قادیانیوں کے متعلق دستوری فیصلے کو ری اوپن کرنے کی کوشش

   
۱۲ جون ۲۰۱۰ء

سانحہ لاہور کے بعد میڈیا پر مختلف اطراف سے قادیانیت کے حوالہ سے ہونے والی بحث کے نئے راؤنڈ نے ملک بھر کے دینی حلقوں کو چونکا دیا ہے اور میاں محمد نواز شریف کے ایک بیان نے انہیں مزید حیرت سے دوچار کر دیا ہے۔ اگر یہ بحث و مباحثہ سانحہ لاہور اور قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کے سیاق و سباق تک محدود رہتا اور ان حملوں کے اسباب و عوامل اور محرکات و نتائج کے حوالے سے گفتگو آگے بڑھتی تو شاید یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ لیکن اصل مسئلہ پر بات بہت کم ہو رہی ہے جبکہ قادیانی مسئلہ اور اس کے بارے میں دستور و قانون کے فیصلوں کو ازسرنو زیربحث لا کر اس مسئلہ کو ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی مہم زیادہ سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ جس سے شکوک و شبہات ذہنوں میں سر اٹھانے لگے ہیں کہ شاید یہ سب اس لیے ہوا ہے کہ قادیانی مسئلہ کو ازسرنو زیربحث لایا جائے اور اسے ری اوپن کر کے بحث و مباحثے کے نئے ماحول میں دستور و قانون کے فیصلوں پر نظرثانی کی راہ ہموار کی جائے۔

اس پس منظر میں گزشتہ روز (۸ جون) لاہور میں منعقد ہونے والا تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی جماعتوں کے رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جس میں دینی رہنماؤں نے اس صورتحال کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی ’’لائن آف ایکشن‘‘ طے کی ہے۔ یہ اجلاس عالمی مجلس احرار اسلام کے دفتر میں ’’متحدہ ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ کی دعوت پر امیر احرار پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی صدارت میں منعقد ہوا جس کے شرکاء میں ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا عبد الرؤف ملک، صاحبزادہ محفوظ احمد مشہدی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا محمد امجد خان، مولانا امیر حمزہ، پروفیسر عبد الرحمان لدھیانوی، مرزا محمد ایوب بیگ، حاجی عبد اللطیف خالد چیمہ، پیر سید کفیل بخاری، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، قاری شبیر احمد عثمانی اور جناب رفیق افغان بطور خاص قابل ذکر ہیں جبکہ خانقاہ سراجیہ کندیاں کے صاحبزادہ رشید احمد مہمان خصوصی تھے، اور راقم الحروف نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس کے شرکاء نے اس بات کا بطور خاص نوٹس لیا کہ لاہور میں قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کی تمام دینی حلقوں نے یکساں طور پر مذمت کی ہے اور اس کے محرکات و عوامل کو ان کی طرف سے جلد از جلد بے نقاب کرنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن میڈیا اور لابنگ کے بعض مخصوص حلقے اس آڑ میں قادیانیوں کے کفر و اسلام کو ازسرنو زیربحث لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان کے دستور و قانون میں جو متفقہ فیصلے جمہوری عمل کے ذریعے ہو چکے ہیں ان کو متنازعہ بنانے کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہے۔ حالانکہ معروضی حقائق یہ ہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی امت مسلمہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر متفق ہے، ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ دستوری ترمیم کے ذریعے انہیں ملک کی غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا ہے اور عدالت عظمیٰ کا فل بینچ بھی یہی فیصلہ دے چکا ہے۔ مگر قادیانی گروہ ان میں سے کسی فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور امت مسلمہ کے متفقہ فیصلے کے ساتھ ساتھ دستور و قانون کو بھی مسترد کرتے ہوئے وہ ان کے خلاف دنیا بھر میں کمپین کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سانحہ لاہور کے حوالے سے جو قادیانی رہنما میڈیا پر آئے انہوں نے کھلم کھلا اس موقف کو دہرایا کہ وہ دستوری ترامیم اور امتناع قادیانیت آرڈیننس کو نہیں مانتے اور پوری امت مسلمہ کے علی الرغم خود کو مسلمان قرار دینے پر مصر ہیں جو عملاً دستور پاکستان کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔

اجلاس کے شرکاء نے میاں محمد نواز شریف کے بیان کے حوالہ سے سخت غصے کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دینی حلقوں کو میاں صاحب سے اس قسم کے بیان کی توقع نہیں تھی۔ اس لیے کہ قادیانیوں کے خلاف قومی فیصلے میں خود پاکستان مسلم لیگ شریک رہی ہے اور دستوری ترمیم کے ساتھ ساتھ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے نافذ کردہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کی تشکیل و نفاذ میں خود میاں محمد نواز شریف ان کے شریک کار رہے ہیں۔ اس لیے میاں صاحب موصوف کو اپنے سابقہ کردار، قادیانیوں کے غلط موقف اور امت مسلمہ کے عقائد و جذبات سے آگاہی رکھنے کے باوجود یہ کہنا زیب نہیں دیتا کہ قادیانی محب وطن ہیں اور ہمارے بھائی ہیں۔ انہیں اعتدال و توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور معروضی حقائق کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ قادیانیوں کو امت مسلمہ سے الگ غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کی تجویز مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے پیش کی تھی اور انہوں نے اس موضوع پر پنڈٹ جواہر لال نہرو کے ساتھ تفصیلی خط و کتابت میں اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ واضح کیا تھا۔ میاں نواز شریف کا اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کر دینا حیرت کا باعث بنا ہے۔

اجلاس کے شرکاء نے اس امر کا بھی جائزہ لیا کہ دینی جماعتوں کی قیادتوں کے باہمی عدم رابطہ اور انتشار کے باعث متفقہ دینی امور اور فیصلوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس لیے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی جماعتوں کی قیادتیں جلد از جلد باہم مل بیٹھیں اور موجودہ صورتحال بالخصوص قادیانی مسئلہ کے سلسلہ میں شروع ہونے والی نئی مہم کے تناظر میں قوم کو متفقہ طور پر رہنمائی فراہم کریں۔

اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ کی ایک حالیہ قرارداد کا بھی جائزہ لیا گیا جس میں توہین رسالت پر سزا کے قانون اور قادیانیوں کے خلاف دستوری اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ ان قوانین میں فوری ترمیم کرے۔ جبکہ یورپی پارلیمنٹ کے مذکورہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کی طرف سے شریک ہونے والے وفاقی وزیر جناب شہباز بھٹی کا یہ وعدہ بھی اس قرارداد کے ساتھ عالمی سطح پر خبر کا حصہ بنا ہے کہ حکومت پاکستان سال رواں کے آخر تک ان قوانین میں ترمیم کر دے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس صورتحال پر مسلسل نظر رکھی جائے گی اور ایسی کوششوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔

اجلاس میں مقررین نے یہ بات زور دے کر کہی کہ قادیانیوں کے خلاف تشدد کی کسی کاروائی کی تحریک ختم نبوت کی طرف سے کبھی حمایت نہیں کی گئی۔ گزشتہ ایک صدی سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی یہ تحریک دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پر امن ذرائع سے جاری ہے اور آئندہ بھی اسی طرح یہ تحریک پر امن رہے گی۔

اجلاس میں غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے قافلوں پر اسرائیلی حملوں کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی، او آئی سی او رمسلم حکومتوں سے اس سلسلہ میں مؤثر کردار کا مطالبہ کیا گیا، ترکی کی حکومت کو جرأت مندانہ کردار ادا کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

اجلاس میں مختلف مکاتب فکر کے رہنماؤں کے مشترکہ اجلاسوں کا تسلسل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور مندرجہ ذیل متفقہ فیصلوں کا اعلان کیا گیا:

  • سانحہ لاہور کی آڑ میں قادیانی مسئلہ کو ری اوپن کرنے کی کوشش کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں ہے اور دینی حلقے ان کا متفقہ طور پر مقابلہ کریں گے۔
  • ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ لاہور میں قادیانی مراکز پر مسلح حملوں کی عدالتی انکوائری کرائی جائے اور سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کر کے ان حملوں کے اسباب و محرکات اور پس پردہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے۔
  • میاں محمد نواز شریف نے قادیانیوں کو بھائی اور محب وطن قرار دے کر معروضی حقائق اور امت مسلمہ کے جذبات کی نفی کی ہے، وہ اس پر معافی مانگیں اور اپنی پوزیشن واضح کریں۔
  • دینی جماعتوں کی قیادتیں جلد از جلد مل بیٹھ کر تحفظ ختم نبوتؐ کے لیے اپنے کردار کو مؤثر بنائیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter