نفاذِ اسلام اور عدلیہ

   
۲۰۱۷ء

’’قراردادِ مقاصد‘‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالی کی ہے، حکومت کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو ہے، اور پارلیمنٹ اور حکومت قرآن و سنت کی پابند ہیں۔ قراردادِ مقاصد دستور میں چلی آ رہی تھیں لیکن اس کے دیباچے کے طور پر۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے اختیارات استعمال کیے اور جو دو چار اچھے کام کیے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اس کو دیباچے سے نکال کر اصل دستور میں شامل کر دیا اور اس پر عملدرآمد لازم ہو گیا۔

اس کے بعد عدالتوں میں بہت سے قوانین چیلنج ہونے لگے کہ دستور میں لکھا ہوا ہے کہ قرآن و سنت بالادست ہیں اور فلاں قانون قرآن و سنت سے متصادم ہے لہٰذا عدالت اس کو ختم کرے۔ اس پر درجنوں کیس ہیں، مثال کے طور پر ایک کا حوالہ دیتا ہوں کہ قاتل کو اگر قصاص کی سزا ہو جائے تو شرعاً اسے معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ورثاء کا ہے، اگر وہ معاف نہ کریں تو کسی اور کو معاف کرنے کا اختیار شرعاً نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کی کوئی بھی سزا کالعدم کر سکتے ہیں، چنانچہ صدر کے پاس جب رحم کی اپیل جاتی ہے تو صدر کی مرضی ہے قبول کرے یا نہ کرے۔ صدر کا یہ اختیار قصاص کی حد تک شریعت سے متصادم ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں یہ چیلنج ہو گیا، کوئی کیس تھا، اس میں قاتل کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ اس نے صدر کے پاس معافی کی اپیل دائر کی تو مخالف فریق نے اپنے کیس میں یہ موقف اختیار کیا کہ صدر کو یہ سزا معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ دستور میں لکھا ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ یہ ’’حاکم علی کیس‘‘ کہلاتا ہے۔ چنانچہ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ قرارداد مقاصد میں قرآن و سنت کو بالادستی دی گئی ہے، اس لیے جو قانون یا دستور کی جو شق قرآن و سنت سے متصادم ہوگی وہ کالعدم ہو جائے گی، اور صدر کا یہ اختیار چونکہ قرآن اور سنت سے متصادم ہے اس لیے ختم ہے۔

صدر کا یہ اختیار لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہوئی اور چیف جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کی سربراہی میں فل بینچ بیٹھا۔ سپریم کورٹ میں کیس زیر بحث نہیں آتے، نکات پر بحث ہوتی ہے۔ وہاں یہ نکتہ زیر بحث آیا کہ ٹھیک ہے قراردادِ مقاصد دستور کا حصہ تو ہے اور اس پر عمل بھی ضروری ہے، لیکن اگر دستور ہی کی کوئی دوسری شق قراردادِ مقاصد سے متصادم ہو گی تو کیا قرارداد مقاصد کو دستور کی باقی شقوں پر بالادستی حاصل ہے یا نہیں؟ اگر قرارداد مقاصد کو دستور کی باقی شقوں پر بالادستی حاصل نہیں ہے تو یہ تعارض ہے۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اِس پر عمل کرنا ہے یا اُس پر عمل کرنا ہے۔ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اس پر بحث کی کہ اگر قراردادِ مقاصد کو دستور کی باقی دفعات پر بالادستی حاصل ہے تو ہائی کورٹ کا فیصلہ درست ہے، اور اگر اس کو بالا دستی نہیں ہے تو صدر کا اختیار درست ہے۔ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے یہ فیصلہ دیا جو آج بھی قانون کا حصہ ہے کہ قراردادِ مقاصد دستور کا حصہ تو ہے لیکن اس کو دستور کی باقی شقوں پر بالادستی حاصل نہیں ہے۔ اگر قراردادِمقاصد اور دستور کی باقی شقوں میں کچھ تعارض ہوگا تو قراردادِ مقاصد فیصل اور حکم نہیں ہوگی، فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ یہ کہہ کر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کینسل کر دیا۔

ہمارے ہاں ایک مرحلے پر سپریم کورٹ میں یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ چکوال کا ڈکیتی اور قتل کا ایک کیس تھا، اس میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ انسانی حقوق کا جو بین الاقوامی فریم ورک ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو کھلے بندوں پھانسی نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ عزتِ نفس کے خلاف ہے اس لیے انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ میں کیس پیش ہو گیا اور یہ نکتہ زیر بحث تھا کہ اگر قرآن پاک کا کوئی حکم آج کے انسانی حقوق کے چارٹر سے متصادم ہو تو ہم کس پر عمل کریں گے؟ اِس پر عمل کریں گے یا اُس پرعمل کریں گے؟ کیونکہ دستورِ پاکستان میں یہ بھی گارنٹی دی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا، اور دستور پاکستان میں یہ بھی گارنٹی دی گئی ہے کہ انسانی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا۔ یہ دو گارنٹیاں بیک وقت موجود ہیں۔ انسانی حقوق سے مراد وہ ہے جو موجودہ دنیا کا تصور ہے۔

ہمارے ایک بہت بڑے محترم فاضل قانون دان نے تین دن اس پر بحث کی اور کہا کہ قرآن پاک ہمیں یہ کہتا ہے کہ ہم نے اس پر نہیں بلکہ انسانی حقوق کے چارٹر پر عمل کرنا ہے۔ اس پر انہوں نے دلیل یہ دی کہ قرآن پاک کہتا ہے ’’یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود‘‘ کہ ایمان والو! معاہدات کی پابندی کرو۔ اور یہ انسانی حقوق کا چارٹر ہمارا معاہدہ ہے، اس پر ہمارے دستخط ہیں، اس لیے قرآن پاک کا اپنا تقاضہ یہ ہے کہ ہم قرآن پر عمل نہ کریں بلکہ اُس پر عمل کریں۔ انہوں نے دوسری دلیل یہ دی کہ قرآن پاک ہمیں معاملات عرف پر چلانے کا حکم دیتا ہے، اور آج کا عالمی عرف انسانی حقوق کا چارٹر ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ اگر قرآن پاک کے کسی حکم کا اور انسانی حقوق کا کوئی تعارض ہوگا تو ہم آج کے عرف اور معاہدات پر عمل کریں گے۔

شریعت کے نفاذ، شریعت کے احکام اور قوانین کی عملداری، اور شریعت کے خلاف قوانین کی منسوخی کے مختلف دائروں میں جو محنت ہوتی رہی ، اس حوالے سے ایک دائرہ اور ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ایک کام یہ بھی کیا تھا کہ ایک نئی عدالت ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ بنائی جو کہ اب بھی موجود ہے۔ علماء کرام اور جج صاحبان یعنی قدیم قانون کے ماہرین اور جدید قانون کے ماہرین پر مشتمل مشترکہ وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی، جس کا کام یہ ہے کہ ملک کا کوئی شہری ملک کے کسی قانون کو قرآن و سنت سے متصادم سمجھتا ہے تو وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے۔ وفاقی شرعی عدالت اگر اس درخواست پر مطمئن ہو جائے کہ یہ واقعتاً قرآن و سنت سے متصادم ہے تو اسے اختیار حاصل ہے کہ وہ حکومت کو اس قانون کو ختم کرنے کا حکم دے گی کہ اتنے عرصے میں اس کو ختم کر کے متبادل قانون نافذ کیا جائے۔ اگر اتنے عرصے میں حکومت اسے ختم نہیں کرے گی تو وہ قانون خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اور متبادل میں بھی وفاقی شرعی عدالت رہنمائی کرے گی کہ یوں تبدیل کیا جائے۔ یعنی یہ اتھارٹی اور فیصلہ ہے، سفارش نہیں ہے۔

میں اس کی مثال عرض کرتا ہوں۔ انگریزوں کے دور میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین جرم تھا اور اس کی سزا تین سال قید مقرر تھی۔ بعد میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو انہوں نے سزا میں اضافہ کر دیا اور دس سال سزا مقرر کی۔ پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج ہو گیا کہ شریعت میں توہینِ رسالت کی سزا قید نہیں ہے بلکہ قتل اور موت ہے۔ اسماعیل قریشی ہمارے وکیل ہیں انہوں نے چیلنج کر دیا، چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے یہ بات تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو آرڈر کیا کہ اسے شریعت کے مطابق تبدیل کیا جائے، اس پر پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کر کے یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔

یہ میں نے اس وضاحت کے لیے ذکر کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کا مقصد اور دائرہ کار کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بڑے بڑے فیصلے کیے ہیں، لیکن اس کے بعض فیصلے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی مخصوص تکنیک کی نذر بھی ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ کے ’’فریزر‘‘ میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک سودی قوانین کا مسئلہ ہے۔ سودی قوانین وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج ہو گئے کہ ملک کے معاشی قوانین میں فلاں فلاں قانون سودی ہے اور شریعت سے متصادم ہے، انہیں ختم کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دے دیا اور حکومت کو آرڈر دے دیا کہ ان قوانین کو تبدیل کیا جائے، وہ بحث ابھی تک چل رہی ہے۔

2016ء سے
Flag Counter