ترکی میں طیب اردگان کی جسٹس پارٹی کی جیت

   
دسمبر ۲۰۰۲ء

ترکی کے عام انتخابات میں جناب طیب اردگان کی ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ نے قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی ہے، اور ان کے خصوصی نائب جناب عبد اللہ گل کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کی دعوت دے دی گئی ہے۔

طیب اردگان ترکی کے سابق وزیر اعظم جناب نجم الدین اربکان کی ’’رفاہ پارٹی‘‘ میں شامل تھے جو چند سال قبل انتخابات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اقتدار میں شریک ہوئی تھی، اور جناب نجم الدین اربکان نے وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیا تھا۔ لیکن ان کی حکومت اس الزام میں توڑ دی گئی کہ ان کا رجحان اسلام کی طرف زیادہ ہے، اور وہ ترکی کے سیکولر دستور کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے۔ حکومت کی برطرفی کے بعد رفاہ پارٹی کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور جناب نجم الدین اربکان کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی۔

طیب اردگان رفاہ پارٹی کے دور میں ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے میئر تھے، اور انہوں نے استنبول کو شراب اور بدکاری کے ہر طرف پھیلے ہوئے اڈوں سے پاک کرنے میں شہرت حاصل کی تھی۔ انہیں ایک جلسہ میں ترکی کے ایک شاعر کی نظم پڑھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس میں ترکی کے مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ ’’وہ کب جاگیں گے؟ کیونکہ دنیا کے مسلمان ان کے جاگنے کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ اس نظم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں اور ان کے مینار ہمارے میزائل ہیں‘‘۔ بس انہی جذبات کا اظہار ان کے لیے جیل کی سزا کا باعث بن گیا۔

طیب اردگان نے رفاہ پارٹی کو خلافِ قانون قرار دیے جانے کے بعد جناب اربکان سے الگ ہو کر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے نئی جماعت بنا لی، اور حالیہ انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کر کے قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی پارٹی کے لیڈر بن گئے۔ انہوں نے اس امر کا بار بار اعلان کیا کہ وہ ترکی کے سیکولر دستور کی پاسداری کریں گے اور اسلام کے نام پر سیاست نہیں کریں گے۔ لیکن اس اعلان کے باوجود ان کا ماضی ابھی تک مغرب کی نظروں میں کھٹک رہا ہے۔

معروف برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے طیب اردگان کے اعلانات پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ بے شک سیکولر ہونے کا اعلان کریں، لیکن وہ پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتے ہیں اور شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے، اس لیے ان کے دعووں پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بارے میں مذکورہ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی بچیوں کو ترکی کی بجائے تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا، جس کی وجہ یہ تھی کہ ترکی میں وہ سر پر سکارف لے کر سکول میں نہیں جا سکتی تھیں، اور امریکہ میں سکول کی طالبات کو سر پر سکارف لپیٹنے اور اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت ہے۔

انڈیپنڈنٹ کے اس تبصرہ سے اسلامی اقدار و روایات کے بارے میں مغرب کی حساسیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طیب اردگان کی طرف سے سیکولر ہونے کے اعلان کے باوجود ان کا نماز پڑھنا، شراب نہ پینا، بچیوں کے سر پر سکارف باندھنا، اور مسجدوں کو اپنی پناہ گاہ سمجھنا ان کے ’’جرائم‘‘ میں شامل ہو گیا ہے۔ اور نہ صرف مغربی پریس ان کے خلاف مسلسل لکھ رہا ہے، بلکہ جیتنے والی پارٹی کا لیڈر ہونے کے باوجود انہیں حکومت کی قیادت کا اہل نہیں سمجھا گیا، اور حکومت بنانے کی دعوت ان کی بجائے ان کے ایک ساتھی عبد اللہ گل کو دی گئی ہے۔

بہرحال مغرب جو بھی کر لے اور ترکی میں اسلامی رجحانات کو دبانے کے لیے سیکولر فوج کے ذریعے جو ہتھکنڈے بھی اختیار کر لے، ترکی کے عوام اپنے اسلام اور دین پر آج بھی قائم ہیں، اور انہیں اپنے عقیدہ اور اسلامیت کے اظہار کے لیے جو موقع بھی ملتا ہے اسے استعمال کرنے میں وہ کسی تامل سے کام نہیں لیتے۔ ہمیں یقین ہے کہ مسلم ممالک میں دینی بیداری کی تحریکات جس عوامی حمایت کے ساتھ پیشرفت کر رہی ہیں اسے جبر و تشدد کے ذریعے زیادہ دیر تک روکنا ممکن نہیں ہو گا، اور مسلم ممالک کے عوام ان شاء اللہ تعالیٰ جبر اور سازشوں کے اس حصار کو توڑ کر بالآخر اپنے ماضی کی طرف لوٹنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter