’’صائمہ کیس‘‘ ۔ ہائیکورٹ کے جج صاحبان کی خدمت میں گزارشات

بگرامی خدمت جناب عزت ماب جسٹس احسان الحق چودھری صاحب و عزت ماب جسٹس ملک محمد قیوم صاحب۔ لاہور ہائی کورٹ لاہور۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟ گزارش ہے کہ آپ کی عدالت میں زیر سماعت ’’صائمہ کیس‘‘ کے بارے میں شرعی نقطۂ نظر سے کچھ ضروری معروضات پیش کر رہا ہوں، قانوناً گنجائش ہو تو انہیں باضابطہ ریکارڈ میں شامل کر لیا جائے اور ضرورت پڑنے پر وضاحت کے لیے عدالت میں حاضری کے لیے بھی تیار ہوں، ورنہ ذاتی معاونت و مشاورت سمجھتے ہوئے ان گزارشات کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ ضرور فرمایا جائے، بے حد شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۱۹۹۷ء

شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشادات

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کی دفعہ ۳ میں شریعت اسلامیہ کی بالادستی کو ان الفاظ کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’شریعت یعنی اسلام کے احکام جو قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں، پاکستان کا بالادست قانون (سپریم لاء) ہوں گے بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو۔‘‘ وضاحت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی مسلم شخص یا ادارہ کے لیے شرعی احکام کی بالادستی کو مشروط طور پر قبول کرنے کی گنجائش ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اپریل ۱۹۹۶ء

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟

ایرانی انقلاب کے بعد ’’تحریک نفاذ فقہ جعفریہ‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی اور مطالبہ یہ ہوا کہ پرسنل لاء میں نہیں بلکہ پورے قانونی نظام میں فقہ جعفریہ کو متوازی قانون کے طور پر نافذ کیا جائے۔ اس مطالبہ کے لیے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دو گروپ کام کر رہے ہیں اور دونوں خود کو انقلاب ایران کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں گروپوں نے اس بنیاد پر سینٹ میں زیر بحث ’’شریعت بل‘‘ کی مخالفت کی۔ اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے میدان عمل میں آنے کا منطقی اور نظریاتی نتیجہ یہ سامنے آیا کہ شریعت اسلامیہ کی بالادستی اور نفاذ کا مطالبہ فرقہ وارانہ مطالبہ قرار دے دیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۱۹۹۰ء

وطن کے دفاع کے حوالے سے جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ

جناب رسول اللہؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور ایک ریاست کا ماحول بنا تو آنحضرتؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مدینہ منورہ اور اردگرد کے سب قبائل کو جمع کر کے مشترکہ حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدہ کا اہتمام فرمایا۔ ’’میثاق مدینہ‘‘ میں سب نے مل کر طے کیا کہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں اس کے دفاع کی ذمہ داری سب پر ہوگی اور مسلمان و کافر مل کر اس وطن کا تحفظ کریں گے۔ اس طرح آپؐ نے یہ اصول دیا کہ وطن کا دفاع سب اہل وطن کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اکتوبر ۲۰۱۶ء

ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا سالانہ اجلاس

ملی یکجہتی کونسل کا قیام اب سے دو عشرے قبل عمل میں لایا گیا تھا۔ مولانا شاہ احمدؒ نورانیؒ، مولانا سمیع الحق، قاضی حسین احمدؒ ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ ، اور دیگر زعماء اس میں سرگرم عمل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں سپاہ صحابہؓ اور تحریک جعفریہ آمنے سامنے تھیں، سنی شیعہ کشیدگی قتل و غارت کے عروج کے دور سے گزر رہی تھی اور دونوں طرف کی بہت سی قیمتی جانیں اس کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں۔ اس پس منظر میں ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ اس کشیدگی کو کنٹرول کیا جائے اور فرقہ وارانہ تصادم کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اکتوبر ۲۰۱۶ء

تجارت اور سیرت نبویؐ

تجارت وہ ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر انسانی معاشرے کا نظام نہیں چل سکتا، اللہ تعالیٰ نے تجارت کو انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ جناب نبی کریمؐ کے فرمان کے مطابق زراعت، تجارت، ملازمت، اور مال غنیمت کمائی کے وہ حلال اور جائز طریقے ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی ضروریات زندگی مہیا کر سکتا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے تجارت کو کمائی کے بہترین ذرائع میں ارشاد فرمایا ہے، بہت سی روایات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے تجارت کی فضیلت و اہمیت ذکر فرمائی ہے، درجات بیان فرمائے ہیں اور تجارت کے متعلق احکامات ارشاد فرمائے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ

جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں بھی کی ہیں اور صلحات بھی۔ حضورؐ نے جو جنگیں کی ان کا مقصد کیا تھا اور وہ کن اصولوں کے تحت لڑی گئیں؟ اور آپؐ نے جو صلحیں کیں وہ کن مصلحتوں کے تحت کی گئیں اور حضورؐ نے ان صلحوں کو کیسے نبھایا؟ اس حوالے سے مختصراً چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ جناب نبی کریمؐ نے جو دین پیش کیا وہ صرف اخلاقیات اور عبادات پر ہی مشتمل نہیں بلکہ یہ دین پوری زندگی کا انسانی ضابطہ حیات ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ یہ دین زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ

خاندانی زندگی کے حوالے سے جناب نبی کریمؐ کی تعلیم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ رشتوں کو جوڑ کر رکھو، آپس میں میل جول پیدا کرو، تعاون کی فضا قائم کرو اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کا سلسلہ رکھو۔ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا ’’صِل من قطعک‘‘ کوئی تم سے تعلق توڑے تب بھی اس سے تعلق جوڑ کر رکھو۔ آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو، اس سے خاندان میں جوڑ پیدا ہوتا ہے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد اور تعاون میسر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ

جب غلامی کو ممنوع قرار دینے کی بات ہوئی تو یہ کہا گیا کہ اسلام بھی ان مذاہب میں سے ہے جنہوں نے غلامی کو جائز قرار دیا اور اپنے نظام میں غلامی کا رواج برقرار رکھا۔ اس بات کی بظاہر تائید بھی ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن کریم میں غلامی کے بارے میں آیات موجود ہیں، احادیث میں ان کا ذکر ہے اور غلامی کے متعلق فقہ کے ابواب ہیں۔ اگرچہ آج کے دور میں عملاً غلامی موجود نہیں ہے لیکن اسلام کے اندر غلامی کا ایک مستقل تصور ہے جو پڑھا اور پڑھایاجاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غلامی کیا تھی اور اسلام نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ

انسان گھریلو زندگی کا آغاز ماں باپ کے زیر سایہ ایک بچے کی حیثیت سے کرتا ہے، بڑا ہوتا ہے تو بہن بھائیوں کا ساتھ میسر آتا ہے، خود مختار ہوتا ہے تو میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہوتا ہے جس کے بعد اولاد کی نوبت آتی ہے، یہ ہر شخص کی گھریلو زندگی کا ایک عمومی خاکہ ہے۔ اور گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے، اللہ تعالیٰ نے اکیلے انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا بلکہ جنت سے میاں بیوی کا ایک جوڑا زمین پر اتارا، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی صورت میں ایک کنبہ بھیجا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter