سیرتِ ابوہریرہؓ میں طلبہ کے لیے رہنمائی

   
جامعہ بیت النور، پی آئی اے سوسائٹی، لاہور
جون ۲۰۲۲ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ نشست میں حاضر ہوا تھا تو کچھ واقعات سنائے تھے آپ کو، اور میں نے عرض کیا تھا کہ میرا عمومی تعارف ہی قصہ گو کا ہے۔ آج اس میں ایک بات کا اضافہ کروں گا کہ قرونِ اولیٰ میں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں اور تابعین و اتباعِ تابعین کے دور میں جو واعظ ہوتاتھا اس کو ’’القاص‘‘ کہتے تھے، قصہ گو۔ عمومی اصطلاح قاص کی ہے، قصے بیان کرنے والا۔ ہم تو خطیبِ پاکستان کہتے ہیں، وہ القاص کہتے تھے۔ بات سمجھنے سمجھانے کے لیے واقعہ ایک بہت مؤثر ذریعہ ہے، اور جو بات واقعے سے سمجھ میں آتی ہے وہ لیکچر سے نہیں سمجھ میں آتی، اس لیے میرا معمول یہ ہے کہ طلباء و طالبات میں بیٹھتا ہوں تو کوشش ہوتی ہے کہ بات قصے کے ذریعے سمجھاؤں۔

آج بھی ایک بزرگ کے دو تین واقعات سناؤں گا، لیکن اس پس منظر میں کہ حدیثِ رسولؐ کے سب سے بڑے طالب علم کہہ لیں، سب سے بڑے سکالر کہہ لیں، سب سے بڑے محدث کہہ لیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے راوی ہیں، ان کے بارے میں ایک اعتراض کی بات ان کے زمانے سے ہی چلی آ رہی ہے، جو تب بھی تھی اور آج بھی ہےکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انہیں جو وقت ملا ہے وہ ساڑھے تین چار سال کا ہے، جبکہ حدیثیں وہ سب سے زیادہ بیان کرتے ہیں۔ اور کامن سینس میں یہ اعتراض بنتا بھی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ یمن کے بنو دوس قبیلہ سے تھے، مسلمان ہوئے اور ہجرت کر کے جب مدینہ منورہ آئے تو خیبر کی جنگ ہو چکی تھی اور غنیمت تقسیم ہو رہی تھی، وہ اسی راستے سے آئے تھے۔ یہ تقریباً‌ ساڑھے تین چار سال کا عرصہ بنتا ہے جو اُن کا تعلیمی دورانیہ ہے، لیکن جب بھی بات کرتے کوئی نہ کوئی حدیث سنا دیتے: ’’سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ، ’’رائیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، ’’عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ یعنی کسی نہ کسی حوالے سے حضورؐ کی کوئی بات سنا دیتے۔ اور ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ شاید ہی کوئی ایسی مجلس ہو جس میں وہ کوئی حدیث نہ سناتے، جیسے آدمی کا ذوق بن جاتا ہے، تو ان کا ذوق یہ بن گیا تھا کہ جہاں موقع ملتا حدیث سناتے تھے۔

جمعہ اصل میں کیا ہے؟ دو خطبے اور دو رکعت نماز۔ لیکن یہ خطبے سے پہلے ہم جو تقریر کرتے ہیں، خطیب صاحب کی مرضی ہے کہ آدھا گھنٹہ تقریر کریں یا دو گھنٹے، اس تقریر کی کیا حیثیت ہے؟ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت ہے۔ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں حضرت ابو ہریرہؓ نے دیکھا کہ لوگ جلدی جاتے ہیں، سورج ڈھلتے ہی لوگ آنا شروع ہو گئے اور مجمع ہو گیا۔ جبکہ امیر المومنین اپنے وقت پر آتے تھے کہ دو خطبے پڑھنے ہیں اور نماز پڑھانی ہے بس۔ آج کل تو لوگ آخرمیں آتے ہیں، اُس زمانے میں جلدی آجاتے تھے۔ ایک دن حضرت ابو ہریرہؓ نے درخواست کی کہ امیر المومنین، لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، آپ نے اپنے وقت پر آنا ہوتا ہے، اگر اجازت ہو تو میں کچھ حدیثیں سنا دیا کروں؟ فرمایا، سنا دیا کرو۔ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کی دوسری اذان سے پہلے، امیر المومنینؓ کی تشریف آوری سے پہلے، جو لوگ جمع ہو جاتے تھے ان کو کچھ حدیثیں سنایا کرتے تھے۔ یہ جمعہ سے پہلے جو تقریر ہے، یہ دراصل اسی کا تسلسل ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ پر اعتراض یہ تھا کہ نبی کریمؐ کے ساتھ وقت تو اُن کو ساڑھے تین چار سال ملا ہے لیکن روایت ہر بات پر بیان کر دیتے ہیں، یہ کیا مسئلہ ہے۔ اس کا جواب خود انہوں نے اپنے زمانے میں دیا۔ بخاری شریف کی دو روایتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

ایک جواب تو یہ دیا کہ ’’ان الناس یقولون‏ ‏اکثر ابو ہریرۃ‘‘ لوگ یہ باتیں کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ بڑی حدیثیں بیان کرتا ہے، اور باقی بیس بیس سال گزارنے والے، تئیس تئیس سال گزارنے والے صحابہ کرامؓ اتنی حدیثیں بیان نہیں کرتے۔ صحابہ کرامؓ کے دو بڑے طبقے تھے، مہاجرین اور انصار۔ مہاجرین تاجر پیشہ لوگ تھے، تجارت ان کا بنیادی ذریعہ معاش تھی۔ اور انصار کاشت پیشہ لوگ تھے، کاشتکاری، باغبانی، کھیتی باڑی، یہ ان کا کام تھا۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے مہاجر بھائی تو اپنے کام میں مصروف رہتے تھے کہ بازاروںمیں سودے کر رہے ہیں، سودے خرید رہے ہیں، اور انصاری بھائی سارا دن کھیتوں میں رہتے تھے، کسی کو صبح آنے کا موقع مل رہا ہے، کسی کو شام کو آنے کا موقع مل رہا ہے۔ جبکہ ابو ہریرہؓ نے جب سے حضورؐ کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا ہے ، کلمہ پڑھا ہے، حضورؐ کے وصال تک اس کے سوا کوئی اور کام کیا ہی نہیں کہ حدیثیں سنے اور یاد کرے۔

فرماتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے دروازے سے وصول کرتا تھا، ان کے ساتھ رہتا تھا، اور گھر کے دروازے تک چھوڑ کر آتا تھا، میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ حضورؐ کوئی بات فرمائیں اور میں نہ سن سکوں۔ میری کوئی ملازمت نہیں تھی، کوئی کام نہیں تھا، صفہ والوں کے ساتھ پڑا رہتا تھا، کسی نے کھجوریں دے دیں تو کھا لیں، کوئی ستو چھوڑ گیا تو کھالیا، نہیں تو بھوکے رات گزار لی۔ بلکہ وہ اپنا ایک لطیفہ خود سنتے ہیں، بخاری کی روایت ہے۔ کہتے ہیں، میری یہ کیفیت ہوتی تھی کہ دو تین دن کی بھوک ہے اور برا حال ہے لیکن مانگنا نہیں ہے اور کسی سے کہنا نہیں ہے کہ مجھے روٹی کھلاؤ۔ طالب علم کی اپنی شان ہوتی ہے۔ تو بعد میں کسی وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یاد دلا رہے ہیں کہ حضرت! آپ کو یاد ہو گا کہ آپ گلی میں جا رہے تھے، میں نے آپ سے ایک آیت پوچھی تھی کہ حضرت اس آیت کا مطلب کیا ہے، تو آپ بتا کر چلے گئے تھے۔ آیت مجھے آتی تھی، میرا مقصد آیت پوچھنا نہیں تھا، مقصد یہ تھا کہ آپ میری گفتگو سے اندازہ کر لیں گے کہ بھوکا ہے اور روٹی کھلا دیں گے، آپ نے دروازہ بند کر لیا تو میں واپس آ گیا۔ یہ حضرت ابو ہریرہؓ خود حضرت عمرؓ کو جتلا رہے ہیں۔

فرماتے ہیں، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو حضورؐ سمجھ گئے۔ پوچھا، ابو ہریرہ! بھوک لگی ہے؟ جی ہاں، یا رسول اللہ! فرمایا، چلو میرے ساتھ، حضورؐ نے دودھ پلایا، وہ ایک لمبا قصہ ہے۔ میں اس وقت صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اس وقت ماحول یہ تھا کہ دو دو دن، تین تین دن بھوک سے گزر جاتے تھے، کھانے کو ملتا نہیں تھا، لیکن چونکہ طالب علم تھا، مانگنا نہیں تھا۔ توپہلا جواب یہ دیا کہ میں نے اس حالت میں ساڑھے تین چار سال گزارے ہیں کہ حضورؐ بازار میں ہیں تو میں بازار میں ہوں، حضورؐ مسجد میں ہیں تو میں مسجد میں ہوں، حضورؐ مجلس میں ہیں تو میں مجلس میں ہوں، حضورؐ تنہاہیں تو میں ساتھ جا کر بیٹھ گیا ہوں، اس لیے مجھے حدیثیں زیادہ یاد ہیں اور میں زیادہ سناتا ہوں۔ اور باقی لوگ ، کوئی ایک نماز میں آتا تھا، کوئی دوسری نماز میں آتا تھا۔

اس وقت عمومی ماحول یہ تھا، بخاری شریف میں ہے، خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ’’من عوالی مدینہ‘‘ ہم مدینہ کے بالائی علاقے میں رہتے تھے اور ہم نے باریاں تقسیم کر رکھی تھیں۔ ایک دن میں کام کاج پر جاتا تھا اور میرا انصاری بھائی مسجد میں جاتا تھا، سارا دن گزارتا اور شام کو آ کر رپورٹ دیتا تھا کہ آج یہ وحی آئی ہے، آج یہ واقعہ ہوا ہے، آج حضورؐ نے یہ فرمایا ہے۔ دوسرے دن وہ کام پر جاتا تھا اور میں مسجد میں جاتا تھا۔ ہم نے باریاں مقرر کر رکھی تھیں کہ ایک دن پڑھتے تھے اور ایک دن کام کرتے تھے اور آپس میں پھر تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔ یہ بھی لمبا واقعہ ہے، لیکن اتنی بات کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا کام بھی کرنا ہے، کھیتی باڑی بھی کرنی ہے، دکانداری بھی کرنی ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ تم لوگوں کے اپنے اپنے کام کاج تھے، میرا نہ کوئی بال بچہ، نہ کوئی دکان، نہ کھیتی باڑی، میں دن رات حضورؐ کے ساتھ رہتا تھا ، سنتا تھا اور یاد کرتا تھا۔

دوسری وجہ بھی بخاری شریف کی روایت میں بیان فرمائی کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! دعا کی درخواست ہے۔ پوچھا، کیا؟ آپ سے باتیں سنتا ہوں اور یاد کرتا ہوں تو کوئی بات بھول جاتی ہے، بس یہ دعا فرما دیں کہ آپ سے سنی ہوئی کوئی بات مجھے بھولے نہیں۔ حضورؐ نے دعا کس انداز سے فرمائی۔ فرمایا، چادر پھیلاؤ۔ انہوں نے پھیلائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے کوئی چیز اس میں ڈالی جو نظر نہیں آئی۔ کہتے ہیں، یوں دونوں ہاتھ جوڑے اور یوں میرے دامن میں کچھ ڈالا۔ فرمایا، سینے سے لگا لو۔ میں نے سینے سے لگا لیا۔ کہتے ہیں کہ وہ دن اور آج کا دن، یہ ممکن نہیں ہے کہ حضورؐ سے کوئی بات سنی ہو اور میں بھول گیا ہوں۔ ایک تو میرے پیچھے محنت تھی، حاضر باش تھا، ’’صاحبِ ترتیب‘‘ تھا، ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا تھا۔ دوسرا، میرے پیچھے دعا تھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔

محدثین بڑے واقعات ذکر کرتے ہیں حضرت ابو ہریرہؓ کے۔ ان کا ایک واقعہ اور ذکر کر دیتا ہوں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں مروان بن الحکم رحمہ اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ ان کی حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ بڑی دوستی تھی، آپس میں گہرے دوست تھے۔ جب مروان بن الحکمؒ کسی کام سے مدینہ منورہ سے باہر جاتے، دس دن کے لیے، مہینے کے لیے، تو ان کو قائم مقام امیر بنا دیتے تھے۔ کئی دفعہ امیر بنے ہیں۔ مزاج میں ظرافت تھی۔ بعض لوگوں کا مزاج ہوتا ہے ہنستے ہنستے بات کرنا، دل لگی سے بات کرنا۔ مزاج ایسا تھا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کا اپنا کام یہ تھا کہ ہفتے میں ایک دو دن جنگل جا کر لکڑیاں اکٹھی کرتے تھے، دو پھیرے، تین پھیرے لگائے، لا کر بیچ دیتے تھے، ہفتے کا راشن ہو گیا تو بس، باقی اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔

ان کا واقعہ ہے کہ مدینہ کے قائم مقام گورنر تھے، ایک دن لکڑیاں سر پر اٹھائی ہوئی ہیں، جنگل سے مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں، بازار میں آنے جانے والے لوگ تھے تو خود ہی آواز لگاتے آ رہے ہیں ’’جاء الامیر، جاء الامیر‘‘ امیر صاحب آگئے، امیر صاحب آ گئے، لوگو ہٹو، راستہ دو۔ یہ ان کا مزاج تھا کہ اپنے پروٹوکول کی ڈیوٹی بھی وہ خود ہی دے رہے تھے۔

مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کے خطبہ میں ایک دن یہی بات ان کو یاد آ گئی کہ تم لوگ کہتے ہو کہ میں بڑی حدیثیں بیان کرتا ہوں ۔ سامنے جو بیٹھے ہوئے تھے سب برخوردار تھے۔ اب وہ اس لہجے میں بات کر رہے ہیں کہ تمہارے چاچے، تمہارے تائے، تمہارے مامے، کوئی کاروبار کر رہا ہے، کوئی کھیتی باڑی کر رہا ہے، کوئی باغ میں گیا ہوا ہے، ابو ہریرہؓ تو حضورؐ کے ساتھ چمٹا ہوتا تھااور ہر وقت سنتا تھا، اسی لیے مجھے زیادہ حدیثیں یاد ہیں اور میں سناتا ہوں۔

حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک موقع پر گورنر سے باقاعدہ شکایت بھی ہوئی۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایسی کیفیت ہو تو جو معاصر لوگ ہوتے ہیں ان کو تو پتہ ہوتا ہے کہ بابا جی کا مزاج کیا ہے، بعد والوں کو پتہ نہیں ہوتا تو ان کے لیے مسئلہ بنتا ہے۔ آج بھی سب سے بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ حدیثیں سب سے زیادہ ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں، اور جن کو حضورؐ کے ساتھ سب سے زیادہ وقت ملا ہے وہ نہیں بیان کرتے۔ تو شکایت ہو گئی گورنر مدینہ حضرت مروان بن الحکم رحمہ اللہ تعالیٰ سے کہ جناب، بابا جی ہر بات پر حدیث سنا دیتے ہیں، حدیث کا معاملہ ہے، بڑا نازک مسئلہ ہے، کہیں خلط ملط تو نہیں کرتے، بابا جی ہو گئے ہیں، چیک کر لینا چاہیے۔

گورنر مدینہ ان کے دوست بھی تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے۔ بادی النظر میں، یا آج کی اصطلاح ’’کامن سینس‘‘ میں شکایت بنتی ہے۔ کہا، ٹھیک ہے جی، چیک کریں گے۔ تو باقاعدہ امتحان ہوا۔ ایک دن مجلس لگائی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ حضرت، آپ کی بڑی مہربانی، تشریف لائیں، ہم کچھ لوگ اکٹھے ہوئے ہیں، آپ کی زبان سے کچھ حدیثیں سننے کو جی چاہتا ہے۔ روایت میں ہے کہ انہوں نے ایک سو حدیثیں بیان کیں۔ وہ تو ایک مجلس میں ہزار حدیثیں بھی سنا سکتے تھے، لیکن اس مجلس میں ایک سو حدیثیں سنائیں۔ سب نے سن لیں۔ گورنر صاحب نے یہ اہتمام کر رکھا تھا کہ پردے کے پیچھے زود نویس، آج کی اصطلاح میں دو چار ’’شارٹ ہینڈ‘‘ نویس بٹھا رکھے تھے کہ جو بابا جی بیان کریں اسے لکھنا ہے۔ آج کل تو اس کی ضرورت نہیں کہ یہ موبائل فون ہی کافی ہے، کہیں طریقے سے رکھ دیا جائے تو سب کچھ ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ اس زمانے میں زود نویس ہوتے تھے، وہ تین چار بٹھائے کہ بابا جی جو بیان کریں لکھ لینا۔ اُنہوں نے بیان فرمایا، اِنہوں نے لکھ لیا، شکریہ ادا کیا، دعا کی درخواست کی، حضرت! بڑی مہربانی، اور مجلس برخاست ہو گئی۔

ایک سال کے بعد دوبارہ مجلس لگائی اور وہی لوگ بلا لیے، حضرت ابو ہریرہؓ سے کہا کہ حضرت! پچھلے سال آپ نے حدیثیں سنائی تھیں تو بہت لطف آیا تھا، ایک دفعہ پھر سننے کو جی چاہتا ہے۔ فرمایا، سنا دیتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے کہا گیا کہ حضرت! جو پچھلے سال سنائی تھیں وہ دوبارہ سنا دیں۔ انہوں نے دوبارہ وہی ایک سو حدیثیں سنا دیں۔ جب مجلس برخاست ہوئی اور حضرت ابوہریرہؓ کو رخصت کیا تو زود نویسوں کو بلایا جو پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کاپیاں لے کر۔ ہاں بھئی! کیا رزلٹ ہے؟ انہوں نے کہا حضرت! وہی حدیثیں تھیں ، نہ الفاظ میں فرق تھا اور نہ ترتیب میں کوئی فرق تھا۔ پینتیس نمبر والی پینتیس نمبر پر تھی، اٹھاسی نمبر والی اٹھاسی نمبر پر ہی تھی۔ تو حضرت ابو ہریرہؓ کا امتحان بھی ہوا۔

اللہ رب العزت نے ان کو یہ عظمت عطا فرمائی۔ ان کو کئی سرٹیفکیٹ ملے۔ ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دیا۔ یہ بھی بخاری کی روایت ہے، کتاب العلم میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک موقع پر سوال کیا ’’من اسعد الناس بشفاعتک یوم القیامۃ یا رسول اللہ؟‘‘ یا رسول اللہ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا؟ آپ کی شفاعت سے کروڑوں اربوں لوگ فائدہ اٹھائیں گے لیکن سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہو گا؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا جواب تو یہ دیا کہ ابو ہریرہ! میرا خیال یہی تھا کہ یہ سوال تم ہی سب سے پہلے کرو گے، تم سے پہلے یہ سوال کوئی نہیں کرے گا۔ کیوں؟ ’’لحرصک علی الحدیث‘‘ اس لیے کہ حدیثیں یاد کرنے کا تیرا شوق میں جانتا ہوں۔ اساتذہ کرام بیٹھے ہیں، استاذ کو کلاس میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ اِس کا شوق کیا ہے، اِس کا شوق کیا ہے، اور اِس کا شوق کیا ہے۔ تو اس سے بڑا سرٹیفکیٹ کوئی ہو سکتا ہے جو حدیثیں یاد کرنے پر حضرت ابو ہریرہؓ کو ملا۔ اور کس نے دیا ہے؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےدو چار واقعات سنائے ہیں ، یہ بتانے کے لیے کہ طالب علم کیا ہوتے تھے اور طالب علم کس کو کہتے ہیں۔ ہم ویسے بن تو نہیں سکتے ، اللہ پاک سے دعا کریں کہ تھوڑی تھوڑی جھلک ہمیں بھی عطا فرما دیں (آمین)۔

2016ء سے
Flag Counter