دورِ حاضر کے فتنے اور مدارس کی ذمہ داری

   
یکم دسمبر ۲۰۰۰ء

۱۸ نومبر ۲۰۰۰ء کو اسلامک دعوۃ اکیڈمی لیسٹر (برطانیہ) کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس میں پاکستان کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مہمان خصوصی تھے، جبکہ اکیڈمی کے سربراہ مولانا محمد سلیم دھورات کی خصوصی دعوت پر راقم الحروف نے بھی سالانہ اجتماع کی عمومی اور خصوصی دونوں نشستوں سے خطاب کیا۔ خصوصی نشست علماء کرام کی تھی جس میں مختلف شہروں کے علماء کرام اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے موجودہ عالمی حالات میں اہلِ علم کی ذمہ داریوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور علماء کرام کو ان کے فرائض کی طرف متوجہ کیا۔ جبکہ راقم الحروف نے بھی اسی موضوع پر مختصر گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا محمد سلیم دھورات کا شکرگزار ہوں کہ اہلِ علم کی اس محفل میں شرکت اور آپ حضرات سے گفتگو کا موقع فراہم کیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دردِ دل کی کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ہمارا طبقہ جسے علماء کا طبقہ سمجھا اور کہا جاتا ہے اور جس کی طرف پوری امت کی نظریں لگی ہوئی ہیں، آج اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے عجیب سی صورتحال سے دو چار ہے۔ ایک طرف لوگوں کی توقعات اور احساسات ہیں جو دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، اور دوسری طرف ہماری بے توجہی اور عدمِ احساس کی صورتحال جوں کی توں ہے اور امت کی توقعات مایوسی میں بدل رہی ہیں۔ اس لیے ہمیں گہری سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کا جائزہ لینا چاہیے اور اسی احساس کو آج بیدار کرنا چاہتا ہوں۔

عام مسلمان معاشرہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کار کو سامنے رکھتے ہوئے اہلِ علم کی ذمہ داریوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، یا ان کی دو الگ الگ سطحیں اور دائرے متعین کیے جا سکتے ہیں۔ ایک سطح تو یہ ہے کہ عام لوگوں تک دین پہنچانے اور قرآن و سنت کے احکام سے عام مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور دوسری سطح یہ ہے کہ دینی علوم نئی نسل تک منتقل ہوں اور نوجوان علماء کی کھیپ تیار کی جائے جو لوگوں تک دین اور علم پہنچانے کی ذمہ داری کو سنبھالتے رہیں اور دینی تعلیم کا تسلسل قائم رہے۔ ان دونوں حوالوں سے اہلِ علم کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک ایک تاریخی واقعہ پیش کرنا چاہتا ہوں:

  1. ایک واقعہ دورِ نبویؐ کا ہے اور امام طبرانیؒ نے حضرت عبدالرحمٰن سے روایت کیا ہے۔ یہ واقعہ امام محمدؒ کی ’’کتاب الکسب‘‘ میں بھی موجود ہے اور اس کی تخریج میں ہمارے شیخ محترم استاذ عبد الفتاح ابو غدۃ نے اسے ’’حدیثِ حسن‘‘ قرار دیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ جناب رسالتماب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار مسجد نبویؐ میں خطبۂ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ

    ’’ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو اپنے اردگرد کے لوگوں کو دین کی تعلیم نہیں دیتے، انہیں دانش نہیں سکھاتے، انہیں علم کی باتیں نہیں سمجھاتے، انہیں نیکی کی تلقین نہیں کرتے اور انہیں برائی سے نہیں روکتے؟‘‘

    پھر اس کے بعد فرمایا کہ

    ’’ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اپنے پڑوس میں رہنے والے اہلِ علم سے دین نہیں سیکھتے، علم حاصل نہیں کرتے اور ان کی دانش سے استفادہ نہیں کرتے؟‘‘

    اس کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں طبقات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ

    ’’وہ اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں اور اپنے رویہ کو تبدیل کر لیں، ورنہ میں ان کے لیے دنیا میں سزا مقرر کروں گا۔‘‘

    جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی پر مدینہ منورہ کے عام حلقوں میں یہ بات کہی جانے لگی کہ جناب رسالتمابؐ نے یہ فرما کر حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے خاندان کی طرف اشارہ کیا ہے، جو قراء اور فقہاء کا خاندان کہلاتا ہے مگر ان کے اردگرد بدوؤں اور بے علم لوگوں کی کثرت ہے جن کا علم کے ساتھ زیادہ تعلق نہیں۔ چنانچہ اشعری خاندان کے کچھ لوگ دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور استفسار کیا، جس کے جواب میں نبی اکرمؐ نے خطبہ جمعہ والی بات پوری کی پوری پھر دہرا دی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ لوگوں کا یہ تاثر درست تھا کہ یہ بات اشعریوں کے بارے میں ہی فرمائی گئی ہے۔ اشعریوں کے وفد نے یہ جواب سن کر سوال کیا کہ

    ’’أنعاقب بتقصير غيرنا؟‘‘ ۔ ’’کیا دوسروں کی کوتاہی پر ہمیں سزا دی جائے گی؟‘‘

    جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو اشعری خاندان کے نمائندوں نے اپنی سابقہ کوتاہی کی تلافی کے لیے مہلت مانگی، اور جناب نبی اکرمؐ نے انہیں ایک سال کی متعین مہلت دی کہ وہ اس مدت کے اندر اردگرد کے لوگوں کو علم و دانش اور دین کی تعلیم دے کر اپنی ذمہ داری کو پورا کریں۔

    اس میں ہمارے لیے واضح سبق ہے کہ اپنے گرد و پیش کے حالات پر نظر رکھنا اور عام لوگوں تک ہر ممکن ذریعہ سے علم اور دین کی روشنی پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اور اپنے اردگرد کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم میں سے ہر شخص بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔

  2. ہماری ذمہ داریوں کی دوسری سطح نوجوان علماء کی تیاری ہے اور دینی مدارس یہی کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دینی مدارس کو مزید ترقیات سے نوازیں اور حاسدین و معاندین کے شر سے ان کی حفاظت فرمائیں۔ لیکن اس حوالے سے دکھی دل کے ساتھ گستاخی کی معافی مانگتے ہوئے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کو معاشرے میں جا کر جن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عقائد، اخلاق، معاشرت اور دیگر شعبوں میں انہیں جن فتنوں سے مقابلہ در پیش ہے، ہم ان کے لیے انہیں تیار نہیں کرتے۔ اور اسلام کی دعوت اور تحفظ و ترویج کے بارے میں کفر و الحاد کے جن مورچوں سے ان پر گولہ باری ہوتی ہے، سرے سے انہیں ان کے بارے میں علم تک نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ سوسائٹی میں اپنا کردار صحیح طریقہ سے ادا نہیں کر پاتے اور بہت سے معاملات میں انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے۔

    اس پر مجھے ’’دیوانِ حماسہ‘‘ کے دو شعر یاد آ رہے ہیں جن کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک نوجوان کو اس کے خاندان نے خوب ناز و نعم میں پالا اور کھلا پلا کر جوان کیا، مگر اسے لڑائی کی تربیت نہ دی اور دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار نہ کیا۔ چنانچہ جب وہ جوان ہوا اور دشمن قبیلہ کے نوجوانوں سے اس کا سامنا ہوا تو وہ مقابلہ نہ کر سکا اور اسے ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا، جس پر وہ اپنے خاندان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حسرت کے ساتھ کہتا ہے کہ

    فھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
    اذا لخصم أبزی مائل الرأس انکب
    وھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
    وفی الأرض مبثوث شجاع وعقرب

    ’’یہ ایک دوسرے کو گم پائیں انہوں نے مجھے اپنے جیسے نوجوانوں کے مقابلہ کے لیے تیار کیوں نہیں کیا؟ جبکہ میرا دشمن ٹیڑھی گردن والا متکبر شخص تھا۔ اور یہ ایک دوسرے کو گم پائیں انہوں نے مجھے میرے حریف کے مقابلہ کے لیے تیار کیوں نہیں کیا؟ جبکہ زمین میں ہر طرف بچھو اور سانپ بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘

    کم و بیش اسی قسم کی صورتحال اس وقت دینی مدارس کے ان فضلاء کو درپیش ہے، جو مسلم معاشرہ میں بکھرے ہوئے ہیں اور مختلف شعبوں میں اپنی بساط کی حد تک دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن جب انہیں اعتقادات، نظریات، اخلاق اور معاشرت کے حوالے سے اسلام دشمن لابیوں کے اعتراضات اور سرگرمیوں سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہ اپنی معلومات اور تربیت کی کمی کے باعث ان کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور دینی مدارس اور علمی اداروں میں اس سنگین کوتاہی کے ازالہ کے لیے کوئی واضح رخ اختیار کرنا چاہیے جو آج کے دور کا سب سے اہم تقاضہ ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter