فلسطینی وزیراعظم محمود عباس اور بہائی فرقہ

   
۱۱ جولائی ۲۰۰۳ء

فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کے لیے کم و بیش پینتیس برس سے مسلسل جدوجہد کرنے والے لیڈر یاسر عرفات کو منظر سے ہٹا کر محمود عباس کو سامنے لایا گیا ہے اور اب امریکہ اور اسرائیل فلسطین کے مستقبل کے حوالہ سے کم و بیش سارے معاملات محمود عباس سے طے کر رہے ہیں۔ قارئین کو یہ بات یاد ہوگی کہ یاسر عرفات کو پس منظر میں لے جانے اور محمود عباس کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم بنوانے میں سب سے زیادہ دلچسپی امریکہ نے لی تھی اور اسی کے دباؤ پر محمود عباس کو فلسطین کا وزیراعظم نامزد کر کے یاسر عرفات منظر سے ہٹ گئے تھے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ محمود عباس کی آخر کیا خصوصیت ہے کہ اس فیصلہ کن مرحلہ میں انہیں فلسطینی معاملات کا کارِ مختار بنا دیا گیا ہے اور فلسطین کے مستقبل کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دینے کے لیے امریکہ کو اس قدر دباؤ ڈالنا پڑا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ عالمی استعمار کی تکنیک یہی ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم سے اپنی مرضی اور منشا کے مطابق معاملات طے کرنے کے لیے پہلے اس ملک میں اپنی مرضی کا آدمی برسراقتدار لایا جائے اور پھر اسے تحفظ فراہم کر کے اس کے ذریعے تمام معاملات طے کر لیے جائیں۔ ہم خود پاکستان میں اسی طریق واردات کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود محمود عباس کی ذات او رشخصیت کے حوالہ سے بات ذہن میں صاف نہیں ہو رہی تھی۔ خدا بھلا کرے جماعت اسلامی پاکستان کے ڈائریکٹر امو رخارجہ جناب عبد الغفار عزیز کا کہ انہوں نے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے جولائی کے شمارہ میں اپنے ایک مضمون میں یہ انکشاف کر کے میری یہ الجھن دور کر دی ہے کہ یہ محمود عباس صاحب بہائی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین کے مستقبل کے معاملات طے کرنے کے لیے ’’قابل اعتماد فلسطینی لیڈر‘‘ کا درجہ دیا ہے۔

بہائی فرقہ کا اصل سرچشمہ ایران ہے جہاں انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں مرزا محمد علی نامی ایک صاحب نے دعویٰ کیا کہ اہل تشیع کا امامیہ فرقہ اپنے بارہ اماموں میں سے جس آخری امام کو ’’امام غائب‘‘ سمجھتا ہے اور ان کے دوبارہ آنے کا منتظر ہے اس امام غائب کے ساتھ مرزا محمد علی کا رابطہ قائم ہوگیا ہے اور مرزا محمد علی کو امام غائب کے ساتھ رابطہ کے لیے ’’باب‘‘ کا مقام مل گیا ہے۔ اسی وجہ سے انہیں محمد علی الباب کہا جاتا ہے اور اس فرقہ کو ان کی نسبت سے ’’بابی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ مرزا محمد علی باب نے اس دعویٰ کے بعد ایک نئے دین کا تصور پیش کیا اور بتایا کہ اب دنیا کی نجات ان کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔ مرزا محمد علی باب کے خلاف ایران کے شیعہ علماء نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور بالآخر انہیں مقدمہ چلا کر تبریز چھاؤنی میں سزائے موت دے دی گئی۔ مرزا محمد علی باب کے بعد ان کے مشن کو ان کے ایک ہوشیار شاگرد مرزا بہاء اللہ شیرازی نے آگے بڑھایا اور یہ تاثر دیا کہ مرزا محمد علی باب صرف ان کی بشارت دینے اور ان کی راہ ہموار کرنے کے لیے آئے تھے، دنیا کے اصل ہادی وہ ہیں، ان پر وحی آتی ہے، وہ نبوت کے منصب پر فائز ہیں اور پہلے تمام ادیان اسلام سمیت منسوخ ہو کر اب ان کے نئے مذہب بہائی میں ضم ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی حیثیت (معاذ اللہ) نہروں کی ہے اور مرزا بہاء اللہ شیرازی اس دریا کی مانند ہے جس میں ساری نہریں آکر ضم ہو جاتی ہیں اور اپنا الگ تشخص کھو دیتی ہیں۔ مرزا بہاء اللہ نے قرآن کریم کے منسوخ ہونے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب اس وحی الٰہی کو فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے جو ان پر ’’الواح مقدسہ‘‘ کی صورت میں نازل ہوئی ہے۔ بیت اللہ کی بجائے فلسطین کے شہر ’’عکا‘‘ کو نیا قبلہ قرار دیا گیا اور وحدت ادیان کا تصور پیش کیا گیا۔

راقم الحروف نے کچھ عرصہ قبل حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی کے ہمراہ شکاگو میں بہائیوں کی ایک عبادت گاہ دیکھی تھی، اس کے وسیع ہال میں مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے لیے عبادت کی الگ الگ جگہیں بنائی گئی ہیں اور سب کی مذہبی کتابیں مہیا کی گئی ہیں۔ بہائیوں نے ایک الگ کیلنڈر بھی ترتیب دیا جس میں ہر ماہ کے ۱۹ دن ہیں اور سال بھی ۱۹ ماہ کا ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک ۱۹ کے عدد کو مقدس سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک دور میں ۱۹ کے عدد کے حوالہ سے قرآن کریم کا اعجاز دنیا کے سامنے پیش کرنے اور پھر اس حوالہ سے قرآن کریم کی بعض آیات اور احادیث مبارکہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم چلی تھی تو کچھ عرصہ یہ مہم چلنے کے بعد واضح ہوا کہ اس کے پیچھے بہائیوں کا فلسفہ و فکر کام کر رہا تھا۔

مرزا بہاء اللہ شیرازی کو بھی ایران کے شیعہ علماء کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ ترکی گئے تاکہ خلافت عثمانیہ اور ایران کے درمیان مخاصمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لیے جگہ بنا سکیں لیکن یہ بات زیادہ دیر نہ چل سکی اور بالآخر فلسطین کے شہر عکا کو انہوں نے اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا جہاں ان کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد ان کے فرزند مرزا عبد البہاء نے بہائیوں کی قیادت سنبھال لی۔ بہائیوں کے بارے میں مؤرخین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ انہیں اسی طرح روسی بادشاہت کی پشت پناہی حاصل تھی جیسے ہمارے ہاں قادیانیوں کو انگریزی حکومت نے پروان چڑھایا تھا اور ایران میں روسی مفادات کے لیے بہائی اسی طرح کام کرتے رہے جیسے ہمارے ہاں قادیانیوں نے برطانوی استعمار کی مسلسل خدمات سرانجام دیں او راب امریکی استعمار کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایران کے مذہبی انقلاب سے قبل بادشاہت کے دور میں بہائیوں نے ایران کی فوج اور سول میں خاصا اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا اور کہا جاتا تھا کہ ایرانی معاملات کا اصل کنٹرول بہائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ سابق ایرانی وزیراعظم امیر عباس ہویدا سمیت بہت سے سرکردہ لوگوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہائی تھے اس لیے ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد نئی حکومت کے عتاب کا نشانہ سب سے زیادہ وہی بنے۔ اور مشہور ہے کہ انقلاب کی مخالفت کے جرم میں جن لوگوں کو موت کی سزا دی گئی ان میں زیادہ تعداد بہائی افسران کی تھی۔

قادیانیوں کی طرح بہائی بھی دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہیں اور ان کے بڑے بڑے مراکز قائم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ان کا سب سے بڑا مرکز دہلی میں ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد پاکستان میں بھی ان کی خاصی تعداد آئی ہے او رمختلف شہروں میں آباد ہے۔ کراچی، اسلام آباد، لاہور، ملتان، حیدرآباد اور سیالکوٹ سمیت درجنوں بڑے شہروں میں ان کے مراکز موجود ہیں اور مختلف حوالوں سے ان کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ قادیانیوں کے ساتھ بھی ان کی مناظرانہ اور معاصرانہ چشمک جاری رہتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے خلاف بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دوبارہ نزول اور حضرت امام مہدیؒ کے ظہور کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور پیش گوئیوں کو دونوں فریق اپنے اپنے معانی پہنا کر خود ساختہ تاویلات کے ساتھ مرزا بہاء اللہ شیرازی یا مرزا غلام احمد قادیانی پر فٹ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ باہمی بحثیں مناظرانہ ذوق رکھنے والے حضرات کے لیے خاصی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔

فلسطین کے نئے لیڈر کے طور پر ایک بہائی مرزا محمود عباس کے چناؤ سے جہاں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اب فلسطین میں وہی کچھ ہوگا جو امریکہ اور اسرائیل چاہیں گے وہان ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں میں کوئی شخص اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ امریکہ اور اسرائیل اپنے مفادات کے حوالہ سے اس پر کسی درجہ میں بھی اعتماد کر سکیں۔ حتیٰ کہ یاسر عرفات جس نے امریکہ کو راضی رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا وہ غریب بھی کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ بات ’’ڈس کریڈٹ‘‘ کی نہیں بلکہ ’’کریڈٹ‘‘ کی ہے کہ امریکہ کسی مسلمان کو اعتماد کے قابل نہیں سمجھ رہا اور اسے اپنا کام چلانے کے لیے اسلام سے منحرف ہوجانے والے گروہوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔

عراق میں بھی اسی طرح کی صورتحال ہے کہ کوئی عراقی لیڈر اس حد تک آگے جانے کو تیار دکھائی نہیں دیتا جہاں تک امریکہ عراق کو آگے لے جانا چاہتا ہے۔ اور افغانستان میں بھی تمام تر جبر و تشدد اور قتل و غارت کے باوجود امریکہ اپنی مرضی کا نظام اور لیڈرشپ افغانوں پر مسلط کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا اس لیے کہ کرزئی حکومت کی طرف سے افغانستان کے نئے دستور کا جو ڈھانچہ منظر عام پر آیا ہے اس میں اسلام کو ملک کا سپریم لاء قرار دینے اور تمام شرعی قوانین کے مکمل نفاذ کی ضمانت پر نئے دستوری ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ البتہ پاکستان کی صورتحال ابھی واضح نہیں ہو رہی، قادیانی گروہ کے آنجہانی سربراہ مرزا طاہر احمد نے تین سال قبل کہا تھا کہ پاکستان میں اب ہماری حکومت آنے والی ہے۔ یقیناً اس کی کوئی پلاننگ موجود ہوگی اور چونکہ امریکہ بہادر کے ایجنڈے میں فلسطین کے بعد کشمیر کی باری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے کوئی متبادل روڈ میپ زیرغور ہے اس لیے لازماً یہاں بھی کسی مرزا محمود عباس کی ضرورت پیش آئے گی۔ اب معلوم نہیں کہ ہمارے موجودہ حکمران ہی مرزا محمود عباس بننے کے لیے تیار ہوگئے ہیں یا انہیں یاسر عرفات کا ’’پروٹوکول‘‘ دے کر پردۂ غیب سے کوئی اور مرزا محمود عباس نمودار ہونے والا ہے۔

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
   
2016ء سے
Flag Counter