تعلیمی نصاب ۔ اسلامی کانفرنس کا معذرت خواہانہ موقف

   
۳۰ دسمبر ۲۰۰۵ء

مکہ مکرمہ میں منعقدہ مسلم سربراہ کانفرنس کے حالیہ غیر معمولی اجلاس کے فیصلوں میں ایک اعلان یہ بھی تھا کہ مسلم ممالک اپنے اپنے نصاب تعلیم میں تبدیلی کریں گے۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ مسلم دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں معاصر اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور اس کوتاہی کی گزشتہ دو صدیوں سے خوفناک سزا بھگت رہی ہے، اس سلسلہ میں ہمارے حکمرانوں کو کچھ احساس ہوگیا ہوگا اور انہوں نے باہم مل بیٹھ کر یہ طے کیا ہوگا کہ اس کی تلافی کے لیے کوئی راستہ اختیار کیا جائے اور مسلم حکومتیں اپنے اپنے نصاب تعلیم میں سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم کے حوالے سے معاصر اقوام کے برابر آنے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں۔

او آئی سی کی طرف سے مسلم ممالک کے تعلیمی نصابوں میں تبدیلی کے اس اعلان کے بعد اس سلسلہ میں جو پہلا فیصلہ آیا ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت تعلیم کا ہے کہ ہم اپنے نصاب تعلیم سے نماز کا طریقہ خارج کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف قاضی کے نزدیک مسلمان بچوں کو نماز کا طریقہ سکھانا حکومت یا ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز کا طریقہ سکھائیں۔ اس پر ملک بھر کے دینی حلقوں، خاص طور پر طلبہ تنظیموں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف مقامات پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں مگر ہمارے روشن خیال حکمران پوری دل جمعی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں اس لیے یہ توقع کم دکھائی دے رہی ہے کہ اس احتجاج کا کوئی اثر ہوگا اور حکومت اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کے لیے آمادہ ہوگی۔

اس سے قبل قرآن کریم کی تعلیم کے حوالے سے بھی اسی قسم کی صورتحال پیش آچکی ہے کہ چند سال پہلے وفاقی محتسب اعلیٰ کی طرف سے حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کا اسکولوں میں اہتمام کیا جائے اور مڈل تک بچوں کو ناظرہ قرآن کریم پڑھا دیا جائے۔ لیکن حکومت نے اس سلسلہ میں ہاتھ کھڑے کر دیے تھے جس کی وجہ سے اسکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کا ابھی تک اہتمام نہیں ہو سکا۔ حالانکہ قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں یہ سب سے پہلا اور ابتدائی درجہ ہے کہ مسلمان بچے اور بچیاں قرآن کریم کم از کم ناظرہ تو پڑھ سکیں۔ ممکن ہے اس وقت بھی وزارت تعلیم کے ارباب حل و عقد کے ذہن میں یہی ہو کہ بچوں کو قرآن کریم پڑھانا ہماری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو قرآن کریم پڑھائیں۔

وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف قاضی کا یہ کہنا کہ بچوں کو نماز کا طریقہ سکھانا والدین کا کام ہے، ہمارے نزدیک یہ محض دفع الوقتی یا لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی بات کہہ دینے کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک مستقل سوچ اور فلسفہ کارفرما ہے کہ دین اور دینی معاملات کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سوسائٹی میں دینی امور کا اہتمام کرنا ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے۔ یہ سوچ مجموعی طور پر ہماری قومی پالیسیوں اور حکمران طبقات کے ذہنوں میں پائی جاتی ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً حال ہی میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امداد اور بحالی کا جو پروگرام قومی سطح پر ریاستی ذمہ داری کے حوالے سے شروع کیا گیا ہے اور جس کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر وسائل جمع کر کے حکومتی اداروں کی طرف سے امداد و بحالی کی ترجیحات طے کی گئی ہیں، اس پروگرام میں مسجد اور دینی مدرسے کی بحالی کا کوئی شعبہ موجود نہیں ہے۔ حالانکہ زلزلہ سے متاثر ہونے والے مسلمان جہاں آباد ہوں گے انہیں لازماً مسجد کی ضرورت بھی پڑے گی اور اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لیے وہ دینی مدرسے کی ضرورت بھی محسوس کریں گے۔ امداد و بحالی کا قومی پروگرام تشکیل دینے والوں کے علم میں یہ بات یقیناً ہوگی کہ زلزلے میں جہاں لوگوں کے مکانات، سرکاری عمارتیں، سکول، کالج، عدالتیں اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں بلڈنگیں مسمار اور متاثر ہوئی ہیں، وہاں سینکڑوں مساجد اور دینی مدارس بھی زلزلے کی ز دمیں آئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس سلسلہ میں اب تک سامنے آنے والی قومی پالیسی اور پروگرام میں مسجد اور دینی مدرسے کی بحالی کی کوئی بات شامل نہیں ہے بلکہ ایک مقتدر ترین شخصیت کے قومی پریس کے ذریعے سامنے آنے والے اس ارشاد نے صورتحال کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے کہ ہم نے غیر ملکی این جی اوز سے کہا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں سکول اور کالج کی تعمیر کی طرف فوری توجہ دی جائے ورنہ دینی لوگ مدرسے بنانا شروع کر دیں گے۔

مقتدر شخصیات کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ مسجد اور دینی مدرسے بنانے والوں نے اس سے قبل بھی یہ کام کرنے کے لیے کسی سے نہیں پوچھا تھا اور کسی سرکاری شعبے کی طرف سے امداد پر بھروسہ نہیں کیا تھا اور اب بھی وہ اس تکلف میں نہیں پڑیں گے۔ جہاں جہاں کسی نے مسجد و مدرسہ تعمیر کرنا ہوگا وہ کر لے گا اور کوئی بات اس میں رکاوٹ نہیں بن سکے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ البتہ انہوں نے ایک سوچ کا اظہار ضرور کر دیا ہے کہ ہمارے ان مہربانوں کے نزدیک مسجد و مدرسہ، قرآن کریم کی تعلیم، نماز اور دیگر دینی امور کا قومی ضروریات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ان مقاصد کے لیے ریاستی وسائل کا استعمال ان کے خیال میں درست بات نہیں ہے۔

اس بات کو ایک اور حوالے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان مہربانوں کی طرف سے دینی مدارس کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم دینی مدارس کے نصاب میں سائنس و ٹیکنالوجی شامل کر کے انہیں قومی دھارے میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت دینی مدارس جو تعلیم دے رہے ہیں وہ ان کے نزدیک قومی دھارے کی ضروریات میں سے نہیں ہے، ورنہ وہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات نہ کہتے۔ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ دینی مدارس صرف دینی تعلیم دیتے ہیں اور تعلیم کے باقی شعبوں میں حصہ نہیں لیتے اس لیے وہ قومی دھارے سے الگ ہیں۔ اس سوچ کو اگر قبول کر لیا جائے تو پھر یہ بھی کہا جا سکے گا کہ لاء کالج چونکہ صرف قانون کی تعلیم دیتے ہیں اور قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی تعلیم ان کے نصاب میں شامل نہیں ہے اس لیے وکلاء برادری قومی دھارے میں شامل نہیں ہے، اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے لاء کالجوں کے نصاب میں تبدیلی کر کے اس میں سائنس و ٹیکنالوجی کو شامل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اور پھر یہ بات صرف لاء کالجوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ میڈکل کالج، انجینئرنگ کالج اور اس نوعیت کے دیگر تعلیمی ادارے بھی اسی اصول پر قومی دھارے سے خارج قرار پائیں گے اور انہیں قومی دھارے میں شریک کرنے کے لیے ان کے نصابوں میں دوسرے شعبوں کی تعلیم کو شامل کرنا ضروری ہو جائے گا۔

اس لیے ہمارے نزدیک جناب جاوید اشرف قاضی کا یہ ارشاد کہ بچوں کو نماز کی تعلیم دینا ان کے والدین کی ذمہ داری ہے اور اس بنیاد پر نماز پڑھنے کے طریقے کو قومی نصاب سے خارج کر دینے کا یہ فیصلہ ایک سرسری اور وقتی کارروائی نہیں ہے بلکہ ایک مستقل سوچ اور فلسفے کی نمائندگی کرتی ہے جسے دھیرے دھیرے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر جاوید اشرف قاضی صاحب اور ان کے رفقاء اس بات کا صحیح طور پر اندازہ نہیں کر پا رہے کہ ان کی یہ سوچ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے منافی ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے رائج الوقت دستور سے بھی انحراف ہے۔ اس لیے کہ دستور پاکستان نے قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ، اسلامی تعلیمات کے فروغ اور اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کو حکومت پاکستان کی ذمہ داری قرار دے رکھا ہے۔ جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے، اگر جاوید اشرف قاضی قرآن کریم کا تھوڑا بہت مطالعہ رکھتے ہیں تو یہ بات ان سے مخفی نہیں ہوگی کہ قرآن کریم نے ایمان و عقیدہ کے بعد سب سے زیادہ نماز پر زور دیا ہے اور سینکڑوں آیات کریمہ میں مختلف اور متنوع اسالیب میں نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو نماز کی پابندی کی تلقین کی گئی ہے۔

قرآن کریم نے نماز کو صرف فرد کی ذمہ داری قرار نہیں دیا بلکہ سوسائٹی کی اجتماعی ذمہ داری کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ اسی لیے نماز کے بارے میں صرف یہ حکم نہیں ہے کہ نماز پڑھو بلکہ اقامت صلاۃ یعنی نماز کو معاشرے میں قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں نماز کا ماحول قائم ہو اور نماز کی ادائیگی کا اجتماعی طور پر اہتمام کیا جائے۔ قرآن کریم نے سورہ طہ کی آیت ۱۳۲ میں خاندان کے سربراہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنے گھر کے افراد کو نماز کی ادائیگی کی تلقین کرے اور اس پر کاربند رہے۔ اس طرح نماز کی ذمہ داری فرد سے بڑھ کر خاندان کے دائرے تک وسیع ہوتی ہے بلکہ اجتماعی ذمہ داریوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ جبکہ سورۃ الحج کی آیت ۴۱ میں قرآن کریم نے نماز قائم کرنے یعنی مسلم معاشرے میں نماز کا ماحول بنانے کو مسلم حکمران کی ذمہ داریوں میں بتایا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

’’ان لوگوں کو جب ہم زمین میں اقتدار دیتے ہیں تو وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، نیکی کے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘

اس لیے نماز کا اہتمام اور نماز کے ماحول کا قیام فرد اور خاندان سے آگے بڑھ کر ریاست اور ایک مسلم حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ہمارے حکمران اگر اپنے طرز عمل اور پالیسیوں کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ و سنت کو رہنمائی کا سرچشمہ سمجھتے ہیں تو انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ رسالت مآبؐ اس معاملہ میں کس قدر حساس تھے۔ آپؐ نے ایک موقع پر یہاں تک فرما دیا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ مسجد میں کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود نماز کے دوران ان لوگوں کے گھروں کو دیکھوں جو تندرست اور صحیح ہوتے ہوئے بھی نماز باجماعت میں شریک نہیں ہوتے اور پھر ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق جناب رسول اللہؐ نے فرمایا اگر گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے (جن کا نماز کے لیے مسجد میں آنا ضروری نہیں ہے) تو میں اپنے اس ارادے پر ضرور عمل کر گزرتا۔

   
2016ء سے
Flag Counter