بڑی آزمائش: علماء کرام سے چند گزارشات

   
۱۰ نومبر ۲۰۰۵ء

میں اس وقت آزاد جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ہوں۔ گزشتہ روز پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مولانا قاری جمیل الرحمٰن اور آل جموں و کشمیر جمعیت علماء اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الحی کے ہمراہ یہاں پہنچا ہوں۔ ہم نے حکومت آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر امور دینیہ مولانا مفتی محمد ابراہیم اور باغ کے ضلع مفتی مولانا مفتی عبد الشکور کی معیت میں مختلف زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ امدادی مراکز میں سے الرشید ٹرسٹ، جماعت الدعوۃ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، العصر ٹرسٹ، مسلم ہینڈز، الرحمت ٹرسٹ اور المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے کیمپوں کے علاوہ اقوام متحدہ کے امدادی سینٹر اور یورپ کی سکھ کمیونٹی کی طرف سے قائم کیے گئے کیمپ میں حاضری دی ہے۔ یہاں سے آج ہم بالا کوٹ اور مانسہرہ جا رہے ہیں، جہاں سے جمعہ تک گوجرانوالہ واپسی ہو گی اور تفصیلی رپورٹ اس کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ۔ سردست صرف ان سرگرمیوں میں سے صرف ایک کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں۔

گزشتہ روز جب ہم مظفر آباد کے جامعہ دارالعلوم میں پہنچے تو ملک کے مختلف حصوں سے بہت سے علماء کرام تشریف لائے ہوئے تھے، ان سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر جامعہ اسلامیہ کے مہتمم مولانا قاضی محمود الحسن اشرف نے نماز عصر کے بعد علماء کرام اور نمازیوں سے گفتگو کے لیے کہا۔ ان کے ارشاد پر جو معروضات پیش کیں، ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

آٹھ اکتوبر کے زلزلہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ آپ حضرات کے سامنے ہے اور علماء کرام کے سامنے اس کی تفصیلات پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی آزمائش ہے، ہمارے گناہوں کی شامت ہے، تنبیہ ہے اور اس کے بہت سے پہلو ہیں جو آپ حضرات پر بخوبی واضح ہیں۔ میں نے گزشتہ دو دنوں میں تباہی کے جو مناظر دیکھے ہیں، ان کا مجھے تصور بھی نہیں تھا۔ اس تباہی کے آثار بہت عرصہ تک رہیں گے اور معاملات کو سنبھالنے میں ہمیں بہت عرصہ درکار ہو گا۔ البتہ اس سارے معاملے میں یہ پہلو بہرحال باعثِ اطمینان ہے کہ قوم نے جس جذبہ اور ایثار کے ساتھ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی ہے، اس نے امید کی یہ کرن ایک بار پھر روشن کر دی ہے کہ ملت اسلامیہ اور پاکستانی قوم میں خیر خواہی کا جذبہ، ملی اور قومی اخوت اور ایثار و قربانی کی استعداد آج بھی موجود ہے۔ اگر صحیح قیادت اور رہنمائی میسر ہو تو یہ امت آج بھی دنیا کی دیگر اقوام کے لیے مثال بن سکتی ہے اور یہی ہمارے لیے سب سے زیادہ قابل توجہ ہونی چاہیے۔

آپ علماء کرام ہیں، اس لیے میں آپ کے سامنے جو کچھ ہوا ہے اس کے بارے میں زیادہ عرض نہیں کروں گا، البتہ جو کچھ ہونا چاہیے، جو کچھ ہم کر سکتے ہیں اور ہمارے کام اور محنت میں جو خلا اور کمزوریاں محسوس ہو رہی ہیں، ان کے بارے میں مختصراً کچھ گزارش کروں گا اور ان کی طرف علماء کرام اور دینی حلقوں کو بطور خاص توجہ دلانا چاہوں گا۔

میں نے مختلف امدادی کیمپوں کا دورہ کیا ہے اور صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ مجھے امدادی ضروریات کے بارے میں سب سے مختصر اور جامع بات باغ میں اقوام متحدہ کے امدادی مرکز کے انچارج جان میکر نے بتائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زلزلہ سے جو لوگ متاثر ہوئے ہیں، ان کے لیے سب سے پہلی ضرورت شیلٹر (پناہ گاہ) کی ہے کہ انہیں سر چھپانے اور سردی سے بچنے کے لیے چھت مہیا کی جائے، اس کے بعد خوراک کی ضرورت ہے، اس کے بعد دواؤں کی ضرورت ہے اور پھر تعلیمی سلسلہ کی بحالی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

خود میرا مشاہدہ اور تاثر بھی یہی ہے کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سردی سے بچاؤ کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ جو مکانات گر گئے ہیں وہ تو گر گئے ہیں، لیکن جن کے ڈھانچے بظاہر کھڑے دکھائی دیتے ہیں، ان میں سے بھی اکثر رہائش کے قابل نہیں ہیں اور مسلسل جھٹکوں کی وجہ سے اکثر لوگ اپنے مکانات میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ سردی کا موسم شروع ہو چکا ہے اور چند روز بعد بارشیں اور برفباری شروع ہو گئی تو لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس کا حل اس سے قبل یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو خیمے مہیا کیے جائیں تاکہ وہ سردی کے تین چار ماہ ان میں بسر کر سکیں۔ لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا ہے کہ برفباری اور سردی میں یہ خیمے اور ٹینٹ بے کار ہو جائیں گے۔ میں نے مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے ہمراہ گزشتہ رات ایک ٹینٹ میں گزاری اور ہمیں اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ خیمے اور ٹینٹ شدید سردی اور برفباری کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔

یہاں کے حضرات کا کہنا بھی یہی ہے اور گزشتہ روز پاک فوج کے ایک بریگیڈیئر سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ خیموں اور ٹینٹوں کی بجائے جستی چادروں کی ضرورت ہے اور فوری ضرورت ہے۔ جن لوگوں کے مکانات گر گئے ہیں یا متاثر ہوئے ہیں، ان کے پاس لکڑی کی کمی نہیں۔ انہیں ملبے سے لکڑی نکالنے کے لیے اوزار فراہم کر دیے جائیں تو وہ لکڑی کا ڈھانچہ خود کھڑا کر لیں گے اور اوپر چھت کے لیے انہیں جستی چادریں فراہم کر دی جائیں، تاکہ وہ چھت ڈال سکیں۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے اور اس میں ہفتے نہیں بلکہ دنوں کا مسئلہ ہے۔ بارشوں اور برفباری کا آغاز ہونے والا ہے، اس لیے ملک بھر کے مخیر حضرات کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور علماء کرام کے اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کرنا ہو گا۔

دوسری بات میں آپ علماء کرام سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک پاکستانی قوم یا دنیا کے مختلف ممالک سے پاکستانی اور دیگر مسلمان بھائیوں اور مسلم ممالک نے جو کچھ امداد کے سلسلے میں کیا ہے وہ قابلِ فخر ہے۔ یہ دینی جذبہ اور ملی اخوت ہے جو ہماری اصل قوت ہے۔ دوسرے لوگوں نے بھی بہت کچھ کیا ہے اور ہم اس پر ان کے شکر گزار ہیں۔ لیکن ہمارا اصل اثاثہ اور قوت ملی جذبہ اور دینی اخوت ہے، اسے قائم رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اسلامی اخوت اور دینی برادری کے اس جذبہ سے جو لوگ پریشان ہیں، وہ اسے سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف اطراف سے کام کر رہے ہیں۔ اس لیے علماء کرام کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں منفی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اس دینی اخوت کے جذبہ کی سطح کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔

اس سلسلے میں ایک اور معروضی حقیقت کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت تک جو کچھ ہوا، امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت اچھا ہوا۔ مگر ہمارا قومی مزاج ہے کہ ہم خیر کے کسی کام کے لیے وقتی طور پر بہت جوش و جذ بہ کے ساتھ اٹھتے ہیں اور انتہا تک پہنچ جاتے ہیں، مگر یہ جوش و جذبہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتا اور جب ہم اس کے بعد ٹھنڈے پڑتے ہیں تو پھر بالکل ہی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ جبکہ زلزلہ سے متاثرہ افراد اور خاندانوں کی بحالی کا مسئلہ دو چار ماہ کا نہیں، بلکہ اس میں کئی سال لگ جائیں گے۔ دوبارہ گھروں میں آبادی کی بات ہے، معذوروں کو سنبھالنے کا مسئلہ ہے، لاوارث بچوں کا مسئلہ ہے، زخمیوں کا مسئلہ ہے، اسکولوں اور کالجوں کا مسئلہ ہے اور ہزاروں افراد کے روزگار کا مسئلہ ہے۔ بلکہ ہمارے لیے تو سینکڑوں مساجد اور مدارس کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ ہمارے مہربانوں نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ مساجد اور مدارس کی بحالی کے سلسلے میں ان سے کسی تعاون کی توقع نہ رکھی جائے۔ متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں مساجد گر گئی ہیں، سینکڑوں مدارس زمین بوس ہوئے ہیں، بڑے بڑے مدارس اس کی زد میں آئے ہیں۔ ان کی دوبارہ تعمیر اور بحالی بہت بڑا کام ہے، جس کے لیے حکومت، کوئی این جی او اور کوئی بیرونی ادارہ تعاون نہیں کرے گا، یہ سب کچھ ملک کے دینی حلقوں کو ہی کرنا ہو گا۔

میں اس موقع پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو دینی حلقے اور ادارے اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، انہیں یہ ساری ضروریات سامنے رکھ کر اپنے کام کی ترتیب قائم کرنی چاہیے اور خاص طور پر دینی اداروں کے درمیان اس سلسلے میں باہمی مشاورت اور رابطہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دینی جذبہ سے امدادی کام کرنے والی تنظیمات جو کام کر رہی ہیں، اگر اس میں ہی ربط و مشاورت کا اہتمام ہو جائے تو اس کی افادیت بہت بڑھ جائے گی اور نتائج بھی خاصے بہتر ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی یہ گزارش بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت تک جتنا کام ہوا ہے، اس میں جوش و جذبہ زیادہ کار فرما رہا ہے جو ایسے مواقع پر ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اب اگلے مراحل کے لیے اس درجہ کا جوش و جذبہ آپ کو دکھائی نہیں دے گا، بلکہ اس کے لیے آپ کو باقاعدہ مہم چلانا ہو گی اور لوگوں میں نیا جوش و جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔

ان گزارشات کے بعد ایک اور بات آپ سے بطور خاص عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ زلزلہ اور اس کی تباہ کاریاں بہت سے لوگوں کے لیے بلاشبہ عبرت کا باعث بنی ہیں اور بے شمار لوگ توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، لیکن ایسے لوگ بھی معاشرے میں موجود ہیں جو طرح طرح کے شکوک و شبہات اور علمی و فکری مغالطے پھیلا کر لوگوں کا عقیدہ اور ایمان خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگ اگرچہ معاشرہ میں تھوڑے ہیں، لیکن ان کی پشت پر میڈیا کی بہت بڑی قوت ہے اور اس وقت قومی اور عالمی میڈیا (الا ماشاء اللہ) کا مجموعی رخ اس طرف ہے کہ اس زلزلہ اور تباہ کاری کے حوالے سے پاکستان کے عوام کا ذہن دین کی طرف متوجہ نہ ہو اور اسے سزا یا تنبیہ کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ یہ فکری حملہ ہے اور اس قسم کے شکوک و شہبات اور مغالطے پھیلانے والے گروہ لوگوں کو مسلسل گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علماء کرام اسے معمولی بات نہ سمجھیں اور اس طرف توجہ دیں۔

بعض بزرگ بڑے بھولپن سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو اخبارات پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اخبارات نہ پڑھ کر وہ خود تو گمراہی سے بچ جاتے ہیں، لیکن جو لاکھوں لوگ اخبار پڑھ کر گمراہی کا شکار ہوتے ہیں، ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیا انہیں گمراہی سے بچانا علماء کرام کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے؟

میں تو اس سلسلے میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ علماء کرام کا اصل محاذ علمی و فکری ہے۔ وہ امدادی سرگرمیوں میں ضرور حصہ لیں، ان کے لیے لوگوں کو آمادہ کریں، امدادی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرتے رہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے ایمان و عقیدہ کی فکر کریں، انہیں شکوک و شبہات کا شکار کرنے والے حلقوں پر نظر رکھیں اور ان اعتراضات و شکوک کا ازالہ کر کے لوگوں کا ایمان و عقیدہ بچانے کی فکر کریں۔ ہمارا اصل کام یہ ہے جس کے لیے ہم عند الناس بھی مسئول ہیں اور عند اللہ بھی مسئول ہوں گے۔ اس لیے میری درخواست ہے کہ علماء کرام اور دینی حلقے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور پوری صورتحال پر گہری نظر ڈالتے ہوئے اپنے کردار اور طریق کار کا تعین کریں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اپنا کام صحیح طریقہ سے کرتے رہنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter