جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کے سربراہ مولانا محمد فہیم سے ملاقات

   
۲۸ اگست ۱۹۸۷ء

سوات سے تعلق رکھنے والے بزرگ عالم دین مولانا محمد فہیم کو جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ متحدہ عرب امارات کا دوبارہ متفقہ طور پر امیر منتخب کر لیا گیا ہے۔ مولانا موصوف ۱۹۸۰ء سے، جب سے جمعیۃ اہل السنۃ قائم ہوئی ہے، اس کے امیر چلے آرہے ہیں۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ للدعوۃ والارشاد متحدہ عرب امارات کی سطح پر گزشتہ سات برس سے کام کر رہی ہے اور اس میں متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علماء اور دینی کارکن شریک ہیں۔ تمام ریاستوں میں جمعیۃ کی باقاعدہ شاخیں کام کر رہی ہیں۔ جمعیۃ اہل السنۃ کے مقاصد میں مسلمانوں کو دینی احکام و روایات کی پیروی کی طرف راغب کرنا، توحید و سنت کا پرچار، شرک و بدعت سے مسلمانوں کو بچانا اور اسلامی احکام و مسائل کی اشاعت شامل ہے۔ ان مقاصد کے لیے جمعیۃ لٹریچر شائع کرتی ہے او رمختلف مساجد میں قرآن کریم اور حدیث رسولؐ کے درس اور دینی اجتماعات کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش سے جو علماء متحدہ عرب امارات آتے ہیں جمعیۃ ان کی آمد سے بھرپور استفادہ کی کوشش کرتی ہے۔

مولانا محمد فہیم کا تعلق ضلع سوات کی تحصیل الپوری کے علاقہ شنگلہ پار کانا سے ہے وہ ۱۹۷۷ء سے دوبئی میں مقیم ہیں اور القصیص نمبر ۱ کی جامع مسجد ابوبکر صدیقؓ میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ مولانا موصوف تحریک آزادی کے ممتاز راہنما مولانا محمد صادقؒ کے شاگردوں میں سے ہیں اور ۱۹۵۴ء میں انہوں نے مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی میں مولانا مرحوم سے دورۂ حدیث پڑھ کر سندِ فراغت حاصل کی اور اس کے بعد سے مسلسل دینی خدمات میں مصروف ہیں۔ گزشتہ دنوں راقم الحروف کو قاہرہ جاتے ہوئے چند روز متحدہ عرب امارات میں قیام کا موقع ملا تو جمعیۃ اہل السنۃ کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوئی اور بے حد خوشی ہوئی کہ ہمارے علماء بیرونی ممالک میں جا کر بھی مسلمانوں کی دینی راہنمائی کے سلسلہ میں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوئے۔ مولانا محمد فہیم شفقت فرماتے ہوئے راقم الحروف کے خیرمقدم کے لیے دوبئی ایئرپورٹ پر تشریف لائے اور اس کے بعد بھی قیام کے پورے عرصے کے دوران ان کی شفقتوں کا یہ سلسلہ قائم رہا۔

جمعیۃ اہل السنۃ نے دوبئی کی مسجد الغریر القصیص نمبر ۳ کی مرکزی جامع مسجد اور مسجد شیوخ شندخہ کے علاوہ شارجہ، عجمان، رأس الخیمہ اور ابوظہبی میں بھی دینی اجتماعات اور علماء اور کارکنوں سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا اور ان حضرات سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا۔ مولانا محمد فہیم سے ملاقاتوں کے دوران عالم اسلام سے متعلقہ مختلف معاملات پر تفصیل سے تبادلۂ خیالات ہوا اور انہوں نے ان مسائل پر اپنے اور جمعیۃ اہل السنۃ کے نقطۂ نظر کا اظہار فرمایا۔

عالمِ اسلام اور نفاذِ شریعت

مولانا موصوف نے کہا کہ عالمِ اسلام اس وقت ایک ارب کے قریب آبادی اور بے پناہ وسائل کے باوجود باہمی خلفشار اور بڑی طاقتوں کے سامنے بے بسی کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے والے رشتہ کی طرف مسلمانوں کی توجہ نہیں ہے۔ اور وہ رشتہ شریعتِ اسلامیہ ہے جس کے عملی نفاذ کی بجائے مسلم ممالک جدید نظاموں اور افکار مثلاً مغربی جمہوریت، سوشلزم اور سیکولرازم وغیرہ میں عافیت ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کو متحد رکھنے والی چیز شریعتِ اسلامیہ ہے۔ اور عالمِ اسلام کے حقیقی اتحاد اور یک جہتی کے لیے شرطِ اول یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک بیرونی نظریات اور نظاموں کو خیرباد کہہ کر شریعت اسلامیہ کو عملی طور پر نافذ کر دیں اور ملتِ اسلامیہ کو نظریاتی وحدت اور نظامِ حیات کی یک جہتی کے اس رشتہ میں جوڑ کر ایک عظیم قوت بنانے کا آغاز کریں۔

پاکستان اور ایٹمی توانائی

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے سلسلہ میں امریکی دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایٹمی توانائی کا حصول بلکہ ایٹم بم بنانا پاکستان کا حق ہے اور اس بارے میں پاکستان کو کسی بڑی سے بڑی طاقت کے دباؤ کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ یہ طاقتیں اگر ایٹمی اسلحہ کے پھیلاؤ کو انسانی آبادی کے لیے خطرہ قرار دیتی ہیں تو سب سے پہلے خود اپنے ایٹمی اسلحہ کے ذخیرہ کو ضائع کیوں نہیں کر دیتیں؟ اور پھر یہ عالمی قوتیں اس وقت کہاں تھیں جب بھارت اور اسرائیل ایٹم بم بنا رہے تھے، اس وقت انہیں یہ حفاظتی ضابطے کیوں بھول گئے؟ یہ ساری باتیں انہیں پاکستان کے لیے یاد آئی ہیں، یہ سب دھوکہ ہے۔ اصل بات صرف یہ ہے کہ امریکی اور دوسری عالمی طاقتیں عالمِ اسلام کے ممالک بالخصوص پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم رکھنا چاہتی ہیں اور ان کی پالیسی یہ ہے کہ اسرائیل اور بھارت کے مقابلہ پر مسلمانوں کو قوت کا توازن حاصل نہ ہو۔ اس لیے حکومتِ پاکستان کو کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے اور ایٹمی پروگرام کو نہ صرف جاری رکھنا چاہیے بلکہ معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے ترقیاتی اور دفاعی دونوں مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کے بھرپور حصول کو اپنی منزل قرار دینا چاہیے کیونکہ عالم اسلام کے اجتماعی مفاد کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔

جہادِ افغانستان اور عالمِ اسلام

جہادِ افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا موصوف نے کہا کہ روس کی مسلح جارحیت اور تسلط کے خلاف افغانستان کے غیور مسلمان جو مزاحمت کر رہے ہیں وہ شرعی طور پر بلاشبہ جہاد ہے اور اس جہاد میں افغان حریت پسندوں کی مدد کرنا دنیا بھر کے مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے۔ افغانستان کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ روسی افواج غیر مشروط طور پر افغانستان سے چلی جائیں اور افغان عوام کو اپنی مرضی کے ساتھ اپنے ملک کے نظامِ حکومت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس وقت روس اور امریکہ مشترکہ طور پر اس کوشش میں نظر آتے ہیں کہ روسی فوجوں کی واپسی کی صورت میں افغانستان میں مجاہدین کی حکومت نہ بننے پائے بلکہ ایک نیم سیکولر طرز کی حکومت بن جائے۔ اسی مقصد کے لیے ظاہر شاہ کی واپسی کی بات ہو رہی ہے لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ روسی جارحیت اور مسلح مداخلت کے خلاف مزاحمت کی جدوجہد شرعی بنیادوں پر جہاد کے عنوان سے کی گئی ہے جو اس دور میں افغان مجاہدین کا عظیم کارنامہ ہے۔ اس لیے اس خالصتاً دینی جدوجہد کی بنیاد پر سیکولر حکومت کی عمارت قائم نہیں کی جا سکتی اور اگر زبردستی قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ برقرار نہیں رہ سکے گی۔ افغان مجاہدین کی دینی جدوجہد کا منطقی اور فطری نتیجہ ایک خالص شرعی حکومت کا قیام ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر افغانستان میں شرعی حکومت قائم ہوگئی تو وہ اسلام کے عملی نفاذ کی ایک صحیح اور مکمل شکل ہوگی جس سے نہ صرف جنوبی ایشیا کے دیگر مسلمان ممالک میں اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی راہ ہموار ہو جائے گی بلکہ روس کے زیر تسلط وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں میں دینی بیداری اور جذبۂ حریت کے فروغ کا عمل بھی تیز تر ہو جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ مرحلہ افغان مجاہدین کی عظیم جدوجہد کا نازک ترین مرحلہ ہے اور مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع پر بڑی طاقتوں کے مفادات کے پسِ منظر سے ہٹ کر خالص نظریاتی بنیادوں پر افغان مجاہدین کی سیاسی اور مالی مدد کریں۔

پاکستان اور نفاذِ اسلام

پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے جذبات اور دعائیں پاکستان کی دینی قوتوں کے ساتھ ہیں اور ہم اس معاملہ میں پاکستان کی تمام دینی قوتوں کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔ سینٹ آف پاکستان کی طرف سے ’’شریعت بل‘‘ کو جب رائے عامہ کے لیے مشتہر کیا گیا تو ہم نے متحدہ عرب امارات سے ہزاروں کی تعداد میں محضرنامے اس کی حمایت میں سینٹ کو بھجوائے۔ صرف دوبئی سے دس ہزار محضرنامے ارسال کیے گئے جبکہ دوسری ریاستوں سے اجتماعی اور انفرادی طور پر بھجوائے جانے والے محضرناموں کی تعداد اس سے الگ ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور اس وقت کے وزیرِ قانون اقبال احمد خان دوبئی آئے تو جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کی طرف سے پاکستانی علماء کے بارہ رکنی وفد نے جمعیۃ کے سرپرستِ اعلیٰ شیخ التفسیر مولانا محمد اسحاق مدنی کی سربراہی میں ان سے ملاقات کی اور نفاذِ شریعت کے سلسلہ میں حکومتِ پاکستان کے رویہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ شریعت بل کو مکمل طور پر من و عن منظور کیا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ شریعت بل جلد از جلد منظور ہو کر نافذ ہو اور شریعت بل کی مخالفت کرنے والے دینی حلقوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ نفاذِ شریعت کے مطالبہ کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کی حمایت کر کے اسے منظور کرانے کی کوشش کریں۔

پاکستان میں دھماکے

پاکستان میں تخریب کاری کی وارداتوں اور دھماکوں سے ہونے والے بے پناہ جانی اور مالی نقصانات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مولانا محمد فہیم نے کہا کہ ہم بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ایسے واقعات پر دہرا صدمہ پہنچتا ہے۔ ایک تو اپنے ملک اور ہم وطنوں کے نقصان پر اور دوسرا دوسرے ممالک کے لوگوں کے سامنے ملک کی بدنامی پر لیکن ہم بے بس ہوتے ہیں۔ ان دھماکوں کے اسباب کچھ بھی ہوں ان کی روک تھام کرنا اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے اور اسے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

مکہ مکرمہ کا سانحہ

مکہ مکرمہ میں حج کے موقع پر ایرانی عازمینِ حج کے مظاہروں اور سعودی پولیس کے ساتھ ان کے تصادم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ حرم پاک کی سرزمین جسے قرآن کریم نے امن و سلامتی کی زمین قرار دیا ہے گروہی سیاست کے باعث خون سے رنگین ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو کھلا شہر قرار دینے اور سعودی حکومت کے کنٹرول سے آزاد کرانے کا جو مطالبہ ایک عرصہ سے کیا جا رہا ہے یہ کارروائی اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک منصوبہ کے تحت کی گئی ہے اور ہر سال مکہ مکرمہ میں سیاسی مظاہروں کا مقصد بھی یہی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ مطالبہ قطعی طور پر غلط اور غیر اصولی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے یہ دونوں مقدس شہر فرقہ وارانہ کشیدگی کی آماجگاہ بن جائیں گے اور دنیا بھر سے عبادت اور حج و عمرہ کے لیے آنے والے مسلمانوں کا سکون تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ سعودی حکومت کے ساتھ ہمارے بھی فقہی اختلافات ہیں، وہ حنبلی ہیں او رہم حنفی ہیں لیکن حرمین شریفین کے تقدس کو برقرار رکھنے اور دنیا بھر سے آنے والے مسلمانوں کے ذہنی سکون کو تباہی سے بچانے کے لیے ہم سعودی حکومت کی پالیسی اور انتظامی اقدامات کی حمایت کرتے ہیں اور حجازِ مقدس کی جائز اور قانونی حکومت کی حیثیت سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر سعودی حکومت کے انتظامی کنٹرول کے تسلسل کو ضروری اور ناگزیر تصور کرتے ہیں۔

بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل

متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے زیادہ شکایت اپنے ملک کے کسٹم کے عملہ سے ہے کیونکہ جو لوگ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ضرورت کی اشیاء لے جاتے ہیں اور رشوت دینے سے گریز کرتے ہیں انہیں زیادہ تنگ کیا جاتا ہے اور کسٹم حکام کا رویہ بسا اوقات توہین آمیز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اب بیرونی ممالک سے پاکستانیوں کی واپسی کا عمل تیز ہو رہا ہے لیکن ملک کے اندر ان کے متبادل روزگار کا مسئلہ دن بدن الجھتا جا رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ باہر سے آنے والے پاکستانیوں کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کرے، چھوٹی چھوٹی صنعتوں کے منصوبے بنائے جائیں اور باہر سے آنے والی دولت کو ان منصوبوں کے ذریعے ترقیاتی کاموں پر کھپایا جائے۔ اس سے یہ دولت بھی صحیح مصرف پر خرچ ہوگی اور روزگار کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہو جائے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter