عبد الستار ایدھی بھی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور نوے برس سے زیادہ عمر پا کر انہوں نے اس عالم رنگ و بو کو خیرباد کہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۵۱ء میں انہوں نے سماجی خدمت کے کام کا آغاز کیا اور ۲۰۱۵ء تک مسلسل متحرک رہے۔ اس طرح ان کی سماجی خدمات کا دورانیہ پینسٹھ سال کا احاطہ کرتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے مشن کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے تھے اور کسی صلہ و ستائش کی تمنا دل میں سجائے بغیر اور کوئی امتیاز روا رکھے بغیر معاشرے کے معذور، نادار اور بے سہارا لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ انہیں سینکڑوں اعزازات اور تمغوں سے نوازا گیا مگر کوئی بڑے سے بڑا اعزاز بھی ان کے مزاج میں تبدیلی نہ لا سکا۔ حتیٰ کہ صدر ضیاء الحق مرحوم نے انہیں وفاقی مجلس شوریٰ کا رکن بنایا تو یہ رکنیت بھی انہیں راس نہ آئی اور وہ زیادہ دن اس کا بار نہیں اٹھا سکے۔
عبد الستار ایدھی مرحوم کی زندگی سماجی خدمت سے عبارت تھی۔ خدمت، خدمت اور خدمت ان کا واحد مقصد تھا۔ وہ اسی کے لیے جیے اور اسی راہ میں چلتے چلتے سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ وہ نہ تو پڑھے لکھوں میں شمار ہوتے تھے اور نہ ہی مال و دولت میں ایک عام شخص سے زیادہ کوئی مقام رکھتے تھے۔ انہیں ان کی داڑھی اور سادگی کے باعث مولانا ایدھی کہہ دیا جاتا تھا لیکن وہ نماز روزے کی واجبی تعلیم سے زیادہ دین کا علم نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی انہیں اس کا دعویٰ تھا۔ بلکہ وہ اپنی بے علمی اورسادگی کے باعث بعض ایسی باتیں بھی کہہ جاتے تھے جو اہل دین کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں، لیکن جہاں تک ہمیں علم ہے انہوں نے کبھی ایسی کسی بات پر اصرار نہیں کیا۔
ایک موقع پر عبد الستار ایدھی مرحوم نے ملک کو خیرباد کہہ کر ترک وطن کے ارادے کا اظہار کیا تو میں بھی ان سے اس پر نظر ثانی کی درخواست کرنے والوں میں شامل تھا۔ میں نے اپنے ایک کالم میں اس کے لیے اسلامی تاریخ کے ایک اہم واقعہ کا حوالہ دیا تھا کہ جب مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آکر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر سفر پر روانہ ہوگئے تو راستہ میں برک الغماد کے مقام پر بنو قارہ قبیلہ کے سردار ابن الدغنہ نے انہیں روک کر پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ مکہ والے اب تو آزادی کے ساتھ عبادت بھی نہیں کرنے دیتے اس لیے یہ جگہ چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ جہاں کھلا ماحول ملا وہیں بس جاؤں گا۔ بنوقارہ قبیلے نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور ابن الدغنہ بھی کافر سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔ لیکن انہوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا مثلک لا یَخْرُج ولا یُخْرَج کہ تمہارے جیسے لوگ شہر چھوڑ کر نہیں جایا کرتے اور نہ ہی انہیں شہر چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ تم معذوروں کی خدمت کرتے ہو، بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہو، محتاجوں کو کما کر کھلاتے ہو، مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہو، اور ناگہانی آفتوں میں لوگوں کے خدمت گزار بنتے ہو۔ بنوقارہ کا یہ سردار حضرت ابوبکرؓ کو اپنی ضمانت پر واپس مکہ مکرمہ لایا اور مکہ مکرمہ کے سرداروں سے الگ الگ مل کر انہیں احساس دلایا کہ تم ایک ایسے شخص کو شہر چھوڑ جانے پر کیوں مجبور کر رہے ہو جو سماجی خدمت گزار ہے اور معاشرہ کے نادار اور معذور لوگوں کا سہارا بنتا ہے۔
عبدالستار ایدھی کی سماجی خدمات کی جولانگاہ پورا ملک تھا اور غریب عوام کا ہر طبقہ ان سے مسلسل مستفید ہو رہا ہے۔ ابھی اسی رمضان المبارک کے دوران میں نے انیق احمد صاحب کے پروگرام ’’روح رمضان‘‘ کی کراچی ایدھی شیلٹر ہوم میں منعقد ہونے والی نشست میں شرکت کی ہے جہاں اولاد کی بے توجہی بلکہ بے وفائی کا شکار ہونے والے بوڑھے باپوں اور ماؤں کا جو حال دیکھا ہے اس نے ایدھی مرحوم اور ان کے بے لوث کام کی اہمیت کو دل میں اور زیادہ اجاگر کر دیا ہے۔ یہ کام اصل میں ریاست و حکومت کے کرنے کا ہے اور اسلام میں بیت المال کا بنیادی تصور یہی ہے کہ سوسائٹی کے کمزور، نادار، معذور، بے سہارا، اور بے روز گار افراد کی کفالت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے خلافت راشدہ کے دور بالخصوص حضرت عمرؓ کے رفاہی سسٹم کو آج تک آئیڈیل سمجھا جاتا ہے اور بہت سی غیر مسلم حکومتیں کسی حد تک اسے اپنائے ہوئے بھی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے قومی دولت کا بڑا حصہ ملک و قوم اور غریب عوام کے کام آنے کی بجائے مغربی ملکوں کے بینکوں اور پانامہ لیکس کی آف شور کمپنیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ جبکہ غریب عوام کا حال یہ ہے کہ اس عید پر بچوں کو عید کی خوشیاں فراہم نہ کر سکنے پر خودکشی کرنے والوں کی تعداد کو شمار کیا جائے تو پانامہ لیکس کی آڑ میں ایک دوسرے کے اثاثوں اور آف شور کمپنیوں کا شور مچانے والے سیاستدانوں کی انسانیت کا کسی امتیاز کے بغیر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اس ماحول اور فضا میں عبدالستار ایدھی کی سماجی خدمات کو دیکھ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ ابھی انسانیت کا جذبہ اور خدمت کا ذوق فنا نہیں ہوا۔ سماجی خدمات سر انجام دینے والی شخصیات اور ادارے اور بھی بہت سے ہیں جو بلاشبہ سب کے سب تحسین و تبریک کے مستحق ہیں لیکن ایدھی مرحوم کا یہ امتیاز ہے کہ انہوں نے سماجی خدمت کو اپنے وقت، صلاحیت اور مال کا مختصر حصہ نہیں دیا بلکہ اپنا سب کچھ اس کے لیے نچھاور کر دیا اور ’’فنا فی الخدمت‘‘ ہوگئے۔ انہوں نے اپنے نفس کو مٹا دیا اور صلہ و ستائش کی ہر تمنا سے بے نیاز ہوگئے۔
بلاشبہ عبد الستار ایدھی ہمارا ملی اثاثہ اور قومی ہیرو تھے اور سوسائٹی کے خدمت گزاروں کے لیے ’’رول ماڈل‘‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہم ان کے خاندان، رفقاء کار اور ان کے نیٹ ورک کے تمام ارکان کے اس غم میں شریک ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ان کا قائم کر دہ سماجی خدمت کا یہ نظام بدستور کام کرتا رہے گا اور اسے پہلے سے زیادہ کارکنوں کی توجہ کے ساتھ قوم کا تعاون بھی مسلسل حاصل رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ایدھی مرحوم کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ان کے سماجی خدمت کے جذبہ کو سب کے لیے مثال بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔