پانچ فروری کو پاکستان میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا جا رہا ہے۔ یہ دن ہر سال قومی سطح پر منایا جاتا ہے، قوم کے مختلف طبقات عام جلسوں، ریلیوں، مذاکرات اور مضامین و بیانات وغیرہ کی صورت میں کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
ریاست جموں و کشمیر کے عوام نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ بھارت اقوام متحدہ کے فورم پر ان کے ساتھ کیا گیا یہ وعدہ پورے کرے کہ وہ کشمیری عوام کو آزادانہ استصواب کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دے گا اور اقوام متحدہ نے اس خطہ کے عوام کا یہ حق تسلیم کیا تھا کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی کے ساتھ پاکستان یا بھارت میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں۔ اس مقصد کے لیے کشمیری عوام اب تک ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں لیکن بھارت انہیں ان کا جائز حق دینے کی بجائے فوجی قوت کے زور پر دبائے ہوئے ہے اور حریت کا مطالبہ کرنے والوں کو سنگینوں کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کشمیر، جسے اس کے حسن اور خوبصورتی کی وجہ سے جنت ارضی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور پاکستان کے ساتھ جغرافیائی اور علاقائی وحدت کے علاوہ قدیم تہذیبی اور دینی رشتوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے کشمیری عوام کی اکثریت کی خواہش ہے کہ ان کی ریاست کا الحاق پاکستان سے ہو اور پاکستانی عوام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر ان کے لیے ثقافتی اور مذہبی رشتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اکثر دریاؤں کا سرچشمہ ہونے کی وجہ سے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے وہ دل و جان سے کشمیری عوام کی اس جدوجہد کے ساتھ ہیں اور اسی یکجہتی کا اظہار پاکستانی قوم کی طرف سے پانچ فروری کو ہر سال روایتی جوش و خروش کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
کشمیر کی طرف مسلمانوں کی توجہ کا تذکرہ دوسری صدی ہجری کے دوران منصور عباسی کے دور خلافت میں سب سے پہلے ملتا ہے جس میں مؤرخ بلاذری کے بقول سندھ کے حاکم ہاشم بن عمر تغلبی نے ملتان کے بعد کشمیر کی طرف مہم جوئی کی تھی۔ اس کے بعد پانچویں صدی ہجری میں محمود غزنوی کے کشمیر پر حملے کا تذکرہ تاریخ میں موجود ہے لیکن اس خطہ میں مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ حکومت شاہ میر سواتی نے ۷۴۰ھ میں قائم کی تھی۔ اس کے بعد شاہ میری خاندان کی حکومت سوا دو سو برس سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی اور شاہ میری خاندان کے حکمرانوں میں سے زین العابدین کا تاریخ میں اس حیثیت سے زیادہ نمایاں تذکرہ ملتا ہے کہ اس نے اپنے دور میں عدل و انصاف کی عمدہ مثال قائم کی اور سڑکوں، نہروں اور پلوں کی تعمیر اور دیگر رفاہی کاموں کے ذریعے کشمیری عوام کی بہت زیادہ خدمت کی۔ اکبر بادشاہ کے دور میں کشمیر مغلوں کی سلطنت میں شامل ہوگیا، اس کے بعد جہانگیر، شاہجہان اور اورنگزیب عالمگیر کے مقرر کردہ گورنر کشمیر پر حکومت کرتے رہے اور کم و بیش ایک سو ساٹھ سال تک کشمیر پر مغلوں کی حکمرانی قائم رہی۔ ۱۷۵۳ء کے بعد احمد شاہ درانی نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور افغانوں کی حکومت قائم ہوگئی جس کا تسلسل تقریباً چھیاسٹھ برس تک قائم رہا تا آنکہ پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ۱۸۱۹ء میں کشمیر کے افغان گورنر جبار خان کو شکست دے کر کشمیر کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اور اس خطہ کے مسلمانوں پر مظالم کا ایک افسوسناک دور شروع ہوگیا۔ اس دور میں کشمیر کا سفر کرنے والے ایک مغربی سیاح مور کرافٹ کا کہنا ہے کہ:
’’سکھ کشمیریوں کو حیوانوں سے ذرا بہتر تصور کرتے ہیں۔ اگر کوئی سکھ کسی کشمیری کو مار ڈالے تو حکومت کو سولہ روپے سے لے کر بیس روپے تک قاتل کی طرف سے جرمانہ ادا کیا جاتا ہے۔ اس رقم سے چار روپے مقتول کے لواحقین کو دیے جاتے ہیں بشرطیکہ مقتول ہندو ہو، اور اگر مقتول مسلمان ہو تو صرف دو روپے لواحقین کو دیے جاتے ہیں۔ بیگار عام ہے، کام لیا جاتا ہے اور کسی کو پائی پیسہ ادا نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کو پکڑ لیا جاتا ہے اور رسیوں سے باندھ کر ہانکا جاتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے غلاموں کو ہانکا جاتا ہے۔ گاؤں کے گاؤں خالی پڑے ہیں اور سنسان ہیں۔ لوگ خوف کے مارے بھاگ گئے ہیں، فصل پکنے پر دس میں سے بعض اوقات نو حصے حکومت لے جاتی ہے اور کسان کے پاس صرف ایک حصہ رہ جاتا ہے۔‘‘
رنجیت سنگھ کے دور میں جموں کے تین ڈوگرہ بھائیوں دھیان سنگھ، گلاب سنگھ اور سچیت سنگھ نے اس کے دربار میں اثر و رسوخ حاصل کر لیا اور اس نے ان کی خدمات پر خوش ہو کر گلاب سنگھ کو جموں، دھیان سنگھ کو پونچھ اور بھمبر، جبکہ سچیت سنگھ کو رام نگر کی حکمرانی بخش دی اور گلاب سنگھ جموں کا راجہ کہلانے لگا۔ یہ تینوں بھائی متعصب ہندو تھے اور ان کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر پر ہندوؤں کی حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگیا۔
لاہور پر انگریزوں کا قبضہ فروری ۱۸۴۶ء میں ہوا جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جانشینوں کی حکومت کو شکست دے کر فرنگی نے لاہور کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔ اس جنگ میں گلاب سنگھ نے درپردہ انگریزوں کا ساتھ دیا۔ لاہور پر انگریزوں کے قبضے اور سکھوں کی شکست کے بعد جب سکھوں پر تاوان جنگ ڈالا گیا تو ان کے پاس اس کی ادائیگی کے لیے پوری رقم موجود نہیں تھی۔ چنانچہ گلاب سنگھ نے اس شرط پر وہ رقم انگریزوں کو دینے کا وعدہ کیا کہ جموں کے ساتھ کشمیر کی حکمرانی کا حق بھی اس کے خاندان کے لیے تسلیم کیا جائے۔ یہ شرط منظور کر لی گئی اور ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ء کو گلاب سنگھ اور برطانوی حکومت کے درمیان ’’معاہدہ امرتسر‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت گلاب سنگھ نے پچھتر لاکھ روپے کے عوض کشمیر کو انگریزوں سے خرید لیا اور یہ رقم وصول کر کے برطانوی حکومت نے گلاب سنگھ اور اس کی نرینہ اولاد کے لیے کشمیر کی حکمرانی کا حق مستقل طور پر تسلیم کر لیا۔ مگر اس وقت سری نگر میں لاہور کی سکھ حکومت کی طرف سے امام الدین گورنر تھا جس نے کشمیر کا علاقہ گلاب سنگھ کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا اور گلاب سنگھ کو پہلے حملے میں امام الدین کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے بعد کرنل لارنس کی قیادت میں برطانوی فوج نے کشمیر پر حملہ کیا جس کے سامنے امام دین نے ہتھیار ڈال کر کشمیر گلاب سنگھ کے حوالے کر دیا۔ پھر نومبر ۱۸۴۲ء سے اگست ۱۹۴۷ء تک کم و بیش ایک صدی تک ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ ہندو خاندان کی حکومت قائم رہی۔ گلاب سنگھ مسلمانوں کے لیے سکھوں سے بھی زیادہ جابر حکمران ثابت ہوا، اس کے طرز حکومت کے بارے میں شیخ غلام حیدر چشتی مرحوم اپنی کتاب ’’ہنگامہ کشمیر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’گلاب سنگھ بے حد سفاک، ظالم، بے رحم اور حریص مہاراجہ تھا۔ اس نے جموں و کشمیر کی حکومت سنبھالتے ہی پہلے تو ڈوگرہ مخالفوں کو ہموار کیا اور اس کے بعد بھمبر، پونچھ، میرپور، راجوری اور کشتواڑ وغیرہ میں مسلمان حکمرانوں کو مکر و فریب سے قابو میں لا کر کسی کو کنویں میں ڈالا، کسی کی آنکھیں نکلوائیں اور کسی کو سامنے کھڑا کر کے کھال اتروائی۔ چنانچہ پونچھ کے ایک مسلمان راجے کو گرفتار کر کے گلاب سنگھ کے سامنے لایا گیا تو اس نے راجے کی کھال اتارنے کا حکم دیا۔ کھال سر کی طرف سے اتارنے میں دماغی صدمے سے آدمی جلدی مر جاتا ہے اور اسے کم اذیت ہوتی ہے لیکن پاؤں کی طرف سے کھال اتارنے میں آدمی دیر تک زندہ رہتا ہے اور مرنے سے پہلے زیادہ دیر تک اذیت اٹھاتا ہے۔ گلاب سنگھ کا ایک بیٹا بھی اس وقت موجود تھا، جب مظلوم راجے کی کھال ٹانگوں سے اوپر ادھڑی جا چکی تو اس درد انگیز نظارے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نے منہ ایک طرف پھیر لیا۔ گلاب سنگھ نے بیٹے کی گردن پکڑ کر یہ کہتے ہوئے اس کا منہ مظلوم راجے کی طرف پھیر دیا کہ اگر بزدلی دکھاؤ گے تو حکومت کیسے کرو گے؟ جب کھال چھاتی تک اتر چکی تو بہادر مسلمان راجے نے جس کے حواس اس وقت تک بجا تھے پہلے پانی پینے کی اور پھر بیوی بچوں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ظالم گلاب سنگھ نے اس کی اس خواہش کو مسترد کر دیا۔ جب کھال گردن تک اتر چکی تو مسلمان راجہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘
گلاب سنگھ کے بعد اس کا بیٹا رنبیر سنگھ حاکم بنا، اس کے بعد پرتاب سنگھ نے چالیس برس تک کشمیر پر حکمرانی کی اور اس کے بعد راجہ ہری سنگھ نے یہ گدی سنبھالی۔ اسی کے دور میں ڈوگروں کے بے پناہ مظالم کے خلاف کشمیری عوام نے ۱۹۳۱ء میں بغاوت کی اور کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں آل انڈیا مجلس احرار اسلام نے ’’کشمیر چلو‘‘ کی تحریک چلائی جس کے تحت چالیس ہزار کے لگ بھگ علماء اور کارکنوں نے کشمیر پہنچ کر اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں خود کو قید و بند کے لیے پیش کیا۔ جبکہ اکابرین میں سے مولانا مظہر علی اظہر، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، امیر شریعت چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اور دیگر سرکردہ حضرات اس تحریک میں گرفتار ہوئے۔ اسی تحریک کے نتیجے میں کشمیر میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی اور شیخ عبد اللہ مرحوم اور چودھری غلام عباس مرحوم جیسے قوم پرست لیڈر سیاست کی افق پر ابھرے۔ اسی مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور پاکستان کے نام سے ایک اسلامی ریاست کا وجود قائم ہوا۔
تقسیم کے طے شدہ اصولوں میں نیم خودمختار ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کی اکثریتی آبادی کے جذبات اور مرضی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا جس کے خلاف ریاست کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔ جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مسلح بغاوت ہوئی، علماء کرام نے جہاد کا فتویٰ دیا اور مجاہدین نے سری نگر کی طرف یلغار کر دی۔ قریب تھا کہ مجاہدین سری نگر پہنچ جاتے کہ اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور یہ کہہ کر جنگ بندی کرا دی کہ مذاکرات کے ذریعے عوام کا یہ حق تسلیم ہے کہ انہیں آزادانہ استصواب کے ذریعے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ تب سے بھارت کشمیر پر طاقت کے زور سے قابض ہے اور کشمیری عوام کو خود ارادیت کا مسلمہ حق دینے سے انکاری ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں اور کشمیری عوام اپنی آزادی اور خود ارادیت کے مسلمہ حق کے لیے مسلسل قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔
اس پس منظر میں ۵ فروری کا دن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کا حق ہے کہ ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور انداز میں اظہار کیا جائے اور عالمی رائے عامہ کو ان کے اس جائز حق کی طرف توجہ دلائی جائے۔