وفاقی شرعی عدالت نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ شریعت ایکٹ کی دفعہ ۳ اور ۱۹ کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے دیا ہے۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۳ مئی ۱۹۹۲ء کی رپورٹ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے فل بینچ نے جو چیف جسٹس جناب جسٹس تنزیل الرحمان، جناب جسٹس فدا محمد خان اور جناب جسٹس میر ہزار خان پر مشتمل تھا، یہ فیصلہ ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس کے کنوینر جناب محمد اسماعیل قریشی اور دیگر تین شہریوں کی درخواست پر صادر کیا ہے۔
ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ شریعت ایکٹ کی دفعہ ۳ میں قرآن و سنت کو پاکستان کا سپریم لاء قرار دیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی دفعہ ۳ کی ذیلی نمبر ۲ کی رو سے موجودہ سیاسی نظام، پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں اور موجودہ نظام حکومت کو سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار سے بالاتر قرار دے کر نہ صرف آئین کی دفعہ ۱۲ الف ۲۲۷ اور ۳۰۳ ڈی سے انحراف کیا گیا ہے بلکہ شریعت کی بالادستی بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اسی طرح شریعت ایکٹ کی دفعہ ۱۹ کی رو سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود اور قرآن و سنت کے احکام کے خلاف تمام سودی معاملات کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ دفعات قرآن و سنت سے متصادم ہیں اس لیے انہیں منسوخ کیا جائے۔
شریعت ایکٹ کی ان دفعات کو اس سے قبل ملک کے تمام دینی حلقوں کی طرف سے قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کی بالادستی کے منافی قرار دیا جا چکا ہے بلکہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے تو شریعت ایکٹ کے منظور ہونے سے پہلے ہی اسی بنیاد پر اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور ان دفعات پر ہونے والی بحث میں شرکت کو بھی گوارا نہیں کیا تھا۔ چنانچہ اس نام نہاد شریعت ایکٹ کے منظور ہونے کے بعد سے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان او رملک کے دیگر دینی حلقے اس ایکٹ کو مسترد کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور اب وفاقی شرعی عدالت نے بھی دینی حلقوں کے اس اجتماعی موقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
ہم وفاقی شرعی عدالت کو اس تاریخی فیصلہ پر ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ روایتی منافقت اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کردے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے مذکورہ شریعت ایکٹ سے دستبردار ہو کر سینٹ کا پاس کردہ متفقہ پرائیویٹ شریعت بل پارلیمنٹ سے منظور کرائے تاکہ ملک میں قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دینے کے تقاضے عملاً پورے ہو سکیں۔