دینی حلقے اور انتخابی سیاست

   
اکتوبر ۱۹۹۰ء

ملک میں عام انتخابات کی تیاری جاری ہے، متحارب سیاسی قوتیں ۲۴ اکتوبر کو منعقد ہونے والے الیکشن کے لیے امیدواروں کی نامزدگی اور اعلان کا کام کم و بیش مکمل کر چکی ہیں اور نئی صف بندی کے ساتھ انتخابی مہم کے میدان میں اترنے والی ہیں۔ اس انتخابی مہم میں ملک کے دینی حلقے شریک ہیں اور متعدد دینی جماعتوں کے امیدواروں کی ایک بڑی تعداد الیکشن میں حصہ لیے رہی ہے، لیکن کسی مشترکہ دینی محاذ کے نام پر نہیں بلکہ مختلف حیثیتوں سے اور مختلف سہاروں کے ساتھ دینی جماعتیں انتخابی سیاست میں اپنا وجود قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ’’شریعت بل‘‘ کے نام پر دینی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ جدوجہد سے عوامی حلقوں میں یہ خوشگوار تاثر ابھرا تھا کہ دینی حلقے انتخابات میں بھی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں گے اور اس طرح قومی سیاست میں دینی سیاست کا مستقل وجود اور تشخص قائم ہونے کی کوئی صورت سامنے آ سکے گی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور بیشتر دینی سیاسی جماعتیں آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے سیکولر ذہن اور مزاج کی سیاسی قوتوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئیں۔

ہم اس الیکشن میں دینی جماعتوں کے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں، لیکن اس موقع پر انہیں اس امر کی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ دینی جماعتوں کو اپنے سیاسی طرز عمل پر بہرحال نظرثانی کرنا ہو گی۔ کیونکہ اول تو انتخابی سیاست کے ذریعے نفاذ اسلام کی خوش فہمی دم توڑ چکی ہے، اور اگر دینی حلقوں کو انتخابی سیاست میں خیر کا کوئی پہلو ابھی تک نظر آ رہا ہے تو اس کے حصول کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی انہیں سیکولر اور منافق سیاسی حلقوں کے جھرمٹ سے نکل کر ایک مشترکہ دینی محاذ کی تشکیل کرنا ہوگی ورنہ وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا صاف خون انتخابی سیاست کے ذریعے روایتی منافقانہ سیاسی عمل کی رگوں میں منتقل کر دینے کے علاوہ اور کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter