اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے گزشتہ روز جنرل اسمبلی کی لیگل کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’اسلام کی غلط اور غیر معقول عکاسی کرنے والوں کے خلاف کاروائی اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکمت عملی بنائی جائے۔ اسلام کے خلاف متعصبانہ رویہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں اسلامی عقائد کی تعصب پر مبنی کردار کشی کی روک تھام پر بھرپور توجہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور اشتعال انگیز کاروائیاں ناقابل برداشت ہیں جو کہ نہ صرف رویوں میں شدت کا باعث بنتی ہیں بلکہ اس سے مغرب اور اسلامی دنیا کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی ان بنیادی وجوہ کو دور کرنا ضروری ہے جن سے دہشت گردی فروغ پاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو دہشت گردی کی بنیادی وجوہ سمیت طویل عرصہ سے حل طلب تنازعات کے حل، طاقت کے غیر قانونی استعمال اور جارحیت کی روک تھام جیسے امور پر بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو غیر ملکی قبضہ، حق خود ارادیت سے انکار، سیاسی اور اقتصادی نا انصافیوں کے ساتھ سیاسی استحصال اور پسماندگی جیسے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے کسی فورم پر اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے اس قسم کی باتیں ایک عرصہ کے بعد سنائی دی ہیں جن پر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ایک دور میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اس لہجہ میں بات کیا کرتے تھے، مگر اب وہ نہ صرف یہ کہ اقتدار میں نہیں ہیں بلکہ صاحب فراش بھی ہیں۔ اس لیے ہمارے جیسے نظریاتی کارکن ان کی صحت یابی کی دعا کے ساتھ ساتھ اس تمنا کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں کہ اے کاش کسی مسلم ملک کا کوئی نمائندہ اقوام متحدہ کے فورم پر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بات کرے۔ اس لیے ہمیں ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی یہ باتیں بہت اچھی لگی ہیں اور ہم ان کے لیے سعادت دارین کی دعا کرتے ہیں، آمین یا رب العالمین۔
اقوام متحدہ کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے بہت سی باتیں کرنے کی ہیں اور کیونکہ گزشتہ ستر برس سے ایسے معاملات جمع ہوتے جا رہے ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے مگر سنجیدگی کے ساتھ کسی مسئلہ کو کسی مناسب فورم پر نہیں اٹھایا رہا، اس لیے یہ فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ ہم بھی ایک عرصہ سے اقوام متحدہ اور عالم اسلام سے متعلقہ مسائل و معاملات پر اپنے محدود دائرہ میں کچھ نہ کچھ کہہ اور لکھ رہے ہیں اور اس موضوع کے طلبہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند گزارشات اس موقع پر بھی ارباب فکر و دانش کی خدمت میں پیش کر دی جائیں۔ اس امید پر کہ ہو سکتا ہے ان معروضات کو کوئی بہتر زبان یا فورم میسر آجائے اور وہ وہاں تک رسائی حاصل کر سکیں جہاں ان گزارشات پر سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی مذکورہ بالا گفتگو کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور عالم اسلام کے تعلقات کی موجودہ صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا کے کم و بیش سب ہی مسلم ممالک ایک آدھ کی استثناء کے ساتھ اقوام متحدہ کا حصہ ہیں، اس کے نظام میں شریک ہیں اور اس کے مثبت اور منفی فیصلوں کا دائرہ کار ہیں، مگر مسلمانوں کے طور پر ان کا تشخص کسی جگہ بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا ۔ اور اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا جا رہا کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان نہ تو اپنے مذہبی تشخص سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی قرآن و سنت کے معاشرتی احکام کو اپنی انفرادی، خاندانی اور اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے پر آمادہ ہیں۔ پوری دنیا میں مجموعی صورت حال یہی ہے مگر اسے تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور بلا وجہ فرض کر لیا گیا ہے کہ دنیا کی باقی آبادی کی طرح مسلمان بھی مذہب کے معاشرتی کردار سے کنارہ کش ہوگئے ہیں یا انہیں اس پر تیار کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک مغرب اور عالم اسلام کے درمیان موجودہ کشمکش اور اس میں دن بدن شدت پیدا ہوتے چلے جانے کی اصل وجہ یہی ہے۔ اس لیے جب تک یہ معروضی حقیقت تسلیم نہیں کر لی جاتی کہ مسلمان آج بھی اللہ تعالیٰ، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ و سنت پر بے لچک یقین رکھتے ہیں اور ان کے احکام و قوانین کو اپنی معاشرتی زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں اس وقت تک باقی امور میں بہتری کی طرف کسی پیش رفت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اقوام متحدہ اور مغربی قیادت کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اسلام کے معاشرتی وجود اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی نفی کرنے اور اسے نظر انداز کرتے چلے جانے کی بجائے اسے ایک زمینی حقیقت کے طور پر تسلیم کریں اور اس کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ معاملات کو از سر نو طے کرنے کی کوئی صورت نکالیں۔ ورنہ اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں کے بارے میں مسلم دنیا کی بے چینی اور اضطراب میں بہرحال اضافہ ہوتا رہے گا، فاصلے بڑھتے رہیں گے اور بے اعتمادی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ کرنے کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور سمیت ان تمام بین الاقوامی معاہدات پر مسلم دنیا کے تحفظات بدستور موجود ہیں جو آج کے عالمی نظام کی بنیاد تصور کیے جاتے ہیں اور عملاً بین الاقوامی قوانین کا درجہ رکھتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ اگر اپنے اوپر لاگو ہونے والے قوانین کو اپنے عقائد کے منافی سمجھتا ہو اور ان کے اصولی اور اخلاقی جواز پر تحفظات رکھتا ہو تو باہمی اعتماد کی فضا قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ایسے ماحول کو کسی بہتر مستقبل کا پیش خیمہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ کے ساتھ یہ معاملہ اٹھانا بھی ضروری ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا کم و بیش ایک چوتھائی حصہ اقوام متحدہ کی پالیسی سازی کے نظام کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ فیصلے اور تنفیذ کی اصل قوت سلامتی کونسل کے پاس ہے جبکہ سلامتی کونسل میں اصل اتھارٹی ’’پانچ ویٹو پاورز‘‘ ہیں جن کے ہاتھ میں پوری دنیا کا نظام ہے۔ اس دائرہ میں نہ کوئی مسلم ملک شامل ہے اور نہ ہی کسی مسلم ملک یا مسلمان ملکوں کے کسی اجتماعی فورم کی وہاں تک رسائی کا کوئی امکان ہے۔ اس لیے پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ کے موجودہ نظام کو دنیائے اسلام ’’ون وے ٹریفک‘‘ سمجھتی ہے اور خاص طور پر مسلم ممالک کے بارے میں سلامتی کونسل کے فیصلوں کو ’’یکطرفہ فیصلے‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ماحول کو عملی طور پر تبدیل کیے بغیر باہمی تعلقات اور رویوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
مگر اقوام متحدہ سے بات کرنے سے قبل ان مسائل پر عالم اسلام کے علمی، فکری اور دینی مراکز میں مباحثہ ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے معاہدات، قوانین، فیصلوں اور پالیسیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے موجودہ عالمی نظام کے بارے میں مسلمانوں کی شکایات، تحفظات اور مطالبات کو مرتب کرنے اور دانش و منطق کی زبان میں اسے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اسلامی یونیورسٹیوں، بڑے دینی مدارس اور علمی و فکری مراکز کو خواب غفلت سے بیدار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ ہم تو صرف گزارش ہی کر سکتے ہیں جو اس امید کے ساتھ کرتے رہتے ہیں کہ