عدالتِ شرعیہ کے لیے طریق کار

   
۹ اپریل ۱۹۷۶ء

جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام ۲۵ و ۲۶ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو ’’کل پاکستان نظامِ شریعت کنونشن گوجرانوالہ‘‘ میں پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے مندرجہ ذیل حضرات پر مشتمل کمیٹی نے نظام العمل مرتب کیا۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے اس نظام العمل کو منظور کر لیا اور بعد ازاں مرکزی مجلس عمومی نے بھی اس کی توثیق کر دی۔

  1. مولانا مفتی محمد عبد اللہ، ملتان۔
  2. مولانا محمد ایوب جان بنوری، پشاور۔
  3. مولانا احمد الرحمان، کراچی۔
  4. مولانا مفتی عبد المتین، تھب آزاد کشمیر۔
  5. مولانا سید محمد انور شاہ، ملتان۔
  6. جناب سید ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ، جنرل سیکرٹری ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن لاہور۔
  7. جناب قاضی محمد سلیم ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔
  8. جناب چوہدری قادر بخش ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔

اس نظام العمل کو جمعیۃ علماء اسلام کے دستور کے ساتھ بطور ضمیمہ شامل کیا جا رہا ہے۔

(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور ۔ ۲۴ دسمبر ۱۹۷۶ء)

حیثیت و نوعیت

واضح رہے کہ اہل اسلام و اہل دین، جو اپنے تنازعات اور جھگڑوں کو اسلامی اور شرعی نقطۂ نظر سے طے کرانا چاہتے ہیں، ہر دو فریق اپنی مرضی سے عدالت شرعیہ کو حکم اور ثالت تسلیم کریں گے۔ اور تحریری طور پر حسب ضابطہ ثالثی نامہ شرعی عدالت میں پیش کریں گے جس میں یہ ذکر ہوگا کہ شریعت کا فیصلہ ہمیں بہرصورت منظور رہے گا۔ اس کے بعد شرعی عدالتیں ان تنازعات و مقدمات کو فیصلہ کے لیے قبول کریں گی۔

دائرہ کار

عدالت شرعیہ کا وجود صرف عامۃ المسلمین کے باہمی اختلافات اور تنازعات کے ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ وہ مقدمات جن میں سرکار فریق نہ ہو اور فریقین قانونی طور پر اپنی مرضی سے ان مقدمات کو سرکاری عدالت یا ثالث یا کسی عالم دین کے پاس پیش کر سکتے ہوں، ایسے مقدمات عدالت ہائے شرعیہ میں زیر سماعت لائے جائیں گے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

  1. وراثت اور اس کے متعلقات مثلاً حرمان وصیت وغیرہ۔
  2. نکاح، انعقادِ نکاح، کفو، اولیا، رضاعت، حرمت مصاہرت، طلاق، ظہار، عدت، حق حضانت، نسب وغیرہ۔
  3. قبور المسلمین کے شرعی نظم وغیرہ۔
  4. رویت ہلال سے متعلق امور و مناقشات۔
  5. بیع و شرا، اجارہ، شفع، مزارعت وغیرہ۔
  6. وقف، ہبہ اور اس کے متعلقات وغیرہ۔

عدالتوں اور عہدہ داروں کے نام

مرکزی عدالت عدالت عظمیٰ شرعیہ پاکستان
صوبائی عدالت عدالت عالیہ شرعیہ پاکستان
ضلعی عدالت عدالت شرعیہ
مرکزی عدالت کا سربراہ قاضی القضاۃ عدالت عظمیٰ شرعیہ پاکستان
صوبائی عدالت کا سربراہ قاضی القضاۃ عدالت عالیہ شرعیہ صوبہ
ضلعی عدالت کا سربراہ قاضی عدالت شرعیہ ضلع
ضلعی عدالت کا رکن نائب قاضی عدالت شرعیہ ضلع
عدالت کا منتظم مدیر عدالت

شرعی عدالت کے مراکز

عدالت عظمیٰ شرعیہ پاکستان مدرسہ قاسم العلوم، شیرانوالہ گیٹ لاہور
عدالت عالیہ شرعیہ پنجاب مدرسہ قاسم العلوم، شیرانوالہ گیٹ لاہور
عدالت عالیہ شرعیہ سرحد دفتر جمعیۃ علماء اسلام، سرکی روڈ پشاور
عدالت عالیہ شرعیہ بلوچستان مدرسہ مظہر العلوم، شالدرہ کوئٹہ
عدالت عالیہ شرعیہ سندھ     بعد میں اعلان کیا جائے گا

مقدمہ کی وصولی اور فیصلہ

  1. اگر کوئی شخص اپنا مقدمہ عدالت شرعیہ میں پیش کرنا چاہے تو سب سے پہلے مقدمہ کے کوائف اور درخواست معہ ایک زائد نقل ضلعی عدالت شرعیہ کے مدیر کو پیش کرے گا۔
  2. مدیر عدالت اس درخواست کو اصل ریکارڈ میں محفوظ کرے گا اور اس کی نقل عدالتی چٹھی کے ساتھ مدعا علیہ کو ارسال کرے گا کہ اگر وہ اس مقدمہ کا فیصلہ عدالت شرعیہ سے کرانے پر رضامند ہو تو اس کی تحریری اطلاع دے۔
  3. مدعا علیہ کا مثبت جواب موصول ہونے کے بعد مدیرِ عدالت فریقین کو طلب کر کے ان سے حسب ضابطہ ثالثی نامہ بحق عدالت شرعیہ تحریر کرائے گا تاکہ فیصلہ مروجہ قانون کے تحت بھی مسلمہ ہو جائے۔
  4. ثالثی نامہ پر فریقین کے دستخط ہو جانے کے بعد کیفیت مقدمہ مکمل ہو جائے گی اور عدالت شرعیہ سماعت شروع کر دے گی۔
  5. قاضی صاحب کے پاس باضابطہ مقدمہ آجانے کے بعد قاضی صاحب فریقین کو کسی تاریخ پر طلب کریں گے اور فریقین کے بیانات لے کر شرعی اصولوں کے مطابق فیصلہ تحریری طور پر صادر کریں گے۔
  6. مدیرِ عدالت مقدمہ کے ریکارڈ کی حفاظت کے علاوہ فریقین سے رابطہ اور فیصلوں کی مناسب تشہیر کا بھی اہتمام کریں گے۔

مدیر عدالت

ہر سطح پر ایک مستقل مدیر عدالت کا تقرر ہوگا جس کے ذمہ دفتری امور، درخواستوں کی وصولی، مقدمات کی تحریر، ریکارڈ کی حفاظت اور فیصلوں کی مناسب تشہیر ہوگی۔

اجلاس

عدالت عظمیٰ شرعیہ کا انتظامی اجلاس سال میں کم از کم دو دفعہ اور عدالت عالیہ شرعیہ کا اجلاس تین ماہ میں ایک دفعہ ضروری ہے جس میں گزشتہ کارروائی کا جائزہ لینے کے علاوہ درپیش ہونے والے مسائل کا حل تجویز کیا جائے گا اور آئندہ پروگرام کا تعین کیا جائے گا۔ مقدمات کی سماعت کے لیے ہنگامی اجلاس قاضی القضاۃ کسی وقت بھی طلب کر سکتے ہیں۔

رپورٹ

ہر ماتحت عدالت مقدمات کی سماعت اور فیصلوں کی رپورٹ ہر تین ماہ بعد گوشوارہ کی صورت میں بالائی عدالت کو ارسال کرے گی۔

مقامِ سماعت

ہر سطح پر مقدمات کی سماعت معروف مقامات میں کی جائے گی۔

اپیل

فریقین کو ضلعی عدالت کے فیصلے کے خلاف صوبائی عدالت میں، جبکہ صوبائی عدالت کے فیصلے کے خلاف مرکزی عدالت میں اپیل کا حق ہوگا۔

اخراجات

کسی سطح پر مقدمہ کی کوئی فیس کسی فریق سے وصول نہیں کی جائے گی اور ہر سطح پر عدالت شرعیہ کے جملہ اخراجات اسی سطح کی جمعیۃ علماء اسلام کے ذمہ ہوں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter