دستور پاکستان میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں کی جانے والی سترہویں ترمیم پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کی قائم کردہ کمیٹی اپنے کام میں مصروف ہے اور اس کے بارے میں مختلف اطراف سے اظہار خیال کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ پارلیمانی کمیٹی صرف سترہویں ترمیم کے خاتمہ کا طریق کار طے کرنے تک محدود نہیں ہے جس سے اس کی ذمہ داری پورے دستور کی ’’اوورہالنگ‘‘ تک پھیلی ہوئی ہے، اس لیے وہ دستوری مسائل بھی زیر بحث آرہے ہیں جو اگرچہ سترہویں ترمیم سے متعلق نہیں ہیں مگر مختلف حوالوں سے قومی حلقوں میں وقتاً فوقتاً ان پر بحث ہوتی آرہی ہے۔
جہاں تک سترہویں ترمیم کا تعلق ہے اکثر سیاسی پارٹیاں اصولی طور پر اس کی مخالفت کر رہی ہیں، حتٰی کہ وہ بعض جماعتیں جن کی حمایت یا خاموشی کے باعث سترہویں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی تھی وہ بھی اس کے خاتمہ پر زور دے رہی ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے کام کو سترہویں ترمیم تک محدود نہ رکھنے کے بارے میں دو قسم کی آرا سامنے آرہی ہیں:
- ایک یہ کہ دائرے کو پھیلانے کا مقصد یہ ہے کہ اس قدر وسیع تناظر میں دستوری مسائل پر اتفاق رائے کا حصول آسان کام نہیں ہے اس لیے نہ اتفاق رائے ہوگا اور نہ سترہویں ترمیم کے خاتمہ کی نوبت آئے گی، اس طرح سترہویں ترمیم کے خاتمہ کی بجائے درپردہ اور بالواسطہ اس کے تحفظ کی صورت نکالی گئی ہے۔
- جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ پورے دستور کی ’’اوورہالنگ‘‘ کے عنوان سے نیا پنڈورا باکس کھولنے کے نتیجے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دستور پاکستان میں اسلامی دفعات اور پاکستان کے نظریاتی تشخص اور کردار کو متعین کرنے والی دفعات کو ختم کرانے کے لیے جو لابیاں ایک عرصہ سے متحرک ہیں اور مسلسل ذہن سازی اور لابنگ کر رہی ہیں انہیں اپنے کام میں پیش رفت کا شاید موقع مل جائے اور ہو سکتا ہے کہ دستوری ترامیم پر نظر ثانی کے عمومی تناظر میں وہ بھی اپنا الو سیدھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
دستور پاکستان میں اب تک جتنی ترامیم ہوئی ہیں، ایک دو کو چھوڑ کر کہ ان پر پارلیمنٹ اور عوامی حلقوں میں طویل بحث و مباحثہ ہوا ہے اور ایک طرح کے قومی اتفاق رائے کے حصول کے بعد وہ ترامیم عمل میں آئی ہیں، ورنہ عام طور پر جس طرح جلد بازی اور عجلت میں آئینی ترامیم ایوان سے منظور کرانے کی روایت خاص طور پر ڈکٹیٹروں کے ادوار میں ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ دستوری ترامیم پر عمومی بحث و مباحثہ کے ماحول میں دستور کی وہ دفعات بھی زد میں آجائیں جو شروع سے بین الاقوامی سیکولر حلقوں کے اعتراضات کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ اس لیے دینی جماعتوں اور علمی مراکز کو چاہیے کہ وہ دستور کا جائزہ لینے والی پارلیمانی کمیٹی کے کام پر مسلسل اور گہری نظر رکھیں اور جہاں بھی وہ اس قسم کی کوئی بات محسوس کریں اس سے رائے عامہ کو آگاہ کرنے میں بروقت اپنا کردار ادا کریں۔ کیونکہ پارلیمنٹ کے بیشتر ارکان کو کسی بل کے مضمون اور اس کی افادیت اور نقصان سے اتنی دلچسپی نہیں ہوتی جتنی اہمیت وہ پارٹی ڈسپلن کو دیتے ہیں، اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پارٹی کی پارلیمانی قیادت جب کسی بل کی حمایت کا فیصلہ کرے تو وہ آنکھیں بند کر کے اس کے حق میں ووٹ دے دیتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کے دور اقتدار میں قومی اسمبلی سے ’’شریعت بل‘‘ منظور ہوا تو اس کی ایک دفعہ یہ تھی کہ:
’’قرآن و سنت ملک کا سپریم لاء ہوگا‘‘
جسے منظور کرتے ہوئے اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا کہ:
’’بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو‘‘
میں نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دینے والے اس وقت کے ایک ایم این اے سے دریافت کیا کہ آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے ووٹ دیا ہے باقی تفصیلات کا ہمیں پتہ نہیں ہے۔ ہماری اسمبلیوں کے اکثر ارکان کا یہی حال ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پارلیمنٹ سے کسی قانون کو منظور کرانے کے لیے دلیل سے کہیں زیادہ لابنگ کی قوت کام کرتی ہے اور ہمارے ہاں قانون سازی کی گاڑی کے کسی صحیح ٹریک پر نہ چڑھنے میں ایک بڑی اور بنیادی رکاوٹ یہی ہے۔ اس بنا پر ہمیں دینی جماعتوں اور علمی مراکز کو توجہ دلانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ کہیں اس رواروی اور افراتفری میں سیکولر حلقے دستور کی اسلامی دفعات کے بارے میں دخل اندازی کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ مثال کے طور پر دو اہم دفعات کا حوالہ دینا چاہوں گا جو دستوری آنکھ مچولی کا بطور خاص ہدف ہیں:
- ایک قرارداد مقاصد ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی اور ملک میں نافذ ہونے والی ہر دستور کا حصہ رہی ہے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دستور تینوں میں اسے صرف ایک دیباچے اور پیش لفظ کی حیثیت حاصل تھی۔ اس میں قرآن و سنت کی حدود کے اندر ملک کا نظام چلانے کو ریاست اور حکومت کا اصل ہدف قرار دیا گیا ہے اور یہی قرارداد مقاصد پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت کا اساسی طور پر تعین کرتی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے اسے دستور کا باضابطہ حصہ بنا دیا گیا، جبکہ سپریم کورٹ کے ایک فل بینچ نے قرارداد مقاصد کو دستور کی دیگر دفعات پر بالاتر دفعہ کا درجہ دینے کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو تسلیم نہ کر کے اسے باقی دفعات کے برابر قرار دے دیا ہے جس سے اس کی امتیازی حیثیت ختم ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود قرارداد مقاصد دستور پاکستان کے واجب العمل حصہ کے طور پر موجود ہے جس کا عملی طور پر کوئی فائدہ اگرچہ سامنے نہ آرہا ہو لیکن اصولی اور نظریاتی طور پر یہ فائدہ ضرور موجود ہے کہ وہ دستور کی نظریاتی اسلامی حیثیت کو طے کرتی ہے اور اس کی موجودگی میں ملک کو سیکولر ریاست کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے بین الاقوامی اور قومی سطح پر بعض حلقوں کی یہ خواہش اور کوشش چلی آرہی ہے کہ قرارداد مقاصد کو دستور پاکستان سے نکال دیا جائے یا کم از کم پہلے کی طرح صرف دیباچے کے طور پر باقی رکھا جائے تاکہ سیکولر اقدامات میں دستوری طور پر پیدا ہو جانے والی رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے۔
- اسی طرح قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کی دستوری ترمیم ہے جو طویل قومی بحث و مباحثہ، دینی حلقوں کی کم و بیش ایک صدی پر محیط جدوجہد اور پارلیمنٹ میں تین ہفتوں تک ہونے والی لمبی بحث و تمحیص کے بعد قومی اتفاق رائے کا درجہ حاصل کر کے قوم کے منتخب نمائندوں نے متفقہ طور پر طے کی تھی۔ مگر قایانی گروہ گزشتہ ۳۵ برس سے پوری قوم اور پارلیمنٹ کے اس متفقہ فیصلے کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور غیر مسلم اقلیت کی حیثیت قبول کرنے کی بجائے اسلام اور مسلمان کے ٹائٹل کے ساتھ اپنا وجود تسلیم کرانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس کے لیے قادیانیوں نے مسلّمہ اصولوں اور قوانین کے برعکس انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کے نعرے کا ناجائز طور پر سہارا لے رکھا ہے اور بین الاقوامی سیکولر لابیاں انہیں مسلسل سپورٹ کر رہی ہیں۔
- قارئین کو یاد ہوگا کہ جب پارلیمنٹ میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ کے نام سے حدود آرڈیننس کا تیاپانچہ کیا گیا تھا تو بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے واضح طور پر یہ بات کہی گئی تھی اسی طرح تحفظ ناموس رسالت کے قانون اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے اور اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی دعوت و تبلیغ سے روکنے کے قوانین پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے حکومت پاکستان پر اب دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں ہم یہ تو نہیں کہتے کہ دستور میں ترامیم کے لیے کام کرنے والی پارلیمانی کمیٹی دستور کی اسلامی دفعات کو ختم کرنے یا غیر مؤثر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے، اور یہ بھی ہم نہیں کہتے کہ کمیٹی کے ارکان خود ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ کمیٹی سے ایسا کام لیا جا سکتا ہے اور اس طرح کا کام لینے والے اور اس کے لیے ماحول سازگار بنانے والے حلقے چونکہ ملکی اور بین الاقوامی دونوں دائروں میں مؤثر اور طاقتور ہیں اس لیے یہ کام لیے جانے کے امکانات کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے خیال میں ملک کی بڑی دینی جماعتیں اور علمی مراکز اگر اپنے طور پر ایک مشترکہ جائزہ کمیٹی قائم کر کے دستوری ترامیم اور متعلقہ مسائل کے حوالے سے دینی حلقوں کا ایک متفقہ اور جامع موقف قوم کے سامنے لا سکیں تو دستوری مسائل پر قومی بحث و مباحثہ میں کافی حد تک توازن کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔