گزشتہ ماہ کے آخری روز میں میر پور آزاد کشمیر میں تھا۔ جامعہ اسلامیہ کا سالانہ جلسہ دستار بندی تھا، مولانا عبد الخالق پیرزادہ، مولانا سید عبد الخبیر آزاد، مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی، مولانا حق نواز اور حاجی بوستان صاحب کے ہمراہ میں نے بھی اس سعادت میں حصہ لیا۔ گزشتہ سال دورہ حدیث سے فراغت حاصل کرنے والے فضلاء اور قرآن کریم مکمل کرنے والے حفاظ کی دستار بندی کی گئی۔ پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد جامعہ اسلامیہ کے مہتمم حاجی بوستان صاحب اور شیخ الحدیث مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ مشورہ میں طے پایا کہ اگلے روز راولپنڈی حاضری دی جائے، اور دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار کے مہتمم مولانا اشرف علی سے ان کے فرزند مولانا مفتی امان اللہؒ کی شہادت پر تعزیت کے علاوہ بزرگ سیاستدان سردار محمد عبد القیوم خان کی بیمار پرسی بھی کر لی جائے۔ میرپور سے مسلم کانفرنس کے راہنما سردار قمر صاحب اور ہمارے ایک عزیز ساتھی حافظ عبد الباسط شیخوپوری بھی شریک سفر تھے۔ جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری حافظ سید علی محی الدین پہلے سے اطلاع ملنے پر راجہ بازار پہنچ گئے تھے۔
مولانا اشرف علی اور ان کے رفقاء کے ساتھ تعزیت اور مرحومین کے لیے دعا کے موقع پر وہاں کی تازہ صورت حال پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اور یہ دیکھ کر دکھ میں اضافہ ہوا کہ مولانا مفتی امان اللہؒ کی شہادت کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد کی سطح پر جس اجتماعی مشاورت اور عملی جدوجہد کا اہتمام ہونا چاہیے تھا اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے، بلکہ بے حسی بڑھتی جا رہی ہے۔ البتہ یہ بات کسی حد تک اطمینان کا باعث بنی کہ مسجد و مدرسہ اور مارکیٹ کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے۔ میں نے مولانا اشرف علی سے عرض کیا کہ دو روز قبل جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل حاجی عبد اللطیف چیمہ کے ساتھ لاہور میں میری اس سلسلہ میں طویل مشاورت ہوئی ہے اور ہمارے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ ۱۹۸۸ء میں ایرانی انقلاب کے اثرات اردگرد کے ممالک بالخصوص پاکستان میں وسیع پیمانے پر پھیلنے کے امکانات دیکھتے ہوئے دیوبندی مسلک کی کم و بیش سبھی جماعتوں نے حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ کی سربراہی میں جو ’’متحدہ سنی محاذ‘‘ قائم کیا تھا اسے دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری گزارش پر مولانا عبد الرؤف فاروقی نے اس حوالہ سے کنوینر کے طور پر یہ ذمہ داری قبول کر لی ہے کہ وہ عید الاضحی کے بعد اس مقصد کے لیے متعلقہ راہنماؤں سے مشاورت کی ایک نشست کا اہتمام کریں گے، اور جلد ہی اس سلسلہ میں رابطوں کا آغاز کریں گے۔ مولانا اشرف علی نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ وہ اس کے لیے بھرپور تعاون کریں گے۔
اس کے بعد ہم سیٹلائٹ ٹاؤن میں سردار محمد عبد القیوم خان کی رہائش گاہ ’’مجاہد منزل‘‘ میں حاضر ہوئے۔ سردار صاحب محترم اس وقت پاکستان اور آزاد کشمیر کے سینئر ترین سیاسی راہنما ہیں اور کم و بیش سات عشروں کو محیط طویل تجربات و مشاہدات کے امین ہیں۔ ان کے پاس حاضری کا مقصد بیمار پرسی کے علاوہ یہ بھی تھا کہ موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال پر ان کا نقطہ نظر معلوم کیا جائے جو یقیناً موجودہ حالات میں سب کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہوگا۔ سردار صاحب محترم ایک عرصہ سے علیل اور صاحبِ فراش ہیں لیکن چلنے پھرنے سے معذور ہونے کے باوجود ذہنی طور پر مستعد اور حالات پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ وہ موجودہ حالات میں ملک و قوم کو سیاسی اور معاشرتی بحران سے نجات دلانے کے لیے کوئی نہ کوئی کردار ضرور ادا کریں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ کوئی بھی کام ادھورے طور پر کرنے کے عادی نہیں ہیں، جبکہ وہ پورا اور مکمل کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس لیے اللہ پاک سے دعا اور درخواست کرتے رہتے ہیں کہ وہ ان کی صحت و قوت کو بحال کریں اور ملک و قوم کو اس بحران سے سرخرو کرتے ہوئے بہتری اور ترقی کی منزل کی طرف گامزن کریں۔
مولانا فضل الرحمن کشمیری کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ آج کے لوگوں کو تین باتوں کی بطور خاص تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے ایمان اور موقف پر قائم رہیں، ادھر ادھر گھومنے کی کوشش نہ کریں، وہ اگر استقامت کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ضرور ان کی مدد کو آئے گی ۔دوسری بات یہ کہ پاکستان کے ساتھ وفاداری اور وابستگی میں لچک نہ آنے دیں، وطن عزیز اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور ان کا یقین ہے کہ یہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور قائم رہے گا۔ اور اس کی بقا و استحکام میں ہی ہم سب کی بلکہ پورے عالم اسلام کی بہتری ہے۔ اس لیے پاکستان کے استحکام و سالمیت کے لیے ہر وقت فکرمند رہیں اور کوشش کرتے رہیں۔ جبکہ تیسری بات یہ ہے کہ کشمیری قوم کا امتیاز باقی رہنا ضروری ہے، ہمیں اپنے امتیاز سے دست بردار نہیں ہونا چاہیے، اور قومی و علاقائی سیاست میں اپنے امتیاز اور تشخص کے ساتھ بھرپور کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں کشمیری قوم کا امتیاز و تشخص باقی رہنا صرف ان کے مفاد میں نہیں ہے بلکہ پاکستان کا فائدہ بھی اسی میں ہے، اس لیے اس کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔ سردار محمد عبد القیوم خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی ترجیحات میں سب سے پہلے اسلام، پھر پاکستان، اور پھر کشمیر ہے۔ اور انہوں نے ساری زندگی اسی دائرے میں جدوجہد کی ہے۔ سردار صاحب محترم کی خواہش تو تھی کہ ہم کچھ دیر اور ان کے ساتھ رہیں لیکن مصروفیات کی طے شدہ ترتیب کے باعث ہم دعا کے بعد ان سے رخصت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔