مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے قادیانیت کو یہودیت کا چربہ قرار دیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ قادیانی پاکستان میں وہی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو۔ اسی طرح اقبالؒ نے قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا کام اللہ تعالیٰ نے بھٹو مرحوم سے لیا۔ مگر آج ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں قادیانی گروہ اپنی سابقہ پوزیشن کی بحالی کے لیے ازسرِنو منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس کے عالمی سرپرست یہ سمجھ رہے ہیں کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی صفوں میں دوبارہ داخل کرنے کے لیے شاید یہی وقت زیادہ موزوں ہے۔ اس کے لیے اندرون خانہ لابنگ ہو رہی ہے، میڈیا کے ذریعے عوامی ذہن پر اثر انداز ہونے کے راستے نکالے جا رہے ہیں اور تعلیمی میدان میں نئی نسل کو اس کے لیے تیار کرنے یا کم از کم لاتعلق ہو جانے پر آمادہ کرنے کے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں۔
عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر اس صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے گزشتہ کئی برسوں سے دینی حلقوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اس سلسلہ میں بروقت بیدار ہونے اور عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ۱۹۸۴ء کے بعد عوامی سطح پر کوئی ایسی اجتماعی مہم نہیں چلی جس سے اس دوران شعور کی عمر تک پہنچنے والی نسل کو قادیانیت کے مکر و فریب اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس کی فتنہ سامانیوں سے آگاہ کیا جا سکے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ عوام بلکہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت بھی قادیانیوں کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتی کہ ایک صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس پر کچھ لوگ ایمان لے آئے اور علماء کرام نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دے رکھا ہے۔ حالانکہ قادیانیت کے بارے میں فتنہ خیزیوں اور حشر سامانیوں کا ایک پورا جہان آباد ہے اور اس سے پوری طرح واقفیت کے بغیر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے عوام کو اس دام ہمرنگ زمین کا شکار ہونے سے بچانا ممکن نہیں ہے۔
بحمد اللہ تعالیٰ چند ماہ سے اس محاذ پر بیداری اور تحریک کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور مختلف مکاتب فکر اور دینی جماعتوں کی کانفرنسوں اور سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس محاذ کے تین بڑے مورچوں میں بھی ہلچل نظر آنے لگی ہے جو میرے جیسے حساس کارکنوں کے لیے یقیناً خوشی اور اطمینان کا باعث ہے۔ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد کا سب سے بڑا مورچہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور سب سے قدیمی مورچہ مجلس احرار اسلام ہے۔ جبکہ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی تاریخ مختصر ہونے کے باوجود وہ اس سلسلہ میں جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ میری تینوں سے نیاز مندی ہے اور ان سب کا مشترکہ رضا کار ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے کسی بھی مکتب فکر کی طرف سے اس مقصد کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا خادم ہوں اور اسے اپنے لیے باعث سعادت اور باعث نجات تصور کرتا ہوں۔ اسی پس منظر میں اس محاذ پر سامنے آنے والی سرگرمیوں کے بارے میں ایک مختصر رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ۱۱ اپریل کو بادشاہی مسجد میں ملک گیر سطح پر ختم نبوت کانفرنس کا اعلان کیا ہے اور ملک بھر میں اس سلسلہ میں کام کا آغاز ہوگیا ہے۔ مولانا اللہ وسایا ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر رہے ہیں اور علماء اور عوام کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے اس ملک گیر اور تاریخی اجتماع کی کامیابی کے لیے علماء کو متحرک ہونے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ لاہور کے سرکردہ علماء کرام مولانا میاں عبد الرحمان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا عزیز الرحمان ثانی اور دیگر علماء کرام پر مشتمل رابطہ کمیٹی کئی شہروں کا دورہ کر چکی ہے اور علماء کرام اور دینی کارکنوں کو اس سلسلہ میں متحرک اور فعال کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنماؤں کا ارادہ یہ ہے کہ جس طرح ۱۹۷۴ء میں بادشاہی مسجد لاہور میں ملک گیر تاریخی اجتماع منعقد کر کے قادیانیت کے بارے میں ملک کی رائے عامہ کے عمومی رجحان اور فیصلے کا اظہار کیا گیا تھا اسی طرح کا عوامی اجتماع منعقد کر کے قادیانیوں اور ان کے ملکی اور بین الاقوامی سرپرستوں پر واضح کر دیا جائے کہ عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانیت کے بارے میں پاکستان کے عوام کے جذبات اب بھی اسی سطح پر ہیں جیسے ۱۹۷۴ء میں تھے۔
مولانا اللہ وسایا گزشتہ جمعہ کو گوجرانوالہ تشریف لائے اور کنگنی والا میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں خطبۂ جمعہ ارشاد فرمانے کے علاوہ الشریعہ اکادمی میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کی ایک بھرپور نشست سے تفصیلی خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ’’احتساب قادیانیت‘‘ کے نام سے پچیس جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری کے لیے ہدیہ کی۔ یہ ضخیم کتاب بلاشبہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور مولانا اللہ وسایا کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس میں قادیانیت کے آغاز سے لے کر اب تک اس کے بارے میں علمی اور دینی حوالے سے لکھی جانے والی اکثر تحریروں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اس میں حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی، حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری، حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری، حضرت مولانا سید بدر عالم میرٹھی، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہم اللہ تعالیٰ سمیت مختلف مکاتب فکر کے ۲۴ سے زائد اکابر علماء کرام کی تحریریں شامل ہیں۔ اور یہ ایک بیش بہا علمی ذخیرہ ہے جسے ہر دینی مدرسہ کی لائبریری اور ہر باذوق عالم دین کے ذاتی کتب خانہ کی زینت ہونا چاہیے۔
۲۶ فروری کو اسلام آباد کی جامع مسجد سلمان فارسیؓ میں مختلف دینی جماعتوں اور مکاتب فکر کے راہنماؤں پر مشتمل ’’متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی‘‘ کا اجلاس ہوا جس میں رابطہ عوام مہم کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی سطح پر کل جماعتی ختم نبوت سیمینار ۲۹ مارچ اتوار کو راولپنڈی پریس کلب میں منعقد ہوگا جس سے مختلف دینی جماعتوں کے راہنما اور قائدین خطاب کریں گے۔ جبکہ ۲۳ مارچ کو گوجرانوالہ میں ڈویژن کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو ’’کل جماعتی تحفظ ختم نبوت سیمینار‘‘ جامعہ اسلامیہ کامونکی میں ہوگا۔ جامعہ اسلامیہ میں قائم مطالعۂ مذاہب کا مرکز ہر تین ماہ کے بعد کسی مذہب کے بارے میں ایک تربیتی سیمینار کا انعقاد کرتا ہے جس میں علماء کرام اور طلبہ مسلسل تین دن تک شریک رہتے ہیں اور ماہر اساتذہ انہیں اس مذہب کے بارے میں بریفنگ دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ۲۱ تا ۲۳ مارچ کو منعقد ہونے والے سہ روزہ سیمینار کا آخری دن یعنی ۲۳ مارچ قادیانیت کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے جس میں صبح آٹھ بجے سے بارہ بجے تک بریفنگ نشست ہوگی۔ جبکہ ظہر تا عصر ’’کل جماعتی تحفظ ختم نبوت سیمینار‘‘ ہوگا۔ گوجرانوالہ ڈویژن کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو اس میں شرکت کی دعوت دی جائے گی اور متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے راہنما اس سے خطاب کریں گے۔
۲۶ فروری کو ہی بعد نماز عشاء ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ میں ۴۷ ویں سالانہ فتح مباہلہ کانفرنس تھی جس میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے امیر مولانا عبد الحفیظ مکی اور دیگر زعماء نے خطاب کیا۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے اب سے نصف صدی قبل اس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور اعلان کے مطابق چناب کے دو پلوں کے درمیان مقررہ جگہ پر پہنچ کر قادیانی سربراہ کا انتظار کرتے رہے مگر قادیانی سربراہ یا ان کا کوئی نمائندہ وہاں نہ آیا۔ اس کے بعد ہر سال مولانا چنیوٹیؒ پہلے سے اعلان کر کے ہر سال اس تاریخ کو وہاں جاتے رہے مگر کسی قادیانی سربراہ کو مباہلہ کے لیے آج تک سامنے آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس کی یاد میں ہر سال ۲۶ فروری کو ’’فتح مباہلہ کانفرنس‘‘ منعقد کی جاتی ہے۔ اب حضرت چنیوٹیؒ کے جانشین مولانا محمد الیاس چنیوٹیؒ اس کانفرنس میں موجودہ قادیانی سربراہ کے لیے مباہلہ کی اس دعوت کا اعادہ کرتے ہیں اور راقم الحروف کو بھی اس میں حاضری کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
یکم مارچ کو مجلس احرار اسلام نے اپنے مرکزی دفتر لاہور میں ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے شہداء کی یاد میں ’’شہدائے ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا جو ہر سال منعقد ہوتی ہے اور علماء کرام، طلبہ اور دینی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اس میں شریک ہو کر شہدائے ختم نبوت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مشن کو زندہ رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ مجلس احرار اسلام کے امیر پیر جی سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں متعدد احرار راہنماؤں کے علاوہ جماعت اسلامی کے راہنما جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، خاکسار راہنما جناب حمید الدین المشرقی، مولانا پیر سیف اللہ خالد اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔
مجھے یقین ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ میں دلچسپی رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے یہ سرگرمیاں اطمینان اور حوصلہ کا باعث ہوں گی اور تمام مسلمان اس جدوجہد کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار سنجیدگی کے ساتھ ادا کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔