یہ خاندانی مزاج کا اثر ہے یا تعلیم و تربیت کے ماحول کا ثمرہ کہ حکمرانوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کو بحمد اللہ تعالیٰ کبھی جی نہیں چاہا ور اگر کبھی خودبخود مواقع پیدا ہوئے ہیں تو بھی معاملے کے دائرے کو محدود رکھنے ہی کی کوشش کی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کی کابینہ میں پاکستان قومی اتحاد شامل ہوا تو اس میں جمعیت علماء اسلام کے بھی تین منسٹر تھے۔ میں اس وقت پاکستان قومی اتحاد پنجاب کا سیکرٹری جنرل اور جمعیت علمائے اسلام کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا، مگر جمعیت کی مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں وفاقی وزیر بلدیات حاجی محمد زمان خان اچکزئی کے ساتھ اکثر میری جھڑپ ہو جایا کرتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تم جمعیت کے سیکرٹری اطلاعات ہو اور ہم وفاقی کابینہ میں جمعیت کی نمائندگی کر رہے ہیں، مگر تم ہمارے ساتھ رابطے میں نہیں رہتے۔ جس کے جواب میں میرا موقف یہ ہوتا تھا کہ میں پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات ہوں، آپ حضرات کا نہیں۔
گوجرانوالہ میں ہمارے ایک محترم دوست میاں اسماعیل ضیاء مرحوم پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے، حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی تربیت یافتہ حضرات میں سے تھے۔ ان کے سیاسی فکر میں بائیں بازو کے رجحانات غالب تھے، مگر مذہبی اعتبار سے صوم و صلوٰۃ کے پابند اور باکردار آدمی تھے۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے بہت متاثر تھے۔ میری ان کے ساتھ دوستی، بلکہ بے تکلفانہ دوستی تھی۔ ایک روز اخبار میں خبر چھپی کہ میاں محمد اسماعیل ضیاء کو صوبائی کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ دوسرے دن میں صبح ہی صبح ان کے گھر جا دھمکا، کہنے لگے اتنی صبح آئے ہو خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ ایک تو آج آپ کے ہاں ناشتہ کرنے کو جی چاہتا تھا اور دوسرا یہ کہ کل اخبار میں خبر پڑھی تھی کہ آپ وزیر بن رہے ہیں تو الوداعی ملاقات کے لیے آ گیا ہوں۔ اس کے بعد جب تک آپ وزیر رہیں گے، ہمارا ادھر کو رخ نہیں ہو گا۔ ہنس کر کہا کہ اخبار کی خبر درست نہیں ہے اور یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔
یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ آج کے کالم میں حکمران کیمپ کی ایک بڑی شخصیت کا تذکرہ کرنے کو جی چاہتا ہے، کہیں اس کا کوئی غلط مطلب نہ لے لیا جائے۔ یہ شخصیت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین ہیں۔ جن سے میری کوئی راہ و رسم نہیں ہے، شاید کسی مجلس میں ایک دو مرتبہ رسمی علیک سلیک ہو گئی ہو، اس سے زیادہ ان کے ساتھ تعلقات کے باب میں کوئی اندراج یاد نہیں آ رہا۔ البتہ ان کے والد محترم چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے ساتھ اچھی راہ و رسم تھی۔ پاکستان قومی اتحاد میں اکٹھے رہے، پارلیمانی بورڈ، مختلف کمیٹیوں، الیکشن مہم اور پھر احتجاجی جدوجہد میں رفاقت رہی اور بہت سے محاذوں پر مل جل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کے حوالے سے یادداشتوں کا ایک الگ باب ہے، جو کسی مناسب موقع پر ان شاء اللہ تعالیٰ ریکارڈ میں آ جائے گا۔
چودھری شجاعت حسین گزشتہ دنوں بیرون ملک سے واپس آئے تو میری چھٹی حس نے کہا کہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا مسئلہ اب حل ہو جائے گا۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے دینی حلقوں کے مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ اب دوبارہ شامل نہیں کیا جائے گا، مگر میں جانتا تھا کہ پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کرنے کی کارروائی چودھری شجاعت حسین کو ہضم نہیں ہو گی۔ میں اس خاندان کو جانتا ہوں اور ان کی قوت ہاضمہ کا بھی مجھے اندازہ ہے، جو مذہبی معاملات میں بہت کمزور ہے اور دین کی بنیادی باتوں کے خلاف کوئی بات ہضم کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے ان سے کسی لچک کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ چودھری ظہور الٰہی مرحوم ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں ہمارے ساتھ تھے، قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کی مہم میں وہ پیش پیش تھے اور عوامی احتجاجی جلسوں میں ان کے لہجے کی گھن گرج آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے۔ اس لیے اس خاندان کے کسی فرد سے کم از کم میں یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ عقیدہ ختم نبوت یا دین کے کسی بنیادی تقاضے کی کھلم کھلا نفی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گا۔
گزشتہ دنوں چناب نگر (ربوہ) میں پولیس چوکی کی شہر کے وسط سے منتقلی کی وجہ سے وہاں نصف صدی سے تعمیر شدہ مسجد کا مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ مسجد یا تو گرا دی جائے گی یا پھر قادیانیوں کی تحویل میں چلی جائے گی، جس پر علاقے کے مسلمانوں میں اضطراب اور تشویش پیدا ہوئی۔ انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، مجلس احرار اسلام، پاکستان شریعت کونسل اور دیگر دینی جماعتیں متحرک ہوئیں تو میں نے بعض دوستوں سے کہا کہ یہ بات براہ راست چودھری پرویز الٰہی تک پہنچانے اور انہیں قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد میں چودھری ظہور الٰہی مرحوم کا بھرپور کردار یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ یہ تکنیک کامیاب رہی اور چودھری پرویز الٰہی نے ذاتی دلچسپی لے کر پولیس چوکی کو پرانی جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا، جس سے یہ مسئلہ بروقت حل ہو گیا۔
ملک کے سرکاری تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں اور نئی متنازعہ نصابی کتابوں کا مسئلہ سامنے آیا تو ملک بھر میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ یہ سب کچھ بیرونی دباؤ، سیکولر لابیوں اور این جی اوز کا کیا دھرا تھا، جس کے لیے سالہا سال سے کام ہو رہا تھا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ یہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں تعلیم پانے والے طلبہ و طالبات کو نصاب کے ذریعے دی جانے والی دینی معلومات کا تناسب کم سے کم کر دیا جائے، بلکہ نصاب میں ایسی معلومات بھی کسی طرح شامل کر دی جائیں جو دینی عقائد اور روایات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی ہیں، تاکہ نئی نسل کو فکری اقدار اور ذہنی تذبذب کی دلدل میں دھکیل دیا جائے۔ اس ایجنڈے پر مسلسل کام جاری ہے اور اس کا ایک مرحلہ ان کتابوں کی ملک بھر میں تقسیم کا تھا، جس پر محب وطن شہریوں نے احتجاج کیا۔ اس موقع پر چودھری شجاعت حسین نے مضبوط اسٹینڈ لیا، جس کی وجہ سے ان کتابوں کی تقسیم روک دی گئی اور اس حوالے سے پیدا ہونے والا بحران وقتی طور پر ٹل گیا۔
حدود آرڈیننس کے بارے میں بھی یہی صورت حال ہوئی۔ اس سلسلے میں دباؤ تو خاصے عرصے سے ہے۔ اگرچہ عملی طور پر اس آرڈیننس کی کوئی مؤثر حیثیت نہیں ہے اور اس کے تحت کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی، مگر رسمی طور پر اس کی موجودگی بھی بہت سے لوگوں کو گوارہ نہیں ہے۔ خاص طور پر عالمی سیکولر لابیاں اور ادارے حدود شرعیہ کے نفاذ کو ختم کرانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں گزشتہ دنوں دباؤ میں اچانک اضافہ ہو گیا اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایسی فضا پیدا کر دی گئی کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ایک آدھ روز میں حدود آرڈیننس کا جھٹکا ہونے والا ہے۔ اس وقت چودھری شجاعت حسین خود عبوری وزیر اعظم تھے، جنہوں نے کمال حکمت عملی سے کام لیا اور حدود آرڈیننس کو دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھجوا کر اس کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ کے غبارے سے ہوا نکال دی۔
اب پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کا مسئلہ پیش آیا تو جن لوگوں نے خاموشی کے ساتھ یہ کارروائی ڈال دی تھی، انہوں نے بہت سخت موقف اختیار کیا اور دینی حلقوں کے مطالبے کو استحقار کے انداز میں مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ مگر چودھری شجاعت حسین وطن واپس آئے تو مجھے امید ہونے لگی تھی کہ وہ اس معاملے میں ضرور مداخلت کریں گے اور اپنی سابقہ روایات کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے اس مسئلے کو بھی حل کرا دیں گے۔ بحمد اللہ تعالیٰ میری یہ توقع پوری ہوئی ہے اور چودھری شجاعت حسین کی صدارت میں منعقد ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ پاسپورٹ میں مذہب کے خانے کو دوبارہ بحال کر دے۔
اس سلسلے میں چودھری صاحب اور اس مسئلے میں دلچسپی لینے والے دیگر حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین سے دو گزارشات کرنے کو جی چاہتا ہے:
- ایک یہ کہ وہ اپنی اس سفارش پر عملدرآمد کی نگرانی بھی کریں۔ کیونکہ ہمارے ہاں بیوروکریسی جس انداز سے اس قسم کے فیصلوں کو ٹالنے کی عادی ہے اور اس مسئلے پر جس طرح کا اندرونی و بیرونی دباؤ موجود ہے، اس کے پیش نظر سخت نگرانی اور اہتمام کے بغیر اس سفارش کا عمل میں آنا مشکل دکھائی دیتا ہے اور چونکہ وردی کے مسئلے پر عام لوگ پہلے ہی اس الجھن کا شکار ہو چکے ہیں کہ ایک بات باقاعدہ معاہدے میں طے ہوئی، جس کا کھلے بندوں اعلان کیا گیا، مگر جب عملدرآمد کا مرحلہ آیا تو وسیع تر قومی مفاد کے نام پر اس سے انحراف کا راستہ اختیار کر لیا گیا۔
اس کے پیش نظر عام لوگوں کا یہ خدشہ بجا ہے کہ کہیں پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ دوبارہ شامل کرنے میں بھی وسیع تر قومی مفاد کا کوئی تقاضا سامنے نہ آ جائے۔ اسی وجہ سے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہ نے اعلان کیا ہے کہ جب تک پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ دوبارہ عملاً شامل نہیں ہو جاتا، اس کے لیے احتجاجی مہم جاری رہے گی۔ اس لیے چودھری شجاعت حسین صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے بھی ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ فرمائیں۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ آغا خان تعلیمی بورڈ کو پرائیویٹ امتحانی بورڈ کے طور پر تسلیم کرنے اور ملک بھر کے پرائیویٹ تعلیمی نظام کو اس کے ساتھ منسلک کرنے کی بتدریج مہم بھی اسی طرح ان کی ذاتی توجہ کی مستحق ہے۔ جس طرح انہوں نے مذکورہ بالا معاملات میں دلچسپی لے کر اسلامیانِ پاکستان کے دینی جذبات کی ترجمانی کی ہے، یہ مسئلہ بھی اپنی سنگینی میں مذکورہ بالا مسائل سے کم نہیں ہے۔ عام دینی حلقوں و تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے محب وطن عناصر میں اس کے بارے میں بھی اسی طرح کی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ہم چودھری شجاعت حسین کی ہمت کے لیے دعاگو ہیں اور ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی اور خاندانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے خالصتاً دینی مسائل میں سیاسی گروہ بندی سے بالاتر ہو کر مؤثر کردار ادا کرتے رہیں گے۔