چرچ آف انگلینڈ کی ایک دلچسپ رپورٹ

   
یکم جون ۲۰۰۷ء

میں ۵ مئی کو لندن گیا تھا اور ۲۴ مئی کو واپس آ گیا ہوں۔ اس بار بھی حسب معمول مختلف شہروں کے دینی اجتماعات میں شرکت کی اور متعدد تعلیمی اداروں کے اجلاسوں میں حاضری دی۔ لندن، برمنگھم، گلاسگو، مانچسٹر، ایڈنبرا، نوٹنگھم، لیسٹر، آکسفورڈ، دالسال، برنلی، مدرویل، ڈنز اور لیوٹن وغیرہ میں علماء کرام اور دیگر احباب سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اور ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوا جس میں آئندہ تین سال کے لیے نئے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے۔ مجھے سیکرٹری جنرل سے اٹھا کر سرپرست کے اعزازی منصب سے نوازا گیا جبکہ میری جگہ مولانا مفتی برکت اللہ کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا جو ہمارے پرانے ساتھی ہیں، انڈیا کے علاقہ بھیونڈی سے تعلق رکھتے ہیں، دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، ایک عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں اور علمی و دینی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جبکہ چیئرمین بدستور مولانا محمد عیسٰی منصوری رہیں گے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام وائٹ چیپل لندن کے ابراہیم کمیونٹی کالج میں ایک فکری نشست ہوئی جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مجھے اس میں حالات حاضرہ کے تناظر میں دینی حلقوں کی ذمہ داریوں پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا۔

جامعہ الہدٰی نوٹنگھم میں گزشتہ سفر کے دوران طالبات کی ایک کلاس کے سامنے انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ گفتگو ہوئی تھی، اس بار ان کا تقاضہ تھا کہ اس موضوع پر ان کے سامنے تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کروں چنانچہ طالبات اور ان کی اساتذہ کی کلاس میں انسانی حقوق کے عالمی منشور کو سامنے رکھ کر تین لیکچروں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا جائزہ پیش کیا اور انسانی حقوق کے بارے میں اسلامی موقف کی وضاحت کی۔ نوٹنگھم میں ’’مسلم ہینڈز‘‘ کے نام سے کام کرنے والے ایک رفاہی ادارے کے ہیڈ آفس میں حاضری دی جو سوہدرہ وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک محترم دوست صاحبزادہ لخت حسنین کی سربراہی میں کام کر رہا ہے اور اس کی رفاہی سرگرمیوں کا دائرہ دنیا کے مختلف ممالک تک وسیع ہے۔ صاحبزادہ لخت حسنین حضرت پیر محمد کرم شاہ ازہریؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور اپنے استاذ محترم کی طرح اعتدال و توازن کا دامن تھامے دینی و رفاہی خدمات میں مگن ہیں۔

اس بار ایڈنبرا سے چالیس میل آگے اسکاٹ لینڈ کے ایک قصبے ڈنز میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں جانے کی وجہ تو صرف اتنی تھی کہ میرے بھانجے ڈاکٹر رضوان کی تقرری وہاں کے ایک قریبی ہسپتال میں ہو گئی ہے اور انہوں نے رہائش ڈنز میں اختیار کر رکھی ہے۔ ان کے ہاں ایک رات کے لیے گیا تو ڈنز کے مبینہ تاریخی پس منظر نے اس سفر میں دلچسپی کا ایک اور پہلو بھی پیدا کر دیا۔ ڈاکٹر رضوان نے مجھے بتایا کہ یہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے برطانوی تاریخ میں ڈنز کی ایک خاص اہمیت ہے جو یہاں کے باشندوں کی زبانوں پر عام ہے۔ وہ یہ کہ جب ہٹلر نے پولینڈ پر فوج کشی کی تو وہاں کے بہت سے باشندے ترک وطن کر کے برطانیہ آ گئے جن کی ایک بڑی تعداد نے ڈنز میں رہائش اختیار کی۔ یہاں برطانوی فوج کا ایک بیس تھا جس میں ان پولش باشندوں نے خود کو جرمنی کے خلاف فوجی خدمات کے لیے پیش کر دیا اور جنگ عظیم میں برطانیہ کے دفاع میں کردار ادا کیا۔ ان میں پائلٹ بھی تھے جن کے بارے میں وہاں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جرمن فضائیہ کی برتری اور برطانوی افواج کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے اپنی جانوں پر کھیلنے کا فیصلہ کیا اور خودکش حملوں کے ذریعے جرمن طیاروں کا راستہ روک کر برطانیہ کے دفاع کو مستحکم کیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ پولش پائلٹ برطانوی جنگی طیارے اڑاتے، جرمن طیاروں کا مقابلہ کرتے، جب ان کو روکنے کا اور کوئی طریقہ کارگر نہ پاتے تو اپنے طیارے ان کے طیاروں سے ٹکرا دیتے۔ مقامی لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ اگر یہ پولش پائلٹ ان خودکش حملوں کے ذریعے جرمن فضائیہ کا راستہ نہ روکتے تو برطانوی فضائیہ کے لیے جرمن فضائیہ کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ بہرحال یہ ایک عام روایت ہے جو ڈاکٹر رضوان کے علاوہ وہاں کے بعض دوسرے دوستوں نے بھی سنائی مگر میں معروف طور پر اس کی تصدیق کا اہتمام نہ کر سکا البتہ بعض دوستوں کے ذمے لگا آیا ہوں کہ اگر اس کے بارے میں کوئی مستند مواد مل جائے تو وہ مجھے ضرور فراہم کریں۔

لندن میں ممتاز اہل حدیث رہنما ڈاکٹر صہیب حسن کے ہاں حاضری دی مگر ملاقات نہ ہو سکی۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم حضرت مولانا عبد الغفار حسنؒ برصغیر کے ممتاز علماء کرام میں سے تھے، گزشتہ دنوں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ ورلڈ اسلامک فورم کے ایک وفد نے جو مولانا محمد عیسٰی منصوری، مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا قاری محمد عمران اور راقم الحروف پر مشتمل تھا ڈاکٹر صہیب حسن کے مرکز میں تعزیت کے لیے حاضری دی مگر وہ موجود نہ تھے بعد میں فون پر ان سے تعزیت کی۔ حضرت مولانا عبد الغفار حسنؒ میرے مشفق اور دعاگو بزرگوں میں سے تھے، ان سے پہلی ملاقات فیصل آباد میں حضرت مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ کے ہاں ہوئی تھی اس کے بعد ملاقاتیں ہوتی رہیں اور میری نیازمندی اور ان کی شفقتوں کا تسلسل قائم رہا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے جیل کے ساتھی ہیں، ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران دونوں اکٹھے جیل میں رہے تھے۔

اس سفر کے دوران چرچ آف انگلینڈ کی ایک رپورٹ بھی سامنے آئی جو خاصی دلچسپی کا باعث بنی۔ اس رپورٹ کے مطابق چرچ آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانوی حکومت کی تباہ کن پالیسیوں نے برطانوی مسلمانوں کو انتہاپسند بنا دیا ہے، دنیا بھر میں برطانیہ کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے، وہ یورپ میں تنہا کھڑا ہے اور اس کی وجہ امریکہ کے ہر حکم کی بجاآوری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق پر ناجائز تسلط اور برطانوی حکومت کی نامناسب اور نا انصافی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے برطانیہ دہشت گردوں کی بھرتی کا سرگرم حصہ بن گیا ہے۔ رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ قیادت کی تبدیلی (مسٹر ٹونی بلیئر کے جانے) سے فکر و نظر میں تبدیلی آئے گی۔ خبر کے مطابق پروٹسٹنٹ فرقے کے عالمی سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز نے اس رپورٹ کی تصدیق کر دی ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے نام ایک خط میں یہ بھی کہا ہے کہ مغربی جمہوریت کو برآمد کرنے کی کوشش کو پلٹ کر واپس دے مارا گیا ہے اور مغرب کی جانب سے غیر منتخب حکومتوں کی حمایت کے باعث اب جمہوریت کی اپیلوں پر شبہ کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیئر جنہوں نے عوامی دباؤ کے باعث ۲۷ جون سے وزارت عظمٰی کا منصب چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے، منصب سے دستبرداری کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ مغرب کو اسلام سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اپنی اقدار پر ڈٹے رہنا چاہیے اور یہ بات ثابت کرنی چاہیے کہ مغرب اپنی اقدار پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم مسلمانوں کے اس نظریے پر دفاعی انداز اختیار کر لیتے ہیں جس کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی مغرب کے رویے کا ردعمل ہے۔ ۱۰ مئی کے اخبارات کے مطابق وزارت عظمیٰ سے دستبرداری کے اعلان سے قبل مسٹر ٹونی بلیئر سے دارالعوام میں سوال کیا گیا کہ عراق جنگ سے پیدا شدہ صورتحال سے صرف ٹونی بلیئر پر نہیں بلکہ پورے سیاسی نظام پر بھروسے کو ٹھیس پہنچی ہے، اس لیے وزیراعظم کو عراق کے بارے میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے معافی مانگنی اور اقتدار چھوڑنے سے قبل معاملے کی مکمل انکوائری کرانا چاہیے۔ اس کے جواب میں مسٹر بلیئر نے معافی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ جائے جو عراق کو کمزور کر رہے ہیں۔

اس سے زیادہ دلچسپی کا باعث ایک اور رپورٹ بنی جو کنزرویٹو پارٹی کے لیڈر مسٹر ڈیوڈ کیمرون کے حوالے سے ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اگلے الیکشن میں کنزرویٹو پارٹی جیت گئی، جس کے اب واضح امکانات نظر آرہے ہیں، تو مستقبل کے برطانوی وزیراعظم وہ ہوں گے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک مسلمان فیملی کے ساتھ ان کے گھر میں چوبیس گھنٹے گزارے ہیں، پھر ایک تفصیلی انٹرویو میں مسلمانوں کی فیملی اقدار اور ان کے تہذیبی رویے کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ مسٹر کیمرون کے انٹرویو کے اہم نکات اور ان کے بارے میں ضروری گزارشات اگلے کالم میں پیش کی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter