(۱۳ اگست ۲۰۲۰ء کو بھوربن مری میں عالمی انجمن خدام الدین کے سالانہ اجتماع کی بعد نماز مغرب نشست سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری اور عالمی انجمن خدام الدین کا شکر گزار ہوں کہ وقتاً فوقتاً ان کی توجہ فرمائی سے سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کی مختلف نشستوں میں حاضری اور احباب سے ملاقات کا موقع مل جاتا ہے اور اپنے بزرگوں کے ساتھ نسبت تازہ ہو جاتی ہے، اللہ تعالٰی ان نسبتوں کو قائم رکھیں اور دونوں جہانوں میں ہم سب کے لیے برکتوں کا باعث بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
کل ہمارا یوم آزادی ہے، ۱۴ اگست کو ہمیں برطانوی استعمار کی غلامی سے آزادی ملی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی خودمختار نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس لیے یہ دوہری خوشی کا دن ہے اور اس روز پاکستانی عوام ملک بھر میں بلکہ دنیا میں جہاں بھی وہ ہیں، آزادی اور نئے وطن کی خوشی میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے آج آپ حضرات کے سامنے ماضی قدیم کی دو تحریکات آزادی کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے، اور جن کی قیادت حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے فرمائی تھی، یہ دونوں تحریکیں بنی اسرائیل کے دور کی ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں جو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس فلسطین سے مصر آ گئے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی حکومت و بادشاہت کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ یہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے، انہیں باقاعدہ منڈی سے خریدا گیا تھا مگر وہ غلامی اور قید و بند کے مراحل سے گزر کر مصر کی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کے خاندان کی حکومت کئی نسلوں تک چلتی رہی۔
یہ اللہ تعالٰی کا تکوینی نظام ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کو ہمیشہ اقتدار پر نہیں رہنے دیتا اور توازن تبدیل کرتا رہتا ہے، جسے قرآن کریم نے ’’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو سال تک برطانیہ نے حکومت کی، پھر امریکہ بہادر سامنے آیا اور اب قوت و طاقت کا پلڑا مشرق کی طرف جھکتا نظر آ رہا ہے۔ پھر اس کے بعد شاید ہماری باری آ جائے مگر ابھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بہرحال بنی اسرائیل کی کئی نسلوں تک مصر پر بادشاہت کے بعد حالات نے پلٹا کھایا، آل فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور بنی اسرائیل غلام ہو گئے۔ ان کی یہ غلامی اور مظلومیت کئی نسلوں تک جاری رہی۔
یہ بھی فطری بات ہے کہ نئے حکمرانوں نے جن سے حکومت چھینی ہو ان کے جبر و تشدد کا نشانہ سب سے زیادہ وہی بنتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایک عرصہ تک یہی کچھ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالٰی نے ان کی ہدایت اور آزادی کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، ان دونوں بھائیوں کو جب نبوت و رسالت دے کر اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل اور آل فرعون کی طرف بھیجا تو توحید و بندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کی دعوت و پیغام کا حصہ تھا کہ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘۔ اس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو آزادی کے ساتھ ان کے وطن جانے دے اور غلامی کے عذاب سے نجات دے۔ گویا اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد بھی دو نبیوں کے اہداف میں شامل تھی اور اس کے لیے انہیں فرعون کے ساتھ طویل کشمکش سے گزرنا پڑا۔ فرعون نے حضرت موسٰیؑ کے ساتھ اپنی گفتگو میں طعنہ دیا کہ تم نے میرے گھر میں پرورش پائی ہے اور ہمارا ایک آدمی بھی قتل کر دیا تھا، اس کے ساتھ انہیں ’’ولا یکاد یبین‘‘ کہہ کر لکنت کا طعنہ بھی دیا۔ جس کا جواب حضرت موسٰی علیہ السلام نے دیا کہ تم کون سا احسان جتلا رہے ہو؟ یہی کہ ’’ان عبّدت بنی اسرائیل‘‘ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔
بہرحال طویل جدوجہد اور کشمکش کے بعد اللہ تعالٰی نے فرعون کو لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرق کیا اور بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا کے آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ اپنا وطن فلسطین آزاد کرانے کے لیے وہاں پر قابض قوم کے خلاف جہاد کرو۔ بنی اسرائیل نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس پر اللہ تعالٰی نے فلسطین میں داخلہ بنی اسرائیل کے لیے چالیس سال تک حرام قرار دے دیا۔ اس دوران حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ انتقال فرما گئے اور ان کی جگہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قیادت سنبھالی، ان کی قیادت میں جہاد کر کے بنی اسرائیل نے فلسطین آزاد کرایا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوئی جو کئی نسلوں تک قائم رہی۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف آزادی قوم کی اصل منزل نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں آزاد ریاست کا قیام اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی بھی آزادی کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔
پھر ایک موقع پر ایک اور ظالم بادشاہ جالوت نے ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور بنی اسرائیل کی حیثیت غلاموں جیسی ہو گئی، انہوں نے اس وقت کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام سے جہاد کے لیے امیر مقرر کرنے کی درخواست کی، قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق انہوں نے حضرت طالوتؒ کو امیر مقرر کر دیا جن کی قیادت میں جالوت کے خلاف جہاد کیا گیا۔ قرآن کریم نے اس کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیا ہے، یہ جہاد نہر اُردن کے اسی مغربی کنارے میں ہوا جہاں آج کل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قبضہ کی کشمکش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا، بنی اسرائیل کو فتح ملی اور حضرت طالوتؒ کی حکومت قائم ہو گئی۔ انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام کو داماد بنا لیا اور طالوتؒ کے بعد حضرت داؤدؑ کی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جسے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں ’’خلافت‘‘ کے عنوان کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہ حضرت سلیمانؑ کے دور میں عروج و کمال تک پہنچی۔ آج کے یہودی اس عظیم سلطنت ’’اسرائیل‘‘ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے عربوں اور فلسطینیوں سے لڑ رہے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دونوں جنگیں اللہ تعالٰی کے پیغمبروں کی قیادت میں جہاد کے عنوان سے لڑی گئیں۔ دونوں کے نتیجے میں اللہ تعالٰی کے پیغمبروں کی حکومتیں قائم ہوئیں اور ریاستیں وجود میں آئیں جو تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کا ذکر قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بھی ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر انسانوں کی ہدایت کے لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تو ان کے اہداف و مقاصد میں قوموں کو غلامی سے نجات دلانا، آزاد و خودمختار ریاست قائم کرنا اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی قائم کرنا شامل تھا۔
اسی طرح ہمارے بزرگوں نے بھی دینی جذبہ کے ساتھ جنوبی ایشیا کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت کے دو سو سالہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے آزادی کی جنگیں لڑیں۔ نواب سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطان شہیدؒ سے لے کر شہدائے بالاکوٹ تک، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ کی فرائضی تحریک، پنجاب میں رائے احمد خان کھرلؒ کی جدوجہد، سرحد میں فقیر ایپیؒ اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ کی تحریکات، ۱۸۵۷ء کا معرکہ آزادی اور حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال اسی تناظر اور تسلسل کی تحریکات ہیں۔ جن کے بعد تحریک خلافت اور دیگر پر اَمن سیاسی تحریکات کا دور شروع ہوا اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکات کے تسلسل نے انگریزوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان انگریزوں کے براہ راست تسلط سے آزاد ہوا اور وطن عزیز پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا یوم آزادی ہم ایک بار پھر کل چودہ اگست کو منا رہے ہیں۔
اس موقع پر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری غلامی کا آغاز تجارت کے عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرونفوذ کے فروغ کے ذریعے ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے پورے جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کا تسلط قائم ہونے تک جا پہنچا۔ آج پھر تجارت کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مغرب و مشرق دونوں طرف سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں بلکہ ہماری روزمرہ زندگی ان کی پراڈکٹس اور سروسز کے سہارے چل رہی ہے، اور بیرونی تسلط کا ایک نیا دور مسلط ہوتا نظر آ رہا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ جس طرح آزادی کے حصول کے لیے دو سو سال محنت کی گئی تھی اور حضرات علماء کرام نے اس کی قیادت و راہنمائی کی تھی، اسی طرح آزادی کے تحفظ اور قومی خودمختاری کی بحالی کی ہمہ گیر منظم جدوجہد کا مرحلہ پھر ہمارے سامنے ہے جو قومی تقاضہ ہونے کے ساتھ ملی و دینی فریضہ بھی ہے۔ اور اس میں بھی علماء کرام، صوفیاء عظام اور دینی راہنماؤں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کا شعور و ادراک نصیب فرمائیں اور پاکستان کی سالمیت و وحدت، خودمختاری و نظریاتی تشخص، اور تہذیبی امتیاز کو قائم رکھنے کے لیے اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔