلامی رفاعی اداروں، مسلم این جی اوز اور اصحاب خیر کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس مشکل اور آزمائش کے مرحلہ میں افغان بھائیوں کا ہاتھ تھام کر انہیں مسائل و مشکلات کے اس بھنور اور دلدل سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔