بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، یہ قرآن کریم کا مہینہ ہے، اسی مبارک مہینہ میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور اسی میں زیادہ پڑھا اور سنا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سال کے بعد اس ماہ میں قرآن کریم کے ساتھ ہمارے تعلق کو تازہ کر دیتے ہیں، کچھ بیٹریاں چارج ہو جاتی ہیں اور قرآن کریم کے ساتھ امت مسلمہ کے ربط میں تازگی آجاتی ہے، اسی حوالہ سے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم ہم پڑھتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں اور کچھ نہ کچھ یاد بھی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو کس غرض اور مقصد کے لیے پڑھتے ہیں اور اسے اصل میں کس مقصد کے لیے پڑھنا چاہیے؟ اس کا اپنا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔ ہم عام طور پر قرآن کریم کو چند مقاصد کے لیے پڑھتے ہیں جن کا تذکرہ اس وقت مناسب سمجھتا ہوں، مثلاً:
- قرآن کریم پڑھنے سے ہمارا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ نماز ہم پر فرض ہے اور نماز میں قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس لیے ہم تھوڑا بہت قرآن کریم یاد کرتے ہیں تاکہ نمازوں میں پڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں، ہر مسلمان چند سورتیں یاد کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے تاکہ وہ انہیں نمازوں میں پڑھ سکے۔ اس مسئلہ میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ پانچ وقت کی نمازیں فرائض و واجبات اور مؤکدہ سنتیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا ہو جائیں اس کے لیے کم از کم کتنا قرآن کریم یاد کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؟ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چند سورتیں یاد کر لی جاتی ہیں اور انہی کو بار بار ہر نماز اور ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے، اس سے نماز ہو تو جاتی ہے لیکن سنت کے مطابق نہیں ہوتی۔ جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ مختلف نمازوں اور رکعتوں میں مختلف سورتیں پڑھی جائیں اور ایک ہی سورت کو بار بار نہ دہرایا جائے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کو قرآن کریم کا کم از کم نصف آخری پارہ ضرور یاد کرنا چاہیے، اس کے بغیر پانچ نمازیں سنت نبویؐ کے مطابق ادا کرنا میرے خیال میں مشکل ہے۔ بہرحال ہمارا قرآن کریم پڑھنے سے ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سورتیں یاد کر لیں تاکہ انہیں نمازوں میں پٖڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں۔
- قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے ہمارا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ثواب حاصل کریں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اجر ملے، اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے اجر ملتا ہے، ثواب حاصل ہوتا ہے اور ہمارے کھاتے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ پڑھنے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سننے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور دس کا یہ عدد متعین نہیں ہے بلکہ یہ کم از کم کی حد ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزٰی الا مثلھا‘‘ (سورہ الانعام ۱۶۰) جس نے نیکی کا کوئی کام کیا اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اسے اس کے برابر بدلہ ملے گا۔ نیکی کے ہر کام پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کا اجر و ثواب دس گنا سے شروع ہوتا ہے یہ کم از کم کی حد ہے، ثواب میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، وہ کام کرنے والے کے خلوص و توجہ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر موقوف ہے۔ یہ سینکڑوں میں بھی ہو سکتا ہے، ہزاروں میں بھی ہو سکتا ہے اور لاکھوں کروڑوں اور اربوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ کسی سطح پر بھی کوئی اشکال نہیں ہے اس لیے کہ اشکال وہاں ہوتا ہے جہاں دینے والے کو کوئی بجٹ پرابلم ہو کہ اس مد میں اتنی رقم موجود بھی ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ کی کوئی بجٹ پرابلم نہیں ہے اس لیے اس نے کسی نیکی میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ آپ کے کنکشن کی پاور پر منحصر ہے کہ وہ کتنے وولٹیج کھینچ سکتا ہے، اُدھر سے کوئی کمی نہیں ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ نیکی اور ثواب کسے کہتے ہیں اور یہ جو دس، بیس، سو، ہزار نیکیاں ملنے کی بات کی جاتی ہے، ان میں عملاً ملتا کیا ہے؟ ایک صاحب نے یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ آخرت کی کرنسی ہے، ۱س لیے کہ جس طرح دنیا میں ہمارے معاملات اور لین دین ڈالر، یورو، پونڈ، ریال، درہم اور روپے کے ذریعے طے پاتے ہیں اور ہم ان کرنسیوں کے تبادلے سے اپنے معاملات نمٹاتے ہیں، اسی طرح آخرت میں ہمارے معاملات، نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے طے پائیں گے۔ وہاں ڈالر، ریال اور روپیہ نہیں چلے گا بلکہ کسی بھی شخص کے ساتھ لین دین نمٹانے کے لیے یا نیکیاں دینا پڑیں گی اور یا اس کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ اس لیے نیکی اور گناہ دونوں آخرت کی کرنسیاں ہیں۔ ایک پازیٹو ہے اور دوسری نیگیٹو ہے اور انہی کے ذریعے ہمارے آخرت کے معاملات نمٹائے جائیں گے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں جاتے ہیں تو جانے سے پہلے وہاں کی کرنسی کا انتظام کرتے ہیں تاکہ وہاں صحیح طور پر وقت گزار سکیں، اسی طرح آخرت کے دور میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں وہاں کی زیادہ سے زیادہ کرنسی کا بندوبست کر لینا چاہیے تاکہ وہاں کی زندگی بہتر ہو سکے۔ چنانچہ ہم قرآن کریم اس نیت سے بھی پڑھتے ہیں کہ ثواب حاصل ہو گا۔
- تیسرے نمبر پر ہم قرآن کریم کی تلاوت برکت کے لیے کرتے ہیں۔ نیا مکان بنائیں، کاروبار شروع کریں، یا دفتر کھولیں تو برکت کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ویسے بھی باذوق حضرات اپنے گھروں دکانوں، دفاتر، کھیتوں اور کاروباری مراکز میں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و افکار کا معمول رکھتے ہیں اور قرآن کریم سے ہمیں یہ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جہاں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھروں میں برکت و رحمت کا ماحول نہیں رہا کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی، نماز کا ماحول نہیں ہے، ذکر و اذکار کا معمول نہیں ہے اور درود شریف پڑھنے کا ذوق نہیں ہے۔ ہمیں اکثر شکایت رہتی ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، باہمی اعتماد کی فضا نہیں رہی، کاروبار میں رکاوٹ رہتی ہے، رشتوں میں جوڑ نہیں ہے اور بے سکونی کی فضا ہے، یہ ماحول جب بڑھتا ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے اور ہم علماء کرام کے پاس اور عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کسی نے کچھ کر دیا ہے آپ بھی کچھ کریں، وہ غریب کچھ نہ کچھ کرتے بھی ہیں، مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ کرنے والے کرتے ہیں، ان کے اثرات بھی ہوتے ہیں اور علاج کرنے والوں کا علاج بھی مؤثر ہوتا ہے، لیکن کیا ہمارے گھروں میں سب کچھ یہی ہو رہا ہے؟ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، ہماری گھروں میں برکت نہ رہنے اور نحوست و بے برکتی کے پھیلنے کا اصل سبب کچھ اور ہے جس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے اور میں پڑھے لکھے دوستوں کو اس پہلو پر غور کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔
اس سلسلہ میں اس بات پر غور کر لیجئے کہ رحمتیں اور برکتیں لے کر فرشتے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ کام عالم اسباب کے درجے میں انہی کے سپرد کر رکھا ہے، مگر ہمارے گھروں کا ماحول فرشتوں کی آمد و رفت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ فرشتے وہاں آتے ہیں جہاں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے، جہاں نماز پڑھی جاتی ہے، ذکر و اذکار کا ماحول ہوتا ہے، درود شریف پڑھا جاتا ہے اور خیر کے اعمال ہوتے ہیں۔ جناب نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’البیت الذی لیس فیہ القرآن کالبیت الخرب‘‘ وہ گھر جس میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ ویران گھر کی طرح ہے۔ دوسری حدیث میں جناب نبی اکرمؐ فرماتے ہیں کہ ’’صلوا فی بیوتکم ولا تجعلوھا قبورا‘‘ گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔ گویا گھروں کی آبادی نماز اور تلاوت قرآن کریم سے ہے، اور جن گھروں میں نماز اور تلاوت کا معمول نہیں ہے وہ آباد گھر نہیں ویران اور اجڑے ہوئے گھر اور قبرستان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارے گھروں میں عام طور پر اس کا معمول نہیں رہا اس لیے فرشتوں کا آنا جانا بھی نہیں رہا۔
اس کے برعکس ہمارے گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر بھی ایک غیبی مخلوق کی آمد و رفت رہتی ہے، جو فرشتے بہرحال نہیں ہیں، وہ مخلوق جن و شیاطین کی ہے۔ وہ آتے ہیں تو اپنے اثرات لے کر آتے ہیں اور اپنی نحوستیں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ شیاطین کی نحوستیں کس قسم کی ہوتی ہیں اس پر جناب نبی اکرمؐ کا ایک ارشاد گرامی سن لیجئے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ شیاطین کا ایک پورا نظام ہے جو دنیا میں کام کر رہا ہے اور دنیا کے مختلف اطراف میں شیاطین کی بڑی تعداد ہر وقت کام کرتی ہے اور بڑے شیطان کو اس کی رپورٹ بھی پیش کرتی ہے، جو پانی پر تخت بچھائے ہوئے ہے اور اپنے شیطانی نیٹ ورک کے کام کی نگرانی کرتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ شیطان اپنے جس کارندے کو سب سے بڑی شاباش دیتا ہے اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتا کر اسے سینے سے لگاتا ہے، اسے اس بات پر شاباش ملتی ہے کہ وہ کسی گھر میں جھگڑے کا ایسا ماحول پیدا کر دے کہ میاں بیوی میں طلاق ہو جائے، کسی گھر میں طلاق کا ہو جانا شیطان کے نزدیک اس کے کسی کارندے کا سب سے اچھا عمل ہوتا ہے جس پر وہ بہت خوش ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمارے گھروں میں شیطانوں کی آمد و رفت ہو گی تو اسی طرح کی بے برکتی اور نحوست ہو گی اور اسی بے اتفاقی اور بے اعتمادی کا دور دورہ ہو گا۔ اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں شیاطین کی آمد و رفت کو روکیں اور فرشتوں کی آمد و رفت کا ماحول بنائیں جو قرآن کریم کی تلاوت اور نماز و ذکر کی کثرت سے بنے گا۔ ایک مثال سے بات سمجھ لیجئے کہ میرا گھر اگر صاف ستھرا ہے، غسل خانے اور نالیوں میں صفائی ہے، گھر کے صحن میں کیاری موجود ہے جس میں پھول کھلے ہوئے ہیں، ظاہر ہے کہ اس ماحول میں بلبل آئے گی، تتلیاں آئیں گی، جگنو آئیں گے۔ لیکن اگر میرے گھر میں صفائی نہیں ہے، غسل خانہ اور نالیاں گندی ہیں اور کوڑا کرکٹ ہر طرف بکھرا ہوا ہے تو مکھیاں بھنبھنائیں گی، مینڈک ٹرائیں گے، مچھروں اور کاکروچوں کا ہر طرف بسیرا ہو گا، اس پر میں یہ کہنا شروع کر دوں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے اور سارے محلے کے کاکروچ اکٹھے کر کے میرے گھر میں بھیج دیے ہیں تو کس قدر عجیب بات ہو گی۔ میرے گھر میں بلبل اور جگنو کا ماحول ہو گا تو وہ آئیں گے اور مچھروں اور مکھیوں والی فضا ہو گی تو وہ ڈیرہ ڈالیں گے، اس کے لیے کسی کو ملامت کرنے کی بجائے مجھے اپنے گھر کے ماحول کی صفائی کرنا ہو گی اور اسے بہتر بنانا ہو گا۔ اسی طرح میرے گھر میں اگر فرشتوں کی آمد و رفت ہو گی تو وہ آئیں گے اور رحمت و برکت لائیں گے اور اگر ہر وقت شیاطین ڈیرہ ڈالے رہیں گے تو ان سے بے برکتی، نحوست اور نا اتفاقی ہی ملے گی اور وہی کچھ ہو گا جس کی ہمیں اپنے گھروں میں اس وقت شکایت رہتی ہے۔ تو میں نے عرض کیا ہے کہ تیسرا مقصد جس کے لیے ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں برکت کا حصول ہے اور وہ اس عمل پر بلاشبہ حاصل ہوتی ہے۔
- چوتھا مقصد جس کے لیے ہم عام طور پر قرآن کریم پڑھتے ہیں شفا کا حصول ہے اور وہ بھی قرآن کریم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کریم ہماری جسمانی بیماریوں کی شفا بھی ہے اور روحانی و اخلاقی بیماریوں کا بھی علاج ہے۔ خود قرآن کریم نے اپنے آپ کو شفا کہا ہے اور فرمایا ہے کہ ’’قد جاءتکم موعظۃ من ربکم وشفاء لما فی الصدور‘‘ (سورہ یونس ۵۷) تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی ہے اور وہ سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ یہ شفا اصلاً تو روحانی بیماریوں کی ہے لیکن اس کے ساتھ جسمانی بیماریوں کے لیے بھی شفا ہے۔
بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت ابو سعید خدریؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ چند ساتھیوں کے ہمراہ سفر پر تھے کہ ایک بستی کے قریب رات کا وقت ہو گیا اور انہوں نے بستی والوں سے کہا کہ وہ مسافر ہیں انہیں کھانا کھلا دیا جائے۔ بستی والوں نے اس سے انکار کر دیا تو وہ بستی کے قریب ایک جگہ ڈیرہ لگا کر سو گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ بستی کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا، زہر کا اثر دماغ تک پہنچا تو وہ بے قابو ہونے لگا، بستی والوں نے اپنے تئیں علاج وغیرہ کیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، انہیں خیال آیا کہ جو لوگ بستی سے باہر ٹھہرے ہوئے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی علاج موجود ہو، وہ نصف شب کے وقت ان کے پاس آئے اور کہا ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہمارے پاس کوئی علاج نہیں ہے، تمہارے پاس کوئی علاج ہو تو ہمارے ساتھ آؤ اور ہم پر مہربانی کرو۔ ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ انہوں نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا اس لیے ہم نے کہا کہ علاج ہمارے پاس ہے مگر ہم معاوضہ کے بغیر علاج نہیں کریں گے اور معاوضہ تیس بکریاں ہو گا، وہ آمادہ ہو گئے، ہم نے جا کر اسے دم کیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ ہم بکریاں لے کر واپس آئے تو خیال ہوا کہ یہ بکریاں جو ہم نے دم کے عوض لی ہیں شاید ہمارے لیے جائز نہ ہوں، اس لیے جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ عرض کریں گے، اس کے بعد ان بکریوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔ چنانچہ جب نبی اکرمؐ کو سارا واقعہ سنایا گیا تو آپ نے دل لگی کے طور پر فرمایا کہ ان بکریوں میں سے میرا حصہ بھی نکالو، یہ اشارہ تھا کہ بکریاں لے کر تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ نبی اکرمؐ نے اس موقع پر پوچھا کہ دم کس نے کیا تھا اور کیا پڑھا تھا؟ ابو سعید خدریؓ نے کہا کہ میں نے دم کیا تھا اور سورۃ فاتحہ پڑھی تھی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت نے پوچھا کہ تمہیں کس نے بتایا تھا کہ اس میں شفا ہے تو ابو سعید خدریؓ نے عرض کیا کہ ایک بار آپ کی زبان سے سنا تھا کہ اس سورۃ کا نام ’’الشفاء‘‘ بھی ہے، اسی یقین پر میں نے دم کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرمؐ کا معمول تھا کہ رات کو سونے سے پہلے آخری تین سورتیں جو ’’معوذات‘‘ کہلاتی ہیں یعنی، قل ھو اللّٰہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے تھے اور ان ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیرتے تھے۔ آخری ایام میں جب کمزوری بڑھ گئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر نبی اکرمؐ کے ہاتھوں پر پھونکتی تھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کے جسم پر پھیرتی تھی۔ معوذات کا یہ پڑھنا برکت کے لیے تھا اور شفا کے لیے تھا۔ اور قرآن کریم کی تلاوت سے یہ دونوں فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
- قرآن کریم کی تلاوت سے ہمارے ذہنوں میں پانچواں مقصد عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ وفات پانے والے کسی بزرگ، دوست، ساتھی اور رشتہ دار کو ایصال ثواب کے لیے ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ قرآن کریم سے یہ مقصد اور فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے، ایصال ثواب بھی ہوتا ہے اور قرآن کریم کی برکت سے اللہ تعالیٰ مغفرت اور بخشش بھی فرماتے ہیں۔
- جبکہ قرآن کریم کی تلاوت سے ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ قراء کرام عام جلسوں میں اچھے سے اچھے لہجے میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں جس سے لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی طرف رغبت ہوتی ہے، قرآن کریم کے اعجاز کا اظہار ہوتا ہے، اور غیر مسلموں کے سامنے قرآن کریم کی اچھے لہجے میں تلاوت ان کی قرآن کریم کی طرف کشش کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ پانچ چھ مقاصد جن کا میں نے ذکر کیا ہے دراصل وہ فوائد ہیں جو ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتے ہیں اور ہم قرآن کریم کی تلاوت یا سماع سے یہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت سے یہ سارے فائدے ملتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ان فوائد کا منبع بنا یا ہے، مگر سوال یہ ہے جس کی طرف میں خود کو اور آپ سب حضرات کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کا اپنا ایجنڈا اور مقصد کیا ہے اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ دنیا کی کوئی کتاب ہم پڑھتے ہیں تو اس کا موضوع اور مقصد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کس موضوع پر اور کس مقصد کے لیے لکھی گئی ہے، لیکن قرآن کریم کو پڑھتے ہوئے ہمارا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ اس کا اپنا موضوع اور مقصد کیا ہے اور یہ کس سبجیکٹ کی کتاب ہے؟ تاریخ کی ہے، سائنس کی ہے، سیاست کی ہے، طب کی ہے، ادب کی ہے، یا کون سے فن کی ہے۔ ہم اس کتاب اللہ کو اپنے اپنے ذوق کے موضوعات کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش تو کرتے رہتے ہیں کہ سائنس سے دلچسپی والا مفسر اس کی تفسیر میں پوری سائنس بیان کر دے گا، جغرافیہ کے ذوق کا عالم اس میں جغرافیے کو سمونے کی کوشش کرے گا، منطق و فلسفہ کا عالم اسے منطق و فلسفہ کا نمائندہ بنانے میں قوت صرف کرے گا اور طب کی دنیا کا شناور اسے علاج و معالج کی کتاب بنانے میں صلاحیتوں کو استعمال کرے گا، مگر اللہ تعالیٰ کے اس آخری کلام کا اپنا موضوع کیا ہے؟ اس کی طرف کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے۔
- قرآن کریم نے اپنا موضوع صرف ایک لفظ میں بیان کیا ہے اور وہی اس کا اصل مقصد ہے جو تلاوت کا آغاز کرتے ہی سامنے آجاتا ہے۔ سورہ البقرہ کا آغاز اسی سے ہوتا ہے کہ ’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین‘‘ (سورہ البقرہ ۲) یہ کتاب شک و شبہ سے بالاتر ہے اور متقین کے لیے ’’ہدایت‘‘ ہے۔ یعنی اس کا اصل موضوع ہدایت ہے، یہ نسل انسانی کی راہنمائی کے لیے آئی ہے کہ اسے دنیا میں کس طرح رہنا ہے اور انسانوں کو اس دنیا میں کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔ قرآن کریم کا اصل موضوع ’’ھدًی‘‘ ہے۔ یہ ھدی للناس بھی ہے اور ھدی للمتقین بھی ہے۔ اپنے خطاب کے حوالہ سے یہ ھدی للناس ہے مگر نفع کے اعتبار سے ھدی للمتقین ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھ لیا جائے کہ کسی گاؤں میں بجلی نہیں تھی، گاؤں والوں کی کوشش سے بجلی منظور ہو گئی اور گاؤں سے باہر اس مقصد کے لیے ٹرانسفارمر لگا دیا گیا۔ اب یہ ٹرانسفارمر سارے گاؤں کے لیے ہے لیکن بلب اس کا روشن ہو گا جس کا کنکش ہو گا۔ دو میل دور اگر کسی گھر کا کنکشن ہے تو اس کی ٹیوب بھی چلے گی اور اے سی بھی چلے گا، مگر ساتھ والے مکان کا کنکشن نہیں ہے تو اس کا زیرو کا بلب بھی روشن نہیں ہو گا۔ اسی طرح قرآن کریم بھی اپنے خطاب کے حوالہ ہے ھدی للناس ہے لیکن فائدہ اسی کو ہو گا جس کا ایمان کا کنکشن ہو گا۔
یہ ’’ھدًی‘‘ کیا ہے؟ اس پر بھی غور کر لیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو زمین پر اتارا تو دو باتیں اسی وقت فرما دی تھیں۔ (۱) ایک یہ کہ ’’ولکم فی الارض مستقر و متاع الی حین‘‘ (سورہ الاعراف ۲۴) تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ اور زندگی کے اسباب ملیں گے لیکن یہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک مقررہ مدت کے لیے ہوں گے۔ یہ مقررہ مدت ایک فرد کے لیے چالیس پچاس ساٹھ سال کی وہ زندگی ہے جو وہ اس دنیا میں بسر کرتا ہے، اور نسل انسانی کے لیے وہ چند ہزار سال کا وقت ہے جو اس کے لیے اس دنیا میں مقرر ہے۔ (۲) جبکہ دوسری بات اللہ رب العزت نے یہ واضح طور پر فرما دی تھی کہ ’’اما یأتینکم منی ھدًی فمن تبع ھدای فلا خوف علیہم ولاھم یحزنون‘‘ (سورہ البقرہ ۳۸) جب میری طرف سے تمہارے پاس ہدایات آئیں گی تو جس نے میری ہدایات کے مطابق دنیا کی زندگی بسر کی وہ خوف و حزن سے نجات پائے گا یعنی جنت میں واپس آئے گا، اور جس نے میری ہدایات کو جھٹلا دیا اسے دوزخ میں جانا ہوگا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کی محدود زندگی تم اپنی مرضی کے مطابق گزارنے میں آزاد نہیں ہو بلکہ میری ہدایات کے پابند ہو جو میری طرف سے تمہارے پاس آتی رہیں گی۔ قرآن کریم اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ میں وہ ’’ھدًی‘‘ ہوں جس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے تم سب پابند ہو۔ یعنی قرآن کریم نسل انسانی کے تمام طبقات اور تمام افراد کو یہ بتانے آیا ہے کہ تم نے اس دنیا میں کیسے رہنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ یہ سیاستدانوں کی بھی راہنمائی کرتا ہے، حکمرانوں کی بھی، سائنس دانوں کی بھی، ڈاکٹروں کی بھی، انجینئروں کی بھی، جغرافیہ دانوں کی بھی، اور فلسفیوں اور منطقیوں کی بھی راہنمائی کرتا ہے۔
اس لیے قرآن کریم کا اصل موضوع اور مقصد یہ ہے کہ ہم اسے ہدایت اور راہنمائی کے لیے پڑھیں اور اس کی ہدایات کی روشنی میں اپنی زندگی کے معاملات طے کریں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ہمارا معاملہ قرآن کریم کے ساتھ کچھ اس طرح کا ہے کہ جیسے کسی کے ہاں کوئی بہت ہی معزز مہمان آجائے وہ اسے پورا پروٹوکول دے، اس کی خدمت کرے اور اس کی آمد سے جتنے فوائد حاصل ہو سکتے ہوں وہ بھی حاصل کرے، لیکن اس سے اس کی آمد کا مقصد نہ پوچھے کہ آپ کس مقصد کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ یہ طرز عمل خودغرضی کہلاتا ہے اور ہمارا قرآن کریم کے ساتھ خدانخواستہ یہی خودغرضی والا معاملہ چل رہا ہے۔ ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے محبت و عقیدت بھی ہمارے دلوں میں ہے، اس کا ادب و احترام بھی کرتے ہیں، اس سے سارے فائدے بھی حاصل کرتے ہیں، مگر اس سے یہ نہیں دریافت کرتے کہ اس کی آمد کا مقصد کیا ہے اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
قرآن کریم کے ساتھ ہماری عقیدت اور اس کا ادب و احترام ہمارا قیمتی اثاثہ ہے، اور میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم آج کے مسلمانوں نے اپنا بہت کچھ گنوا دیا ہے مگر قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کے ساتھ تعلق اور محبت و عقیدت بحمد اللہ تعالیٰ آج بھی قائم ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی بھی مسلمان نہ قرآن کریم کی بے حرمتی برداشت کرتا ہے اور نہ ہی جناب نبی اکرمؐ کی شان اقدس میں گستاخی اس کے لیے قابل برداشت ہوتی ہے۔ اسے غصہ آتا ہے اور وہ غیرت و جذبات کا بے ساختہ اظہار کرتا ہے، جو آج کی دنیا کے لیے تعجب و حیرت کا باعث ہے اور کہا جاتا ہے کہ مسلمان بڑی جذباتی قوم ہے اور غصہ والی قوم ہے۔ مگر قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی کے ساتھ یہ جذباتی محبت ہی ہمارا اصل اثاثہ ہے اور سرمایہ حیات ہے۔ البتہ ہمیں صرف اس پر قناعت کرنے کی بجائے قرآن کریم اور سنت نبویؐ کو اپنی زندگی کا راہنما بنانا چاہیے کہ قرآن و سنت کا اصل مقصد یہی ہے اور اسی راستے پر چل کر ہم دنیا و آخرت میں نجات اور سرخروئی حاصل کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین ثم آمین۔