دینی مدارس کے نظام کا تاریخی پسِ منظر اور معاشرتی کردار

   
۱۱ فروری ۲۰۲۲ء

(جامع مسجد نور جامعہ نصرۃ العلوم میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بزرگان محترم، برادران اسلام! قرآنِ مقدس کی ایک آیت کریمہ ’’یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غَافِلُوْنَ‘‘ (الروم ۷) تلاوت کی ہے، مختصر وقت میں اس آیت مبارکہ کی روشنی میں کچھ ضروری باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ جل جلالہ و عم نوالہ کی بارگاہ میں دعا فرمائیں کہ خداوند ذوالجلال مجھے صحیح صحیح عرض کرنے کی، آپ حضرات کو صحیح صحیح سننے کی، مجھے، آپ کو، سب مسلمان بلکہ انسان بھائیوں کو صحیح بات سمجھنے، قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہجری اعتبار سے یہ رجب المرجب کا مہینہ ہے، اس مہینے کے فضائل اور خصوصیات اپنے مقام پر، لیکن ہمارے ہاں دو باتوں کا اس میں زیادہ تذکرہ ہوتا ہے۔ ایک جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزۂ معراج کے حوالے سے اور دوسرا یہ کہ دینی مدارس کے تعلیمی سال کا یہ آخری مہینہ ہوتا ہے۔ اس میں مدارس کی تقریبات ہوتی ہیں، قرآن کریم اور بخاری شریف کے آخری سبق اور مختلف عنوانات سے اجتماعات اور امتحانات ہوتے ہیں۔ الغرض، یہ ہمارے دینی تعلیمی سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے، اس کے بعد شعبان اور رمضان میں چھٹیاں ہوتی ہیں، اس حوالے سے یہ دو باتیں اس مہینے میں عام طور پر مجالس میں زیادہ ذکر ہوتی ہیں، ان میں سے دینی مدارس کی بابت دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

دینی مدارس کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ صرف دین کی تعلیم دیتے ہیں، دنیا کی ضروریات کی تعلیم نہیں دیتے۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہے، اس تقسیم کے نقصانات ہیں اور اس تقسیم کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ تقسیم موجود تو ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ تقسیم کب ہوئی تھی اور کس نے کی تھی؟ تقسیم تو نظر آرہی ہے، مدارس ہر جگہ ہیں اور اسکولز و کالجز بھی ہر جگہ ہیں، جو کچھ کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے وہ مدارس میں نہیں، اور جو کچھ مدارس میں پڑھایا جاتا ہے وہ کالجوں میں نہیں۔ اِن کے مضامین الگ ہیں، اُن کے مضامین الگ ہیں، اُن کا دائرۂ تعلیم اور ہے، اِن کا دائرہ تعلیم اور ہے، حالانکہ ایک ہی محلے اور ایک ہی شہر میں ہیں، یہاں نصرۃ العلوم میں اور اسلامیہ کالج میں کتنا فاصلہ ہو گا؟ گورنمنٹ کالج اور مظاہر العلوم میں کتنا فاصلہ ہو گا؟ غرضیکہ ایک ہی شہر اور ایک ہی محلے میں وہ بھی ہے اور یہ بھی ہے، وہاں تعلیم اور ہوتی ہے اور یہاں اور ہوتی ہے، یہ کیا معاملہ ہے؟

پہلی بات تو یہ دیکھنی ہے کہ یہ تقسیم کب ہوئی تھی اور کیوں ہوئی تھی۔ ان مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کو ’’درسِ نظامی‘‘ کہتے ہیں، درس نظامی کو تقریباً تین سو سال ہو گئے ہیں اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں جب پورا جنوبی ایشیا متحد تھا، بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا، برما یہ سب ایک تھے، اُس زمانے میں ہمارے ایک بزرگ تھے، علمی خاندان کے فرد تھے، ملا نظام الدین سہالویؒ، لکھنؤ کے قریب سہالی ایک جگہ کا نام ہے وہاں کے تھے، خاندان کی کئی پشتیں علماء کی ہیں، وہ اپنے گاؤں سے اٹھ کر لکھنؤ شہر میں آگئے۔ اورنگزیب عالمگیرؒ نے ملا نظام الدین سہالویؒ کو ایک بلڈنگ الاٹ کی کہ یہاں رہیں اور مدرسہ بھی بنائیں، اس کو ”فرنگی محل“ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں وہاں بیرونی تجارتی کوٹھیاں ہوتی تھیں، مغربی، یورپی لوگ ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ کے وہاں تجارت کرتے اور اپنی کوٹھیاں بناتے تھے، وہ ان کے تجارتی مراکز ہوتے تھے، کوئی کوٹھی کسی وجہ سے خالی پڑی تھی، اورنگزیب عالمگیرؒ نے وہ کوٹھی ملا نظام الدینؒ کو دے دی کہ اسے آپ سنبھالیں۔ ملا نظام الدین سہالویؒ نے وہاں مدرسہ شروع کیا، وہ فرنگی محل کا مدرسہ کہلاتا ہے جو تین سو سال سے اب تک چل رہا ہے۔ انہوں نے ایک نصاب ترتیب دیا، اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی قبولیت عطا فرمائی کہ نصاب مُلّا نظام الدین سہالویؒ نے جاری کیا لکھنؤ میں، لیکن جو چیز وقت، سوسائٹی اور سماج کی ضرورت ہوتی ہے اسے جو بھی پوری کرتا ہے اس کو اللہ تعالٰی قبولیت عامہ عطا فرما دیتے ہیں۔ وہ چونکہ وقت کی ضرورت تھی تو پورے ساؤتھ ایشیا میں وہی پڑھایا جانے لگا اور کچھ عرصے میں پورے ملک میں وہی نصاب رائج ہو گیا۔

نصاب میں کیا تھا؟ مختصرًا یہ ہے کہ جو اسلامیہ کالج میں پڑھایا جاتا ہے اور جو نصرۃ العلوم میں پڑھایا جاتا ہے، دونوں مضامین نصاب کا حصہ تھے۔ آج کل جو سبجیکٹس یونیورسٹی میں اور جو مضامین مدرسے میں پڑھائے جاتے ہیں اس میں سب یکجا تھے۔ ایک ہی کلاس روم میں، ایک ہی تپائی پر، ایک ہی نصاب تھا، قرآن کریم بھی پڑھاتے تھے، ریاضی بھی پڑھاتے تھے، حدیث بھی پڑھاتے تھے، طب اور میڈیکل بھی پڑھاتے تھے، فقہ بھی پڑھاتے تھے، فلکیات اور سائنس بھی پڑھاتے تھے اور ہنرمندی بھی سکھاتے تھے، یہ سب ایک ہی جگہ ہوتا تھا۔ ملک کا عدالتی نظام فقہ حنفی تھا، قانون کے طور پر فقہ پڑھائی جاتی تھی۔ سرکاری، عدالتی اور دفتری زبان فارسی تھی اس لیے وہ بھی پڑھائی جاتی تھی۔ خلاصہ کلام یہ کہ جو آج کالج میں پڑھایا جاتا ہے اور جو مدرسے میں پڑھایا جاتا ہے دونوں اکٹھے تھے۔ فلکیات جس کو آج سائنس کہتے ہیں، طب جس کو آج میڈیکل کہتے ہیں، زبان، جغرافیہ، تاریخ سب اکٹھے پڑھائے جاتے تھے، ایک ہی نظم کے ساتھ، ایک ہی کلاس روم میں یہ سارے مضامین ڈیڑھ سو سال تک اکٹھے پڑھائے جاتے رہے ہیں۔

۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر وہاں قبضہ کر لیا تھا، پھر بڑھتے بڑھتے ۱۸۲۲ء تک پورے انڈیا پر اس کا قبضہ ہو گیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی فارسی زبان سرکاری رہی، فقہ حنفی ملک کا قانون رہا اور درسِ نظامی کا نصاب وہی رہا، حتیٰ کہ خود ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی ضرورت کیلئے جو مدرسے بنائے تھے ان میں بھی یہی نصاب تھا۔ اورنگزیب کے زمانے سے ۱۸۵۷ء تک تقریباً ڈیڑھ صدی بنتی ہے، یہی نصاب پڑھایا جاتا رہا۔ ۱۸۵۷ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ یہاں کے حریت پسندوں کی جنگ ہوئی اور حریت پسندوں کو شکست ہوئی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ پر برطانیہ نے خود سارے ملک کا اقتدار سنبھال لیا تو سارے ملک کا نظام تبدیل کر دیا اور زبان تبدیل کر دی۔ سرکاری دفتری عدالتی زبان پہلے فارسی تھی اب انگریزی کر دی، ملک کا انتظامی و عدالتی قانون فقہ حنفی اور فتاوٰی عالمگیری تھا، اس کی جگہ انگریزی قانون لے آئے۔ جب نظام، قانون اور زبان تبدیل کر دی تو نصاب بھی تبدیل کر دیا۔ اور سابقہ نصاب میں سے پانچ مضامین نکال دیے: عربی اور فارسی زبان نکال کر اس کی جگہ انگریزی لے آئے، فقہ حنفی کی جگہ انگریزی قانون آگیا، اور چونکہ ان سب کا مدار قرآن و سنت پر تھا، جس کی ان کو ضرورت نہیں تھی تو اس سے متعلقہ پانچ مضامین، قرآن کریم، حدیث، فقہ، عربی اور فارسی سب نصاب سے نکال دیے جو بطور نصاب کے اس کے بعد نصاب کا حصہ نہیں رہے۔

زبان اور قانون پر تو ملک کے انتظامی اور عدالتی نظام کا مدار تھا، جبکہ ان پانچ مضامین پر ملک میں دین کی تعلیم کا، مسجد کا، مدرسے کا اور دین کے سارے نیٹ ورک کا مدار تھا، ان کو بالکل ختم کر دیا۔ کسی نے قرآن پڑھنا تھا تو عالم بننا تھا، حدیث پڑھنی تھی تو عالم بننا تھا، فقہ پڑھنی تھی تو عالم بننا تھا، عربی پڑھنی تو دین کی باتوں سے واقف ہونا تھا، ان چار پانچ مضامین پر ہی مسجد، مدرسے، مکتب، قرآن کریم کی تعلیم اور لوگوں کی دینی راہنمائی کا مدار تھا۔ جن مضامین پر ملک کے نظام، دفتر، عدالت اور انتظامیہ کا مدار تھا وہ رکھ لیے اور یہ پانچ مضامین نکال دیے۔

ہمارے بزرگوں نے جب دیکھا کہ مسئلہ بڑا گھمبیر ہے، اگر یہ مضامین پڑھائے نہ گئے تو مسجد بھی ویران ہو گی اور مدرسہ بھی باقی نہیں رہے گا، چنانچہ خطیب صاحب بھی گئے، امام صاحب بھی گئے، قاری صاحب بھی گئے، حافظ صاحب بھی گئے اور مفتی صاحب بھی گئے۔ اگر ان پانچ مضامین کی تعلیم باقی نہ رہتی تو یہ چار پانچ آدمی آپ کو کہیں نہ ملتے۔ اگر قرآن، حدیث، فقہ اور عربی نہ پڑھائی جاتی تو آپ کو ملک میں مولوی، قاری، حافظ نام کی کوئی شے نہ ملتی۔ اگر یہ نہ ہوتے تو مسجدیں اور مدرسے کہاں جاتے؟ چنانچہ مستقبل کی اس دینی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کچھ اللہ کے بندے بیٹھے کہ ٹھیک ہے، ہم لڑائی نہیں کرتے، یہ لوگ نہیں پڑھاتے تو نہ پڑھائیں لیکن ہم پڑھائیں گے۔ اس لیے دینی مدرسے کی بنیاد اس سوچ پر ہے کہ یہ پانچ مضامین جو ہماری دینی، معاشرتی اور سماجی ضرورت ہیں: قرآن، حدیث، فقہ، عربی اور فارسی، اگر یہ نہیں پڑھاتے تو ہم لوگوں سے چندہ مانگ کر پرائیویٹ بنیاد پر رضاکارانہ طور پر اور امداد باہمی کی بنیاد پر خود پڑھائیں گے، یہ ہے دینی مدرسے کی بنیاد۔

میں نے عرض کیا تھا کہ یہ سوسائٹی کا مزاج ہے اور اللہ کا نظام ہے کہ جو چیز معاشرے کی ضرورت ہو اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ جہاں سے وہ ضرورت پوری ہوتی ہے وہ پھیل جاتی ہے، جیسے درسِ نظامی کی بات میں نے کی۔ چنانچہ جب چار پانچ مدرسے بنے، دیوبند کا مدرسہ بنا، سہارنپور کا مدرسہ بنا اور دیگر مدارس بنے تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ چیز ہماری ضرورت کی ہے۔ اور جو چیز سوسائٹی کی ضرورت پوری کرے گی وہ عام ہو گی، اسے کون روک سکتا ہے۔ جہاں جہاں یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ہمیں مسجد اور مدرسے کو آباد رکھنا ہے، جس کے لیے مولوی، قاری، حافظ اور مفتی ہمیں چاہئیں تو انہوں نے اسے قبول کیا۔ اس سلسلہ میں عرض کروں گا کہ ہم شروع ہوئے تھے چار پانچ مدرسوں سے، مراد آباد کا تھا، ہاٹ ہزاری کا مدرسہ تھا، دیوبند کا تھا، سہارنپور کا تھا، مگر اس وقت پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، برما جس کو ساؤتھ ایشیا کہتے ہیں، اس خطہ میں آج کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ مدارس سے زائد موجود ہیں جن سے کروڑوں افراد تیار ہو چکے ہیں۔ یہ ان بزرگوں کے خلوص، محنت اور ایثار کا نتیجہ تھا۔

اس لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ تقسیم یقیناً ہوئی ہے لیکن ہم نے نہیں کی۔ ہم تو اکٹھا ہی پڑھاتے تھے، ڈیڑھ سو سال تک سب کچھ ایک ساتھ پڑھاتے رہے ہیں۔ فلکیات، سائنس، طب، ریاضی، تاریخ اور سوشیالوجی بھی پڑھاتے رہے ہیں اور اس کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیم بھی دیتے رہے ہیں۔ تو پھر یہ تقسیم کس نے کی ہے؟ جنہوں نے پانچ سبجیکٹس نصاب سے نکالے تھے یہ انہوں نے کی ہے اور تب سے یہ تقسیم چلی آرہی ہے۔

الحمد للہ یہ مدارس جو آج پورے جنوبی ایشیا میں تعلیمی سال کا آخری مہینہ گزار رہے ہیں، تقریبات اور اجتماعات ہو رہے ہیں، مختلف قسم کی سرگرمیاں جاری ہیں، ان مدارس نے ایثار، قربانی اور قناعت کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دی ہے۔ ہم اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے ہیں، اللہ رب العزت نے اس قناعت کے ساتھ انہیں نوازا ہے۔ آپ کبھی تقابل کر کے دیکھیں کسی مدرسے کے مدرس، مسجد کے امام اور دارالافتاء کے مفتی کی تنخواہ کا اپنے کسی سرکاری افسر اور ملازم کے ساتھ، اِن کو کیا ملتا ہے اور اُن کو کیا ملتا ہے، میں تقابل کرتا نہیں ہوں، صرف سمجھانے کیلئے بات کر رہا ہوں۔ یہ سب قناعت، قربانی، ایثار، خلوص اور محنت کا نتیجہ ہے۔ پرانے لوگوں کو یاد ہو گا، یہ مدرسہ نصرۃ العلوم ۱۹۵۲ء میں شروع ہوا تھا، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ ہمارے چچا محترم تھے، استاذ اور مربی بھی تھے، اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے، ان کے ساتھ کچھ رفقاء تھے۔

میں بات سمجھانے کیلئے عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت والد صاحب مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ گکھڑ تشریف لائے تھے ۱۹۴۳ء میں، گکھڑ کی مسجد میں بیٹھ گئے، سن ۱۹۵۲ء تک دس سال۔ وہ اسی طرز کا مدرسہ تھا۔ مدرسہ کیا ہوتا تھا کہ ایک عالمِ دین کسی مسجد میں بیٹھتا تھا، اس کی علمی فضیلت یا امتیاز دیکھ کر طلبہ اکٹھے ہو جاتے تھے، کوئی نحو کا ماہر ہے تو نحو والے اکٹھے ہو گئے، کوئی فقہ کا ماہر ہے تو فقہ والے اکٹھے ہو گئے، کوئی حدیث کا ماہر ہے تو حدیث والے اکٹھے ہو گئے۔ کوئی نظم نہیں ہوتا تھا، طلبہ اکٹھے ہو جاتے تھے، پندرہ، بیس، تیس، چالیس حسبِ موقع، محلے والے روٹی دے دیتے تھے، مسجد میں طلبہ سوتے تھے اور استاذ پڑھاتے تھے، یہ مدرسہ ہوتا تھا۔ طلبہ استاذ کا ذوق دیکھ کر اکٹھے ہو جاتے تھے کہ یہ فلاں فن میں ماہر ہیں، اس زمانے میں والد صاحب کا ذوق زیادہ نحو کا تھا۔ نہ کوئی داخلہ ہوتا تھا، نہ کوئی خارجہ ہوتا تھا، نہ کوئی امتحان ہوتا تھا، نہ کوئی باقاعدہ نظم ہوتا تھا، علم اور فنون سیکھنے کیلئے آجاتے تھے۔ محلے والے روٹی دے دیتے تھے، طلبہ مسجد میں سو جاتے تھے، استاذ پڑھاتے تھے، نہ کوئی الگ سے تنخواہ ہوتی تھی، نہ سہولتیں ہوتی تھیں، کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ دور، دس سال حضرت والد محترمؒ نے گکھڑ کی مسجد میں اس ترتیب سے پڑھایا ۱۹۴۳ء سے ۱۹۵۲ء تک۔ سن ۱۹۵۲ء میں نصرۃ العلوم بنا، حضرت صوفی صاحبؒ نے بنایا، پھر دونوں بھائیوں کا مشورہ ہوا، والد صاحبؒ یہاں آنا شروع ہو گئے۔ الحمد للہ، اللہ رب العزت نے دینی مدارس کو یہ برکت عطا فرمائی خلوص اور ایثار کی وجہ سے۔ علماء کرام جو آپ کے سامنے ہیں، یہ کریانے کی دوکان ہی کر لیتے تو کچھ کما لیتے۔ ریڑھی لگا لیتے، ریڑھی لگانے سے ان کو دنیا کے اسباب کے لحاظ سے اس سے زیادہ مل جانا تھا۔

لیکن میں جو بات کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ یہ تقسیم ہم نے نہیں کی، حاشا و کلا۔ تقسیم ہم پر مسلط کی گئی ہے، تقسیم ہم پر ٹھونسی گئی ہے۔ اچھا چلیں تقسیم ہو گئی، ہم نے قبول کر لی کہ ٹھیک ہے یار، ہم اپنا کام کرتے ہیں تم اپنا کام کرو۔ اس سے بھی انکار نہیں، اُس نظامِ تعلیم کی بنیاد تھی کہ مسلمان ملازمتوں میں جائیں، ڈیموکریسی میں جائیں، ٹھیک ہے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اِس تعلیم کی بنیاد کیا تھی؟ مسجد آباد رہے، مدرسہ آباد رہے، حافظ، قاری، خطیب، مفتی اور مولوی مہیا ہوتے رہیں۔ یعنی وہ اپنا کام کرتے رہیں اور ہم اپنا کام کرتے رہیں۔

اگلی بات! پاکستان بن گیا۔ پاکستان کس مقصد سے بنا تھا؟ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ پاکستان بننے کے بعد دونوں نصابوں کو اکٹھا ہونا چاہئے تھا یا نہیں؟ تقسیم کس نے کی تھی؟ انگریز نے۔ انگریز کے جانے کے بعد یہ تقسیم باقی رہنی چاہئے تھی یا ختم ہو جانی چاہئے تھی؟ کیا خیال ہے؟ یہ تقسیم کس نے ختم کرنی تھی؟ پاکستان بننے کے بعد یہ کالج اور مدرسے کی تقسیم ختم ہو جانی چاہئے تھی، لیکن کرنی کس نے تھی؟ کس کی ذمہ داری تھی؟ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ پاکستان کی تحریک کے بڑے راہنماؤں میں سے تھے، تحریکِ پاکستان کے قائدین میں سے تھے، وہ فرماتے ہیں کہ میں پاکستان بننے کے بعد پانچ سال انتظار کرتا رہا اور کوشش بھی کرتا رہا کہ جو انگریزوں نے تقسیم کی تھی وہ ختم کرو۔ یہ تقسیم کیسے ختم ہونی تھی؟ وہ پانچ مضامین جو انگریزوں نے نصاب سے نکال دیے تھے، وہ واپس آنے تھے تو ختم ہونی تھی نا۔ پانچ سبجیکٹس جو انگریزوں نے نصاب سے نکالے تھے، قرآن، حدیث، فقہ، عربی اور فارسی۔ چلو فارسی پر ہم سمجھوتا کر لیتے، زبان نئی قبول کر لیتے، پہلے بھی ہم نے فارسی نئی زبان کے طور پر ہی قبول کی تھی، لیکن باقی چار مضامین نصاب میں واپس آنے تھے تو تقسیم ختم ہونی تھی۔ یہ چار سبجیکٹس نصاب میں واپس آئے بغیر تقسیم کیسے ختم ہو جانی تھی؟ چنانچہ وہ تقسیم چلتی رہی، ہمارا ریاستی نظامِ تعلیم، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ آج تک ان چار سبجیکٹس کو، جن کو انگریز نے نکالا تھا، اپنے نصاب کا حصہ بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں، اور نہ ہی یہ ریاستی نظامِ تعلیم میں پڑھائے جاتے ہیں۔

بلکہ ایک بات اور شامل کرنا چاہوں گا کہ ایک فارمولہ آیا تھا جس کا ہم نے تجربہ کیا تھا مگر وہ ناکام ہو گیا۔ ایوب خان مرحوم کے زمانے میں حکمرانوں نے ایک فارمولہ دیا کہ دونوں نصابوں کو اکٹھا کرتے ہیں جس طرح ۱۸۵۷ء سے پہلے اکٹھے تھے۔ جس کا ہم نے انکار نہیں کیا بلکہ ہم شریک ہوئے، چار پانچ جگہ تجربہ کیا گیا۔ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ بہاولپور جائیں جا کر اسلامی یونیورسٹی کو دیکھیں، ایک تجربہ وہاں کیا گیا۔ بہاولپور کی اسلامی یونیورسٹی پہلے مدرسہ تھا جامعہ عباسیہ کے نام سے۔ ۱۹۶۲ء سے پہلے اس کا نام جامعہ عباسیہ تھا، یہ ریاست بہاولپور کا بڑا دینی مدرسہ تھا، اسے نصرۃ العلوم کی طرح ہی سمجھ لیں۔ وہاں یہ تجربہ کیا گیا کہ جامعہ عباسیہ کو جامعہ اسلامیہ کا نام دے کر اسلامی یونیورسٹی کا ٹائٹل اور گریڈ دے دیا گیا۔ ایوب خان مرحوم نے ایسا کیا، یہ کہا گیا کہ یہاں دونوں نصاب اکٹھے پڑھائے جائیں گے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے اکٹھے کر دیے جائیں۔ یہ طے ہوا کہ تمام مکاتبِ فکر کے قابل ترین علماء یہاں بیٹھ کر تعلیم دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے پڑھایا۔ حضرت علامہ شمس الحق افغانیؒ کو آپ جانتے ہوں گے، ایک موقع پر یہاں نصرۃ العلوم میں بھی تشریف لائے تھے ختم بخاری پر۔ ریاست قلات کے وزیر تعلیم تھے، وزارت چھوڑی اور ادھر آ کر بیٹھ گئے تاکہ دونوں نصاب اکٹھے ہوں۔ بریلوی مکتبِ فکر کے بہت بڑے عالم حضرت مولانا سعید احمد کاظمیؒ نے ملتان میں اپنا مدرسہ چھوڑا اور بہاولپور آکر بیٹھ گئے۔ اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے بہت بڑے عالم تھے حضرت مولانا عبد الغفار حسنؒ، انہوں نے بھی اپنا مدرسہ چھوڑا اور بہاولپور میں آ کر بیٹھ گئے۔ کراچی سے حضرت مولانا عبد الرشید نعمانیؒ نے اپنا مدرسہ چھوڑا اور یہاں آ کر بیٹھ گئے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے، اکٹھا کر لیتے ہیں۔

یہ میں اس لیے بتا رہا ہوں کہ ہم نے انکار نہیں کیا، ہم ساتھ شریک ہوئے۔ ۱۹۶۲ء سے چند سال تک جامعہ اسلامیہ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کی کیفیت یہ تھی کہ سارا نصاب اکٹھا پڑھایا جاتا تھا، پروفیسر صاحبان بھی تھے، مولانا صاحبان بھی تھے اور دونوں نصاب تھے۔ کافیہ بھی پڑھایا جاتا تھا اور انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ لیکن اس کے بعد ایک ایک کر کے دینی نصاب کی ہر شے نکال دی گئی۔ آپ جا کر دیکھ لیں، ایک سبجیکٹ بھی درسِ نظامی کا اس میں نہیں رہا۔ یہ تجربہ صرف جامعہ عباسیہ میں نہیں بلکہ اور بھی کئی جگہ ہوا۔ یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے اور یہ مثال اس لیے بھی دی ہے کہ ابھی دو ہفتے پہلے میں اسلامی یونیورسٹی بہاولپور میں ہو کر آیا ہوں۔ سیمینار تھا، آج اس کی رپورٹ چھپی ہے روزنامہ اسلام اور روزنامہ اوصاف میں، آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وہاں کے وائس چانسلر صاحب محترم ہمارے دوست ہیں، ملک کی معروف شخصیت حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب وہاں مہمان خصوصی تھے اور میں لیکچرار تھا۔ میں نے اس سیمینار میں عرض کیا، وائس چانسلر جناب! یہ اسلامی یونیورسٹی نہیں جامعہ عباسیہ ہے، سابقہ دینی مدرسہ ہے، اس کو آپ نے یونیورسٹی کا ٹائٹل دیا، ملک بھر سے علماء لا کر بٹھائے، انہیں بٹھا کر تعلیم اکٹھی کی، چند سال میں ایک ایک کر کے درس نظامی کے سارے مضامین نکال دیے گئے۔ ہم آپ سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آپ جب دونوں نصابوں کو اکٹھا کرنے کا مرکز بن گئے تھے تو پھر یہ دونوں نصابوں کی دوبارہ تقسیم کس نے کی؟ ہم تو ساتھ بیٹھے تھے، ہم نے تو اپنے مدرسے چھوڑے اور وہاں پر آئے، میں نے کہا کہ اب بھی ۱۹۶۲ء کی پوزیشن پر چلے جائیں، واللہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ۱۹۶۲ء سے ۱۹۷۰ء تک والی اسلامی یونیورسٹی کی پوزیشن پر آجاؤ، ہم پہلے بھی تمہارے ساتھ تھے اور اب بھی ساتھ ہوں گے۔

لیکن ایسا نہیں ہو گا کہ نصاب اکٹھا کرو مگر اس طرح کہ آپ لوگ ہمارے مضامین کو تو شامل کرنے کیلئے تیار نہیں ہو۔ جبکہ ہم نے میٹرک تک پابندی قبول کر لی ہے، مدارس میں میٹرک تک پابندی ہے کہ نہیں؟ ہم خود پڑھاتے ہیں، دنیا بھر میں بیسک ایجوکیشن کیا ہوتی ہے؟ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ۔ اس کے بعد تو سارے الگ الگ ہوتے ہیں، ڈاکٹر الگ ہو جاتا ہے، انجینئر الگ ہو جاتا ہے، وکیل الگ ہو جاتا ہے، سائنسدان الگ ہو جاتا ہے۔ کیا وہاں سب کو اکٹھا پڑھاتے ہو ؟ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بعد آج کے کالجوں میں بھی سارے اکٹھے پڑھائے جاتے ہیں یا الگ الگ؟ کوئی سائنسدان بنتا ہے، کوئی ڈاکٹر بنتا ہے، کوئی وکیل بنتا ہے، الغرض! ملک بھر کے دینی مدارس میٹرک تک پابندی قبول کر چکے، لیکن آپ قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کی پابندی قبول نہیں کر رہے۔ باقی سبجیکٹس تو اپنی جگہ ہیں، نہ تم عربی پڑھانے کو تیار ہو، نہ قرآن کو بطور مضمون پڑھانے کو تیار ہو، نہ حدیث پڑھانے کو تیار ہو، نہ فقہ پڑھانے کو تیار ہو، یہ کونسا نصاب اکٹھا ہو رہا ہے؟

کیا آپ دوستوں کو میرا مقدمہ سمجھ میں آرہا ہے؟ میں اپنا کیس پیش کر رہا ہوں قوم کے سامنے۔ الحمد للہ پچاس سال سے اسی تعلیم سے وابستہ ہوں اور اس کا کیس پیش کر رہا ہوں کہ بھئی آپ لوگ تو نہ قرآن کو، نہ حدیث کو، نہ فقہ کو، نہ عربی کو، ان میں سے کسی ایک مضمون کو بھی بطور سبجیکٹ لینے کیلئے تیار نہیں۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی طرح ایک مضمون بھی تم شامل کرنے کو تیار نہیں ہو۔ جبکہ ہم میٹرک تک پابندی قبول کر چکے، اب کیا کہتے ہو؟ اسلام آباد میں ایک میٹنگ تھی، میں نے اس میں کہا کہ جس دن آپ یہ سبجیکٹ شامل کر لیں گے پھر ڈومور کا مطالبہ ہم سے کرنا۔ مگر ون وے ٹریفک نہیں چلے گی، نہ چلی ہے نہ چلے گی، تم نے ایک تجربہ کر کے ہمیں پھسلانا اور ڈی ٹریک کرنا چاہا تھا۔ ہم نہیں ہوئے۔ سن ۱۹۶۲ء کا تجربہ ہمیں ڈی ٹریک کرنے کیلئے تھا، میں یہ بات بالکل دوٹوک عرض کرتا ہو۔ ۱۹۶۲ء میں بیسیوں مدرسے لیے گئے تھے کہ اکٹھا نصاب پڑھائیں گے اور سرکاری انتظام میں پڑھائیں گے، یہ ہمیں ڈی ٹریک کرنے کیلئے تھا، ہم ڈی ٹریک نہیں ہوئے، آج بھی نہیں ہو رہے اور کبھی نہیں ہوں گے۔ بھئی اکٹھا کرنا ہے تو ۱۸۵۷ء سے پہلے کی پوزیشن پر آجاؤ جب سب کچھ اکٹھا تھا۔ ’’لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین‘‘ کوئی مسلمان ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا۔ ہم اپنے مقام پر کھڑے ہیں اور اس وقت تک اسی طرح کھڑے رہیں گے جب تک ہمارا ریاستی نظامِ تعلیم قرآن، حدیث، فقہ اور عربی کو بطور سبجیکٹ کے واپس لے کر ۱۸۵۷ء سے پہلے کی پوزیشن پر جانے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور سسٹم اس کی گارنٹی نہیں دیتا۔

ہم تم سے لیتے کیا ہیں؟ بلکہ تم ہمیں دیتے ہو لیکن ہم نہیں لیتے، نہ ہی لیں گے۔ ہمیں اپنے ان بھائیوں کے صدقات و عطیات کافی ہیں، اسی پر گزارہ کریں گے، اور الحمد للہ بہت اچھا گزارہ کر رہے ہیں۔ لیکن اپنے ٹریک سے نہیں ہٹیں گے، ہمیں ڈی ٹریک کرنے کی کوششیں بہت ہوئی ہیں، آئندہ بھی ہوں گی، اس وقت بھی ہو رہی ہیں، میں یہ بات نصرۃ العلوم میں بیٹھ کر کہہ رہا ہوں، یہاں کا میں بھی ایک خادم ہوں، اپنے بزرگوں کی مسند پر بیٹھ کر کہہ رہا ہوں، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کی مسند پر بیٹھ کر کہہ رہا ہوں کہ ہم ڈی ٹریک نہیں ہوں گے ان شاء اللہ۔ ہم یہی کریں گے، البتہ تمہیں ڈی ٹریک ہونا پڑے گا، تمہیں اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔

بہرحال میں نے دو باتیں عرض کی ہیں، ایک یہ کہ یہ تقسیم جو موجود ہے وہ ہم نے نہیں کی۔ اور دوسری یہ کہ اب رکاوٹ بھی ہم نہیں ہیں، دونوں مضامین اور نظاموں کو اکٹھا کرنے میں ہم رکاوٹ نہیں ہیں۔ ایک بات اور کروں گا۔ آج کا فارمولہ کیا ہے کہ نصاب اکٹھا کر لو مگر اس طرح کہ دینی مضامین سارے نکال دو اور عصری سارے لے لو تو اکٹھا ہو جائے گا۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں، کہتے ہیں کہ امریکہ میں ایک ریسٹورنٹ پر بورڈ لگا ہوا تھا کہ اس ریسٹورنٹ میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت مکس پکایا جاتا ہے۔ لوگ آتے تھے کہ اونٹ بھی کھائیں گے اور خرگوش بھی کھائیں گے۔ ایک دن ہمارے جیسا کوئی آدمی چلا گیا، کاؤنٹر پر پوچھا کہ جناب اونٹ اور خرگوش اکٹھا پکاتے ہیں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ پوچھا کہ فارمولا کیا ہے؟ برابر برابر۔ کیسے؟ ایک اونٹ اور ایک خرگوش۔ میں اسٹیبلشمنٹ سے کہنا چاہ رہا ہوں، باوردی اور بے وردی سب سے کہ یہ فارمولہ نہیں چلے گا۔ ہم اپنا کام کرتے رہیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔ تمام مشکلات، تمام تر کردارکشی اور تمام تر طعنوں کے باوجود کرتے رہیں گے اور یہ مدرسہ اسی طرح رہے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ مارچ ۲۰۲۲ء)
2016ء سے
Flag Counter