راقم الحروف کو مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک کارکن اور پھر ایک رفیق کار کے طور پر کم و بیش پندرہ برس تک کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اور میرے لیے یہ بات بھی سعادت و افتخار کی ہے کہ ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں منعقدہ اجلاس میں جب پہلی بار مجھے جمعیۃ کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات منتخب کیا تو میرا نام پیش کرنے والے اور مجلس شوریٰ کو بحث اور دلائل کے ساتھ اس پر قائل کرنے والے خود مولانا مفتی محمودؒ تھے۔ اس لیے آج جب ان کی یاد میں کچھ لکھنے کے لیے قلم ہاتھ میں لیے خیالات کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہوں تو یادوں اور واقعات کا ایک متنوع سلسلہ ہے جو ذہن کی اسکرین پر باری باری منعکس ہو رہا ہے۔ مگر ان میں سے صرف ایک پہلو پر آج کی محفل میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ مولانا مفتی محمودؒ ایک مفتی اور فقیہ کی حیثیت سے اسلامی احکام کی تشریح، ترجمانی اور دفاع کی ذمہ داری سے کس تدبر اور بصیرت کے ساتھ عہدہ برآ ہوتے تھے؟
افتاء اور تفقہ میں ابتداء اسلام سے دو الگ الگ ذوق پائے جاتے ہیں۔
- ایک ذوق سختی اور تشدد کا ہے کہ مسئلہ بیان کرنے اور فتویٰ دینے میں کسی قسم کی کوئی لچک نہ دی جائے کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ لچک دینے کی صورت میں اس سے اکثر ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہ ذوق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا تھا اور ہر دور میں اس ذوق کے حامل علماء کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے۔
- دوسرا ذوق رخصت اور لچک کا ہے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو شرعی اصولوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہر ممکن سہولت اور لچک فراہم کی جائے اور اسے مشکل اور الجھن سے نکالنے کی حتی الوسع کوشش کی جائے۔ یہ ذوق حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا تھا اور اس ذوق کے حاملین بھی ہر دور میں موجود چلے آرہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور کے ایک بڑے عالم دین سے فرمائش کی کہ وہ ان کے لیے احکام و مسائل کا ایک مجموعہ مرتب کر دیں لیکن ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ احکام اور مسائل لکھتے وقت عبد اللہ بن عمرؓ کی سختی اور عبد اللہ بن عباسؓ کی نرمی سے بچنا اور درمیان کی یعنی اعتدال اور توازن کی راہ اختیار کرنا۔ چنانچہ یہ دونوں ذوق شروع سے چلے آرہے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت کا تقاضہ بھی ہے تاکہ عام لوگوں کی ضروریات اور زمانے کے تقاضوں اور رجحانات کے مطابق ضرورت پڑنے پر ان میں سے کسی سے بھی استفادہ کیا جا سکے۔
راقم الحروف کو دونوں طرح کے مفتی صاحبان سے استفادہ کا موقع ملا ہے۔ گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور علاقہ کے سب سے بڑے مفتی مولانا مفتی عبد الواحدؒ تھے جو بلاشبہ ایک متبحر عالم دین اور فقیہ النفس مفتی تھے۔ میں نے درس نظامی سے فراغت کے بعد عملی زندگی کا آغاز جامع مسجد میں ان کے نائب کی حیثیت سے کیا اور سالہا سال ان کی نیابت کے فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا۔ ان کا ذوق سختی اور تشدد کا تھا اور وہ کسی مسئلہ میں ذرہ بھر لچک دینے کے روادار نہ تھے بلکہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مسئلہ کے مختلف پہلوؤں میں جو سب سے زیادہ سخت ہو اسے بیان کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ تھوڑی سی لچکد یں گے تو لوگ اس لچک کا دائرہ خودبخود وسیع کر لیں گے اور پھر معاملات کو کنٹرول میں رکھنا آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا۔
دوسری طرف جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت مولانا مفتی محمود کے ہاتھ میں تھی اور مجھے ایک کارکن اور قریبی ساتھی کے طور پر ان کی رفاقت میسر تھی۔ ان کا ذوق نرمی اور سہولت کا تھا اور وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کوئی شخص مسئلہ پوچھنے آیا ہے تو اس بات کو غنیمت سمجھو کہ وہ دین کے دائرے میں رہنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے جتنی سہولت فراہم کر سکتے ہو اس کے لیے پوری کوشش کرو اور اصول کے دائرے کو قائم رکھتے ہوئے فروع و جزئیات میں زیادہ سختی نہ کرو۔ امت کے اجتماعی مسائل و مشکلات کے حوالہ سے احکام و مسائل کی تشریح میں بھی ان کا ذوق یہی تھا اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی مسئلہ میں شرعی اصول و قواعد کی حدود میں رہتے ہوئے نرمی اور سہولت کا راستہ اختیار کیا جائے اور مسئلہ کو الجھانے اور ڈیڈلاک کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل اور سلجھاؤ کی کوئی صورت نکالی جائے۔
اس سلسلہ میں ایک مسئلہ کا حوالہ دینا شاید نامناسب نہ ہو کہ ۱۹۷۳ء کی دستور ساز اسمبلی میں جب اسمبلیوں میں خواتین کی رکنیت کا مسئلہ سامنے آیا تو دینی حلقوں میں اچھی خاصی بحث چھڑ گئی کہ اسلام نے مردوں اور عورتوں کے درمیان فرائض و حقوق کی جو تقسیم کی ہے اور حجاب کی جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی موجودگی میں منتخب اسمبلیوں میں عورتوں کی رکنیت کا کوئی جواز بھی ہے یا نہیں۔ بہت سے علماء کا موقف یہ تھا کہ چونکہ اسمبلیوں میں پردہ اور حجاب کی پابندیاں برقرار نہیں رکھی جا سکتیں اس لیے عورتوں کا اسمبلیوں کا ممبر بننا شرعاً درست نہیں ہے۔ مگر مولانا مفتی محمودؒ نے اس سے الگ موقف اختیار کیا، ان کا کہنا تھا کہ اسلام عورت کو کسی بھی معاملہ میں رائے دینے کے حق سے محروم نہیں کرتا اور دورِ خلافتِ راشدہ میں علمی اجتماعی مسائل میں خواتین سے رائے لینے اور اس پر عمل کرنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے ہمیں ان کے اس حق کو تسلیم کرنا چاہیے البتہ پردہ کے شرعی مسائل کے پیش نظر یہ صورت اختیار کی جائے کہ کسی اسمبلی یا مشترک ایوان کی رکنیت کے لیے عورتوں کی عمر کی وہ حد مقرر کر دی جائے جس عمر میں فقہاء نے بھی پردہ کی پابندی نرم کر دی ہے۔
اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ عورت جب بچے کی ولادت کی عمر سے گزر جاتی ہے اور اس کو ماہواری آنے کا سلسلہ بھی بند ہو جاتا ہے تو شریعت کی اصطلاح میں وہ ’’آئسہ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کے لیے فقہاء حجاب اور مردوں کے ساتھ عدم اختلاط کی وہ پابندیاں اس قدر ضروری نہیں سمجھتے جو اس سے قبل اس پر شرعاً عائد تھیں۔ اور عام طور پر چالیس پینتالیس کی عمر تک پہنچ کر عورت اس حد میں داخل ہو جاتی ہے۔ مولانا مفتی محمودؒ کا موقف یہ تھا جس کا انہوں نے کئی مجالس میں ہمارے سامنے اظہار کیا کہ عورتوں کو اسمبلیوں کی رکنیت سے نہ روکا جائے البتہ ان کی عمر کی حد مقرر کر دی جائے اور اسمبلیوں میں ان کی نشستیں الگ کر دی جائیں اس طرح دونوں مسئلے حل ہو جائیں گے، خواتین کا رائے کا حق بھی مجروح نہیں ہوگا اور حجاب کے شرعی احکام کی خلاف ورزی سے بھی ہم محفوظ رہیں گے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امت کے اجتماعی مسائل میں بحیثیت مفتی اور فقیہ مولانا مفتی محمود کا ذوق کیا تھا اور وہ کس تدبر اور بصیرت کے ساتھ مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مفتی صاحبؒ کو قدرت نے اسلامی احکام و مسائل کی حکیمانہ تشریح اور دفاع کا بھی خصوصی ذوق عطا کیا تھا اور وہ اسلامی قوانین پر اعتراضات کے جواب میں پورے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے منطق و استدلال کا ایسا حصار قائم کر دیتے تھے کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کے لیے ان کے دلائل کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں جب حدود آرڈیننس کے نفاذ کا مرحلہ آیا تو زنا کی شرعی سزا کے طور پر رجم کے قانون کا نفاذ اچھا خاصا مسئلہ بن گیا۔ آج کی دنیا میں جرائم کی جسمانی سزاؤں مثلاً قتل کرنے، ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے، سنگسار کرنے اور سرعام سزا دینے کو جدید کلچر اور اقوام متحدہ کے منشور کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ بالخصوص رجم یعنی سنگسار کرنے کی سزا بہت زیادہ سخت متصور ہوتی ہے اس لیے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ شادی شدہ مرد اور عورت کو زنا کی سزا بے شک موت ہی کی صورت میں دی جائے لیکن اس کا طریق کار بدل کر اگر سنگسار کرنے کی بجائے گولی یا پھانسی کی شکل میں موت کی سزا تجویز کر دی جائے تو اس صورت میں بھی اس سزا کی سنگینی کو دنیا کی نظروں میں خاصا کم کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں عالم اسلام کے معروف عالم دین اور محقق ڈاکٹر محمد معروف الدوالیسی ان دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے جو ممتاز علمی شخصیت ہیں، متعدد علمی کتابوں کے مصنف ہیں، ایک دور میں شام کے وزیراعظم رہے ہیں اور آج کل سعودی حکومت کے مشیر کے طور پر ریاض میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مولانا مفتی محمود پاؤں کے انگوٹھے کے زخم کے سلسلہ میں راولپنڈی صدر کے ملٹری ہسپتال میں زیرعلاج تھے، ڈاکٹر معروف الدوالیسی ان سے ملاقات کے لیے ہسپتال آئے اور دونوں میں اس مسئلہ پر اچھی خاصی بحث ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف یہ تھا کہ اگر زنا کی سزا میں ہم رجم کی بجائے گولی کے ذریعہ موت کی سزا تجویز کر دیں تو بھی شریعت کا تقاضہ پورا ہو جائے گا۔ مگر مفتی صاحب نے انہیں جو جواب دیا اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کے سوا ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں تھا اس لیے انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑی۔
مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ رجم کی صورت میں اسلام کا اصل منشا سزا دینا نہیں ہے بلکہ خوف اور عبرت کی فضا قائم کرنا ہے تاکہ کوئی مرد یا عورت اس قبیح جرم کے قریب جانے کی جرأت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جرم میں واقعہ کا عدالتی ثبوت اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ گواہوں کے ذریعہ زنا کا ثبوت عام حالات میں کسی عدالت میں ممکن ہی نہیں، الاّیہ کہ کوئی شاذ و نادر صورت ایسی پیش آجائے۔ اور اس جرم میں اعتراف ہی وہ واحد صورت ہے جس کے بعد کسی کو رجم کی سزا مل سکتی ہے اور اعتراف بھی ایک بار نہیں بلکہ چار بار اور پوری صراحت کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ پھر شریعت مجرم کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اگر اعتراف اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی کسی مرحلہ میں اپنے اعتراف سے منحرف ہو جائے تو اس سنگین سزا سےبچ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جب پتھر مارے جا رہے ہوں اس وقت بھی اسے حق ہے کہ وہ بھاگ جائے اور اس کا یہ بھاگ جانا ہی اعتراف سے انحراف تصور کیا جائے گا۔ اس لیے اگر اسے اعتراف کے بعد موت کی سزا گولی کی صورت میں دی جائے تو وہ ایک لمحہ میں ہی ختم ہو جائے گا جبکہ پتھر مارنے کی صورت میں اسے آخری پتھر کھانے سے پہلے بھی بھاگ جانے اور جان بچانے کا حق حاصل ہے۔ اس لیے گولی یا پھانسی کی شکل میں موت کی سزا دینے سے شریعت کا تقاضا پورا نہیں ہوتا اور مجرم کا جان بچانے کا حق قبل از وقت ختم ہو جاتا ہے۔
الغرض مولانا مفتی محمودؒ ایک صاحب بصیرت مفتی اور فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی احکام و قوانین کے ایک باشعور وکیل اور ترجمان بھی تھے جن کی یادیں اور تعلیمات اربابِ علم و دانش کے لیے ایک عرصہ تک مشعلِ راہ کا کام دیتی رہیں گی۔