محبت کی شادی اور طلاق کا بڑھتا رجحان

   
۲۱ اپریل ۲۰۰۴ء

ایک خبر کے مطابق عدالت عالیہ لاہور نے اوکاڑہ کی لو میرج کرنے والی لڑکی عائشہ تبسم کی مسعود خان سے شادی کو قانونی اور جائز قرار دیتے ہوئے دونوں میاں بیوی کے خلاف تھانہ اے ڈویژن اوکاڑہ میں درج حدود کا مقدمہ جھوٹا قرار دے کر خارج کر دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ جب کوئی خاتون اپنی شرعی شادی کا اعتراف کر لیتی ہے تو اس کو کسی عدالت یا پولیس سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ شادی شدہ ہے۔ عدالت کو ایسی شادیوں کو باطل قرار دینے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ رٹ گزار کے وکیل راؤ جاوید کا موقف تھا کہ رٹ گزار اکیس سال کی بالغہ ہے، وہ مقامی کالج میں تھرڈ ایئر کی طالبہ ہے، اس کے والدین نے اس کی شادی ایک ایسے شخص سے کرنا چاہی جو رٹ گزار کو پسند نہ تھا، اس نے والدین کی مرضی کے خلاف اپنے کزن مسعود کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس سے شادی کر لی۔ اب پولیس انہیں ناجائز تنگ کر رہی ہے اور گرفتاری کا خدشہ ہے، اس کا عدالت نوٹس لے۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس تصدق حسین گیلانی نے فیصل آباد کے ایک نوعمر جوڑے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لو میرج کیسوں میں عدالتوں کی ہمدردیاں والدین کے ساتھ ہوتی رہیں، مگر قانون گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عدالتیں معاشرہ میں شرمناک سمجھے جانے والے فعل کو روک سکتی ہیں اور نہ ایسے جوڑوں سے کوئی زبردستی کر سکتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیصل آباد کی نویں جماعت کی طالبہ سمیرا نفیس اور عامر لطیف نے گھر سے بھاگ کر ”لو میرج“ کر لی، جس پر والدین نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم نے اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے، اس لیے والدین کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ چنانچہ شائستہ قیصر ایڈووکیٹ کی وساطت سے اس جوڑے نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ کے اخراج اور ضمانت کی منظوری کے لیے درخواست دی، جس پر فاضل عدالت نے ضمانت منظور کرتے ہوئے مندرجہ بالا ریمارکس دیے۔

اس قسم کے کیس اب روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ لڑکی گھر سے بھاگتی ہے اور کسی نوجوان کے ساتھ چند دن گزار کر اپنی مرضی سے شادی کر لیتی ہے، ماں باپ ان کے خلاف حدود کا مقدمہ درج کراتے ہیں اور عدالت یہ کہہ کر اس شادی کو جائز قرار دے دیتی ہے کہ چونکہ بالغ لڑکی کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہے، اس لیے یہ شادی درست ہے اور ماں باپ اس میں مداخلت کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ حالانکہ اصل بات یہ نہیں ہے اور گھروں سے لڑکیوں کے بھاگ کر جانے اور اس طرح شادی رچا لینے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ارشاد کے مطابق ولی کو بالغہ لڑکی پر اجبار کی ولایت حاصل نہیں ہے، یعنی وہ اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح نہیں کر سکتا۔ لیکن اس سے ماں باپ کے حقوق اور ولایت کا پورا نظام ختم نہیں ہو جاتا کہ یورپ کی طرح مسلم معاشرہ میں بھی لڑکی بالغ ہونے کے بعد پوری طرح خودمختار ہو جائے اور اس کے معاملات سے ماں باپ کا تعلق سرے سے ختم ہو کر رہ جائے۔ بلکہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے ”فیض الباری“ میں امام اعظم ابوحنیفہؒ سے مذکورہ بالا ارشاد کی جو تحقیق و تشریح کی ہے، اس کے مطابق بالغ لڑکی کی شادی میں باپ اور لڑکی دونوں کی مرضی کا ہونا ضروری ہے۔ بالغ لڑکی کی مرضی کے خلاف باپ اس کی شادی نہیں کر سکتا اور لڑکی کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ باپ کی مرضی اور خاندان کی عزت و وقار کا خیال رکھے اور ان کی مرضی کے خلاف قدم نہ اٹھائے۔ حضرت شاہ صاحبؒ اس صورت میں دونوں کی رضا کے جمع ہونے کو حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک شرط قرار دیتے ہیں۔

پھر نکاح کا جائز ہونا یا ناجائز ہونا الگ بات ہے، سوال یہ ہے کہ لڑکی کا گھر سے بھاگ جانا اور غیر محرم نوجوان کے ساتھ کئی دن گزارنا شریعت کی رو سے کس طرح جائز ہو گیا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں اسے نظرانداز کرتے ہوئے مرضی کی شادیوں کو اس تسلسل کے ساتھ جائز قرار دیتی چلی جا رہی ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں والدین کا رویہ بھی بسا اوقات ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہوتا ہے اور بعض خاندانوں میں شادی کے معاملات میں لڑکی کی رائے کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتا ہے جو شرعاً درست نہیں ہے اور عدالتوں کو ایسے رویہ کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، لیکن اس حوصلہ شکنی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خاندانی روایات اور ماں باپ کے حوالہ سے سارے کے سارے شرعی احکام کو ہی پامال کر دیا جائے۔

آج ہی کی بات ہے میں گوجرانوالہ کی ضلع کچہری میں کسی کام سے گیا اور اپنے دوست محمد اقبال بھٹی ایڈووکیٹ کے دفتر میں ان سے نکاح و طلاق ہی کے مسائل پر تبادلہ خیال کر رہا تھا کہ انہوں نے بتایا کہ طلاق کے مقدمہ کے سلسلہ میں جو نیا قانون آیا ہے اس نے صورت حال یکسر تبدیل کر دی ہے اور اب ججوں کے لیے ہدایات یہ ہیں کہ عورت اگر طلاق کا دعویٰ لے کر آتی ہے تو پہلی پیشی پر ہی اسے فارغ کر دیا جائے اور اس کے مقدمہ کو طول نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ایک جج صاحب سے ان کی جھڑپ بھی ہوئی ہے کہ اس طرح تو ہر طرف طلاق ہی طلاق ہو گی اور ہمارا خاندانی نظام تتر بتر ہو کر رہ جائے گا۔ مگر جج صاحب کا کہنا تھا کہ قانون کا تقاضہ ہے کہ مقدمہ کو زیادہ طول نہ دیا جائے اور جلد از جلد فیصلہ صادر کر دیا جائے۔

سچی بات ہے کہ ان کی یہ بات سن کر میری پریشانی دوچند ہو گئی کہ اگر ایک طرف گھر سے لڑکیوں کے بھاگنے کی اس طرح حوصلہ افزائی ہوتی رہی کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں آنکھیں بند کر کے اس قسم کے کیسوں میں والدین کے خلاف فیصلے صادر کرتی چلی گئیں اور دوسری طرف طلاق کے مقدمات کا فیصلہ اس طرح ہونے لگا کہ عورت کسی عدالت میں طلاق کی درخواست لے کر آئے اور طلاق اس کے ہاتھ میں تھما دی جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اور خاندانی نظام میں جو افراتفری مچے گی اس کا منظر کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔

ستم ظریفی کی بات ہے کہ عدالت عالیہ کے محترم جج صاحب اس فعل کو شرمناک تسلیم کر رہے ہیں اور والدین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ اسی شرمناک فعل کو جائز قرار دینے کا فیصلہ بھی کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ قانون کا تقاضہ یہی ہے۔ محترم جج صاحب سے ہمارا سوال یہ ہے کہ دستوری طور پر پاکستان میں اسلامی قوانین کی عملداری کی ضمانت دی گئی ہے اور قوانین کی تشریح و تعبیر دستوری طور پر عدالت عالیہ کا کام ہے۔ اس کے ساتھ ہی احادیث و فقہ کی کتابوں میں نکاح و خاندان کے حوالہ سے ماں باپ کے حقوق اور اولاد کے معاملات سے ان کے تعلق پر بھرپور اور جامع ابواب موجود ہیں تو عدالت عالیہ کے جج صاحب کون سے دوسرے قانون کی بات کر رہے ہیں، جس کی رو سے وہ گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کے اس شرمناک فعل کی حوصلہ افزائی پر مجبور ہیں؟

یہ صورتحال دن بدن پریشان کن ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے نزدیک اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے علمی و دینی ادارے اس طرف متوجہ نہیں ہیں۔ ملک میں بڑے بڑے دارالافتاء موجود ہیں، علمی مراکز کی کمی نہیں ہے، لیکن کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو خاندانی نظام کے مسائل اور موجودہ صورتحال کو اپنا موضوع بنا کر کام کرے۔ جو لوگ اس کا ذوق اور سلیقہ رکھتے ہیں ان کے پاس وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی وسائل والے حضرات ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

کئی سال قبل کی بات ہے مجھ سے بعض دوستوں نے اس علمی اور فکری کام کے خلا کے اسباب پر بات کی تو میں نے عرض کیا کہ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ جن کے پاس وسائل ہیں انہیں کام کی اہمیت کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی ذوق و سلیقہ میسر ہے اور جو اس کام کی اہمیت و ضرورت کا ادراک رکھتے ہیں اور ذوق و سلیقہ سے بھی بہرہ ور ہیں وہ ضروری وسائل و اسباب سے تہی دامن ہیں۔ یہ صورتحال جوں کی توں اب بھی قائم ہے اور حالات کی سنگینی کی رفتار تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔

بہرحال اعلیٰ عدالتوں کے مذکورہ بالا طرز کے فیصلوں کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور ہمارے اصحاب علم و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرف متوجہ ہوں اور کم از کم مسائل کی نشاندہی اور عوام کی بریفنگ کی حد تک ہی کوئی مناسب نظام قائم کر لیں، ورنہ یورپی معاشرہ کی خاندانی افراتفری نے پاکستانی معاشرہ کا رخ کر لیا ہے اور اسے محض خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ نہیں روکا جا سکے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter