محمد ظہیر میر ایڈووکیٹ مرحوم

محمد ظہیر میر جمعیۃ طلباء اسلام میں درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری جنرل کے منصب تک جا پہنچے۔ یہ وہ دور تھا جب جے ٹی آئی پورے ملک میں متحرک تھی اور دینی مدارس کے ساتھ ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس کے سینکڑوں یونٹ قائم تھے جو فعال بھی تھے اور ملک بھر میں اس کا نیٹ ورک ہر سطح پر کام کر رہا تھا۔ میں خود جے ٹی آئی کے ابتدائی ارکان میں سے ہوں اور ایک عرصہ تک اس کا متحرک رکن رہا ہوں مگر اب یہ نام زبان پر آتے ہی حسرت کی کیفیت دل و دماغ پر طاری ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ مارچ ۲۰۱۲ء

آصف علی زرداری ۔ منتخب آ ئینی صدر

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت کے لیے جناب آصف علی زرداری کی نامزدگی اور انتخاب ان حلقوں اور دوستوں کے لیے بہرحال آسانی سے قبول کی جانے والی بات نہیں تھی جن سے میری ملاقاتیں ہوتی رہیں، اس لیے اکثر تاثرات منفی ہی سننے میں آئے۔ ایک مجلس میں دوستوں نے کہا کہ ایجنڈا وہی ہے صرف ٹیم تبدیل ہوئی ہے، امریکہ نے تھکے ہوئے گھوڑے کی بجائے تازہ دم گھوڑے کا اہتمام کر لیا ہے، اس لیے اب وہ ایجنڈا زیادہ قوت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ ایک محفل میں بحث چل پڑی کہ جنرل پرویز مشرف میں اور آصف زرداری میں کیا فرق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ ستمبر ۲۰۰۸ء

ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہیدؒ

ہمارے ہاں دہشت گردی کا کھیل ایک عرصے سے جاری ہے۔ یہ دہشت گردی زبان کے مسئلے پر بھی ہوئی ہے، قومیت کے مسئلے پر بھی ہوئی ہے، شیعہ سنی تنازع میں بھی اس دہشت گردی کی تاریخ بہت تلخ ہے، اور اب یہ نفاذ شریعت کے نام پر ہو رہی ہے۔ ہمیں دراصل وہ ہاتھ تلاش کر کے اسے بے نقاب کرنا ہوگا جو ہمیں مختلف ناموں سے آپس میں لڑاتا رہتا ہے اور خود ہمارے ہاتھوں ہماری گردنیں کٹوا کر اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ جب تک ہم اس خفیہ ہاتھ کو بے نقاب نہیں کرتے، دہشت گردی کا یہ گھناؤنا کھیل کسی نہ کسی بہانے جاری رہے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۰۹ء

بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے

محترمہ بیگم نسیم ولی خان نے ایک خصوصی انٹرویو میں یہ بات فرمائی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر بنا تھا اور خفیہ اداروں نے مذہبی جنونیت کو تقویت دی ہے۔ محترمہ بیگم نسیم ولی خان ملکی سیاست میں اہم مقام اور کردار رکھتی ہیں اور میرے لیے اس وجہ سے بھی قابل احترام ہیں کہ میں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ان کی قیادت میں ایک کارکن کے طور پر کام کیا ہے۔ چونکہ محترمہ اور ان کا خاندان تحریک پاکستان کا حصہ نہیں تھے اس لیے اس حوالے سے ان سے کچھ گزارش کرنا شاید مناسب نہ ہو مگر دو حوالے انہیں ضرور یاد دلانا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۱۲ء

توہینِ رسالت کی سزا اور بائبل

بشپ چرچ آف پاکستان جناب ڈاکٹر اعجاز عنایت کے متوازن اور حقیقت پسندانہ خیالات اس حوالے سے حوصلہ افزا ہیں کہ انہوں نے معروضی صورتحال کا بہتر تجزیہ کیا ہے اور اس سازش کو بروقت بھانپ لیا ہے جو پاکستان میں مسلم اکثریت اور مسیحی اقلیت کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دینے اور اس کے ذریعے لادینیت کے سیکولر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مفاد پرست عناصر کی طرف سے مسلسل جاری ہے۔ لیکن کیا پاپائے روم عالمی استعمار کی بولی بولنے کی بجائے بائبل اور پاکستانی مسیحی رہنماؤں کی پکار پر توجہ دینے کے لیے تیار ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ جنوری ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ

23 مارچ 1947ء کو دارالعلوم دیوبند میں مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’۔۔۔امریکہ کو خطرہ ہے کہ اگر ہندوستان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا تو ہندوستان کی سوشلسٹ حکومت روس کے ساتھ مل کر ایک زبردست بلاک بنا لے گی جس کی وجہ سے ایشیا میں امریکہ کا ناطقہ بند ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہندوستان اور روس کے درمیان ایک ایسی ریاست قائم کر دی جائے جس کی وجہ سے یہ دونوں ملک آپس میں مل کر کوئی مضبوط محاذ نہ بنا سکیں۔ پاکستان کی ضرورت صرف اتنی سی ہے۔ جب تک پاکستان امریکہ کی یہ ضرورت پوری کرتا رہے گا قائم رہے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ ستمبر ۲۰۱۲ء

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ

حضرت مولانا مفتی زین العابدینؒ کی جدوجہد کا بنیادی میدان دعوت و تبلیغ تھا اور وہ خود پر اس کے علاوہ کسی اور کام کی چھاپ نہیں لگنے دیتے تھے۔ البتہ دینی جدوجہد کے دیگر شعبوں سے لاتعلق بھی نہیں رہتے تھے بلکہ مشورے اور رہنمائی کی حد تک اس میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ فیصل آباد میں دینی تحریکات کو ہمیشہ ان کی سرپرستی اور راہنمائی حاصل رہی ہے۔ خود مجھے جمعیۃ علمائے اسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے متعدد بار ان کی شفقتوں اور مشوروں سے حصہ ملا ہے بلکہ بعض اوقات ان کی سرزنش کے مراحل سے بھی گزرا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مئی ۲۰۰۴ء

دفاع وطن اور اسوۂ حسنہ

نامور مؤرخ و محدث امام ابن سعدؒ کی تحقیق کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے مدینہ منورہ کی دس سالہ زندگی میں ستائیس کے لگ بھگ غزوات میں خود شرکت فرمائی۔ ان میں اقدامی جنگیں بھی تھیں اور دفاعی جنگیں بھی شامل تھیں۔ مثلاً (۱) بدر (۲) خیبر (۳) بنو مصطلق اور (۴) فتح مکہ کی جنگیں اقدامی تھیں کہ آنحضرتؐ ان جنگوں میں دشمن پر خود حملہ آور ہوئے تھے۔ جبکہ (۱) احد (۲) احزاب اور (۳) تبوک کی جنگیں دفاعی تھیں کہ حملہ آور دشمنوں سے مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے حضورؐ میدان جنگ میں آئے تھے اور دشمنوں کو اپنے ارادوں میں ناکامی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ ستمبر ۲۰۱۶ء

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ۔ مولانا سید سلمان ندوی کے خیالات

سلمان ندوی نام کے تین بزرگ اس وقت ہمارے معاصر اہل علم و دانش میں معروف ہیں۔ ایک ڈاکٹر سید سلمان ندوی ہیں جو معروف کتاب ’’سیرت النبیؐ‘‘ کے مصنف علامہ سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ہیں اور ڈربن یونیورسٹی جنوبی افریقہ میں شعبہ اسلامیات کے سربراہ رہے ہیں۔ دوسرے مولانا سید سلمان الحسینی ندوی ہیں جو رشتہ میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے نواسے لگتے ہیں اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ الحدیث ہیں۔ جبکہ تیسرے مولانا سلمان ندوی میرپور ڈھاکہ میں دارالارشاد کے نام سے ایک علمی ادارے کے ذریعے دینی و علمی خدمات میں مصروف ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ

میو ہسپتال پہنچا تو بہت زیادہ رش تھا اور بظاہر ان تک رسائی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کمرے کے دروازے پر گوجرانوالہ کے ایک اہل حدیث نوجوان کی ڈیوٹی تھی جو علامہ شہیدؒ کے ذاتی دوستوں میں سے تھے اور مجھے پہچانتے تھے۔ انہوں نے ہمت کر کے اس قدر رش کے باوجود مجھے ان کے بیڈ تک پہنچایا۔ میں نے علامہ شہیدؒ کے چہرے کی طرف دیکھا، آنکھیں چار ہوئیں، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس حالت میں وہ مجھے پہچان پائیں گے۔ ان کے لبوں کو حرکت ہوئی تو میں نے کان قریب کر لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’حضرت صاحب سے میرے لیے دعا کی درخواست کرنا‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ اپریل ۲۰۱۲ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter