روزنامہ جنگ لاہور ۱۹ جولائی کی اشاعت کے مطابق سینٹ کی خصوصی کمیٹی نے ’’شریعت بل‘‘ کے مسودہ کی منظوری دے دی ہے اور اب اسے چند روز میں سینٹ کے سامنے آخری منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ یہ شریعت بل قائد جمعیۃ مولانا سمیع الحق اور مولانا قاضی عبد اللطیف نے سینٹ میں پیش کیا تھا جس پر سینٹ کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے غور کیا اور مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہنماؤں سے تبادلۂ خیالات کے بعد مناسب ترامیم کے ساتھ اس کے مسودہ کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ایک لیڈر سید حامد علی موسوی کا بیان بھی اخبارات میں آیا ہے جس میں انہوں نے کمیٹی کے منظور کردہ مسودہ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے لیڈروں کا مطالبہ یہ ہے کہ پرسنل لاء کی طرح پبلک لاء میں بھی فقہ جعفریہ کے متوازی نفاذ کی راہ اختیار کی جائے۔ سینٹ کی خصوصی کمیٹی نے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کیا اور اخباری رپورٹ کے مطابق اپنے فیصلہ کی بنیاد اس مسلمہ اصول پر رکھی ہے کہ پبلک لاء ملک کی اکثریت کے عقائد و احکام کے مطابق ہوگا۔
ہمارے نزدیک کمیٹی کا یہ فیصلہ اصولی اور منطقی ہے کیونکہ ایک ملک میں دو پبلک لاء نافذ نہیں ہو سکتے۔ ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب فکر کے ۳۱ علماء کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات میں اس اصول کو تسلیم کیا تھا جس پر شیعہ قائدین کے دستخط موجود ہیں۔ اور خود ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد ایرانی دستور میں بھی اسی اصول کو اپنایا گیا ہے۔ اس لیے ہم شیعہ لیڈروں سے گزارش کریں گے کہ وہ ایک غیر اصولی اور غیر منطقی مطالبہ پر بے جا اصرار کر کے ’’شریعت بل‘‘ کی منظوری میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس کا فائدہ ملک کی لادین اور سیکولر قوتوں کے سوا کسی کو نہیں ہوگا۔