اجتہاد کے حوالہ سے نوجوان نسل کے ساتھ ایک مذاکرہ کی روئیداد

   
یکم جولائی ۲۰۰۶ء

اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۶ جون کو اسلام آباد میں اجتہاد کے حوالہ سے نوجوان نسل کے ساتھ ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس کی صدارت جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے کی اور اس میں نوجوانوں کے سوالات کا جائزہ لینے اور ان پر رائے کااظہار کرنے کے لیے ماہرین کے پینل میں راقم الحروف کو بھی شامل کیا گیا۔ جبکہ پینل میں محترم جاوید احمد غامدی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائریکٹر محترم ڈاکٹر منظور احمد شامل تھے۔ نوجوانوں کی نمائندگی کے لیے اسلامی یونیورسٹی، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نمل یونیورسٹی، فاطمہ جناح یونیورسٹی اور جامعہ فریدیہ اسلام آباد کے طلبہ وطالبات نے مذاکرہ میں حصہ لیا۔ کمپیئرنگ کے فرائض جناب خورشید احمد ندیم اور جناب سید احمد مسعود نے سرانجام دیے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر خالد مسعود نے میزبان کے طور پر مقصد اور پروگرام پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

مذاکرہ کا عنوان تھا ’’نوجوان کیاسوچ رہے ہیں؟ جدید مسائل اور اجتہاد‘‘۔ اور اس عنوان کی وضاحت مذاکرہ کے لیے جاری کیے جانے والے دعوت نامہ میں یوں کی گئی تھی:

’’امت مسلمہ اس وقت بہت سے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی مسائل سے دوچار ہے جن کے بارے میں ہم اکثر دانش وروں کے خیالات سنتے رہتے ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں نوجوان کیاسوچتے ہیں، اس پر گفتگو بہت کم سننے کو ملتی ہے۔ اس نشست میں دانش وروں اور نوجوان طبقہ کے درمیان اس بات پر مذاکرہ ہوگا کہ ان مسائل کے حل کے لیے کیا طریق کار اپنایا جائے۔ عالم اسلام میں اکثر یہ کہاجاتا ہے کہ ان مسائل کا حل اجتہاد سے ممکن ہے، اور اس اجتہاد کو عملی جامہ پہنانے کی کیاشکل ہوگی؟ ماہرین کا ایک پینل جس میں ڈاکٹر منظور احمد، جناب جاوید احمد غامدی، مولانا زاہد الراشدی اور جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال شامل ہیں ان سوالات پر اظہار خیال کریں گے۔ نوجوان جن میں یونیورسٹی اور مدارس کے طلبہ شامل ہیں اس موضوع پر اپنی آراء پیش کریں گے اور سوالات اٹھائیں گے، بعد میں ماہرین ان آراء کا تجزیہ کریں گے اور ان پر تبصرے پیش کریں گے۔‘‘

مذاکرہ کے آغاز پر چند منٹ کا ایک ویڈیو پروگرام دکھایا گیا جس میں مختلف حضرات اور خواتین سے اسلام کے بارے میں ان کے جذبات وتاثرات مختصرًا شامل کیے گیے ہیں۔ اس کے بعد نوجوانوں کو اس سوال پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی کہ ان کے خیال میں اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ مختلف طلبہ اور طالبات نے اس پر اظہار خیال کیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  • اسلام کا امیج خراب کیا جا رہا ہے اور اسلام کے بارے میں منفی تاثر پھیلایا جارہا ہے۔
  • مسلمان اسلام سے دور ہوگئے ہیں اور جب تک وہ اسلام کے قریب نہیں آئیں گے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تاثرات درست نہیں ہوں گے۔
  • مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے منظم اور شعوری کوشش کی جارہی ہے۔
  • ہر شعبہ میں کرسیوں پر بونے لوگ بیٹھے ہیں، اہل علم و دانش کو دور رکھاجارہا ہے اور اجتہاد کی اہلیت رکھنے والوں کو ان کا صحیح مقام نہیں مل رہا۔
  • مسائل کا حل صرف قرآن و سنت کو اپنانے میں ہے۔
  • ہمارے پاس صحیح علم نہیں ہے اور ہم صرف سطحی اور عام قسم کی معلومات رکھتے ہیں۔
  • ہم اخلاقیات سے دور ہٹ گئے ہیں۔
  • ہم مسائل کو نظر انداز کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
  • اسلام کے بارے میں نوجوانوں کا تصور واضح نہیں ہے۔
  • مسلم امہ کی ثقافت ختم ہوگئی ہے اور غیروں کی ثقافتیں ہم پر غالب ہوتی جا رہی ہیں۔
  • ہم صرف اپنے حوالہ سے سوچ رہے ہیں جبکہ ہمیں پوری انسانیت کے حوالہ سے سوچنا چاہیے۔
  • مغرب بہت سے معاملات میں ہمارے اصولوں کو اپنائے ہوئے ہے اور ہم نے اپنے اصول چھوڑ رکھے ہیں۔ وغیر ذلک۔

مختلف نوجوانوں کی طرف سے اس قسم کے خیالات کے اظہار کے بعد ان میں سے چند سوالات کا انتخاب کر کے ماہرین کے پینل کو اظہار خیال کے لیے دعوت دی گئی۔ ماہرین کے پینل میں جناب جاوید احمد غامدی تشریف نہیں لائے تھے، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، جناب ڈاکٹر منظور احمد اور راقم الحروف نے اظہار خیال کیا۔ راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سب سے پہلے تو میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کا رابطہ ملک کی رائے عامہ اور عمومی ماحول کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ورنہ اس سے قبل یہ صورت حال تھی کہ اسلامی نظریاتی کونسل ملک کے قوانین کے بارے میں جو رائے قائم کرتی تھی اور ان کے حوالہ سے جو سفارشات پیش کرتی تھی ہماری ان رپوٹوں تک رسائی نہیں ہوتی تھی اور ان پر’’صرف سرکاری استعمال کے لیے‘‘ کا لیبل چسپاں کرکے انہیں فریزر میں منجمد کر دیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بند کھڑکیاں کھول کر اچھا قدم اٹھایا ہے، اس سے ہمیں کونسل کے کام سے استفادہ کا موقع ملے گا اور کونسل کی محنت کا بھی عمومی حلقوں میں تعارف ہوگا۔ میں اس بات پر بھی ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے نوجوان نسل کے نمائندوں کے ساتھ ہماری اس نشست کا اہتمام کیا ورنہ عام طور پر ان نوجوانوں کے ساتھ ہمیں ملی مسائل پر گفتگو اور ان کے خیالات معلوم کرنے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔

اس کے بعد اس سوال پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں ہمارے نوجوانوں کا تصور واضح نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن ہمیں ا س کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا، میرے خیال میں اس کے تین اسباب ہیں:

  1. کسی چیز کے بارے میں تاثرات اور تصورات اس کے بارے میں معلومات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں، اور یہ امر واقعہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو عمومی سطح پر اسلام کے حوالہ سے صحیح معلومات مہیا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ نوجوانوں کو اسلام کے بارے میں جس قسم کی معلومات میسر آئیں گی ان کا اسلامی تصور بھی اسی دائرے میں تشکیل پائے گا۔
  2. عمومی ماحول بھی ذہنوں میں تصورکی تشکیل اور تاثرکے وجود میں آنے کاسبب بنتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے ہمارا موجودہ معاشرتی ماحول ایسا نہیں ہے کہ اسے دیکھ کر اسلام کے بارے میں کوئی اچھا تاثر ذہنوں میں قائم ہو۔ ہماری نوجوان نسل جس ماحول میں پرورش پاتی ہے اور اپنے اردگرد تضادات اور منافقت کا جو تسلسل دیکھتی ہے اس سے وہی کنفیوژن جنم لیتا ہے جس کی ہم اپنے نوجوانوں کے حوالہ سے شکایت کر رہے ہیں۔
  3. نئی نسل کو اسلام کے بارے میں صحیح معلوما ت فراہم کرنے، مناسب فکری ماحول مہیا کرنے اور ان کے لیے مثالی راہنمائی کا اہتمام کرنے میں مذہبی قیادت اور مذہب کی نمائندگی کرنے والوں کا کردار تسلی بخش نہیں ہے اور وہ ان ضروریات اور ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتے جو اس کے لیے ناگزیر ہیں، اس لیے اگر اسلام کے بارے میں ہماری نئی نسل کا تصور واضح نہیں ہے اور وہ کنفیوژن کا شکار ہے تو میں اسے زیادہ قصوروار نہیں سمجھتا۔ ہمیں اس کے اسباب کا جائزہ لینا ہوگا اور انہیں دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہوگی۔

دوسرا سوال جس پر کچھ گزارشات کرنا ضروری سمجھتا ہوں یہ ہے کہ عام طور پر کہا جاتا ہے اور ہمارے بعض نوجوانوں نے آج بھی کہا ہے کہ قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کیے بغیر ہم اپنی مشکلات پر قابو نہیں پاسکتے اور اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے۔ یہ با ت درست ہے اور ہمارے عقائد کاحصہ ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ قرآن وسنت کے بعد اجتہاد بھی ہماری رہنمائی اور مسائل کے حل کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے اور اس کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے۔ اجتہاد کا عمل اسلام میں چودہ سو سال سے جاری ہے اور آج بھی اس کی اہمیت اور ضرورت مسلمہ ہے لیکن اس سلسلہ میں ایک فرق ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب تک مسلمان اقتدار میں رہے ہیں اجتہاد کا عمل اجتماعی طور پر رہا ہے جس کی ایک مثال خلافت عثمانیہ کے دور میں ’’مجلۃ الاحکام الاسلامیہ‘‘ کی ترتیب اور اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ کی تدوین کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لیکن جب ہم اقتدار سے محروم ہوگئے اور کوئی ملی ادارہ موجود نہ رہا تو اجتہاد کے اس عمل نے انفرادی حیثیت اختیار کر لی۔ آج بھی اجتہاد ہو رہا ہے اور ہر علاقے میں ہو رہا ہے لیکن انفرادی سطح پر شخصیات یا اداروں کے ذریعہ ہو رہا ہے۔ اس عمل کو حکومتی تحفظ یا سرپرستی حاصل نہیں ہے اور اس میں اجتماعیت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے اجتہاد کے عمل کا خلا محسوس ہو رہا ہے۔

آج اس شعبہ میں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام کے مختلف حلقوں میں ہونے والے اجتہادی عمل میں ربط پیدا کیاجائے، باہمی مشاورت کی کوئی صورت نکالی جائے اور ایک دوسرے کے کام سے استفادہ کیاجائے۔ اس سے بھی اجتماعیت کی ایک صورت پیدا ہوگی اور ضروری تقاضوں کی تکمیل کی طرف پیش رفت ہوگی۔ مجھے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کے اس اعلان سے خوشی ہوئی ہے کہ کونسل ’’اجتہاد‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی مجلہ کے اجراء کا اہتمام کر رہی ہے جس کا مقصد عالم اسلام میں ہونے والی مختلف اور متنوع اجتہادی کوششوں سے پاکستان کے علمی حلقوں اور رائے عا مہ کو باخبر کرنا اور اس سلسلہ کے اہم مسائل کی طرف توجہ دلانا ہے۔

مذاکرہ کم وبیش تین گھنٹے جاری رہا اور اس میں متعدد امور زیر بحث آئے مگر اس کی صرف ایک جھلک قارئین کی خدمت میں پیش کرسکا ہوں جس سے اسلامی نظریاتی کونسل کے آئندہ عزائم اور ایجنڈے کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter