پیر صاحب آف پگاڑا شریف بڑے مزے کے بزرگ ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں بات کرتے ہیں اور ہنسی دل لگی میں پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ راشدی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، میرا تو یہ پیرخانہ ہے اور اسی نسبت سے میں بھی راشدی کہلاتا ہوں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے روحانی سلسلہ کے بزرگ شاہ محمد راشدؒ نے سندھ میں روحانی مرکز آباد کیا جو آج پیر آف پگاڑا شریف اور پیر آف جھنڈا شریف کی دو گدیوں میں تقسیم ہے۔ شاہ محمد راشدؒ اپنے دور کے اکابر اولیائے کرام میں سے تھے اور نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب کے ایک بڑے حصے پر ان کی تعلیمات کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ دیوبندی مکتب فکر کی دو بڑی خانقاہیں دین پور شریف ضلع رحیم یار خان اور امروٹ شریف ضلع شکار پور سندھ اسی راشدی سلسلہ کی شاخیں ہیں۔ جبکہ اہل حدیث کے مکتب فکر کا ایک علمی و روحانی خاندان بھی پیر آف جھنڈا شریف کے نام سے اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور بریلوی مکتب فکر کی متعدد خانقاہیں بھی اسی سلسلہ سے وابستہ ہیں۔ اس طرح شاہ محمد راشدؒ پاکستان اور سندھ کی زمین سے تعلق رکھنے والے وہ عظیم بزرگ گزرے ہیں، جن کی طرف نسبت کو آج کے تینوں بڑے مذہبی مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث میں فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔
سندھ میں برطانوی استعمار کے خلاف جہاد آزادی کے لیے منظم ہونے والے ’’حر‘‘ اسی راشدی سلسلہ کے مجاہد تھے، جنہوں نے ایک عرصہ تک بیرونی استعمار کے خلاف حریت کا پرچم بلند رکھا۔ اور اسی پس منظر میں موجودہ پیر آف پگاڑا شریف کے والد بزرگوار حضرت سید پیر صبغت اللہ شہیدؒ کو برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی جو اپنے دور میں حروں کے سرپرست اور جہاد آزادی کے ایک جلیل القدر رہنما تھے۔
میرا ’’راشدی‘‘ کہلانے کا قصہ بھی ایک دلچسپ بات ہے، میرا بیعت کا تعلق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہے اور میں نے ۱۹۶۵ء کے لگ بھگ جب مضمون نویسی کی مشق شروع کی تو اپنے آبائی شہر گکھڑ ضلع گوجرانوالہ کے حوالے سے ’’زاہد گکھڑوی‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ تک لکھتا رہا۔ صدر ایوب خان مرحوم کے دور صدارت کے آخری سالوں کی بات ہے کہ لاہور میں جمعیت علماء اسلام نے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کی قیادت میں ایوبی آمریت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا، جس پر پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کیا، جس سے سب سے زیادہ مولانا عبید اللہ انورؒ متاثر ہوئے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی۔ کئی ہفتے میو ہسپتال میں زیرِعلاج رہے اور ریڑھ کی ہڈی کی اس تکلیف نے انہیں اس کے بعد زندگی بھر اس قدر بے بس کیے رکھا کہ ان کی عملی سرگرمیاں اور نقل و حرکت تقریباً معطل ہو کر رہ گئیں اور پھر اس کیفیت میں ان کا انتقال ہو گیا۔
جن دنوں وہ میو ہسپتال میں زیر علاج تھے، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا تھا۔ وہیں ایک روز انہوں نے مجھے کہا کہ ’’گکھڑوی‘‘ کا لفظ بہت ثقیل ہے، اس لیے آپ کوئی اور نسبت اپنے نام کے ساتھ لگا لیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد تو سلسلہ کی نسبت ہی ہے، جو ’’سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ ان میں سے پہلی دو نسبتوں سے بہت سے لوگ معروف ہیں، اس لیے مناسب ہو تو میں ’’راشدی‘‘ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ لگا لوں؟ انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔ تو اس کے بعد سے میں راشدی کہلا رہا ہوں۔
بات پیر صاحب آف پگاڑا شریف سے شروع ہوئی تھی۔ مجھے ان کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد کے دور میں، جبکہ میں پنجاب کا سیکرٹری جنرل تھا اور وہ مرکزی قائدین میں سے تھے، مختلف مجالس میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملتا رہتا تھا، اگرچہ ان کی بہت سی باتوں اور طرز عمل سے مجھے کبھی اتفاق نہیں رہا، لیکن سلسلہ کی نسبت اور ان کے مجاہد اور شہید والد گرامی کے تعلق سے ادب و احترام کے جذبات ان کے لیے ہمیشہ دل میں موجود رہے ہیں اور الحمد للہ تعالیٰ آج بھی موجود ہیں۔
پیر صاحب نے موجودہ ملکی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے گزشتہ دنوں بعض دلچسپ باتیں کی ہیں جن کی وجہ سے یہ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ مثلاً انہوں نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ صدر پرویز مشرف کی وطن واپسی کے بعد مولوی حضرات کے لیے دردناک دور شروع ہونے والا ہے اور اس میں مولویوں کے لیے قید و بند کے ساتھ ساتھ ان کی ’’تعداد کم کرنے‘‘ کا منصوبہ بھی ہو گا۔ ہمیں پیر صاحب کے اس ارشاد سے اتفاق ہے، مگر اس اضافے کے ساتھ کہ یہ پہلا راؤنڈ نہیں ہو گا، بلکہ جنوبی ایشیا کے مولوی اس سے قبل بھی اسی قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ گزار چکے ہیں، جب ۱۸۵۷ء کے بعد امریکی استعمار کے پیشرو برطانوی استعمار نے دہلی کے اقتدار پر قبضے کے بعد مولویوں کو اس جرم میں انتقام کا نشانہ بنایا تھا کہ یہ مولوی اس خطے میں برطانوی تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے تھے اور انہوں نے قدم قدم پر مزاحمت کرتے ہوئے وطن کی آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔
برطانوی استعمار نے ۱۸۵۷ء کے بعد مولویوں کو اس جرم کی جو سزائیں دیں، ان کی تفصیلات دہلی میونسپل کارپوریشن کے سابق میئر مولانا امداد صابری مرحوم کی کتاب ’’تاریخ جرم و سزا‘‘ اور رہنما جانباز مرزا مرحوم کی کتاب ’’بڑھتا ہے ذوقِ جرم میرا ہر سزا کے بعد‘‘ کے علاوہ سر سید احمد خان مرحوم کی ذاتی ڈائری ’’سرکشی ضلع بجنور‘‘ میں بھی پڑھی جا سکتی ہیں، جہاں سر سید احمد خان مرحوم ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران ضلع بجنور کے ڈپٹی کلکٹر تھے اور مجاہدین کو جہاد آزادی کے جرم میں ملنے والی سزاؤں کے عینی شاہد، بلکہ شریک کار تھے۔ خدا ان کا بھلا کرے، انہوں نے اس کی بہت کی تفصیلات کو اپنی مذکورہ ڈائری کی صورت میں تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کر دیا ہے۔
اس وقت برطانوی استعمار تھا جس نے جنوبی ایشیا میں اپنے تسلط کی راہ میں مزاحمت کرنے والے مولویوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا تھا اور نہ صرف یہ کہ ان کے مدارس و مراکز کو یکسر ختم کر کے بلڈوز کر دیا گیا تھا، بلکہ قید و بند اور کالا پانی کے جزیرے کی نذر ہونے والوں کے علاوہ کم و بیش تیس ہزار مولوی تختہ دار پر بھی لٹک گئے تھے۔ اب یہ سزا مولویوں کو اس خطے میں امریکی تسلط کی راہ میں مزاحمت کرنے کے جرم پر ملے گی۔ ملے گی کیا، مل رہی ہے اور دن بدن اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی تاریخ اپنا یہ فیصلہ بھی ریکارڈ کرا رہی ہے کہ قوم کی خود مختاری اور وطن کی آزادی کی خاطر بیرونی حملہ آوروں اور قبضہ جمانے والوں کے خلاف مزاحمت کرنے والا کل بھی مولوی تھا اور آج بھی مولوی ہے۔ حلوہ کھانے والے مجنوں کل برطانوی افسروں کے ساتھ بیٹھ کر مولوی کے قتل عام کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور آج ایف بی آئی کا ہراول دستہ بن کر مولویوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مہم میں مصروف ہیں۔
پیر صاحب نے مولویوں کی ڈاڑھیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ مولوی اب جیب سے پیسے خرچ کر کے ڈاڑھیاں منڈوائیں گے۔ اس کی نوبت آتی ہے یا نہیں؟ یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، البتہ اس سلسلہ میں مولوی کی سابقہ تاریخ یہ ہے کہ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں علماء صادق پور کا گروہ مجاہدین کا ایک فعال گروہ تھا، جس نے ایک عرصہ تک حریت کا معرکہ گرم رکھا۔ ان کے ایک بزرگ کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور گرفتار کرنے والوں نے ان کی ڈاڑھی زبردستی مونڈ دی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس بزرگ نے زمین سے اپنی ڈاڑھی کے بال اٹھائے اور پرنم آنکھوں کے ساتھ ان سے مخاطب ہو کر بولے۔
’’تم مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہو کہ مجھ سے پہلے شہادت کے مرتبہ سے ہمکنار ہو گئے ہو۔‘‘
اس لیے پیر صاحب کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ مولوی ان سارے مراحل سے پہلے بھی گزر چکا ہے اور اسے اپنی تاریخ یاد ہے، اس لیے اسے اپنے مشن اور فرض کی خاطر ایک بار پھر ان مراحل سے گزرنے میں کوئی زیادہ دشواری نہیں ہو گی۔
پیر صاحب آف پگاڑا شریف نے ایک اور بات بھی فرمائی ہے جو بڑے پتے کی بات ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے آہستہ آہستہ ملک پر قبضہ کیا تھا اور انگریز اس ملک کے بتدریج مالک بنے تھے، لیکن اب آنے والے پہلے مالک بنے ہیں اور اس کے بعد قبضہ کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ یہ بات پیر صاحب نے سو فیصد درست فرمائی ہے۔ واقعی امریکی استعمار نے برطانوی استعمار کے تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے اور بہت سے اقدامات پیشگی کر لیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ احتیاط اور تدبیر بیرونی قابضین کے واقعی کام آ جائے گی؟ ہمارا خیال ہے کہ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس سے مولوی اور اس کے ہمنواؤں کی آزمائش کا دورانیہ تھوڑا طویل ہو سکتا ہے، لیکن سراج الدولہؒ، ٹیپو سلطانؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، جنرل بخت خانؒ اور شیخ الہندؒ کے نام لیواؤں کے اس خطے کو زیادہ دیر تک غلام بنائے رکھنا ان شاء اللہ امریکہ کے بس کی بات بھی نہیں ہو گی۔